افغانستان سے امریکی اوراتحادی افواج کاانخلاطے شدہ شیڈول
سے بھی زیادہ تیزرفتاری کے ساتھ جاری ہے۔ساتھ ہی افغانستان میں دہشت گرد
کاروائیاں بھی تیزہوچکی ہیں۔اگرچہ طالبان تازہ کاروائیوں کی ذمہ داری قبول
کرنے سے انکارکررہے ہیں اورافغان شہروں اورقصبوں پرکابل انتظامیہ کاکنٹرول
ابھی برقرارہے لیکن دیہی علاقوں میں طالبان کی گرفت بدستورمضبوط ہے۔سابق
صدربش جونیئر،سابق وزیرِ خارجہ ہلیری کلنٹن،کونڈا لیزارائس،سابق ڈائریکٹرسی
آئی اے ڈیوڈپٹریاس سمیت امریکاکے اہم سیاستدان فوجی انخلاکے فیصلے اوراس
کے بعدافغان فورسزکی صلاحیت پرسوال اٹھارہے ہیں۔
افغانستان میں ایک بارپھرخانہ جنگی اورہمسایہ ملکوں میں مہاجرین کے نئے
سیلاب کے خدشات منڈلانے لگے ہیں۔کابل انتظامیہ اور طالبان کے درمیان
مذاکرات کی بیل منڈھے چڑھنے کے بجائے اسلام آباداورکابل کے درمیان نئی
تلخیاں جنم لے چکی ہیں اورخطے میں امریکاکے نئے فوجی اڈوں کے امکانات
پرطالبان بھی کسی ملک کانام لیے بغیردھمکی آمیز بیانات جاری کررہے ہیں۔یہ
ایسامنظرنامہ ہے جوعدم استحکام کومزیدگہراکر سکتا ہے اوراس سے پوراخطہ
متاثرہوسکتاہے۔افواج اورسازوسامان کی تیزی سے واپسی کے باوجودامریکا نے
ابھی تک انخلاکے بعدکی حکمتِ عملی واضح نہیں کی۔اس کی وجہ یہ ہے کہ
پینٹاگون ابھی تک پالیسی تیار کرنے میں مصروف ہے اور جون کے وسط تک پالیسی
بائیڈن کی میزپرپہنچنے کے امکانات ہیں۔
امریکی سیکریٹری دفاع اورریٹائرڈجنرل لائڈآسٹن نے کانگریس میں بیان کے
دوران تیزفوجی انخلا کی تصدیق کی۔امریکی کانگریس کی بجٹ کمیٹی میں جنرل
لائڈ آسٹن نے پینٹاگون کے715ارب ڈالرمیزانیہ کی معمولی تفصیل بیان کرتے
ہوئے کہاکہ پینٹاگون فوجی انخلا کے بعدبھی افغانستان کی فوجی امداد جاری
رکھے گااوردہشتگردوں کے نیٹ ورک کے خاتمے کیلئےتعاون اورکاروائیاں بھی
کرتارہے گا۔
فوجی انخلا کے بعدکی حکمتِ عملی پرابھی کام جاری ہے اس لیے حتمی طورپرکچھ
نہیں کہاجارہا،تاہم اس ضمن میں کچھ اشارے سامنے آ رہے ہیں ۔ایک اشارہ24مئی
کوپینٹاگون ترجمان کی پریس بریفنگ میں اس وقت ملاجب ان سے خطے میں نئے فوجی
اڈوں پرسوال ہوااور ساتھ ہی پاکستان کی وزارتِ خارجہ کے بیان کاحوالہ دیا
گیاجس میں امریکاکوفوجی اڈے دینے کی اطلاعات کی تردیدکی گئی۔پینٹاگون کے
مطابق وہ کسی ملک کا نام نہیں لیناچاہتے تاہم سفارتی طورپرکام جاری ہے
اوراس پربات ہورہی ہے۔
پینٹاگون ترجمان کاجواب اشارہ کرتاہے کہ امریکاکوخطے میں فوجی اڈوں کی
واقعتاًتلاش ہے۔پاکستان کے علاوہ ازبکستان،تاجکستان، قازقستان اور کرغزستان
کے نام سامنے آرہے ہیں۔امریکی مرکزی کمان کے سربراہ جنرل کینتھ میک کنزی
اورقائم مقام اسسٹنٹ سیکریٹری آف اسٹیٹ ڈیوڈ ہیلوے نے بھی کانگریس میں
بیان دیتے ہوئے اڈوں کی تلاش کی تصدیق کی تھی۔
ازبکستان اورکرغزستان میں نائن الیون کے بعدامریکی فوجی اڈے بنے تھے لیکن
اب موجودنہیں ہیں۔کرغزستان،قازقستان اورتاجکستان روس کی سربراہی میں قائم
فوجی اتحاد کے رکن ہیں اوران ملکوں میں روس اورچین دونوں کااثرزیادہ ہے اس
لیے وہاں امریکی فوجی اڈوں کے قیام کیلئےپہلے جیسے حالات نہیں ہیں۔
ازبکستان روس کے فوجی اتحادکاحصہ نہیں لیکن اس کاآئین غیرملکی فوجی اڈوں
کی اجازت نہیں دیتا،اس لیے وہاں روس اورچین کے دباؤکے علاوہ آئینی مشکلات
موجودہیں۔ازبکستان کے افغان طالبان کے ساتھ بھی براہِ راست اچھے سفارتی
تعلقات ہیں اوراب ان کیلئے افغانستان سکیورٹی خطرہ نہیں رہا۔اس صورت میں
انہیں فوجی اڈے دیتے ہوئے نیاخطرہ مول لیناپڑے گا۔وسط ایشیائی ریاستیں
واشنگٹن کوقابلِ اعتماد شراکت داربھی تصورنہیں کرتیں اس لیے وہاں اڈوں
کاحصول بہت مشکل ہو گا۔
تاجکستان میں روس کاسب سے بڑابیرونِ ملک فوجی اڈہ قائم ہے جہاں5ہزارسے
زائدروسی فوجی تعینات ہیں۔کرغزستان میں روس کے پاس ایک ایئربیس موجود ہے
اوراس ایئربیس کااستعمال روس1940ءسے کررہاہے۔چین کابھی وسط ایشیامیں فوجی
اثرورسوخ بڑھ چکاہے۔ تاجکستان میں چین کی فوجی تنصیبات موجودہیں جبکہ باقی
ملکوں کے ساتھ مشترکہ فوجی مشقیں بھی معمول بن چکی ہیں۔
پاکستان میں ابھی تک اس معاملے پربحث چل رہی تھی کہ امریکاکوائیربیس دینے
کے بارے میں مختلف افواہیں بھی گردش کررہی تھیں۔ قومی اسمبلی میں حزب
اختلاف کے احتجاج کے بعدبلندآوازمیں وزیرِ خارجہ بھرپورتردیدبھی یقین نہیں
کیاجارہاتھااورحزب اختلاف اس معاملہ پرمزید وضاحت چاہتی تھی کیونکہ اس سے
پہلے مشرف دورمیں پاکستان امریکا کوایئربیس استعمال کرنے کی اجازت دے چکاہے
اوراس کے نتائج بھی بھگت چکاہے۔بالآخربندکمرہ اجلاس میں ان کیمرہ اجلاس میں
باقاعدہ آئی ایس آئی کوبریفنگ دیناپڑی جس میں فوج کے سربراہ جنرل قمرباجوہ
نے بھی شرکت کی۔ افغان طالبان کی ناراضگی اورانتقامی کاروائیوں کاخطرہ ٹل
جاناچاہئے اورکابل انتظامیہ کے ساتھ جوبات چیت تقریبابندگلی میں تھی جس سے
قومی سلامتی کیلئے خطرات بڑھ گئے تھے۔آئندہ بھی امریکاکے ساتھ غیرمعمولی
فوجی تعاون کے فیصلے کرنے سے پہلے علاقائی سیکورٹی اوراتحادوں کوبھی نظرمیں
رکھناہوگا۔ان حالات میں وزیراعظم عمران خان نے ایک غیرملکی میڈیاکو امریکا
کوپاکستان میں اڈے دینے کے جواب میں”بالکل نہیں”کے الفاظ استعمال کرکے ایک
بڑامشکل مگر مستحسن فیصلہ کیاہے۔اس فیصلے سے ابتدامیں” فیٹف”کی برہنہ
تلوارسے پوری قوت سے امریکااورمغرب کی طرف سے پاکستان کو مزید امتحانات
اورمشکلات سے دوچارکیاجائے گااورمکاربرہمن ہندوکوبھی پاکستان میں دہشت گردی
کااشارہ دیاجائے گاجس کیلئے قوم کوابھی سے تیاررہناہوگا لیکن یہ بات طے ہے
کہ یہ فیصلہ پاکستان کے مستقبل کی ایک نئی تاریخ رقم کرے گااور اس کے جواب
میں سی پیک بھی مکمل ہوگااورپہلی مرتبہ پاکستان غلامی کی زنجیریں توڑنے میں
کامیاب ہوگااورکشمیرکی آزادی کاراستہ بھی کھلے گا،ان شاء اللہ۔
علاقائی سیکورٹی اوراتحادوں کی بات چلی ہے توروس اورچین کے اسٹرٹیجک
اتحاداورقربت کوذہن میں رکھناضروری ہے۔اس کے ساتھ چارفریقی غیررسمی اتحاد
جس میں امریکا،جاپان،آسٹریلیااوربھارت شامل ہیں،اس کوبھی نہیں
بھولناچاہیے۔دونوں اتحاددراصل امریکی پالیسیوں کانتیجہ ہیں۔امریکانے روس
اورچین کودبانے کی جوپالیسی ٹرمپ دورمیں اپنائی تھی اسے بائیڈن بھی جاری
رکھے ہوئے ہیں۔ امریکا ٹرمپ دورمیں اپنی اجارہ داری کوپہلے ہی نقصان
پہنچاچکاہے اورکئی خطوں میں امریکی اثرورسوخ کمزورپڑاہے۔
ان حالات میں روس اورچین مل کرنیاعلاقائی نظام بنانے کی کوشش میں مصروف
ہیں۔افغانستان سے فوجی انخلاکی صورت میں روس اور چین کونئے علاقائی نظام کی
تشکیل میں آسانی ہوئی ہے۔روس اورچین کابظاہرمؤقف یہی ہے کہ ان کے دوطرفہ
تعاون کاہدف کوئی تیسرا ملک نہیں اورامریکاکوچیلنج کرناان کے مقاصدکا حصہ
نہیں،تاہم بڑھتاہواامریکی دباؤبیجنگ اورماسکوکی قربتوں میں اضافے کاسبب بن
رہا ہے۔امریکی دباؤکوبیجنگ اورماسکوخاطرمیں نہیں لارہے بلکہ واشنگٹن کواس
کی زبان میں جواب دے رہے ہیں۔مارچ میں چین کے وزیرِ خارجہ نے الاسکامیں
ہونے والے ٹوپلس ٹومذاکرات میں امریکی ہم منصب انتھونی بلنکن اورامریکاکے
قومی سلامتی کے مشیرجیک سولیوان کوبتادیاتھاکہ امریکاچین کے ساتھ طاقت سے
بات کرنے کااہل نہیں ہے۔روس کے صدارتی محل کے ترجمان نے بھی مارچ میں ایک
انٹرویومیں کہاتھاکہ روس امریکایاکسی اورملک کوطاقت کی زبان میں بات کرنے
کی اجازت نہیں دے گا۔ایک جیساپیغام دے کر بیجنگ اورماسکونے واضح کردیاکہ اب
امریکاکی اجارہ داری برداشت نہیں کی جائے گی۔
امریکی قیادت میں بننے والے چار افریقی اتحادکوبھی بیجنگ اورماسکوسنجیدگی
سے لے رہے ہیں۔مارچ میں ہی امریکاکی سربراہی میں بننے والے چارافریقی
اتحادکااجلاس امریکاجہاں کہیں سے بھی مسائل حل کیے
بغیرفراراختیارکررہاہے،وہ خطے روس اورچین کے زیرِاثرآرہے ہیں اوریہی معاملہ
افغانستان اوراس خطے کاہے۔بیجنگ اورروس شنگھائی تعاون تنظیم کے تحت
افغانستان میں نئے کردارکی تیاری کررہے ہیں اورامریکی انخلا سے پیداہونے
والے خلاکوپرکرنے کی کوشش کریں گے۔ہواجس کے بعدماسکونے سخت ردِعمل دیااور
کہاکہ امریکاچین مخالف کھیل میں بھارت کواستعمال کررہاہے۔
جوبائیڈن نے اپنے پہلے بیرونِ ملک دورے کا آغازروس کو یہ سخت تنبیہ کرکے
کیاکہ اگراس نے امریکا کے خلاف نقصان دہ کاروائیوں میں حصہ لیاتو اسے جامع
اورمعنی خیزنتائج کاسامناکرناپڑے گا۔جوبائیڈن9جون کوجی7کےاجلاس میں شرکت
کیلئے اپنے پہلے بیرونِ ملک دورے کیلئے برطانیہ پہنچے جہاں انہوں نے اپنے
اتحادیوں کی طرف دوستی کاہاتھ بڑھاتے ہوئے یقین دہانی کروائی کہ وہ
اتحادیوں کے تعلقات کو دوبارہ مضبوط کریں گے۔برطانوی وزیراعظم بورس جانسن
کے ساتھ ایک نئے چارٹرپربھی اتفاق ہواہے جو 1941ءمیں طے پانے والامعاہدے
کاجدیدورژن قراردیاگیاہے۔ اس میں سیکورٹی کے ساتھ ساتھ موسم تبدیلی کے نکات
کوبھی شامل کیاگیا ہے۔اس انتہائی مصروف آٹھ روزہ دورے میں صدربائیڈن نے
جہاں جی7کے سربراہی اجلاس میں شرکت کے علاوہ بطورصدراپنے پہلے نیٹو سربراہی
اجلاس میں بھی شرکت کی وہاں وینڈزرمحل میں برطانوی ملکہ سے بھی ملاقات
کی۔سفک میں رائل فضائیہ کے اڈے ملڈن ہال میں امریکی فوجیوں سے خطاب کرتے
ہوئے انہوں نے کہاکہ وہ صدرپوٹن کوواضح پیغام دینا چاہتے ہیں کہ ہم روس کے
ساتھ لڑائی نہیں بلکہ ایک مستحکم رشتہ چاہتے ہیں۔یادرہے کہ جی سیون کے اس
اجلاس میں بائیڈن کی تمام سرگرمیوں کوافغانستان سے امریکی انخلاء کی روشنی
میں دیکھنابہت ضروری ہے۔ جی7میں کینیڈا،فرانس، جرمنی، اٹلی، جاپان،برطانیہ،
امریکا اوریورپی یونین شامل ہیں۔
جی سیون کے ٹھیک6دن بعدجوبائیڈن اورپوٹن کے درمیان10 جون کوجنیوامیں ملاقات
ہوئی جس کے بعددونوں صدورنے مشترکہ اعلامیہ جاری کرتے ہوئے اس ملاقات
کومعنی خیزقراردیاہے،دونوں ممالک نے ثابت کردیاہے کہ وہ تناؤسے بھرپورعرصے
میں بھی مشترکہ مقاصدکے حصول میں پیش رفت کرسکتے ہیں۔ دونوں صدورکی جانب سے
یہ بھی کہاگیاہے کہ روس اورامریکاکے تعاون سے آپسی تنازعات اور جوہری جنگ
کے خدشے کوکم کرنے میں مدد ملے گی۔اپنی پریس بریفنگ میں دونوں رہنماؤں نے
ہتھیاروں کی روک تھام،انسانی حقوق،جوہری ہتھیاراورسائبر سکیورٹی وغیرہ
پربات کی۔ ماحولیاتی تبدیلی،یوکرین میں روسی فوج کی مداخلت،روس کی سائبر
ہیکنگ سرگرمیاں اورحزبِ مخالف کے رہنماالیکسی نوالنی کی قید کے معاملات
پربات کی جبکہ ماسکوکی ایک عدالت نے الیکسی نوالنی سے منسلک تین تنظیموں کو
شدت پسند قراردیکرپابندی لگارکھی ہے۔یادرہے کہ امریکااورروس کے تعلقات
متعددوجوہات کی بناپر سرد مہری کاشکارہیں۔ اپریل میں پوٹن نے مغربی ممالک
پرروس کوبے جانشانہ بنانے کاالزام لگاتے ہوئے کہاتھاکہ وہ ایک حدپارنہ
کریں۔
امریکامیں اسلحے کے باعث ہونے والی ہلاکتوں کیلئے امریکی حکومت کوذمہ
دارٹھہراتے ہوئےکہاکہ ہمارے ملکوں میں جوکچھ بھی ہوتا ہے،اس کے ذمہ دارلیڈر
خود ہوتے ہیں۔امریکاکی سڑکوں پرروزلوگ مرتے ہیں۔آپ منہ بھی نہیں کھول پاتے
کہ آپ کوگولی ماردی جاتی ہے۔ دنیابھرمیں سی آئی اے کے خفیہ عقوبت خانوں میں
لوگوں پرتشددکیاجاتاہے۔کیاایسے انسانی حقوق کاتحفظ کیاجاتاہے؟روس نے
امریکاکو مبینہ سائبرحملوں کے متعلق تفصیلی معلومات فراہم کی ہیں جس
کاامریکانے اب تک اس کاجواب نہیں دیاگیاجبکہ بائیڈن نے کہاکہ وہ اپنے پہلے
دورے کے ہرموڑپریہ واضح کرناچاہتے ہیں کہ امریکااب لوٹ آیاہے اوردنیابھرکی
جمہوریتیں مشکل ترین چیلنجز کے حل کے لیے اکھٹی کھڑی ہیں۔ تاہم پوٹن نے
جوبائیڈن کوتجربہ کارسیاستدان اورٹرمپ سے بہت مختلف قراردیا۔دونوں صدور کے
مابین ملاقات کیلئے مقام کاانتخاب دلچسپی سے خالی نہیں۔ 1985ءمیں جب سرد
جنگ کے عروج پرتھی تب امریکی صدر رونلڈریگن اورسوویت یونین کے رہنما میخائل
گورباچوف کی جنیوامیں ملاقات ہوئی تھی۔
یقیناًپیوٹن جولائی میں بیجنگ کادورہ کرکے صدرشی کواعتمادمیں لیں گے۔جون
اورجولائی کی ملاقاتیں اوراقدامات مستقبل کے رجحانات کاپتادیں گے۔بائیڈن سے
ملاقات کے بعدچین کابیلٹ اینڈروڈمنصوبہ،جس کاایک چھوٹاساحصہ سی پیک
ہے،افغانستان کے بغیرمکمل نہیں ہوتا۔ امریکی انخلاکے بعدچین پاکستان اور
ایران میں بڑی سرمایہ کاری کی حفاظت کیلئے افغانستان میں استحکام کی کوشش
کرے گااور ایک امکان یہ بھی ہے کہ خانہ جنگی کی صورت میں چین امن فورس
تعینات کرے تاکہ افغانستان کے ساتھ ملحق سنکیانگ صوبے کوبھی ممکنہ بدامنی
سے بچایاجا سکے۔ بائیڈن سے ملاقات کے بعدپیوٹن جولائی میں بیجنگ کادورہ
کرکے صدرشی کواعتمادمیں لیں گے۔جون اور جولائی کی ملاقاتیں اور اقدامات
مستقبل کے رجحانات کاپتادیں گے۔
امریکی تجزیہ نگاروں کے مطابق چین کابیلٹ اینڈروڈمنصوبہ،جس کاایک
چھوٹاساحصہ سی پیک ہے،افغانستان کے بغیرمکمل نہیں ہوتا۔ امریکی انخلاکے
بعدچین پاکستان اور ایران میں بڑی سرمایہ کاری کی حفاظت کیلئےافغانستان میں
استحکام کی کوشش کرے گااورایک امکان یہ بھی ہے کہ خانہ جنگی کی صورت میں
چین امن فورس تعینات کرے تاکہ افغانستان کے ساتھ ملحق سنکیانگ صوبے کوبھی
ممکنہ بدامنی سے بچایاجا سکے ۔ایران کے ساتھ معاہدے کے تحت چین پہلے ہی
وہاں 5ہزار فوجی تعینات کرنے کی اجازت لے چکاہے۔ افغانستان سے امریکیوں کی
روانگی کے بعدچین بیلٹ اینڈروڈمنصوبے کوتیزرفتاری سے بڑھاسکتاہے۔ امریکا
جواربوں ڈالرجنگ پرلگا کر خطے سے نکلنے پرمجبورہواہے وہ بیجنگ کوراستہ دے
رہاہے اورڈریگن کوراستہ ملنے کامطلب ہے کہ اب خطے پرایک اورطاقت سافٹ
پاورکے ساتھ اجارہ داری قائم کرنے کوہے۔اگرچین افغانستان میں فعال
ہواتویورپی طاقتوں کے علاوہ بھارت بھی افغانستان سے باہر ہوجائے گا۔
کابل انتظامیہ میں پاکستان کے دشمنوں کی بڑی تعدادبیٹھی ہے،جن میں ایک اشرف
غنی کے قومی سلامتی مشیرحمداللہ محب بھی ہیں۔ پچھلے دنوں حمد اللہ محب نے
پاکستان سے متعلق ایک گھٹیاتبصرہ کیااورپاکستان نے افغان حکومت کے ساتھ اس
پرنہ صرف احتجاج کیا بلکہ ایک اطلاع یہ ہے کہ پاکستان نے افغان قومی سلامتی
مشیرکے ساتھ رابطوں اورکام کرنے سے بھی معذرت کرلی ہے۔اس کے علاوہ امراللہ
صالح اوراس جیسے کئی عہدے دارہیں جواپنی ناکامیوں کاملبہ پاکستان پرڈالتے
رہتے ہیں۔دراصل یہ بھارت نوازسیاستدان اور سیکورٹی عہدے دارہیں۔بھارت کابل
انتظامیہ کوپاکستان کے خلاف استعمال کرتاہے تاکہ پاکستان اپنی پوری توجہ
اور فوجی صلاحیت افغان سرحدپرلگائے رکھے۔بدلتی ہوئی صورتحال میں نئے
اتحادوں میں پاکستان کواپنی جگہ بنانی اورمضبوط کرنی چاہیے تاکہ علاقائی
سیکورٹی کاجونیا نظام تشکیل پارہاہے اس میں نہ صرف پاکستان شراکت دارہوبلکہ
اپنے مفادات کابہترتحفظ بھی کرسکے۔
امریکاافغانستان سے انخلاکے بعدجاپان اوربھارت کوافغانستان میں اثرورسوخ
کیلئےاستعمال کرسکتاہے۔ان دونوں ملکوں کی ماضی میں افغانستان کے ساتھ کوئی
مخالفت یادشمنی نہیں رہی،کابل کی موجودہ انتظامیہ کواپناوجودبرقراررکھنے
کیلئےبیرونی مالی اورفوجی مددپر انحصارکرناپڑے گااور امریکاخطے میں نئے
چارفریقی اتحاد کواس مقصد کیلئےاستعمال کرے گا۔
بھارت پہلے بھی کابل انتظامیہ کومالی مدددے چکاہے۔ایران کے ساتھ بھی دوبارہ
جوہری معاہدے کی کوشش خطے میں واشنگٹن کے اثرو رسوخ کو برقراررکھنے کی کوشش
ہے۔امریکاایران کے ساتھ جوہری معاہدے کے بعدچارافریقی اتحاد کے رکن ملکوں
کوایران کے ساتھ تجارت اورسرمایہ کاری کیلئےاستثنیٰ دے سکتاہے اوراس معاشی
فائدے کوافغانستان میں اثرورسوخ کیلئےاستعمال کیاجاسکتاہے۔امریکی سربراہی
میں قائم چاررکنی غیررسمی اتحاد افغانستان میں معدنیات کی تلاش کے بہانے
سیکورٹی اورجاسوسی کیلئےامریکاکومدد بھی فراہم کرسکتاہے۔یہ چارفریقی
اتحادچین کے اثرورسوخ کاتوڑکرنے میں بھی امریکاکامددگارہوگا۔
افغانستان میں سب سے خوفناک منظرنامہ خانہ جنگی کاہے،بظاہرلگتاہے کہ
امریکاخودبھی خانہ جنگی چاہتاتھایاپھراسے فرارکی اس قدر جلدی تھی کہ اس نے
کئی پہلوؤں پرغورہی نہیں کیا۔سب سے اہم پہلویہ ہے کہ بائیڈن انتظامیہ نے
افغانستان سے انخلا کی تاریخ ایسے وقت پردی جب افغان فریقوں کے درمیان
استنبول میں مذاکرات ہونے والے تھے۔اس کانفرنس میں عبوری حکومت کے قیام
پربات ہوناتھی اور امن کیلئےیہی سب سے اہم نکتہ تھا،لیکن بائیڈن انتظامیہ
کےاعلان کے بعدافغان طالبان نے استنبول نہ جانے کااعلان کیا۔
بائیڈن کے غیرمشروط انخلاکے اعلان کے بعدطالبان قیادت نے فیصلہ کیاکہ مکمل
فوجی انخلاتک کوئی مذاکرات نہیں ہوں گے۔دراصل اس فیصلے کے پس پردہ یہ سوچ
کارفرماہے کہ غیرملکی افواج کے نکلنے کے بعدکابل پرقبضہ مشکل نہیں
ہوگا۔بائیڈن انتظامیہ کے بغیر سوچے سمجھے اعلان نے خانہ جنگی کاامکان
بڑھادیاہے،جس سے پاکستان ایک بارپھرمہاجرین کی صورت میں معاشی بوجھ تلے دب
سکتاہے اورنئے مسائل سراٹھاسکتے ہیں۔خانہ جنگی خطے کے مفادمیں نہیں،اس
کیلئےعلاقائی طاقتیں اورپاکستان مل کرسفارتی کوششیں کرسکتے ہیں اورافغان
فریقین کومیزپر لاسکتے ہیں۔یہ عین ممکن ہے کہ واشنگٹن افغانستان میں نئی
خانہ جنگی کاخواہاں ہو کیونکہ اس خانہ جنگی سے روس اورچین کونئے محاذ
پرتوجہ دیناپڑے گی اورامریکاخطے میں اپنے عزائم کوپروان چڑھانے اورچین کی
فوجی و اقتصادی ترقی روکنے کیلئےنئی منصوبہ بندی کے قابل ہوجائے گا۔
ایک اورمنظرنامہ یہ ہے کہ کابل ایئرپورٹ طالبان کے قبضے میں جانے کی صورت
میں افغانستان میں تمام سفارتی مشن خطرے میں پڑ سکتے ہیں، آسٹریلیاپہلے ہی
سفارت خانہ عارضی طورپربندکرنے کااعلان کرچکاہے جبکہ امریکاسمیت تمام اہم
ملکوں کے سفارتی عملے میں کمی کی جاچکی ہے۔اگرسفارتی مشن بندہوگئے توافغان
مسئلے کے حل کی کوششوں کوناقابلِ تلافی دھچکالگے گا۔کابل ایئرپورٹ یاکابل
شہرپرطالبان کے قبضے کے خدشات کی وجہ افغان فورسزکی کمزوردفاعی صلاحیت کے
علاوہ فورسزکے مورال میں کمی اوربدعنوانی بھی ہے۔ افغان فورسزکواب تک
امریکی افواج کی فضائی مددحاصل تھی،جوطالبان کوپیش قدمی سے روکے ہوئے تھی۔
11ستمبرکوجب انخلامکمل ہوجائے گاتویہ مددبھی ختم ہوجائے گی جبکہ افغان
فضائیہ کاامریکی اورنیٹومددگاروں کے بغیر قابلِ پرواز رہنابھی محال
نظرآتاہے۔
ایسی صورتحال میں افغان فوجیوں کاوفاداری بدلنااورجنگی سرداروں یاطالبان کی
اطاعت قبول کرناممکنہ منظرناموں میں شامل ہے۔افغان فوج میں بدعنوانی اس
قدرہے کہ فوجیوں کی بنیادی ضروریات بھی پوری نہیں ہورہیں،اسلحہ
تودرکنارافغان فوجیوں کے پاس بوٹ بھی نہیں ہوتے کیونکہ انہیں مہیا کیے جانے
والے بوٹ اس قدرناقص ہیں کہ چند ہفتوں بعدہی قابلِ استعمال نہیں رہتے۔اس کے
علاوہ ہتھیاربھی دورانِ لڑائی جام ہوجاتے ہیں۔
امریکا نے2024ءتک افغان فوج کو4/ارب ڈالرسالانہ مدددینے کاوعدہ کیاہے۔یہ
وعدہ افغان فورسزکیلئےکچھ حوصلے کاباعث ہے لیکن یہ لیڈرشپ اورعہدے داروں
پرمنحصرہے کہ اس امدادکوکس طرح استعمال کرتے ہیں اوربدعنوانی کوروک پاتے
ہیں یانہیں۔اگرافغان فورسز کویونہی بے یارو مددگارچھوڑدیاگیاتوخانہ جنگی
یقینی ہے کیونکہ لڑائی صرف کابل انتظامیہ اورافغان طالبان کے درمیان نہیں
ہوگی بلکہ نسلی بنیادوں پرسرداران بھی اقتدارکی جنگ میں گتھم گتھاہوں گے۔
پاکستان کونئی صورتحال میں نہ صرف علاقائی سیکورٹی نظام پرتوجہ دیناہوگی
بلکہ امریکاکوبھی مکمل لاتعلقی سے بازرکھنے کی کوششیں کرناپڑیں گی ورنہ
افغانستان میں بھی بالکل ویسے ہی صورتحال دیکھنے کومل سکتی ہے جیسی سوویت
یونین کے فوجی انخلا کے بعددیکھی گئی تھی اورپاکستان کے سکیورٹی اورمعاشی
مسائل کاحل ناممکن ہوجائے گا،یوں پاکستان ایک اورجنگ میں دھکیل دیا جائے
گا۔
|