ثریا شاہد لاہور، پاکستان
ہماری ہر دلعزیز، سب کی پیاری اردو آج دنیا میں صف اول کی زبانوں کے بیچ
کھڑی ہے۔ اسے یہ مقام اردو کے عظیم محسنین کی خدمات کے نتیجے میں حاصل ہوا۔
شاہجہانی دور سے لیکر آج تک بڑے بڑے چغادری علماء، تاریخ دان، ناول نگار،
ادیب، شاعروصحافی گلشنِ اردو کی آبیاری میں اپنا حصہ ڈالتے رہے۔ یہ زبان
برصغیر کی گنگا جمنی تہذیب میں بسنے والے لوگوں کے دلوں میں اپنا گھر بناتی
رہی۔ رابطوں کی خداداد قوت کی وجہ سے اس کا دامن وسیع تر ہوتا چلا گیا۔ یہ
تہذیب و روایات سے جڑے لطیف جذبات اور نرم و گداز لہجوں سے آراستہ ہوتی چلی
گئی۔ اس کے دامن میں خوشبو کی طرح پھیلی ہوئی اصناف، خصوصاً غزل نے اسکی
دلفریبیوں میں چار چاند لگا دئیے۔ اس کی ہیئت نے ایک ایسی اوڑھنی اوڑھ لی
جس میں تاریخ و تمدن کی گلکاریاں ایک علامت بن کر سامنے آئیں۔ مشق سخن جاری
رہی، نامساعد حالات اور زمانے کے نشیب و فراز کے باوجود ادیب، شعراء اور
نقاد اس کی نوک پلک سنوارنے میں مصروف رہے۔ گزرتے ہوئے وقت کے ساتھ یہ زبان
ایک مستعد اور فرض شناس سفیر کی طرح سرحدوں کے پار اپنی ذمہ داریاں نبھاتی
اور اپنی کشش بڑھاتی رہی۔ اس کی سحر انگیزی نے نئی اور پرانی دور افتادہ
نسلوں کو اپنے حصار میں لے لیا۔ آج پوری دنیا میں اردو بولنے، پڑھنے اور
سمجھنے والے اس کی محبت کی گواہیاں دیتے نہیں تھکتے۔ انٹرنیٹ کا زمانہ آیا
تو ترقی یافتہ اقوام نے اس سے بھر پور فوائد حاصل کرنے کا بیڑہ اٹھا لیا۔
زمانے بھر کے مضامین اس کے مرہونِ منت ہو گئے۔ یہاں اس بات کا خدشہ پیدا ہو
گیا کہ اردو زبان اگر آئی۔ ٹی کی نئی جہتوں سے استفادہ حاصل نہ کر پائی تو
کیا ہوگا ؟ خدشات کے اس جنگل میں ایک شخص تن تنہا سرگرداں تھا۔ اس کے دل
میں یہ خیال گردش کر رہا تھا کہ اردو ادب کو زمانے کی چال سکھلانا ہوگی۔
صحافیوں، لکھاریوں، ادباء اور شعراء کے مسائل کے حل کے لئے بھی از خود
اقدامات کرنا ہوں گے۔ سماجی دباؤ اور کٹھنائیوں سے پرے رکھنے کیلئے حفظ
ماتقدم کے طور پر توانائی سے بھر پور ٹانک پلانا ہوگا۔ معلوم ہوا کہ اردو
کے غم میں ہلکان ہونے والی یہ شخصیت مشتاق در بھنگوی صاحب کی ہے۔ انہوں نے
اخبار مشرق کے دفتر میں بیٹھ کر اپنے اچھوتے خیال کو عملی جامہ پہنانے کے
لئے ایک پروگرام مرتب کیا اوپوری دنیا میں اردو سے دلچسپی رکھنے والے لوگوں
کو ’’گوش بر آواز‘‘ کے مرکز سے وابستہ کردیا۔ اس میں میں بھی شامل تھی جو
’’گوش بر آواز‘‘ کے جھنڈے تلے کھڑی یہ صدا لگا رہی تھی کہ :
اک ذرا آواز دی تھی آپ نے
دیکھئے ناں! سب اکٹھے ہوگئے !
دربھنگوی صاحب نے تمام آنے والوں کو بڑی گرم جوشی سے لبیک کہا۔ میں نے بھی
سب سے پہلے اس دستور کو پڑھنے اور سمجھنے کی کوشش کی جو شاید اردو زبان کی
ترویج و ترقی کی خاطر پرخلوص جذبوں کے ساتھ ان کے ذہن کی تختی پر لکھا گیا
ہوگا۔ ذرا کھنگالا تواس دستور کا متن مجھے کچھ اس طرح نظر آیا’’ برصغیرکی
تہذیب اور اردو زبان کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ اردو ادب اور شاعری یہاں کے
کلچر کے تحفظ کے ضامن ہیں، اس کے دامن کو وسیع تر کیا جائے گا۔‘‘ انٹر نیٹ
کی نئی جہتوں سے فائدہ اٹھانے کی بھرپور کوشش کی جائے گی۔ تمام نئے اور
پرانے شعراء اور ادباء کو پُرسکون ماحول میں طبع آزمائی کا موقع فراہم کیا
جائے گا اور سرپرستی کی جائے گی۔
اردو ادب کی تاجوری جو ہمیشہ غزل کے حصے میں آئی ہے، اسے نہ صرف اس کے صحیح
منصب پر بر قرار رکھنے کی کوشش جاری رکھی جائے گی بلکہ اس کے تاج میں جڑے
نگینوں کی چمک میں مزید اضافہ بھی کیا جائے گا۔ اس بات سے تو سب ہی واقف
ہیں کہ ابتدا میں ہی تین ہزار تین سو تینتالیس(3,690) شعراء اور شاعرات نے
منتخب ہوکر اردو کے ساتھ شدید محبت کا اظہار کر دیا تھا اور جلد ہی ان کے
مداحوں کی تہنیتوں کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا تھا۔ ان تہنیتوں میں مشتاق در
بھنگوی صاحب کی شخصیت اور انتھک کاوشوں کے بارے میں کسی حد تک معلومات حاصل
ہوئیں۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ اُن کا معیار بلند تھا۔ اُن کی
کثرت کو دیکھ کر جناب ڈاکٹر مجتبیٰ احمد صاحب نے ایک مخلص دوست کی طرح ایک
خدشہ ظاہر کیا کہ ’’گوش بر آواز کی مقبولیت نے انہیں گلہائے عقیدت میں اتنا
دبا دیا ہے کہ اُن کی دوسری کاوشیں پہلی بیگم کی طرح عقب میں چلی گئیں لیکن
یہ حقیقت ہے کہ اُن کی زیادہ تر مرتب کردہ کتابیں، موضوع اور مواد کے
اعتبار سے اہلِ دل اور اہلِ نظر کے ماتھے کا جھومر ہیں۔‘‘ اُن کی اس بات
میں وزن تھا مگر مشکل یہ آن پڑی کہ تہنیت والوں کی تحریریں عقیدت کی چاشنی
میں ڈوبی ہوئی تھیں اور معیار میں بھی اعلیٰ تھیں۔ وہ مجھے بار بار دعوتِ
فکر دیتی رہیں۔ ان شعراء اور شاعرات نے ایک معصومانہ اور خوبصورت ماحول
پیدا کر دیا اور سب لوگ آہستہ آہستہ اس کا حصہ بنتے گئے۔ میں نے بھی اردو
ادب اور شاعری میں اُن کی عرق ریزی کو بنیاد بنا کر چند باتیں لکھیں، جس کو
ڈاکٹر مجتبیٰ احمد صاحب نے انتہائے تہنیت کا نام دیا۔ ہندستان، پاکستان اور
دیگر علاقوں سے تہنیتوں کا سلسلہ جاری رہا اور میری یادداشت کے مطابق مغربی
بنگال بازی لے گیا۔ میری ناچیز رائے میں عوامی جذبے کے اظہار کا راستہ کھلا
رکھنے میں کوئی حرج نہیں۔ ڈاکٹر صاحب کی بات پر توجہ دینا بھی از بس ضروری
ہے۔ اُن کی بات میں وزن ہے۔ اس وقت کسی تساہل یا غلطی کی کوئی گنجائش نہیں۔
ہاں، میری چھٹی حس یہ ضرور کہہ رہی ہے کہ ممکن ہے مستقبل میں، جلد یا بدیر
یہ تہنیتیں غالب کے خطوط کی طرح اردو کے کسی نصاب کا حصہ یا پھر لائبریریوں
کی زینت بن جائیں۔
جب گوش بر آواز کی ڈائرکٹری سامنے آئی تو قبیلے والوں کو جیسے قرار سا آ
گیا۔ وہ ایک ہی جست میں اپنی دنیا، اپنی جنت میں داخل ہو گئے۔ جب میں نے
مشتاق دربھنگوی صاحب کی تصانیف دیکھیں تو مجھ پر درج ذیل باتیں منکشف ہوئیں
جو مختصراً تحریر کر رہی ہوں ۔
وہ ایک مہان قلمکار ہیں۔ کچھ صحافتی تجربے نے بھی اُن کے ہاتھ میں کرامت
پیدا کر دی ہے۔ وہ زیر بحث موضوع پر جو رائے رکھتے ہیں، اپنے قاری کے ذہن
میں نقش کر دیتے ہیں۔ موضوع کوئی بھی ہو، وہ کبھی شائستگی، نفاست اور
احترام کا دامن نہیں چھوڑتے۔ ایسے ہی ادیبوں کے شہپارے ہوتے ہیں، جن کے زعم
پر ہم کہہ اٹھتے ہیں کہ اردو ادب میں تہذیب کا پلڑا بھاری ہے۔ اُن کے قلم
کی دھار تیز ہے۔ الفاظ کی ترتیب قابلِ رشک ہے۔ اُن کی غزل پر کچھ تحریر
کرنا میرے بس کی بات نہیں مگر مضمون کو مکمل کرنے کیلئے اس سے پہلو تہی
ممکن نہیں۔ غزل اُن کی پسندیدہ صنف ہے جسے وہ بڑے چاؤ اور دلبستگی سے تحریر
کرتے ہیں۔ یہ سادگی اور پُرکاری کا اعلیٰ نمونہ ہیں۔ غزل کا قاری، غیر
محسوس طریقے سے یہ سمجھ لینے میں دیر نہیں کرتا کہ وہ روایتی غزل کی دنیا
میں بڑی مضبوطی سے قدم جمائے ہوئے ہیں۔ اُنہیں وہاں سے ہلانا ممکن نہیں۔ وہ
ان شعراء کی صف کے مجاہد ہیں جنہوں نے غزل کو اس کے اعلیٰ منصب پر فائز
رکھنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور اس کی روایتی شان میں کوئی فرق نہیں آنے
دیا۔ الفاظ کے تکلفات کے پیچھے ایک درد پنہاں ہے جو سادگی کے پردے میں رہنے
کے باوجود کہیں نہ کہیں اپنا اثر دکھا ہی جاتا ہے۔
پرکھوں کی تہذیب و روایات کی یاد کسی لمحے اُن کی جان نہیں چھوڑتی۔ وہ
فخریہ طور پر ان سے جڑے رہنا چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کہیں کہیں انکے یہاں
واقعاتی شاعری کا نمونہ بھی دکھائی دے جاتا ہے۔ اُن کا ماننا ہے کہ برصغیر
میں پنپنے والی یہ زبان جن لوازمات سے آراستہ ہے، وہ بڑے توانا ہیں۔ اردو
کے پروں میں پرواز کی بڑی قوت ہے جو ایک جوش بن کر سب کے دلوں کو گرما رہی
ہے۔ وہ کسی بھی طور پر اردو زبان و ادب سے وابستہ اس گلشن کی آبیاری جاری
رکھنا چاہتے ہیں۔ ہزارہا افراد عموماً اور تین ہزار تین سو تینتالیس (3343)
منتخب شعراء خصوصاً، اُن کی طرف کھنچے چلے آئے۔ شاید اس کی وجہ یہی ہے کہ
یہاں افراد کے احترام کا خاص خیال رکھا گیا ہے۔ یہ وہی رکھ رکھاؤ ہے، جس کی
گواہی اردو زبان و ادب کی تاریخ دیتی آئی ہے۔ مجھے یوں لگا کہ وہ اپنے مکتب
کے جھنڈے تلے اس عزت و تکریم کی روایت کو بڑھاوا دینا چاہتے ہیں۔
وہ جدید معاشرے میں اخلاق و آداب کی بگڑی ہوئی صورتحال سے نالاں ہیں۔ وہ
شکوہ کرتے دکھائی دیتے ہیں اور اصلاح احوال کی خواہش بھی رکھتے ہیں جس کے
لئے بزرگوں کے احترام کو بنیاد بناتے ہیں۔ وہ نوجوانوں کیلئے امن و آشتی کی
فضا کو دائمی بنانے کیلئے ایک ایسا زاویہ ترتیب دینا چاہتے ہیں کہ نفرت اور
خجالت کا کوئی میدانِ کارزار اس کا حلیہ نہ بگاڑ سکے۔ وہ دنیا کو جنگ و جدل
سے پاک ’’امن کی ٹھنڈی چھاؤں‘‘ میں ہنستا بستا دیکھنا چاہتے ہیں۔ خاص طور
پر اپنے خطے میں امن کی بحالی کی شدید خواہش اُن کے دل میں کروٹ لیتی ہے۔
وہ احترامِ انسانیت کے قائل ہیں۔ اس کا پرچار کرنے کیلئے اپنے آپ کو ہمہ
وقت چاق و چوبند رکھتے ہیں۔
وہ انسانی معاشروں میں رچ بس جانے والی تلخی، نفرت، کدورت، عدم مساوات،
معاشی خلجان جیسی بیماریوں پر بہت دکھی ہوتے ہیں۔ اپنے ارد گرد کے ماحول
میں بحران آدمیت کو دیکھ کر نہایت کبیدہ خاطر دکھائی دیتے ہیں۔ وہ اصل حیات
کی تلاش میں سرگرداں ہیں اور انہوں نے شاید کسی حد تک اپنے مقصد کو پا بھی
لیا ہے۔ تب ہی تو، غم کے ایام ہوں یا خوشی کے دن، وہ ایک مشہور اور ہر
دلعزیز شخصیت ہونے کے باوجود کسی درآمد شدہ نظریئے یا ازم کے بینر تلے کھڑے
ہونے کی کوشش نہیں کرتے۔ وہ معراجِ انسانیت کے اسی نظریئے، اسی ضابطے پر
کھڑے ہیں جو اﷲ اور اس کے رسول (صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم) کی جانب سے عنایت
کیا گیا ہے۔
وہ ڈائیرکٹری کے آغاز پر اپنے آپ کو خدائے لم یزل کے حضور پیش کرتے ہیں۔
اُن کی تحریر کردہ حمد باری تعالیٰ، نعت رسول مقبول(صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم)
اور منقبت جو بڑی عاجزی اور متانت سے تحریر کی گئیں، قابلِ تحسین ہیں۔ اس
کے پس منظر میں ایک درد مند صاحبِ ایمان کے دل کی تڑپ محسوس کی جا سکتی ہے۔
آپ اﷲ اور رسول (صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم) کی محبت کو بڑے خوبصورت انداز میں
ضبط تحریر میں لاتے ہیں۔ حمد، نعت اور منقبت کی صورت میں لکھے گئے اشعار نے
دل پر بہت گہرا اثر چھوڑا ہے۔ انہیں پڑھ کر میرے جیسے گناہگار قاری کی بھی
آنکھیں تر ہو جاتی ہیں۔ دعا کرتی ہوں کہ اﷲ رب العزت انہیں کار خیر کی
برکتوں سے نوازے۔ اُنہیں کلمۂ حق کی قوت کا بڑا مان ہے۔ وہ جمہور کی بقاء
کی خاطر دنیا کی سب سے عظیم اور معتبر قربانی پر تسلیم و رضا کے منظر کو
بڑی سچائی کے ساتھ دنیا کے سامنے لاتے ہیں۔ حیات انسانی کے فلسفے کو پیش
کرتے وقت سمندر کو کوزے میں بند کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہاں ایک آہِ
سحرکاری کی صدا صاف سنائی دے رہی ہے۔ یہی وہ درد ہے جو ان کے اشعار کا خاصہ
ہیں۔ اس تحریر نے بہت رلایا ہے۔ یہ آنسو ہماری زندگی کا سرمایہ ہیں۔ تمام
اشعار اس بات کی غمازی کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ صاحب تحریر، معرفت کے زیرِ
سایہ فقیری میں زندہ رہنا چاہتے ہیں۔ زندگی کی آسائشیں اور خواہشات اُن کی
نظریاتی زندگی میں مخل نہیں ہوتیں۔
بر صغیر کی خواتین نے سماجی، تہذیبی، اخلاقی اور معاشی ذمہ داریوں سے عہدہ
برآ ہونے کی کماحقہٗ کاوشیں جاری رکھی ہیں۔ اردو ادب میں بعض خواتین نے
کارہائے نمایاں بھی انجام دیئے ہیں۔ ہمارے یہاں بیشتر خواتین کسی ایسے چھپر
کی تلاش میں سرگرداں نظر آتی ہیں جہاں یکسوئی اور اعتماد کی فضاء میں اپنے
آپ کو کارآمد بنا سکیں۔ شعراء اور شاعرات کی ڈائرکٹری میں خواتین کی قابلِ
قبول نفری کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کسی ایسے مرکز کو منتخب کرنے
کیلئے گویا پہلے سے تیار بیٹھی تھیں۔ جب اُن کو یہاں پُر تپاک انداز میں
لبیک کہا گیا تو اُنہوں نے گویا طمانیت کا سانس لیا۔
عزت و تکریم کی فضا اُن کی کارکردگی کو بہتر بنانے میں ممد و معاون ثابت ہو
سکتی ہے۔ امید کرتی ہوں کہ خواتین لکھاریوں کے لئے ’’گوش بر آواز‘‘ ایک
بہترین مرکز ثابت ہو گا۔ عین ممکن ہے کہ اس کھلے ڈلے اور حوصلہ پرور ماحول
میں وہ بڑے بڑے شاہکاروں کو جنم دے پائیں اور سب بول اٹھیں ’’واہ کیا بات
ہے ! کیا خوب مردم شناسی ہے مشتاقؔ در بھنگوی صاحب !!‘‘
|