کشمیر میں کورونا سے قبل شاہانہ لاک ڈاون
لگا دیا گیا اور اب اسے کھول کر آئی اور سی کے وفد کا استقبال کرنے کی
تیاری کی جارہی ہے۔ کشمیر کی مہلک تالہ بندی کے بعد حکمرانِ وقت اس کی کنجی
ٹھنڈے بستے میں ڈال کر بھول گیا۔ وزیر اعظم کا یہ پرانا طرزحیات ہے۔ ان کو
جو چیز پسند نہیں ہوتی اس کے ساتھ وہ یہی معاملہ کرتے ہیں ۔ اس کی ایک مثال
تو مودی جی کی اہلیہ جسودھا بین ہیں کہ برسوں پہلے ان کو معلق چھوڑا تو پھر
ان کی جانب مڑ کر نہیں دیکھا ۔ اپنے اس غیر حساس رویہ دوسروں کو ہونے والی
پریشانی سے انہیں کوئی غرض نہیں ہوتی۔ اس کی تازہ ترین مثال کسان تحریک ہے
۔ وزیر اعظم اپنے من کی بات کبھی طلبا سے کرتے ہیں تو کبھی ان کے والدین سے
۔ کبھی کسی دیہاتی سے مخاطب ہوتے ہیں تو کبھی شہریوں سے ۔ وہ نہ صرف انہیں
اپنی بات سناتے ہیں بلکہ آج کل ان کی بھی سنتے ہیں لیکن اگر کسی کے لیے ان
کے پاس فرصت نہیں ہے تو وہ دہلی کی سرحد پر بیٹھے ہوئے کسان ہیں ۔ ایک
مرتبہ جوش میں آکر کہہ تو دیا تھا کہ وہ صرف ایک فون کی دوری پر ہیں لیکن
کسان وہ فون نمبر مانگتے مانگتے تھک گئے نہ فون نمبر دیا اور نہ رابطہ کیا۔
وزیر اعظم نے ایسا ہی معاملہ کشمیر کے ساتھ کیا۔ ایوان پارلیمان میں بڑے
طمطراق سے آئین کی دفع 370 ختم کروائی ۔ کشمیر کو فوج کے حوالے کرکے قوم
سے خطاب میں کہا ایک ہفتے میں سب معمول پر آجائے گا ۔ 23 مہینوں کے بعد
بھی حالات معمول پر نہیں آئے مگر وزیر اعظم اس کو بھولے رہے۔ دفع 370 کو
پیش کرتے وقت وزیر داخلہ سے کچھ ارکان پارلیمان نے پاکستان مقبوضہ کشمیر سے
متعلق استفسار کیا تو وزیر داخلہ نے پہلے یہ وضاحت کی کہ جب وہ جموں کشمیر
کہتے ہیں تو اس میں سیاچین اور پی او کے شامل ہوتا ہے لیکن پھر اچانک جذبات
میں آگئے اور چیخ چیخ کر کہنے لگے ہم جان بھی دے دیں گے، کیا بات کرتے ہو۔
اندھے دیش بھگتوں کو وزیر داخلہ کے یہ الفاظ سن کر بہت خوشی ہوئی ہوگی کہ
کوئی تو ہے جو پاکستان اور چین کا قبضہ ختم کرنے کی خاطر جان کی بازی لگانا
چاہتا ہے ۔
اس بلند باگ دعویٰ کی دلیل پیش کرنے کا موقع ایک سال کے اندر اس وقت آگیا
جب چین نے لداخ کے اندر دراندازی کردی ۔ دیش بھگتوں کو یہ توقع تھی کہ وزیر
داخلہ رانا پرتاپ کی تلوار سونت کر میدان جنگ میں کود پڑیں گے لیکن ان کی
زبان تو ایسی گنگ ہوئی کہ جان دینے والے ایک بیان تک نہیں دے سکے ۔امیت شاہ
کیا بولتے جب ان کے آقا نے اپنی زبان پر قفل چڑھا رکھا تھا ۔ ایک طویل
خاموشی کے بعد وزیر اعظم بولے بھی تو چین کے من کی بات ۔ انہوں نے کہا کہ
ہماری سرحد میں کوئی نہیں آیا ۔یہی بات تو چین کہہ رہا تھا کہ ہمارے فوجی
ہندوستان کی سرحد میں نہیں گئے وہ ہمارا اپنا علاقہ ہے۔ وزیر اعظم کے اس
موقف نے تصادم میں ہلاک ہونے والے فوجیوں کو درانداز بنا دیا اس لیے کہ اگر
وہ نہیں آئے تو اس کا مطلب ہے کہ یہ گئے ۔ خیر وزیر اعظم کا بیان سن کر
بھگت خوش ہوگئے کہ مودی کے ڈر سے کوئی ہماری جانب کوئی آنکھ اٹھا کر نہیں
دیکھ سکامگر کسی نے یہ نہیں سوچا کہ اگر کوئی آیا نہیں تو اپنا علاقہ خالی
کروانے اور چینیوں کو واپس بھیجنے کی خاطر بات چیت کیوں ہورہی ہے؟
اس کے بعد وزیر دفاع اور وزیر اعظم لداخ توگئے لیکن اس سے متصل کشمیر جانے
کی زحمت نہیں کی۔ راجناتھ سنگھ ایک بار گئے بھی تو فوجی بیرک سے نکل کر
عوام سے نہیں ملے۔ وزیر داخلہ کو ہندی میں گرہ منتری یعنی گھر کا وزیر کہا
جاتا ہے اس لیے وہ کسی مشکل مقام پر جانے کے بجائے گھر میں دبک کر بیٹھنے
پر اکتفاکرتے ہیں ۔ وہ کشمیر تو دورچھتیس گڑھ بھی بڑی مشکل سے گئے اور ان
کی واپسی کے نکسلیوں نے نیم سرکاری فوجیوں پر حملہ کردیا ۔ کئی جوانوں کو
ہلاک کرنے کے بعد ایک کو یرغمال بھی بنالیا ۔ اس بیچارےکو چھڑانے کے لیے
بھی شاہ جی نہیں گئے ۔
کشمیر کے معاملہ میں مقننہ کے ساتھ عدلیہ نے بھی انصاف نہیں کیا۔ سپریم
کورٹ میں یہ سنگین معاملہ عرصۂ دراز سے معلق ہے۔ اس بات کا قوی امکان ہے
سرکار نے عدالت کو اس کی جانب تو جہ دینے سے روک دیا ۔ اس تالہ بندی سے
مکمل بے نیازی کے بعد اچانک حکومت وقت آج کل بیدار ہوگئی ہے۔ سوال یہ ہے
کہ اسےحالات کو معمول پر لانے کا خیال کیوں آیا؟ مودی سرکار تو اس مسئلہ
کو بھول گئی مگر خصوصی درجہ ختم کیے جانے کے بعد اقوام متحدہ کی جنرل
اسمبلی میں یہ سوال اٹھایاگیا ۔جنرل اسمبلی کے آغاز سے قبل اقومِ متحدہ کی
انسانی حقوق کی کمشنر میچل بیچیلیٹ نے جموں کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف
ورزیوں پر مذمتی بیان جاری کیا جسے حکومت ہند نے مسترد کر دیا ۔ انسانی
حقوق کی کونسل نے اس وقت جموں کشمیر اور پی او کے میں 2016 سے لے کر 2018
تک کے عرصے میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی ایک تفصیلی رپورٹ
بھی جاری کی تھی۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں پاکستان
کی طرف سے جموں و کشمیر کے تنازعے کا ذکر ضرور ہوتارہا ہے اور اس کے جواب
ہندوستان کی جانب سے کشمیر کےمتنازع ہونے کا انکاریہ کہہ کرتا رہا ہے کہ یہ
دونوں ممالک کے درمیان ایک دوطرفہ معاملہ ہے لیکن اب وہ مشکل ہوگیا ۔
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ اقوام متحدہ میں تنازعہِ کشمیر سنہ 1948 میں
مبینہ قبائلیوں کے حملے کے بعد وزیرِ اعظم جواہر لعل نہرو لے کر گئے تھے۔
اس وقت جموں و کشمیر کے مہاراجہ ہری سنگھ نے ہندوستان کے ساتھ الحاق کا
اعلان کر دیا تھا۔ اس کے بعد تقریباً 23 برسوں میں یعنی سنہ 1971 تک اقوام
متحدہ میں 17 قراردادیں منظور کی گئیں اور ان سے متعلقہ ضمنی معاملات پر
اجلاس طلب کیے گئے۔ اس کے علاوہ اقوامِ متحدہ نے دیگر طریقوں سے بھی فریقین
کے درمیان ثالثی کرانے کی کوشش کی۔اقوامِ متحدہ کے نزدیک جموں و کشمیر کو
تقسیم کرنے والی لائین آف کنٹرول کو ایک متنازعہ خط سمجھا جاتا ہے۔سنہ 1965
کی جنگ کے بعد معاہدہِ تاشقند میں اقوامِ متحدہ کو عملاً مسئلہ کشمیر سے
خارج کر دیا گیا ۔ سنہ 1972 میں شملہ معاہدہ طے پانے کے بعد ہندوستان نے
تنازعۂِ کشمیر کو مستقلاً سرد خانے میں ڈال دیا اور ہر عالمی فورم میں
پاکستان کو یہ جواب دیا گیا کہ یہ دو طرفہ معاملہ طے پاچکا ہے۔
اندرا گاندھی نے شملہ معاہدے کے بعد سے جموں و کشمیر میں تعینات اقوام
متحدہ کے فوجی مبصرین کو ہندوستان سرکار نے رپورٹ کرنا بند کردیا اور جنگ
بندی لائن کو 'لائن آف کنٹرول' کا نام دے دیا گیا جو پاکستان میں بھی
مستعمل ہے۔ اس طرح عالمی سطح یہ معاملہ بہت حد تک ہندوستان کے حق میں آگیا
تھا لیکن بی جے پی کی ناعاقبت اندیشی نے اسے پھر سے متنازع بنادیا اور
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل رکن چین کی درخواست پرکشمیر پر اجلاس
طلب کرلیا گیا۔ 5؍ اگست 2019 کو کشمیر کی خصوصی حیثیت کے ختم ہوجانے کے بعد
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا 16؍ اگست 2019 کو کشمیر کے مسئلہ پر خصوصی
اجلاس ہوا جس میں ہندوستان پر زور دیا گیا تھا کہ وہ مسئلہ کشمیر کو اقوام
متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرے ۔ اس اجلاس میں حکومت ہندنے مسئلہ
کشمیر کو ایجنڈا سے خارج کرنے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو متفقہ
قرارداد پاس کرنے سے روکنے کی بھرپور کوشش کی اس کے باوجود تقریباً 30 سال
کے بعد کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں موضوع بحث بنا
اورہندوستان کی جارحیت زیر بحث آگئی ۔
مودی سرکار کو اس کی توقع نہیں تھی کہ معمولی سیاسی فائدے کی خاطراٹھائے
جانے والے اس اقدام سے برسوں کی کامیابی پر پانی پھرجائے گا۔ بعید نہیں کہ
ہنوز اس کو اس نقصان کا اندازہ نہ ہوا ہو اس لیے کہ اسے انتخابی حساب کتاب
کے علاوہ کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ مذکورہ اجلاس کےپانچ ماہ بعد سلامتی
کونسل میں چین کی درخواست پر کشمیر کے مسئلے پر دوسرا اجلاس ہوا۔ پاکستان
کے دفتر خارجہ کے مطابق اس اجلاس میں کئی ممالک نے کشمیر کی صورتحال پر
تشویش اظہار کیا جبکہ ہندوستان نے اس دعویٰ کی تردید کی لیکن مسئلہ زیر بحث
آیا۔ اسی اثناء میں ہندوستان کو سلامتی کونسل کا غیر مستقل رکن بننے کا
موقع ملا ۔ ہندوستان اس سے پہلے بھی سات بار سلامتی کونسل کا عارضی رکن بن
چکا ہے اس لیے یہ کوئی نئی بات نہیں تھی اور اس سے کشمیر کے مسئلے پر کوئی
اثر نہیں پڑا۔تاہم پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے یہ کہہ کر اس کی
مخالفت کی کہ یو این قراردادوں کی خلاف ورزی کرنے والے ملک کو سلامتی رکن
میں رکنیت نہیں ملنی چاہیے۔ یہ موقع بھی مودی سرکار کا عطا کردہ تھا۔
(۰۰۰۰۰جاری)
|