میرے لائبیریری میں چند دن پہلے کتاب ’’حیاتِ اقبالؒ‘‘ کا
اضافہ ہوا۔ آج اس پر تبصرہ حاضر خدمت ہے۔ یہ کتاب جناب ریاض احمد چودھر ی
سیکرٹیری ؍ڈارئیکٹر بزمِ اقبال لاہور کی تالیف ہے۔ مجھے اقبالؒ قائد ؒ
مودودیؒ سے والحانہ محبت ہے ۔ یہ اس لیے کہ جس وطن ،مملکت اسلامیہ جمہوریہ
پاکستان ، مثل مدینہ ریاست میں،میں رہتا ہوں اس کا خواب علامہ شیخ محمد
اقبالؒ شاعر اسلام نے دیکھا۔ اس میں رنگ قائد اعظم محمد علی جناح ؒ نے
بھرا۔ ہنددوں اور انگریزوں کی سازشوں کے باوجود دلیل کی بنیاد اور کلمہ لا
الہ الا اﷲ کے مستانہ نعرے کی مدد سے پاکستان حاصل کیا۔ پاکستان کے اسلامی
تشخص کی تکمیل کے لیے سید مودودیؒ نے ۱۹۴۱ء میں جماعت اسلامی کی بنیاد
رکھی۔ یہ عجب اتفاق ہے کہ مفسر قرآن و حدیث علامہ اقبال ؒنے سیدمودودیؒ کو
حیدر آباد دکن سے پنجاب کے علاقہ پٹھان کوٹ؍جمال پور بلا کر پاکستان میں
اسلامی نظام حکومت کے لیے کام آنے کے لیے اسلامی فقہ کی تدوین جدید اور
اسلامی علوم کے احیاء اور تعلیمات کے جدید تقاضوں کے مطابق تعبیر کے لیے
لگایا۔ قائد اعظمؒ کو لندن سے بلا کر مسلم لیگ کی کمان سنبھا نے اور
پاکستان حاصل کرنے پر لگایا۔ خود ساری عمر سوئی ہوئی امت اور خاص
کربرصغیرمیں انگریزوں کے غلام مسلمانوں کو قرآن و حدیث کی روشنی میں جگانے
اور آزادی حاصل کرنے کی جد وجہد پر صرف کر دی۔ سید مودودیؒ نے تحریک
پاکستان کے دوران قومیت پر مضامین لکھ کر آل انڈیا مسلم لیگ کی پاکستان
بنانے میں مدد کی۔اسی تناظر میں ہم اقبالؒ قائدؒ مودودیؒ فکری فورم پر بھی
کام کر رہے ہیں اس کی تفصیل کبھی آیندہ۔ میری لائیبریری میں اقبالؒ کے
متعلق مختلف حضرات کی لکھی ہوئی اور خود ان کے کلام کی کتابیں پہلے سے
موجود تھیں۔مگر اقبالؒ کی محبت میں فیس بک پر اقبالؒ کی فارسی اُردو پر دس
کتابوں کے سیٹ، بمعہ فارسی سے اُردو ترجمعہ اور شرح کا ایڈورٹا ئزمنٹ دیکھ
کر اپنی لائبیریری میں مذید اضافہ کی غرض سے آڈر کر کے منگوائیں۔ اقبالؒ کی
چھ فارسی شعری مجموعہ کتب پیام مشرق،جاوید نامہ،زبور عجم،رموز بے خودی،
اسرار خودی اور ارمغان حجاج کا اُردوترجمعہ ہ اور شرح یوسف مثالی نے کی۔
چار اُردو شاعری مجموعہ ضرب کلیم،بال جبریل،ارمغانِ حجاز اوربانگ درا کی
شرح حمیرا جمیل نے لکھی۔اس طرح اقبالؒ کے سارے شعری مجموعہ تک رسائی کا
خیال دمن گیر تھا جو پورا ہوا۔ ان شاء اﷲ کسی وقت اقبالؒ کے نثری مجموعہ کو
بھی حاصل کرنے کی کوشش کروں گا۔فارسی کی چھ کتب اور اُردوکی چار کتب پر
آیندہ کبھی تبصرہ کریں گے۔
سردست کتاب’’ حیات اقبال ؒ‘‘جو اسی ماخذ سے تالیف کی گئی ہے پر بات کرتے
ہیں۔یہ کتاب بزم اقبال ۲؍ کلب روڈ لاہور نے محکمہ اطلاہات و محکمہ خزانہ
حکومت پنجاب کے مالی تعاون سے شائع ہوئی۔ پیغا مات سردار عثمان بزدار وزیر
اعلیٰ پنجاب ، مجیب الرحمان شامی چیف ایڈیٹر پاکستان لاہور،پروفیسر ڈاکٹر
محمد سلیم مظہرپرو وایس جانسلر پنجاب یونیورسٹی لاہور،،انجیئر مختیار
فاروقی ایڈیٹر ماہنامہ حکمت بالغہ قرآن اکیڈمی جھنگ ،ڈاکٹر زاہد اشرف مدیر
ماہنامہ المنیرفیصل آباد اور حامد ریاض ڈوگر فرئیڈے اپیشل کراچی الطاف حسن
قریشی ایڈیٹر اردود دائجسٹ، امجد علی شاکر نے دیے۔کتاب تالیف کرنے والے نے
اس کتاب میں اقبالؒ کی پیدائش ،ابتدائی تعلیم، شاعری کی ابتدا، ملازمت،
اعلیٰ تعلیم،بطور استاد، وکالت، سیاست، خطبہ الہ آباد،فارسی ، اردو شاعری
قائد اعظمؒ سے ملاقاتیں، ، سیدمودودی،سید علی گیلانی،مغربی تہذیب پر
تنقید،کشمیر، اندلس،مسجد قرطبہ،افغانستان،تجدید حیائے دین، آخری دو سال اور
رحلت کے حالات کوزے میں دریا کو بند کر دیا۔ دیباچہ میں الطاف حسن قریشی نے
بجا طور کہا کہ اس کتاب کو اسکولوں، کالجوں، اور یونیورسٹیوں کی لائبریریوں
میں موجود ہونا چاہیے۔ کتاب تالیف کرنے والے لکھتے ہیں کہ اقبالؒ کے آباؤ
اجداد،جو سپرو برہمن نسل سے تھے۔ کشمیر میں مسلمانوں پر راجہ کے مظالم کی
وجہ سے کشمیر سے اٹھارویں صدی عیسوی کے آخرمیں میں سیالکوٹ ہجرت کر کے آئے۔
ایسے ہی راقم کا خاندان بھی راجہ کے مظالم کی وجہ سے کشمیر سے ہجرت کر
پنجاب کے مختلف شہروں میں قیام پذیر ہوئے ۔ مقامی حضرات ان ہی کو پرانے
کشمیری کہتے ہیں۔ ریاض صاحب لکھتے ہیں کہ اقبالؒ ایم اے کرنے کے بعد ۱۳؍
مئی ۱۸۹۹ء کو اورینٹل کالج میں عربک ریڈر کی حیثیت سے متعین ہو گئے۔ اعلیٰ
تعلیم کے لیے باہر تشریف لے گئے۔ ۱۹۰۷ء میونخ یونیورسٹی جرمنی سے پی ایچ ڈی
کیا۔ وہیں سے قومی وطنیت کی طرف مائل ہوئے۔ پھر اس کے خلاف ہوگئے۔مغربی
جمہورت پرتنقید کی اور کہا کہ اس میں بھی قابلیت کو نہیں صرف سروں کو شمار
کیا جاتا ہے۔ ریاض صاحب لکھتے ہیں اقبالؒ کے قیام یورپ میں شاعری عروج پر
تھی۔ بہت سے انگریزی نظموں کے ترجمے کیے۔ جس میں پیام صبح، عشق اور
موت،رخصت اے بزم جہاں جیسی نظموں کے تراجم شامل ہیں۔مولف لکھتے ہیں عظیم
مفکر سید الاعلیٰ مودودیؒ نے اقبالؒ کے بارے میں کہا ہے کہ اقبالؒ نے جو سب
سے اہم کام انجام دیا وہ یہ تھا کہ اقبالؒنے مغربیت اور مغربی مادہ پرستی
پر پوری قوت کے ساتھ ضرب لگائی۔ا س سے مسلمانوں پر جومغربیت طاری تھی وہ
کافور ہونے لگی۔قائد اعظم ؒ نے کہا کہ اقبالؒ کا شمار دنیا کے بہترین شعرا
میں ہوتاہے۔ وہ مفکر اعظم تھے۔اقبالؒ ایک شعر میں مغرب کو مخاطب کر کے کہتے
ہیں:۔
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ خود کشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا نا پائیدار ہو گا
مولف لکھتے ہیں کم لو گ جانتے کہ اقبالؒ نہایت طظریف الطبع اور خوش مزاج
شخصیت تھے۔اقبالؒ نے ۱۹۳۰ء میں علیحدہ وطن کی بشارت دی۔ ۱۹۲۳ء میں سر کا
خطاب ملا تو ایک دوست میر غلام بھیک نیرنگ نے خیال ظاہر کہ آپ آزادی اظہار
نہ کر سکیں۔ جواب میں کہاکہ اﷲ کے حکم سے دنیا کی کوئی طاقت مجھے حق کہنے
سے باز نہیں رکھ سکتی۔پنجا ب مسلم لیگ نے آپ کوسیکر ٹیری چنا۔۷ستمبر ۱۹۲۹ء
کے فلسطین کے حق میں جلسے کی صدارت کی۔۲۱ مارچ ۱۹۲۳ء کو آل انڈیا مسلم لیگ
کیا اجلاس اقبالؒ کی صدارت میں ہوا ۔قائداعظمؒ اقبالؒ کے اصرار پر لندن سے
ہندوستان آئے۔ ۴ ؍مارچ ۱۹۳۴ء کو مسلم لیگ کے صدر منتخب ہوئے۔ ۶ مئی قائد
اعظمؒ اقبالؒ سے ملنے جاوید منزل لاہور آئے۔اقبالؒ کو مسلم لیگ کے
پارلیمانی بورڈ کا رکن بنایا۔ کتاب کے درمیا ن میں مولف لکھتے ہیں کہ ترک
عثمانی خلافت دنیا میں مسلمانوں کی پشتی بان تھی۔جب حجاز میں ابن سعود نے
مکہ معظمہ اوراور مدنیہ منورہ میں ترکوں سے لڑائی کی ۔ ترکوں نے احترام میں
حجاز کو ترکی خلافت سے آزاد کر دیا۔ ۱۹۲۲ء سے پہلے سعودی عرب کا نام حجاز
تھا۔ ابن سعودنے حجاز کا نام بدل کر سعودی عرب رکھ دیا۔شاہ عبدالعزیز نے بر
صغیر سے علما ء کو سعودی عرب بلاکر اپنے اقدام کی وضاحت پیش کی۔ محمد علی
جوہر اُٹھے اور اس قدم کی شدیدمخالفت کی۔ شاہ عبدالعزیز اُٹھ کر اجلاس سے
چلے گئے۔ اس جرأت پر علامہ اقبالؒ نے محمد علی جوہر کو خراج تحسین پیش کرتے
ہوئے یہ شعر کہا:۔
آئین جوان مرداں حق گوئی و بے باقی
اﷲ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی۔
کتاب میں جگہ جگہ اقبالؒ کے اُردو اور فارسی کلام سے اشعار منتخب کر کے
خودی، اقبال کا شائین، قومیت اور دوسرے مضامین کو اُجگر کیا گیا۔اقبالؒ نے
مسلمانوں کو خودی کاخو گر کیا۔ اسلام میں قومیت کی تشریع اپنے ایک شعر میں
اس طرح کی:۔
اپنی ملت پہ قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسول،ہاشمی ؐ
کتاب کے آخر میں قائد اعظمؒ سے خط وکتاب کو شامل کر کے دونوں رہنماؤں کی
پاکستان بنانے میں خدمات کو پیش کیا۔اقبالؒ ۱۸؍ اپریل ۱۹۳۸ء کو لاہور میں
بیماری کی وجہ سے رحلت فرماگئے۔ اﷲ اقبالؒ کی اسلام اورملت اسلامیہ کی
خدمات قبول فرما کر انہیں جنت میں اعلیٰ مقام عطا کرے۔ آمین۔
|