سوشل میڈیا ایک مثبت پہلو

مثبت استعمال ہماری بخش کا ذریعہ

تحریر محمد کامران

سوشل میڈیا ایک مثبت پہلو

دورِ قدیم میں مواصلات کے لیے مختلف زرائع ابلاغ کا استعمال کیا جاتا رہا ہے جو کہ انتہائی سست رفتار اور وقت کھانے والے تھے ۔
جیسے جیسے وقت بدلتا رہا جدت آتی گئی دنیا ترقی کرتی رہی اور ہر شعبہ آگے بڑھتا گیا۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دوسرے طبقات کی طرح زرائع ابلاغ نے بھی خوب ترقی کی۔
اسکی جدت کا اندازہ اس بات سے بخصبی لگایا جا سکتا ہے کہ آج دنیا ایک گلوبل ویلج بن چکی ہے۔ ہمیں درکار کوئی بھی معلومات یا سینکڑوں میل دور بھیجا جانے والا کوئی بھی پیغام اب صرف ایک "کلک" کے فاصلے پہ ہے۔

زرائع ابلاغ کو تیز بنانے میں سب سے اہم کردار اگر کسی چیز کا ہے تو وہ ہے سوشل میڈیا۔
ایک تحقیق کے مطابق دنیا کی دو تہائی آبادی سوشلی ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہے۔

یہ ہی وجہ ہے کہ سوشل میڈیا بہت کم وقت میں ہماری زندگی کا ایک حصہ بن چکا یے ۔
بے شک انسانی زندگی پر سوشل میڈیا کہ بے شمار منفی اثرات ہیں لیکن ایک بات ذہن نشین رہے کہ کسی بھی چیز کو مثبت یا منفی بنانا انسان کے اپنی سوچ اور عمل(استعمال) پر منحصر ہوتا ہے۔
میں نے اکثر لوگوں کو سوشل میڈیا پر تنقید کرتے ہی دیکھا ہے آج بیٹھے بیٹھے دل میں خیال آیا کیوں نہ سوشل میڈیا کے مثبت پہلوؤں پر روشنی ڈالی جائے؟
تو آئیے آج ہم مثبت پہلوؤں کے بارے بات کرتے ہیں۔
شوشل میڈیا آگاہی اور مسائل کو اجاگر کرنے کا بہترین زریعہ ہے۔
اس سے ہم عوام کی سوچ بدل سکتے ہیں!

دنیا میں پاکستان اور اسلام کا مثبت چہرہ پیش کر سکتے ہیں۔

اپنے نظریات اور خیالات کا پرچار کرنے کے لئے سوشل میڈیا ایک بہترین راستہ ہے۔

اور عوامی مسائل کو اجاگر کر کےحکومتِ وقت پر اسکو حل کرنے کے لیے دباؤ ڈال سکتے ہیں۔

بہت سے لوگ پوچھتے ہیں کہ وہ کیسے!!

تو انکا جواب ہے.
جس قدر سوشل میڈیا سے حکومت پر عوامی دباؤ ڈالا جا سکتا ہے شاید ہی کسی اور زریعے سے ڈالا جا سکتا ہو!!

اسکی ایک چھوٹی سی مثال دیتا چلوں۔ ہم آج سے زیادہ عرصہ دور نہیں جاتے!
حالیہ دنوں تحریک لبیک پاکستان کے دھرنے کے وقت کو یاد کرتے ہیں۔

آپ میں سے اکثر احباب کو یاد ہوگا کہ دھرنے کے دوران حکومت پاکستان نے انٹرنیٹ سروس معطل کر دی تھی۔چایے چند گھنٹے کہ لیے ہی سہی مگر کی گئی تھی۔
خاص کر ٹویٹرکو جزوی طور پر معطل کیا گیا تھا ۔
اسلام آباد میں بیٹھے اکثر زرائع نے اس بات کو کنفرم کیا کہ اسکی وجہ ٹویٹر (سوشل میڈیا )پر فرانس والا موضوع "Hot Topic" ہونا تھا۔
ایسا لگ رہا تھا کہ عوام تقریبا باغی ہو چکی ہے۔
اور جلتی پر تیل کا کام ہمارے ازلی دشمن بھارت نے کیا۔
پوری دنیا میں پاکستان میں "Civil War" کی جھوٹی خبر پھیلا دی
حکومت پر دباؤ بڑھ رہا تھا
اسکا اندازہ اس بات سے لگا لیں وزیر اعظم پاکستان عمران خان صاحب نے قوم سے خطاب میں فرمایا:

"دھرنوں کے درمیان سوشل میڈیا پر ازلی دشمن بھارت نے لوگوں کو اکسایا ۔
اور ٹویٹر پر تقریبا تین لاکھ ٹویٹس فیک اکاونٹس سے کی گئی۔"
یہ ساری بات بتانے کا مقصد صرف یہ ہے کہ ایک وزیراعظم ٹویٹر اور سوشل میڈیا کی بات اپنے خطاب میں کر رہا ہے یہ سوشل میڈیا کی اہمیت اور حکمرانوں پر دباو کا واضح ثبوت ہے.

تو کیا ہم عوامی مسائل کو اجاگر کر کے حل نہیں کروا سکتے؟
کیا ہم کسی مظلوم کی آواز بن کر اسکو انصاف نہیں دلوا سکتے؟
یقیناً اگر ہم کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں۔
دوسرا اگر بھارت ایک جھوٹ کو سوشل میڈیا کے زریعے پوری دنیا میں پھیلا سکتا ہے تو کیا ہم اسکا مثبت استعمال کرتے ہوئے تبلیغ اسلام جیسے ہمارے مذہبی فریضے کو ادا نہیں کر سکتے ہیں؟
یقیناً کر سکتے ہیں۔!!

شاید ہماری ایک پوسٹ کسی کو دین حق کی طرف راغب کر دے !!
شاید ہماری ایک اسلامی پوسٹ پڑھ کر کوئی اس پر عمل کر لے!!
شاید ہماری ایک آواز (پوسٹ) کسی غریب کی مدد کا ذریعہ بن جائے!!
شاید ہماری ایک آواز (پوسٹ) کسی مظلوم کو انصاف دلوا دے!

کسی کو دین کی طرف راغب کرنا، کسی کو اسلام تعلیمات سکھانا صدقہ جاریہ ہے جو موت کے بعد بھی ثواب کا زریعہ رہے گا کیونکہ جب تک وہ شخص نیکی کرتا رہے گا آپ کو بھی ثواب ملتا رہے گا۔
دوسرا مسلہ حل ہونے پر کسی غریب کے چہرے کی خوشی اور اطمینان ،مظلوم کو انصاف ملنے پر اسکے دل سے نکلی دعا ہماری بخش کا زریعہ بن سکتی ہے۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے دعا ہے کہ
ہمیں اسلام سیکھنے اور اسکی تبلیغ کرنے کی توفیق دیے ۔
ہمیں لوگوں کی مدد کا زریعہ بنائے۔
تاکہ یہ ہماری بخشش کا ذریعہ بن سکے
آمین۔تحریر محمد کامران

سوشل میڈیا ایک مثبت پہلو

دورِ قدیم میں مواصلات کے لیے مختلف زرائع ابلاغ کا استعمال کیا جاتا رہا ہے جو کہ انتہائی سست رفتار اور وقت کھانے والے تھے ۔
جیسے جیسے وقت بدلتا رہا جدت آتی گئی دنیا ترقی کرتی رہی اور ہر شعبہ آگے بڑھتا گیا۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دوسرے طبقات کی طرح زرائع ابلاغ نے بھی خوب ترقی کی۔
اسکی جدت کا اندازہ اس بات سے بخصبی لگایا جا سکتا ہے کہ آج دنیا ایک گلوبل ویلج بن چکی ہے۔ ہمیں درکار کوئی بھی معلومات یا سینکڑوں میل دور بھیجا جانے والا کوئی بھی پیغام اب صرف ایک "کلک" کے فاصلے پہ ہے۔

زرائع ابلاغ کو تیز بنانے میں سب سے اہم کردار اگر کسی چیز کا ہے تو وہ ہے سوشل میڈیا۔
ایک تحقیق کے مطابق دنیا کی دو تہائی آبادی سوشلی ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہے۔

یہ ہی وجہ ہے کہ سوشل میڈیا بہت کم وقت میں ہماری زندگی کا ایک حصہ بن چکا یے ۔
بے شک انسانی زندگی پر سوشل میڈیا کہ بے شمار منفی اثرات ہیں لیکن ایک بات ذہن نشین رہے کہ کسی بھی چیز کو مثبت یا منفی بنانا انسان کے اپنی سوچ اور عمل(استعمال) پر منحصر ہوتا ہے۔
میں نے اکثر لوگوں کو سوشل میڈیا پر تنقید کرتے ہی دیکھا ہے آج بیٹھے بیٹھے دل میں خیال آیا کیوں نہ سوشل میڈیا کے مثبت پہلوؤں پر روشنی ڈالی جائے؟
تو آئیے آج ہم مثبت پہلوؤں کے بارے بات کرتے ہیں۔
شوشل میڈیا آگاہی اور مسائل کو اجاگر کرنے کا بہترین زریعہ ہے۔
اس سے ہم عوام کی سوچ بدل سکتے ہیں!

دنیا میں پاکستان اور اسلام کا مثبت چہرہ پیش کر سکتے ہیں۔

اپنے نظریات اور خیالات کا پرچار کرنے کے لئے سوشل میڈیا ایک بہترین راستہ ہے۔

اور عوامی مسائل کو اجاگر کر کےحکومتِ وقت پر اسکو حل کرنے کے لیے دباؤ ڈال سکتے ہیں۔

بہت سے لوگ پوچھتے ہیں کہ وہ کیسے!!

تو انکا جواب ہے.
جس قدر سوشل میڈیا سے حکومت پر عوامی دباؤ ڈالا جا سکتا ہے شاید ہی کسی اور زریعے سے ڈالا جا سکتا ہو!!

اسکی ایک چھوٹی سی مثال دیتا چلوں۔ ہم آج سے زیادہ عرصہ دور نہیں جاتے!
حالیہ دنوں تحریک لبیک پاکستان کے دھرنے کے وقت کو یاد کرتے ہیں۔

آپ میں سے اکثر احباب کو یاد ہوگا کہ دھرنے کے دوران حکومت پاکستان نے انٹرنیٹ سروس معطل کر دی تھی۔چایے چند گھنٹے کہ لیے ہی سہی مگر کی گئی تھی۔
خاص کر ٹویٹرکو جزوی طور پر معطل کیا گیا تھا ۔
اسلام آباد میں بیٹھے اکثر زرائع نے اس بات کو کنفرم کیا کہ اسکی وجہ ٹویٹر (سوشل میڈیا )پر فرانس والا موضوع "Hot Topic" ہونا تھا۔
ایسا لگ رہا تھا کہ عوام تقریبا باغی ہو چکی ہے۔
اور جلتی پر تیل کا کام ہمارے ازلی دشمن بھارت نے کیا۔
پوری دنیا میں پاکستان میں "Civil War" کی جھوٹی خبر پھیلا دی
حکومت پر دباؤ بڑھ رہا تھا
اسکا اندازہ اس بات سے لگا لیں وزیر اعظم پاکستان عمران خان صاحب نے قوم سے خطاب میں فرمایا:

"دھرنوں کے درمیان سوشل میڈیا پر ازلی دشمن بھارت نے لوگوں کو اکسایا ۔
اور ٹویٹر پر تقریبا تین لاکھ ٹویٹس فیک اکاونٹس سے کی گئی۔"
یہ ساری بات بتانے کا مقصد صرف یہ ہے کہ ایک وزیراعظم ٹویٹر اور سوشل میڈیا کی بات اپنے خطاب میں کر رہا ہے یہ سوشل میڈیا کی اہمیت اور حکمرانوں پر دباو کا واضح ثبوت ہے.

تو کیا ہم عوامی مسائل کو اجاگر کر کے حل نہیں کروا سکتے؟
کیا ہم کسی مظلوم کی آواز بن کر اسکو انصاف نہیں دلوا سکتے؟
یقیناً اگر ہم کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں۔
دوسرا اگر بھارت ایک جھوٹ کو سوشل میڈیا کے زریعے پوری دنیا میں پھیلا سکتا ہے تو کیا ہم اسکا مثبت استعمال کرتے ہوئے تبلیغ اسلام جیسے ہمارے مذہبی فریضے کو ادا نہیں کر سکتے ہیں؟
یقیناً کر سکتے ہیں۔!!

شاید ہماری ایک پوسٹ کسی کو دین حق کی طرف راغب کر دے !!
شاید ہماری ایک اسلامی پوسٹ پڑھ کر کوئی اس پر عمل کر لے!!
شاید ہماری ایک آواز (پوسٹ) کسی غریب کی مدد کا ذریعہ بن جائے!!
شاید ہماری ایک آواز (پوسٹ) کسی مظلوم کو انصاف دلوا دے!

کسی کو دین کی طرف راغب کرنا، کسی کو اسلام تعلیمات سکھانا صدقہ جاریہ ہے جو موت کے بعد بھی ثواب کا زریعہ رہے گا کیونکہ جب تک وہ شخص نیکی کرتا رہے گا آپ کو بھی ثواب ملتا رہے گا۔
دوسرا مسلہ حل ہونے پر کسی غریب کے چہرے کی خوشی اور اطمینان ،مظلوم کو انصاف ملنے پر اسکے دل سے نکلی دعا ہماری بخش کا زریعہ بن سکتی ہے۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے دعا ہے کہ
ہمیں اسلام سیکھنے اور اسکی تبلیغ کرنے کی توفیق دیے ۔
ہمیں لوگوں کی مدد کا زریعہ بنائے۔
تاکہ یہ ہماری بخشش کا ذریعہ بن سکے
آمین۔
 

Muhammad Kamran
About the Author: Muhammad Kamran Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.