امجد جاوید اگر ناول نگار نہ
ہوتے تو ڈبہ پیر ہوتے ۔ان کے اندر ایک بابا بستا ہے ، وہی بابا جو ہر موڑ
پر اشفاق احمد کو مل جایا کرتا تھا ۔شروع شروع میں لوگوں کا خیال تھا کہ
امجد جاوید میں منٹو کی روح سما گئی ہے۔ اب یوں لگتا ہے جیسے منٹو نے نو سو
چوہے کھا لیے ہیں ۔ایک دن کہنے لگے میں اور سعید واثق اکٹھے سوتے تھے ۔ہم
نے حیرت سے کہا ،آپ ایسے بھی تھے؟ تو شرماتے ہوئے کہنے لگے اکٹھے سونے سے
مراد یہ کہ وہ میرے روم میں رہتا رہا ہے یوں آپ اسے میرا روم یٹ کہہ سکتے
ہو ، امجد جاوید کا شمار ان ناول نگاروں میں ہوتا ہے جنہوں نے عشق کے ٹوٹے
ٹوٹے کر دئیے ۔ ایک دن اپنے مشہور ناولوں کا بتاتے ہوئے کہنے لگے پہلے میں
نے عشق کا شین لکھا پھر عشق کا قاف لکھا، جو خواتین نے اتنے پسند کیے کہ
گھر والوں نے جلد از جلد میری شادی کروا دی ہم نے پوچھا اس کے بعد کیا ہوا
کہنے لگے: ”ہونا کیا تھا؟ پھر مجھے” تاج محل“ لکھنا پڑا“
امجد جاوید کی شخصیت کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ ایک مرتبہ حاصل پور کی
ایک چھوٹی سی دکان پر کچھ شہری لڑکیاں ان کی کتب خرید رہی تھیں۔ اتنے میں
موصوف نیا ناول لکھنے کی غرض سے کاپی پینسل خریدنے چلے آئے ۔د کاندار نے
اپنے نمبر بڑھانے کے لیے کہہ دیا ” لو جی !امجد جاوید صاحب خود ہی آگئے۔
لڑکیوں نے ایک نظر انہیں دیکھا پھر ہاتھ میں پکڑی ان کی کتاب کو دیکھا اور
کتاب کاﺅنٹر پر پھینکتے ہوئے کہنے لگیں ”نہیں جی ! ہم وصی شاہ سے کام چلا
لیں گی “ لڑکیوں کے جانے کے بعد دکاندار نے ان کی طرف دیکھا تو موصوف خالص
بنجابی میں بولے : ” ہن آرام ای؟ “
امجد جاوید اچھے انسان ہی نہیں اچھے شوہر بھی ہیں ۔اس کا ثبوت یہ ہے کہ
کہیں بھی ہو اپنی بیگم کا فون بہت توجہ اور دھیان سے سنتے ہیں۔ اس دوران
شکلیں کیسی بناتے ہیںیہ ایک الگ بات ہے ۔انہوں نے آج تک بیگم کی کوئی خواہش
نہیں ٹالی۔ بس فرق یہ ہے کہ وہ بیگم کسی اور کی ہوتی ہے ، ویسے انکار کبھی
اپنی بیگم کو بھی نہیں کیا۔بس اتنا کہہ دیتے ہیں کہ ”بھول گیا تھا“ ۔امجد
جاوید مساوات کے قائل ہیں ،جتنا پیار اپنے بچوں کو کرتے ہیں، اتنا ہی محلے
کے باقی بچوں کو بھی کرتے ہیں۔ اسی لیے کچھ گھرانے انہیں شک کی نگاہ سے
دیکھنے لگے ہیں ۔
امجد جاوید کا نظریہ ادب کیا ہے اس بارے ایک گھاگ ادیب نے مجھ سے شرماتے
ہوئے کہا کہ وہ کیچڑ سے کنول کا اٹھاتے ہیں پھر اس میں سے عشق حقیقی کی
خوشبو کشید کرکے ہمیں تھما دیتے ہیں۔ جبکہ میں سمجھتا ہوں کہ صرف کنول ہی
نہیں ہر قسم کے پھول سے اپنی مرضی کا رس نچوڑ لیتے ہیں اور اپنی مرضی کی
خوشبو بانٹ دیتے ہیں ۔ یہ خوشبو لینے والے کی قسمت کے وہ کیسی مہک محسوس
کرتا ہے۔
آج کل لوگوں کو حوصلہ دینے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ کہتے ہیں میڈیا نے قوم
کو جتنا ڈرا دیا ہے وہ کیا کم ہے؟ اب قوم کو حوصلہ کی ضرورت ہے۔ سو جس سے
ملیں گے اسے حوصلہ دیتے نظر آتے ہیں ۔پبلشر کسی ادیب کو رائیلٹی نہ دے تو
اسے حوصلہ دیتے ہیں ، کوئی بیمار ہو تو اس کے گھر پہنچ جاتے ہیں، یہاں تک
کہ ایک دوست کے والد کی فوت ہوئے تو اسے گلے لگا کر بولے : ”حوصلہ کر۔۔۔
اللہ اور دے گا“ ایک مرتبہ ایک دوست کے گھر گئے ۔اس کی اکلوتی مرغی پکڑی ،
ذبح کی، خود ہی پکائی اور کھانے کے بعد کہنے لگے حوصلہ کر ، اللہ اور دے
گا۔۔۔
امجد جاوید کے ادبی قد کاٹھ کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پہلے
بچے کی پیدائش پر ان کی ایک کتاب منظر عام پر آئی ، پھر دوسرے بچے کی
پیدائش پر انہوں نے دوسری کتاب لکھی جبکہ تیسرے بچے کی پیدائش پر تیسری
کتاب لکھ ماری۔ اس کے بعد کچھ عرصہ قارئین ان کی اگلی کتاب کا انتظار کرتے
رہے ۔ان کا کہنا تھا کہ مجھے خود اپنے اگلے ناول کا انتظار ہے لیکن پلاٹ
کہیں درمیان میں آ کر الجھ جاتا ہے۔ بلا آخر انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں
اور امجد جاوید نے دھڑا دھڑ کتابیں لکھنی شروع کر دیں۔ آج ان کے 3 بچے اور
18کتابیں ہیں۔مزے کی بات یہ ہے کہ 18 یعنی ایک اور آٹھ کو جمع کرکے تین پر
تقسیم کیا جا سکتا ہے۔شاہ صاحب کا کہنا ہے کہ بچوں اور کتابوں کا ایسا کمبی
نیشن بہت کم دیکھنے میں آتا ہے۔
بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ امجد جاوید ایک عرصہ تک پاکستان کے بڑے
اخبارات بشمول جنگ میں صحافتی ذمہ داریاں سر انجام دیتے رہے ہیں ۔ان دنوں
وہ اخبار خواتین کے بیورو آفس کے انچارج تھے ۔ایک مرتبہ انجانے میں باس کے
سامنے کسی ماڈل گرل کی تعریف کر بیٹھے جس کی پاداش میں انہیں شوبز کی بیٹ
(رپورٹنگ) دے دی گئی ۔شوبز کی صحافت میں آنے کے بعد انہوں نے زیادہ
ترمکھیاں ماریں۔ کبھی کبھار کوئی بھنورا بھی مار لیتے تھے ۔ایک دن امجد
جاوید اپنے آفس میں تشریف فرما تھے کہ ایک بھاری بھرکم خاتون دندناتی ہوئی
ان کے آفس میں گھس آئی اور خالص پنجابی سٹائل میں دبکا مارتے ہوئے کہنے لگی
” اوئے! تو میری کڑی دی فوٹو کیوں نئیں لاندا؟“
امجد جاوید نے سلطان راہی کے انداز میں کہا ”ایہہ لو ، لاءدتی“ اور سامنے
سلیکشن بورڈ سے ایک مشہور ماڈل کی تصویر اکھاڑ کر زمیں پر دے ماری ، اور
اگلے دن باس نے انہیں شوبز کی بیٹ سے ہٹا کر سیاست میں دے مارا۔
امجد جاوید اتنے پرانے ہیں کہ بعض اوقات آثار قدیمہ کی کوئی شے لگتے ہیں۔
کسی شاعر یا ادیب کے بارے میں بات کر لو تو ان سے کوئی نہ کوئی یاد اللہ
نکل ہی آئے گی ، ورنہ ان کے ساتھ کوئی نہ کوئی واقع ضرور جڑا ہوگا، مثلا
حسن عباسی کا ذکر ہو تو کہیں گے کہ میں انہیں بچپن سے جانتا ہوں۔ بابا یحی
خان کی بات ہو تو ان کی زنبیل میں دو چار واقعات سے نکل آتے ہیں۔شوبز کے
کچھ لوگوں کو اس وقت سے جانتے ہیں جب وہ کچھ نہیں تھے۔ آج خود کو کہتے ہیں
کہ میں کچھ نہیں ہوں۔ اصل میں انہیں کسی سے بھی ہونے والی پہلی ملاقات بہت
یاد رہتی ہے۔اسی لیے سب سے پہلی ملاقات ہی کرتے ہیں
امجد جاوید زمانہ شناس ہیں یہ الگ بات کہ زمانہ ، زمان خان کی بیگم کو کہتے
ہیں ،ان کا خیال ہے کہ لڑکیاں ان پر مرتی ہیں۔ کچھ ایسا ہی خیال لڑکیوں کا
ان کے بارے میں ہے ۔موصوف دوسری شادی کے قائل نہیں ۔کہتے ہیںبیگم سے وعدہ
کیا ہے کہ دوسری شادی کبھی نہیں کروں گا۔ البتہ تیسری ہو جائے تو مضائقہ
نہیں ۔سگریٹ دبا کے پیتے ہیں اور اتنے پیتے ہیں کہ اگر ریکارڈ رکھتے تو آج
گنیز بک ورلڈ ریکارڈ میں ان کا نام ہوتا۔سگریٹ کو اپنا محبوب سمجھتے ہیں
جبکہ محبوب کو سگریٹ سمجھتے ہیں ۔میں اس وقت حیرت زدہ رہ گیا کہ گل نوخیز
اختر جو خود سگریٹ مانگ کر پیتے ہیں ، امجد جاوید کو پورا پیکٹ منگوا کر
پیش کیا۔ان کے اکثر ناول عشق اور تصوف کے گرد گھومتے ہیں لوگ سمجھتے ہیں
،یہ ناول جس نے لکھے ہیں وہ کسی سے ٹوٹ کر پیار کرتا ہو گا۔ہمارے دوست ”ب“
المعروف شاہ صاحب کا کہنا ہے یہ بندہ ٹوٹا تو کئی دفعہ ہو گا ، ہسپتال بھی
رہا ہے لیکن اسے آج تک کسی سے پیار نہیں ہوا،یہ صرف دوستی کرتے ہیں ،پیار
بڑھاپے کے لیے رکھا ہوا ہے ۔ہماری دعا ہے کہ اللہ انہیں بڑھاپے میں پیار
عطا کرے اس کے ساتھ ساتھ ہم یہ بھی دعا کرتے ہیں کہ جس سے انہیں پیارہو اس
کا پوتا ان دونوں کی شادی پر راضی ہو جائے۔
|