حج کی فضیلت اور اس کے احکام

شہادتین(اﷲ اور اس کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم پر ایمان لانے) کے بعد دین اسلام کے بنیادی ارکان نماز، روزہ، زکوۃ اور حج ہیں ان میں سے نماز،روزہ خالص بدنی، زکوۃ خالص مالی اور حج بدنی اور مالی عبادات کا مجموعہ ہے اس لئے کہ اس میں مال بھی خرچ ہوتا ہے اور جسمانی توانائی بھی۔
حج بیت اﷲ کی فرضیت:۔ حج پوری زندگی میں ایک مرتبہ فرض ہے اور یہ اس شخص پر فرض ہے جو اہل و عیال کے نان و نفقہ کے علاوہ اتنی رقم رکھتا ہو جس سے بآسانی فریضہ حج ادا کرسکے اور جو ایک مرتبہ فرض حج کر لے اس پر پوری زندگی میں دوبارہ حج فرض نہیں۔ترجمہ آیت:۔ لوگوں میں سے ان کے ذمہ لازم ہے جو یہاں پہنچنے کی طاقت رکھتے ہیں کہ وہ اﷲ کی رضا کی خاطر اس بیت اﷲ کا حج کریں اور جنہوں نے کفر کیا اﷲ ان سے بے نیاز ہے(آل عمران) اس آیت میں اﷲ رب العزت نے حج نا کرنے کو کفر سے تعبیر فرمایا۔ اس کی مزید وضاحت آپﷺ کے اس ارشاد سے ہوتی ہے فرمایا جس شخص کو حج کرنے سے نا فقر وفاقہ مانع تھا نا ظالم حکمران،نا کوئی رکاوٹ بننے والی بیماری، اس کے باوجود وہ حج کیے بغیر مر گیا تو اﷲ تعالی کو اس کی کوئی پرواہ نہیں چاہے وہ یہودی ہوکر مرے چاہے نصرانی ہوکر مرے۔حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جو لوگ قدرت رکھنے کے باوجود حج نہیں کرتے میرا دل چاہتا ہے کہ ان پر جِزیہ لگادو وہ مسلمان نہیں ہیں، وہ مسلمان نہیں ہیں ۔ ایک اور روایت میں فرضیت حج سے متعلق صراحت موجود ہے،چنانچہ ایک مجلس میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے حج کی فرضیت کا مسئلہ بتایا تو مجلس میں بیٹھے ایک صحابی اقرع بن حابس نے عرض کیا یا رسول اﷲ کیا حج ایک ہی مرتبہ فرض ہے یا ہر سال فرض ہے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم خاموش رہے دوسری مرتبہ اور پھر تیسری مرتبہ یہی سوال دوہرایا، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر میں یہ کہہ دیتا کہ ہر سال فرض ہے تو ہر سال فرض ہو جاتا ہے،لیکن پھر تمہارے لئے ادا کرنا مشکل ہوجاتا، پھر فرمایا کہ صرف ایک مرتبہ فرض ہے۔

قرآن مجید کی آیت مبارکہ اور رسول اﷲ کے فرامین کی روشنی میں یہ بات اظہر من الشمس ہوجاتی ہے کہ حج کا فریضہ ایسا نہیں کہ چاہیں تو کر لیں،چاہیں تو چھوڑ دیں، البتہ فرض حج کی چند شرائط ہیں جو ذیل میں بیان کی جائیں گی۔

حج بیت اﷲ کی فضیلت اور مقصد:۔ حج دین اسلام کا وہ عظیم الشان رکن ہے جس کے ہر ہر پہلو سے عشق خداوندی اور محبت ایزدی کا اظہار ہوتا ہے، حج سیر و تفریح نہیں بلکہ محبت الہی کا مظہر ہے حاجی احرام باندھ کر بزبان حال اعلان کر رہا ہوتا ہے کہ اب وہ دنیاوی تعلقات سے آزاد ہوکر اپنے محبوب حقیقی سے وصال کے لیے رخت سفر باندھ چکا ہے،اس کی زبان پر بس ایک ہی صدا ہے لبیک اﷲم لبیک اﷲ (اے اﷲ تیرا بندہ حاضر ہے)دیوانہ وار بیت اﷲ کا طواف کرتے ہوئے اپنے جذبہ عشق کو سکون پہنچاتا ہے اور صفا،مروہ میں عشق وسرور سے بھرپور سعی کر کے خالق حقیقی سے محبت کا ثبوت دیتا ہے، یہی عشق اور محبت اسے عرفات و مزدلفہ کی وادیوں میں لے جاتا ہے آخر میں قربانی کا خون بہا کراپنی جان کا نذرانہ محبوب کی بارگاہ میں پیش کرتاہے،مختصر یہ کہ سفر حج کا ہر لحظہ ولمحہ عشق و محبت کا آئینہ دار اور سچی محبت کا مظاہر ہوتا ہے اسی لئے اس پرکٹھن جانی و مالی عبادت کے فضائل بھی عظیم الشان ہیں۔

ایک حدیث میں ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ حج مبرور کا بدلہ جنت کے سوا کچھ نہیں (مشکوٰۃ) ایک دوسری روایت میں ہے کہ جو شخص حج کرے اور اس میں بے حیائی وغیرہ نہ کرے تو وہ حج کرکے اس طرح لوٹے گا گویا وہ آج ہی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہے۔(مشکوۃ)
فرضیت حج کی شرائط۔
1.مسلمان ہونا
2.آزاد ہونا
3.عاقل ہونا
4.صاحب استطاعت ہونا،

اسی طرح ادائیگی حج کی بھی کچھ شرائط ہیں جن کے پائے جانے کی صورت میں مکلف پر بذات خود حج کرنا لازم ہوتا ہے وہ اپنی جگہ کسی اور کو حج نہیں کروا سکتا۔
1.صحت مند ہونا
2.راستے کا پرامن ہونا۔

لیکن اگر کوئی مسلمان جس پر حج فرض ہو چکا ہو صحت کی خرابی یا سفر کے مسائل کی بنا پر خود نہیں کرسکتا تو حج بدل کرواسکتا ہے۔

حج بدل۔
کسی دوسرے کو اپنے خرچ پے اپنا نائب بنا کر حج کروانا حج بدل کہلاتا ہے۔

حج اکبر اور حج اصغر کی اصطلاح۔
شریعت مطہرہ میں عمرہ کو حج اصغر اور حج کو حج اکبر کہا گیا ہے،حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکر نے مجھے ان لوگوں کے ساتھ روانہ کیا جو منیٰ میں مناسک حج کا اعلان کر رہے تھے اور وہ کہہ رہے تھے کہ حج اکبر قربانی والے دن کا نام ہے (الترغیب)

حج کی اقسام اور ان کی تعریف۔
حج کی تین قسمیں ہیں1۔حج افراد یعنی صرف حج کے لئے احرام باندھنا اور اسی سال عمرہ نہ کرنا، امام شافعی رحمہ اﷲ کے نزدیک یہ افضل ہے۔
2.حج قرآن ایک احرام کے ساتھ حج اور عمرہ دونوں کی نیت کرنا اور پھر احرام باندھ کر پہلے عمرہ پھر حج کرنا۔یہ امام ابو حنیفہ رحمہ اﷲ کے نزدیک افضل ہے۔
3.حج تمتع الگ الگ احرام کے ساتھ حج اور عمرہ کی نیت کرنا یعنی پہلے مناسک عمرہ ادا کر کے احرام کھول دینااور اسی سال حج کا احرام باندھنا اور حج ادا کرنا۔

سفر حج کی روح اور مقصد منکرات و فواحش سے کلی طور پر اجتناب کرنا ہے حتیٰ کے اس سفر میں بعض ایسے امور بھی ناجائز قرار دے دیے گئے ہیں جو عام حالات میں جائز ہیں مثلا زیب و زینت اختیار کرنا بیوی کے قریب جانا اور احرام سے نکلنا خوشبو وغیرہ کا استعمال کرنا،لیکن موجودہ زمانے میں جہاں دیگر عبادات میں تکلفات و رسومات نے جگہ پکڑ لی ہے وہیں حج جیسا فریضہ بھی رسومات سے محفوظ نہ رہا،ریاکاری،شہرت،اسراف اور احکامات حج سیکھنے کی بجائے دعوتوں کا اہتمام کرنا،ایک ایک حاجی کو پور ے خاندان کا الوداع اور وصول کرنے جانا ودیگر اس طرح کی بے شمار رسمیں جن کا سفر حج سے دور کا بھی کوئی تعلق نہیں،لازم ہوتی جا رہی ہیں۔ گویا کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی پیشن گوئیاں پوری ہوتی جا رہی ہیں فرمایا: آخری زمانے میں چار طرح کے لوگ حج کریں گے بادشاہ تفریح کے لیے،امرا تجارت کی غرض سے اور فقرا بھیک مانگنے کے لیے اور علماء شہرت کی طلب کے لیے (احیاء العلوم) اور بعض لوگ ادائیگی حج کے دوران بھی جائز و ناجائز کی طرف دھیان نہیں دیتے ویڈیوز،تصاویر کا بنانا اور حجر اسود پر دھکم پیل کا ہونا وغیرہ یہ وہ حرکتیں ہیں جو حج کی روح کے منافی ہیں ۔امام غزالی رحمہ اﷲ نے لکھا ہے کہ حج مبرور اور مقبول کی نشانی یہ ہے کہ حاجی دنیا سے بے رغبت آخرت کی یاد میں مستغرق اور دوبارہ زیارت حرمین شریفین کا شوق لے کر لوٹے،اگر یہ جذبات نہیں ہیں تو سمجھ لیں کہ اس کا حج مقبول نہیں ہے۔
 
Muhammad Amjad Banori
About the Author: Muhammad Amjad Banori Read More Articles by Muhammad Amjad Banori: 5 Articles with 4441 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.