روبرو ہے ادیب: خدیجہ محسن

ادب اطفال کی ہونہار لکھاری سے گفتگو کا احوال۔۔۔۔!
روبرو ہے ادیب: خدیجہ محسن

تحریر و ملاقات: ذوالفقار علی بخاری

ہمارے ہاں کسی بھی شعبہ ہائے زندگی کو دیکھ لیں وہاں پر بہت کم ہی سراہنے کا رواج عام ہے اسی وجہ سے بہت سے نوجوان بہت جلد اپنی زندگی سے بیزار ہو کر گمراہی کی طرف چلے جاتے ہیں۔ ادب اطفال میں کئی ایسے لکھاری ہیں جو مسلسل کام کیے جا رہے ہیں جن کو آج سراہنے کی بے حد ضرورت ہے۔

ادب اطفال کی دنیا میں بے شمار ایسے لکھاری ہیں جنہوں نے روز اول سے ہی قلم کے تقدس کو جانتے ہوئے یوں شعوربیداری کے ساتھ تفریح دے رہے ہیں کہ اُن کے لئے دل سے دعا نکلتی ہے کہ وہ یوں ہی خوب سے خوب تر لکھتے رہیں۔انہی میں سے ایک خدیجہ محسن صاحبہ بھی ہیں۔

راقم السطور آج آپ کے سامنے خدیجہ محسن صاحبہ کے ساتھ ہونے والی گفتگو کو پیش کر رہا ہے۔ خدیجہ محسن نے اپنی چند کہانیوں سے یہ ثابت کر دیا ہے کہ یہ مستقبل کی نامور لکھاری ہونگی جو کہ مختلف موضوعات پر بہترین کہانیاں لکھنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ اپنی ذات سے نفع پہچانے والی یہ لکھاری بے حد حساس اورخاموش طبع ہونے کے ساتھ ساتھ صاف گوئی پر یقین رکھتی ہیں۔

امید ہے کہ آپ کو ان کی گفتگو ضرور پسند آئے گی۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

سوال: ادبی دنیا کے ماحول سے کتنا خوش ہیں؟

جواب: ادب کا ماحول الحمدللہ بہت اچھا ہے لیکن کچھ باتیں مجھے بہت تنگ کرتی ہیں کہ ہر کوئی آجکل رائٹر بننے کی کوششوں میں ہے،چاہے اسے لکھنے کا فن بھی نہ آتا ہو۔ لوگوں نے اسے اپنا کاروبار بنالیا ہے،یہی وجہ ہے کہ اچھے سے اچھا ادیب بھی عام ادیبوں میں دب کر رہ جاتا ہے۔


٭٭٭٭٭

سوال: ایک نئے لکھاری کو کتنی مشکلات کا سامنا اپنی جگہ بنانے کے لئے کرنا پڑتا ہے؟
جواب: لکھنے کا فن ہر کسی کے پاس نہیں ہوتا، اسی طرح لفظوں سے دل جیتنے کا فن بھی سب کے پاس نہیں ہوتا۔ نو آموز لکھاری کو قارئین کے دل میں جگہ بنانے کے لیے اپنی تحاریر میں نکھار پیدا کرنا پڑتا ہے تبھی وہ لوگوں کا دل جیت سکتا ہے۔


٭٭٭٭٭


سوال: آپ کی تحریروں سے ایسا کیوں محسوس ہوتا ہے کہ آپ گہرا مشاہدہ رکھتی ہیں۔ایک لکھاری کے لئے مشاہدہ کتنا ضروری ہے؟
جواب: میں جو اپنی ارد گرد محسوس کرتی ہوں اسے تحاریر کی شکل میں ڈھال کر قارئین کے سامنے پیش کردیتی ہوں۔ میرے خیال میں ہر انسان کو مشاہدہ کرنا چاہیے اور ادیب کو تو ضرور کرنا چاہیے۔ مشاہدے سے انسان نہ صرف سیکھتا ہے بلکہ دوسروں کو بھی سکھانے کے لائق ہوجاتا ہے۔


٭٭٭٭٭

سوال: کیا بطور لکھاری آپ اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنے کا حوصلہ رکھتی ہیں؟
جواب: غلطیاں ہر انسان سے ہوجاتی ہیں بس ان کو تسلیم کرنے کا حوصلہ ہونا چاہیے۔ اگر زندگی میں کبھی ایسا کچھ ہوا تو ان شااللہ میں تسلیم کروں گی کیوں کہ حقیقت یہی ہوگی کہ میری غلطی ہوگی اور غلطی تسلیم کرنا ہی بہتر ہوتا ہے۔

٭٭٭٭٭

سوال:آپ کے بچپن کا کوئی حسین واقعہ، جس نے آپ پر گہرے اثرات چھوڑے ہوں؟
جواب: میں نے پہلا ناول \''فاصلے اور چاہتیں \'' پانچویں جماعت میں پڑھا تھا۔ وہ آج تک مجھے یاد ہے کیوں کہ پہلا پہلا ناول ہاتھ لگا تھا اور پڑھائی کے ساتھ ساتھ درمیان میں گھر والوں سے چھپ کر پڑھنے کا ایک الگ مزہ تھا۔


٭٭٭٭٭

سوال: ایک استاد اور طالب علم کے درمیان بہترین تعلق کیسے استوار ہو سکتا ہے؟
جواب: بہترین استاد وہ ہوتا ہے جو طالب علم کو نا صرف تعلیم دیتا ہے بلکہ اس کی تربیت بھی کرتا ہے۔ استاد اور شاگرد میں بہترین تعلقات استوار کرنے کے لیے ضروری ہے کہ دونوں ایک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ بعض اوقات استاد طالب علم کو یا طالب علم استاد کے پوائنٹ آف ویو کو سمجھ نہیں پاتا، جس سے ان کی درمیان تلخیاں پیدا ہوجاتی ہیں جو پیچیدگیوں کا باعث بنتی ہیں۔

٭٭٭٭٭


سوال:اولین تحریر کی اشاعت پر کیسا محسوس ہوا اور جب ناقابل اشاعت کا سنا تو کیا جذبات تھے؟
جواب: میری پہلے تحریر ہی میری پہلی اشاعت تھی اور الحمدللہ رب العالمین مجھے بہت خوشی ہوئی تھی کہ اللہ رب العزت نے عزت رکھ لی تھی۔ اس موقع پر میں خاص طور پر اپنے گھر والوں، ٹیچرز اور ماہ نامہ”تعلیم و تربیت“کی ایڈیٹر آپا کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گی جن کا بھرپور تعاون ہمیشہ میرے ساتھ رہا۔


کسی نے مجھے اس موقع پر کہا تھا: I will recommend you to choose writing Field in future.یہ جملہ اس وقت مجھے کسی ہیرے سے کم نہیں لگ رہا تھا۔


جہاں تک بات ہے ناقابل اشاعت تحاریر کی توایک مہربان شخصیت نے مجھے کہا تھا بیٹا! Work hard in silence,Your Success be your noiceAnd try try again and again till you succeedان کے یہ الفاظ آج بھی مجھے یاد ہیں۔ کبھی ناقابل اشاعت تحریر دکھ نہیں ہوا بلکہ خوشی ہوئی ہوتی ہے کہ کوئی بات نہیں ابھی نہیں تو آئیندہ صحیح۔ میں اس تحریر میں رد و بدل کرتی ہوں، اگر بہتر سے بہترین ہوسکتی ہے تو اسے بہترین بناتی ہوں اور پھر دوسرے رسالوں / میگزینز کے لیے سنبھال لیتی ہوں۔

٭٭٭٭٭


سوال:آج کے دور میں کس طرح کی بچوں کی کہانیاں لکھی جانی چاہیے؟
جواب: آجکل کے دور کے لحاظ سے بچوں کے لیے لکھی گئی تحاریر حقیقت شناس ہونی چاہئیں، مزاحیہ تحاریر میں بھی کوئی نہ کوئی مثبت سبق ضرور ہونا چاہیے جو ان میں تبدیلی پیدا کرنے کا باعث بن سکے۔

٭٭٭٭٭

سوال: آپ کو لکھنے کے حوالے سے گھر والوں کی جانب سے کتنی حوصلہ افزائی ملی ہے؟
جواب: الحمدللہ رب العالمین والدین اور بہن بھائیوں نے ہر طرح سے ساتھ دیا، حوصلہ افزائی کی اور امید ہے کہ ان شاء اللہ آگے بھی ہمیشہ یوں ہی ساتھ دیتے رہیں گے۔

٭٭٭٭٭

سوال:بچوں کو کتب بینی کی جانب کیسے راغب کیا جا سکتا ہے؟
جواب: اُن کی رہنمائی کی جائے، بچوں کا باقاعدگی کے ساتھ پڑھنے کی سرگرمی پر خاص لیکچر ہونا چاہیے جس میں ان کو مختلف رسائل و اخبارات پڑھانے چاہئیں، استاد کے ساتھ ساتھ والدین پر بھی لازم ہے کہ انھیں کتب بینی کے فوائد سے آگاہ کریں۔ ادیب کو بھی چاہیے کہ وہ تحریر کو منفرد انداز میں بچوں کے سامنے پیش کریں تاکہ بچے خود بخود ان کی طرف راغب ہوں اور مطالعے میں ان کا رجحان بڑھتا چلا جائے۔

٭٭٭٭٭

سوال: کس اُردو لکھاری/ادیب کو خوب پڑھا ہے،کتنا متاثر ہوئی ہیں؟
جواب: میں نے کافی ادباء پڑھا ہے لیکن نمرہ احمد، کرن سلطان ڈھلوں، مسفرہ سحر، ساجدہ غلام محمد وغیرہ کے انداز سے متاثر ہوئی ہوں۔

٭٭٭٭٭

سوال: بچوں کے ادب کی آپ کی نظر میں کتنی اہمیت ہے؟
جواب:میری نظر میں بچوں کے ادب کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ ماشائاللہ اس سلسلے میں کئی نو آموز لکھاری محنت کررہے ہیں۔ بچوں میں مطالعہ کا رجحان بھی بڑھ رہا ہے۔

٭٭٭٭٭


سوال: آپ کے خیال میں آج کے لکھاری بچوں کی نفسیات کے مطابق لکھ رہے ہیں؟
جواب: لکھ بھی رہے ہیں اور نہیں بھی لکھ رہے۔ ہر کسی کا اپنا انداز و بیان ہوتا ہے۔ شاید جو ان کے خیال میں بہتر ہے وہ میرے خیال میں بہتر نہ ہو۔


٭٭٭٭٭

سوال: آپ کبھی اپنی آپ بیتی لکھنا چاہیں گی؟
جواب: جی ضرور اگر زندگی نے کبھی موقع دیا۔

٭٭٭٭٭

سوال: ادبی دنیا میں رہنمائی کن سے ملی ہے؟
جواب: الحمدللہ رب العالمین بہت سارے لوگوں نے میرا ساتھ دیا ہے، مجھے گائیڈ کیا ہے لیکن ام محمد سلمان آپا اور عائشہ شہزاد آپی نے ہر پوائنٹ پر سپورٹ کیا۔ مجھے بتایا کہ تحاریر میں کہاں کیا غلطیاں ہیں، کیا کیسے ہونا چاہیے وغیرہ۔ میں تہہ دل سے ان کی مشکور ہوں۔

٭٭٭٭٭

سوال: آپ عورت کے آزادی کے نعرے کی تائید کرتی ہیں؟
جواب: میرے خیال میں اسلام نے جتنی عورت کو آزادی دے دی ہے اس کے بعد کوئی اور حق مانگنے کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا۔

٭٭٭٭٭

سوال: آپ کی نظر میں مثبت سوچ کے کتنے فوائد ہیں؟
جواب: میرے خیال میں مثبت سوچ ہی انسان کو ترقی و کامرانی کے سفر پر گامزن کرتی ہے۔

٭٭٭٭٭

سوال: ایک اچھے لکھاری /ادیب میں آپ کن خصوصیات کا ہونا ضروری سمجھتی ہیں؟
جواب: اچھے اخلاق و کردار کا مالک ہونا چاہیے، اس کے اندر مطالعے کا شوق ہونا چاہیے، اسے مشاہدہ کرنے کا فن آنا چاہیے، حق اور سچ لکھنے کے ساتھ غلطی سدھارنے کی ہمت ہونی چاہیے۔

٭٭٭٭٭

سوال: آپ کے خیال میں لڑکیوں کے حوصلے کو کس طرح سے بلند کیا جا سکتا ہے کہ وہ زندگی میں کامیابی حاصل کر سکیں؟
جواب: ان کی حوصلہ افزائی کی جائے، انھیں سپورٹ کیا جائے لیکن جہاں پر وہ غلط ہوں وہاں بہترین رہنما اور اچھے دوست کی طرح ان کی اصلاح بھی کی جائے۔

٭٭٭٭


سوال: اپنے تعلیمی سفر، مشاغل اورناپسندیدہ عادات کے حوالے سے کچھ آگاہ کیجئے۔
جواب: میں نے 2020 میں حسن پبلک اسکول لاہور کے زیر اہتمام میٹرک کا امتحان پاس کیا تھا اور اب الحمدللہ رب العالمین النور انٹرنیشنل کالج سے انٹر پارٹ 1 اور ڈپلومہ ان اسلامک ایجوکیشن کررہی ہوں۔ آگے کا کچھ پتا نہیں جو اللہ کو منظور۔ناپسندیدہ عادت ایک یہ ہے کہ میں غصے کی بہت تیز ہوں۔ جب غصہ نہیں آتا تو نہیں آتا لیکن جب آتا ہے تو سب کچھ اپنے ساتھ بہا کر لے جاتا ہے۔

سفر کے حوالے سے مجھے پورا پاکستان پھرنے کا بہت شوق ہے۔ زندگی رہی اور اللہ نے چاہا تو ان شاء اللہ یہ خواہش بھی پوری کریں گے۔

٭٭٭٭٭

سوال:ایک لکھاری کو سچ لکھنے اور بولنے کی سزا کیوں ملتی ہے؟
جواب: کیوں کہ آج کل سچ ایک تلخ حقیقت بن چکی ہے جس کو سننے کی ہمت کسی میں باقی نہیں رہی۔

٭٭٭٭٭


سوال: اپنے قارئین کے نام کوئی پیغام دینا چاہیں گی؟
جواب: میں اپنے قارئین سے بس اتنا کہنا چاہوں گی کہ ادبی دنیا میں آتے وقت اس بات کا ضرور خیال رکھیں کہ آپ کے میں اگر مزاحیہ کردار لکھنے کی صلاحیت ہے تو سبق آموز تحاریر لکھنے کی صلاحیت بھی ہونی چاہیے جو دوسروں کی زندگی میں تبدیلی کا باعث بن سکتی ہیں۔ اس کے علاؤہ اگر کوئی تحریر آپ کے سامنے سے گزر کر جاتی ہے تو اس کو صرف لطف کے لیے نہیں پڑھنا بلکہ اس میں سے کچھ مثبت تلاش کرنا ہے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش بھی کرنی ہے۔

ایک لکھاری کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ قاری اس سے اتنا مانوس ہوجائے کہ اسے اس کی بات سمجھ آنے لگے۔ ہم نے ناصرف لکھاری کو سمجھنا ہے بلکہ مثبت سوچ کے ساتھ آگے بھی بڑھنا ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ سب کو دنیا آخرت کی تمام کامیابیاں عطا فرمائے۔
خوش رہیے اور خوشیاں بانٹیں۔
آپ کے قیمتی وقت کا بے حد شکریہ۔
۔ختم شد۔
Zulfiqar Ali Bukhari
About the Author: Zulfiqar Ali Bukhari Read More Articles by Zulfiqar Ali Bukhari: 392 Articles with 480530 views I'm an original, creative Thinker, Teacher, Writer, Motivator and Human Rights Activist.

I’m only a student of knowledge, NOT a scholar. And I do N
.. View More