ایک بیچارے شوھر کی داستان

سنا ھے محبت اندھی ھوتی ھے ۔ یہ تو پکی بات ھے اسے مجھ سے محبت نہیں تھی پھر پتا نہیں اس کی مت کیوں ماری گئی میں نے اسے پرپوز کیا اس نے قبول کر لیا وہ ایک شہزادی تھی ایک ریاست کی جانشین میں ایک عام سی شکل و صورت کا انسان جتنے بھی چمکتے دمکتے قیمتی لباس پہنتا عام سا ھی لگتا میں آگے ھونے کی کوشش کرتے مگر سب کی توجہ اسی پہ رھتی ۔ اس کے لہجے میں رعب و دبدبہ تھا میں اکثر اس سے دب جاتا تھا میں نے اپنی شخصیت کو با رعب بنانے کے لیے بڑی بڑی مونچھیں رکھ لیں مگر کوئی فائدہ نہیں ھوا – میری بس اتنی اھمیت تھی میں اس کا شوھر ھوں -

ایک دن خبر ملی اسے کسی دشمن نے مار دیا ھے مجھے تو یقین نہیں آیا ۔ سمجھ نہیں آئی کیسا ردِ عمل دیکھاؤ آنکھوں میں آنسو تھے اور دل میں سکون ولی عہد بھی نا بالغ تھا سب سیاہ و سفید کا مالک میں بن گیا میں نے اپنا ھیئر اسٹائل چینج کر لیا چہرے پہ ایک پرسکون مسکراہٹ رھنے لگی تھی وہ جگے ڈاکو جیسی مونچھیں بھی کٹوا لیں تھی میں ایک جلسے میں شرکت کے لیے گیا جانبازوں نے نعرہ لگایا ملکہ زندہ ھے ملکہ زندہ ھے میرے ھاتھوں طوطے کبوتر بٹیرے سب اڑ گئے میرا اوپر کا سانس اوپر نیچے نیچے رہ گیا میں نے اپنے سیکر ٹری کو گھور کر دیکھا دفنایا تو صحیح تھا نا ۔۔۔۔۔ میں نے تو قبر بھی پکی بنوائی تھی ۔ ٹھیکیدار پاکستانی تھا پتا نہیں سیمنٹ کون سا لگوایا تھا یا ریت کی دیوار کھڑی کی تھی ۔ وہ تو جوشیلی بھی اتنی تھی کہیں ملک کے حالات دیکھ کر نکل ھی نا آئی ھو-

میں نے سیکر ٹری کے کان میں کہا یہ سب کیا نعرے لگا رھے ھیں-
اس نے کہا سر جی شہید مرتے تھوڑی ھے-
اوہ اچھا یہ کہہ رھے ھیں-
میں نے مائیک میں کہا ملکہ ھمارے دلوں میں زندہ ھے اور ھمیشہ زندہ رھے گی-

مگر ان کے کان پہ جوں تک نہیں رینگی-
ملکہ زندہ ھے کے نعرے لگاتے رھے دل تو کیا سب جانبازوں کو چوک میں الٹا لٹکا کر اتنے جوتے لگواؤں کے لگ پتا جائے کہ زندہ کیا ھوتا ھے اور مردہ کیا-

جتنے بھی میرے مخالف تھے انھوں نے بھی یہ بات کہنا شروع کر دی جب بھی میں کوئیبڑی بات کہتا کوئیبڑا وعدہ کرتا مخالفین نعرے بازی شروع کر دیتے ملکہ زندہ ھے-

کبھی کبھی ایسے لگتا جیسے مجھے چھیڑ رھے ھیں جیسے مجھے کہہ رھے ھیں اوئے آجا اپنی اوقات پہ ملکہ زندہ ھے

لوگوں کے فارغ اوقات کا مشغلہ بن گیا تھا ایک دوسرے کو ایس ایم ایس کرتے رھتے تھے مجھے بھی میسج آتے تھے-
کہاں ھو چلے آؤ
تم بن جنت سونی ھے
آجاؤ جنت میں تمہارا انتظار ھے
میں سب پڑھ کر ھنستا رھتا تھا
پہلا تو مجھے جنت میں جانے کا یقین نہیں تھا
دوسرا اگر میں جنت میں چلا بھی جاتا تو
کیا میں ستر بہتر حوروں کو چھوڑ کر ملکہ کے پاس جاتا
ھونہہ
کیا آپ لوگ مجھے جانتے نہیں

نوٹ ———————————
دنیا میں کروڑوں لوگ ھیں اور اکثر کسی نہ کسی کے شوھر ھیں-

یہ بس ایک کہانی ھے اپنے عقل کے گھوڑے بھگانے کی ضرورت نہیں ھے اگر آپ کو کوئی مماثلت کہیں نظر آتی ھے تو اس میں بندی کا کوئی قصور نہیں –
Sadia Saher
About the Author: Sadia Saher Read More Articles by Sadia Saher: 41 Articles with 35732 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.