کورونا کی وبا کے سبب تاریخ میں پہلی بار
پچھلے سال اقوام متحدہ جنرل اسمبلی کے سابق صدر تیجانی محمد بانڈے نے کہہ
دیا کہ 'عالمی رہنما اس سال نیویارک نہیں آسکتے کیونکہ وہ انفرادی طور پر
سفر نہیں کرتے۔ نہ کوئی صدر تنہا سفر کرتا ہے اور نہ ہی دیگربڑے رہنما
اکیلے سفر کرتے ہیں۔ کرونا وبا کے دوران نیو یارک میں بڑے وفود کے ساتھ
پہنچنا ناممکن ہے۔ اس لیے ہم ان (عالمی رہنماؤں) کو ذاتی طور پر نہیں بلا
سکتے جیسا کہ گذشتہ 74 سالوں سے ہو رہا تھا۔ لیکن یہ (اجلاس) ہوگا۔' اقوام
متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گتیرش نے سفارش کی کہ عالمی ادارے کی 75ویں
سالگرہ منانے کے لیے اس سال کے اجلاس کو وبا کے باعث منسوخ کر دینا
چاہیےنیز اجلاس کے دوران عالمی رہنماؤں کے ریکارڈ شدہ پیغامات چلائے جائیں۔
اس اجلاس میں نیو یارک کے اندر مقیم 193 ممبر ممالک کے صرف ایک، ایک
نمائندے کو اسمبلی ہال میں جانے کی اجازت دی جائے۔اس طرح پہلی مرتبہ ورچوئل
اجلاس ہو ا اور بعض رہنماؤں کے ریکارڈ شدہ خطاب سنائے گئےنیز تمام 193 رکن
ملکوں کے نمائندوں کی تقاریر ہوئیں۔
یہ حسن اتفاق ہے کہ 17 جون 2020 کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی صدارت
ترکی کے سفارتکار ولکان بوزکر کے حصے میں آگئی اور پاکستان کی بانچھیں کھل
گئیں اس نے اس کا فائدہ اٹھانا شروع کیا ۔ اس سال جنرل اسمبلی اجلاس سے قبل
27 مئی 2021 کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے صدر ولکان بوزکر کو پاکستان
بلا کر دوسرے سب سے اہم اعزاز ’ہلال پاکستان ‘ سے نوازہ گیا ۔ اس موقع پر
یو این جنرل اسمبلی کے صدر ولکان بوزکر نے ہندوستان اور پاکستان پر زور دیا
ہے کہ وہ جموں و کشمیر تنازع کا پرامن حل ممکن بنانے کا راستہ اختیار کریں
۔انہوں نے اسلام آباد میں واقع نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں گفتگو کرتے ہوئے
کہا کہ وہ جموں و کشمیر کی صورت حال سے آگاہ ہیں اور ان کےبقول جنوبی ایشیا
کے خطے کے امن و استحکام اور خوش حالی کا انحصار ہندوستان اور پاکستان کے
خوشگوار تعلقات پر ہے۔بوزکر نے مزید کہا کہ جموں کا کشمیر کا تنازع فلسطین
جتنا پرانا ہے اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے صدر ہونے کے ناطے وہ
ہندوستان اور پاکستان پر زور دیں گے کہ ایسی راہ اختیار کی جائے جس سےجموں
و کشمیر کے تنازع کا حل ممکن ہو سکے۔ فلسطین کے ساتھ زیادہ تر ممالک کی
ہمدردیاں پہلے سے موجود ہیں ایسے میں مسئلہ کشمیر کواس کے برابر قرار دے
دینے سے اس مسئلہ کی اہمیت میں غیر معمولی اضافہ ہوگیا ۔ انہوں نے متنازعہ
علاقے کی حیثیت میں کسی قسم کی تبدیلی سے گریز کرنے کی تلقین بھی کی ۔
وولکان بوزکر نے اپنے پاکستان کے تین روزہ دورے میں وزیر خارجہ شاہ محمود
کے ہمرا پریس کانفرنس میں یہاں تک کہہ دیا کہ مسئلہ جموں و کشمیر کو اقوام
متحدہ کے پلیٹ فارم پر مؤثر انداز میں اٹھانا پاکستان کی ذمہ داری ہے ۔ اس
کے جواب میں ہندوستانی وزارت خارجہ کے ترجمان اریندن باگچی نے ایک پریس
کانفرنس میں اپنے ردعمل میں بوزکر کے بیان کی 'شدید مخالفت کی '۔ ان کا
کہنا تھا کہ ' اقوام متحدہ میں شدت کے ساتھ (کشمیر کے مسئلہ کو)اٹھانےکی
پاکستانی ذمہ داری والا بیان ،ناقابل قبول ہے اور نہ ہی کسی اور عالمی
تنازع سے اس کو تشبیہ دی جاسکتی ہے'۔ ہندوستانی ترجمان نے کہا کہ 'جب اقوام
متحدہ کی جنرل اسمبلی کے موجودہ صدر گمراہ کن بیانات دیں تو وہ اپنے عہدے
کی اچھی خدمت نہیں کر رہے ہیں، ان کا رویہ شرم ناک تھا اور عالمی پلیٹ فارم
کے شایان شان نہیں تھا'۔ مخالفت میں لب و لہجے کی شدت سے اندازہ لگایا
جاسکتا ہے یہ بیان ہندوستانی موقف کے لیے کس قدر نقصان دہ تھا ورنہ عام طور
پر کوئی رکن اقوام متحدہ کے صدر پر ایسی تنقید نہیں کرتا۔ اس ردعمل سے
تعلقات مزید کشیدہ ہوگئے ۔
اس تنقید کے جواب میں اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹرزکے اندر ایک پریس بریفنگ
میں جنرل اسمبلی کے صدر کی نائب ترجمان ایمی کوانٹرل نے کہا کہ ولکان بوزکر
نےکہا ہےکہ جنوبی ایشیائی خطے میں امن، استحکام اور خوشحالی دونوں ممالک کے
بہتر تعلقات پر منحصر ہےاس لیے پاکستان اور ہندوستان کو رشتہ معمول پر لانے
کے لئے جموں و کشمیر کے مسئلے کا حل تلاش کرنا چاہئے۔ صدر جنرل اسمبلی نے
1972 کے شملہ معاہدے کو بھی یقینی بنانے کی تلقین جس میں دونوں ممالک کو
باہمی تعاون اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق جموں و کشمیر مسئلہ کا حل
کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔ ایمی کوانٹرل نے ہندوستانی وزارت خارجہ کے بیان پر
صدر کی مایوسی سے واقف کرایا ۔ ان کے مطابق اس بیان میں جموں و کشمیر کے
بارے میں صدر کے تبصرے کو مخصوص نظریے سے پیش کیا گیا ہے، جبکہ وہ بیان اس
مسئلے کے بارے میں اقوام متحدہ کے دیرینہ موقف کے مطابق ہیں۔کوانٹرل نے صدر
کے تاثرات کو غلط طریقہ سے پیش کئے جانے پر افسوس کا اظہار کیا۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا 76 واں اجلاس امسال ستمبر میں ہوگا ۔ اس کی
صدارت بوزکر فرمائیں گے ۔ اس بار ہندوستان کی حمایت کرنے کے لیے ڈونلڈ ٹرمپ
بھی موجود نہیں ہوں گے بلکہ جو بائیڈن اجلاس سے اپنا خطاب کریں گے ۔ امریکی
صدارتی عہدےکے امیدوار کی حیثیت سے صدر جوبائیڈن کہہ چکے ہیں کہ وہ چاہتے
ہیں ہندوستان تمام کشمیریوں کے حقوق کو بحال کرنے کےلیے ضروری قدم اٹھائے ۔
فی الحال امریکہ میں کملا ہیرس نائب صدارت کے عہدے پر براجمان ہیں ۔ انہوں
نے انتخابی مہم کے دوران کہا تھا کہ ’ہمیں کشمیریوں کو یہ یاد دلانا ہے کہ
وہ اپنی اس جدوجہد میں تنہا نہیں ہیں۔ہم حالات کا مسلسل جائزہ لے رہے ہیں
اور اگر حالات کا تقاضہ ہوا تو ہمیں مداخلت کرنے کی ضرورت ہو گی۔‘ اس حقیقت
سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ امریکی کانگریس کی ایک اور انڈین نژاد رکن
پرامیلا جے پال کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بارے میں امریکی
ایوانِ نمائندگان میں ایک قراداد پیش کرچکی ہیں ۔
ان واقعات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے اقوام متحدہ کے آئندہ اجلاس میں
کشمیر کا مسئلہ زور و شور سے اٹھے گا اور حکومت ہند کے لیے اسے داخلی
معاملہ کہہ کر دبا دینا مشکل ہوگا ۔ اسی فکر نے مودی سرکار کو خوابِ غفلت
سے بیدار کردیا اور کل تک جن رہنماوں کو گپکار گینگ کہہ کر بدنا م کیا جاتا
تھا۔ جن کو غدار وطن اور پاکستان نواز کہا جاتا تھا۔ اب وزیر اعظم کا سر
بدل چکا ہے وہ دل کی اور دلی کی دوری دور کرنا چاہتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ
دوری پیدا کس نے کی؟ کشمیر کے سارے مسائل کے لیے جن رہنماوں کو ذمہ دار
ٹھہرایا جاتا تھا ان سب کو گفت و شنید کے لیے بلانے کی وجہ عالمی برادری کو
یہ بتانا ہے کہ کشمیر کے حالات معمول پر آرہے ہیں ۔ وہاں انتخابات ہونے
جارہے ہیں۔ عوامی نمائندوں کے ہاتھوں اقتدار کی باگ ڈور سونپی جارہی ہے۔
سیاسی قیدیوں کی رہائی عمل میں آچکی ہے وغیرہ ۔ اس عالمی دباو کے علاوہ وہ
تمام دعویٰ بھی وقت کے ساتھ کھوکھلے ثابت ہوچکے ہیں جو 370 ہٹاتے وقت کیے
گئے تھے۔
کشمیر کو جنت نشان بنانے کی باتیں ایک بھیانک خواب میں تبدیل ہوچکی ہیں اور
اس نے بھی لاک ڈاون کو ان لاک کرنے پر مجبور کردیا ہے۔ یہ کہا جارہا تھا کہ
دفع 370 کے ختم ہوتے ہی تشدد کا نام و نشان مٹ جائے ۔ تشدد میں تو اب ڈرون
بھی شامل ہوگیا اور جموں ائیر بیس تک اس کی رسائی ہوچکی ہے۔ سرمایہ کے سارے
خواب چکنا چور ہوچکے ہیں ۔بی جے پی کو اب اس کا سیاسی فائدہ بھی نہیں ہورہا
ہے ۔ اس لیے ریاستی درجہ کی بحالی ، ڈومیسائل یعنی ریزرویشن اور دفع 370 کی
جگہ ملتے جلتے 371کی سہولیات دینے پر بھی آمادگی جتائی جارہی ہے یعنی کل
ملا کر مودی سرکار وہیں پہنچ گئی جہاں دو سال پہلے تھی ۔ اب اپنا منہ
چھپانے کی خاطر ریاست کی حیثیت بحال کرکے انتخاب کرانے کے بجائے حلقۂ
انتخاب کو پھر سے منظم کرنے کی پخ لگادی گئی تاکہ کچھ نہ کچھ سیاسی فائدہ
اٹھایا جاسکے ۔ ملک بھر 2026کے اندر یہ کام ہونا ہے۔ بی جے پی کو چاہیے کہ
اس وقت تک صبر کرتی لیکن اسے فکر یہ ہے کہ وادی کی 46 میں سے اسے ایک بھی
سیٹ نہیں ملے گی اور جموں کی 37سے حکومت سازی ناممکن ہوجائے گی اس لیے
علاقہ کا بہانہ بناکر جموں میں 42 نشستیں کردی جائیں اور فرق کم ہو کر 9سے
4 پر آجائے۔ گپکار نے ایک بیان میں ایوان کے اندرصوبے کی بحالی کا وعدہ
یاد دلاکر اسے دھوکہ قرار دیا ہے ۔
بی جے پی کے سامنے اصل چیلنج یہ جوڑ توڑ نہیں بلکہ اس کے خلاف جموں کے
ہندووں میں پائی جانے والی زبردست ناراضی ہے ۔ اس لیے کہ خصوصی درجہ ختم
ہونے سے ان کا بھی ریزرویشن ختم ہوگیا ۔ ڈومیسائیل سے جو فائدے مل رہے تھے
وہ چھن گئے۔ اس کے علاوہ کشمیر ی پنڈت بھی وزیر اعظم کے ذریعہ نظر انداز
کیے جانے پر اپنی تضحیک محسوس کررہے ہیں اور وہ مظاہرہ بھی کرچکے ہیں۔ اس
لیے یہ ڈھکوسلے بازی بی جے پی کے کام نہیں آئے گی ۔ سیاسی مفادات کی خاطر
بی جے پی نے صوبے کی عوام کو بے شمار پریشانیاں جھیلنے پر مجبور کیا ۔
عالمی سطح پر ملک کے ہاتھ اس سے بھی زیادہ بدنامی آئی لیکن اس کا سب سے
اہم پہلو یہ ہے کہ گزشتہ حکومتوں جس مسئلہ کو اپنی کامیاب سفارتکاری سے
دھیمے دھیمے وینٹی لیٹر پر پہنچا دیا تھا اس کو مودی سرکار نے نئی زندگی
عطا کردی ۔ اس طریقۂ کار نے ایک دم توڑتے مسئلہ میں جان ڈال دی ہے۔خدا کرے
کہ اب یہ مسئلہ کشمیری عوام کی امنگوں اورامیدوں کے مطابق حل ہوجائے ۔ ایسے
میں محمد دین فوق کا یہ شعردل کی ڈھارس بندھاتا ہے؎
عن قریب آنے کو ہے کشمیر میں بھی انقلاب
وقت استاد زماں ہے اور زمانہ پیر ہے
|