انسانی سمگلنگ ایک مکروہ دھندہ اس کے سدباب کیلئے سخت اقدامات کی ضرورت ہے

تین دن قبل فارغ اوقات میں انٹرنیٹ چیٹنگ کے دوران یونان میں مقیم ایک پاکستانی نوجوان سے رابطہ ہوا ۔ شعبہ صحافت سے وابستگی کاعلم ہونے پر وہ بے چارہ میری منت سماجت کرنے لگاکہ میں انسانی سمگلنگ کے موضوع پر کچھ لکھوں۔ اس موضوع پر ا س نے کافی ساری معلومات مجھے بہم پہنچائیں۔دیارغیرمیں مشکلات کے شکار پاکستانی کی کہانی سن کر مجھے اس موضوع پر لکھنے کی ضرورت محسوس ہوئی اورمیں نے مزید معلومات اکٹھی کرنی شروع کیں۔اسی دوران اس موضوع پرایک تازہ خبر پڑھنے کوملی جس کی وجہ سے میرا ارادہ فوری طور پر اس موضوع پرکچھ لکھنے کابنا۔تواس سلسلے میں چند ایک گزارشات پیش خدمت ہیں۔اپنی بات شروع کرنے سے پہلے میںیہ عرض کرناضروری سمجھتاہوں کہ یہ ایساموضوع ہے کہ جس کے متعلق میرے لیے قابل احترام مجھ سے سینئر کالم نگار بھی کچھ نہ کچھ معلومات رکھتے ہوں گے،ان سے گزارش ہے کہ ازراہ ِکرم وہ بھی اس موضوع کی اہمیت کے پیش نظر اس معاملہ پر کچھ نہ کچھ ضرورلکھیں ،تاکہ یہ مسئلہ حکام بالااور متعلقہ تمام فریقین کی توجہ حاصل کرنے کے بعد اپنے حل کی طرف پیش قدمی کرسکے ۔مجھے امید ہے کہ اگر دوچار سینئر صحافیوں نے اس بارے کچھ لکھ دیاتویقینا یہ مسئلہ کافی حد تک حل ہوجائے گا ۔کیونکہ میرے خیال کے مطابق عوامی مسائل کاحل ہی صحافت کی اصل روح ہے۔اورشعبہ صحافت سے وابستہ افراد کو عوامی مسائل کے حل کیلئے کچھ زیادہ تگ ودو نہیں کرناپڑتی ۔بلکہ صرف اورصرف قلم کادرست استعمال ہی کافی رہتاہے بشرطیکہ کوئی ایساکرے تو!

عبدالقدیر خان زدران کے بقول ایجنٹ حضرات لوگوں کو یورپ میں روزگار کے سلسلے میں کامیابی کی ایسی تصویر دکھاتے ہیں کہ جس میں ہر طرف سبزہ ہی سبزہ دکھائی دیتاہے۔لوگوں کے ذہنوں میں ”یورپ ایک سونے کی چڑیا “کے طور پر خوب اچھی باور کرانے میں کامیابی کے بعد وہ یورپ کیلئے بکنگ شروع کردیتے ہیں ۔جب ایک آدمی بکنگ کرواتاہے تواسے کہاجاتاہے کہ یورپ جانے والوں کاگروپ تشکیل دیاجائے گا جس کے بعد روانگی ممکن ہوگی۔یورپ جانے کے شوقین حضرات اپنے شوق کوپوراکرنے یاروزگار کی غرض سے جانے والے افراد جو بکنگ کے نام پر لاکھوں روپے ایجنٹ حضرات کودے چکے ہوتے ہیں اپنے مقصد کی جلد سے جلد تکمیل کیلئے اس ایجنٹ کیلئے مزید لوگوں کوبھرتی کرناشروع کردیتے ہیں تاکہ ان کی یورپ روانگی جلد ممکن ہوسکے۔اس طرح سادہ لوح افراد اپنی ہی طرح کے مزید سادہ لوح لوگوں کویورپ کی افادیت بتابتاکریورپ جانے کیلئے تیار کرنے لگ جاتے ہیں ۔جس میں ان بے چاروں کامقصد صرف اورصرف یہ ہوتاہے کہ گروپ جلد سے جلد تشکیل پائے تاکہ وہ اپنے سنہرے خوابوں کی تعبیر پاسکیں۔اوراس طرح سادہ لوگ بغیر کسی دیگر مفاد کے ایجنٹ کیلئے کام کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ایجنٹ بڑے ماہرانہ انداز میں لوگوں کواعتماد میں لیتاہے کہ کسی کو شک شبہ بھی نہیں گزرتاکہ ان کے ساتھ کیاہونے والاہے ۔چالیس پچاس افراد کی بکنگ کرنے اوران سے مجموعی طور پرکروڑوں روپے بٹورنے کے بعدان کے پاسپورٹ جمع کرلےے جاتے ہیں ۔اوریوں ایک قافلہ کی شکل میں یورپ جانے کے خواہش مند افراد پاکستانی بلوچستان کے راستے ایرانی بارڈر پر پہنچادےے جاتے ہیں۔یہاں سے پاکستانی ایجنٹ فارغ ہوجاتاہے۔اوروہ لوگوں کو اگلے ایجنٹ کے حوالے کردیتاہے ۔یہاں سے یورپ جانے کے خواہش مند افراد کامشکلوں کاسفر شروع ہوجاتاہے ۔

عبدالقدیر خان زدران کے بقول ایران میں ان مسافروں کے ساتھ جانوروں جیسا سلوک ہوتاہے ۔ایرانی ایجنٹ ان مسافروں کے ساتھ جورویہ روارکھتے ہیں وہ ناقابل بیان ہے ۔کھانے پینے کی تنگی توبہرحال ہوتی ہی ہے اس کے علاوہ بتایاگیاہے کہ دس افراد کی گنجائش والی ایک ایک گاڑی میں چالیس سے لے کر پچاس افراد تک ٹھونس دیے جاتے ہیں ۔بڑی مشکلوں سے یہ سفر جاری رہتاہے ۔کچھ لوگ توایرانی سرزمین پر ہی اپنی خواہش سے توبہ کرتے ہوئے واپس جانے کی خواہش کرتے ہیں جس کے نتیجے میں پکڑے جاتے ہیں۔اگر ایرانی پولیس اوربارڈر سیکورٹی فورسز گرفتار کرلیں توجسمانی تشدد کے ساتھ ساتھ جیل میں قید رکھنے کے بعد واپس پاکستان بھیج دیاجاتاہے۔اوراگر ایرانی پولیس اوربارڈر سیکورٹی فورس سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوجائیں تو اس سے اگلامرحلہ ترکی کی سرحد پر درپیش ہوتاہے۔بھوک پیاس کے مارے یہ مسافر جب ترکی پہنچتے ہیں توان کی حالت انتہائی ناگفتہ بہ ہوتی ہے ۔ترکی پہنچنے والے افراد میں سے اکثر لوگ کرد قوم کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں ۔بقول عبدالقدیر زردان کے کرد قوم انتہائی ظالم واقع ہوئی ہے ۔وہ پکڑے جانے والے افراد کے ساتھ جانورں سے بھی بدترسلوک روارکھتے ہیں۔اوربعض اوقات ان کے اہل خانہ کوفون کیے جاتے ہیں کہ اگراپنے بیٹوں کوزندہ سلامت دیکھناچاہتے ہوتو اتنے پیسے بھجوادواوررقم بھجوا کر اپنے بیٹوں کوواپس لے جاﺅ یاپھر نتائج بھگتنے کیلئے تیاررہو۔اوراگر کردوں سے بھی بچ کر آگے یورپ جانے میں کامیابی ہوجائے توپھرخوش قسمت لوگ یونان پہنچ جاتے ہیں۔یونان پہنچنے تک پاکستانی مسافروں کی حالت ناقابل بیان ہوجاتی ہے۔ان کی تکالیف کوالفاظ میں بیان نہیں کیاجاسکتا۔یہاں پہنچ کر میرے چیٹ فرینڈ نے اللہ کی قسم کھاکربتایاکہ یونان تک پہنچنے میں جن تکالیف کاسامناکرناپڑتاہے وہ یونان پہنچ کر دوچند ہوجاتی ہیں کیونکہ یہاں مزدوری اورروزگار نہیں ملتا۔بعض اوقات دودوماہ کی جیل کے بعد ایک ماہ کارہائشی ویزہ دیاجاتاہے۔اس کے بقول یونان اگرچہ یورپ کاملک ہے مگر وہاں پر یورپ والاکوئی قانون نہیں ان کے اپنے قوانین ہیں جن کے باعث یونان میںرہناکوئی آسان کام نہیں ۔اوراگرکوئی پاکستانی مسافر وہاں سے آگے جاناچاہے تووہاں کے ایجنٹ بھی پاکستانی ایجنٹوں کی طرح اچھی خاصی رقم کامطالبہ کرتے ہیں جو ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہوتی ۔اوراگرکوئی یونان سے ڈی پورٹ ہوناچاہے اس کیلئے اسے دوسال تک جیل کاٹناپڑتی ہے ۔تب جاکر واپسی ممکن ہوتی ہے۔

یہ توتھی ایک مشکل راستوں کے راہی پاکستانی مسافر کی کہانی ۔جواس نے مجھے سنائی اورمیں نے کافی سارے الفاظ ہذف کرکے اپنے انداز بیان کے ساتھ بیان کردی وگرنہ اس کے الفاظ کو من وعن نقل کرنے کی کوشش کرتاتوشاید اخبار شائع کرنے سے معذرت کرلیتا۔اس سے ثابت ہوتاہے کہ انسانی سمگلنگ کتناخطرناک کام ہے جس میں کئی افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔آئے روز ہم اخبارات میں پڑھتے ہی رہتے ہیں کہ فلاں صحرا میں کنٹینر میں دم گھٹنے سے اتنے افراد ہلاک یابارڈر سیکورٹی فورسز نے غیر قانونی طور پر سرحد کراسنگ کے جرم میں اتنے افراد گرفتارکرلئے ،وغیرہ وغیرہ۔

اب دیکھنایہ ہے کہ اس ساری کاروائی کاذمہ دار کون ہے ۔ہمارے خیال کے مطابق کسی بھی ایک طبقہ پر اس کی ذمہ داری ڈالناسراسرناانصافی ہوگی ۔سب سے پہلے تویہ ہم عوام کی ذمہ داری ہے کہ ہم ”ہر چمکتی چیز کوسوناسمجھناچھوڑدیں“۔کیونکہ ایسے” سونے“ کے سراب کے پیچھے بھاگنے والا اکثر ہمیشہ کیلئے سو جاتاہے۔اوراگر بچ بھی جائے جیساکہ بتایاگیاکہ کچھ لوگ یورپ پہنچنے میں کامیاب ہوبھی جاتے ہیں توان کاتناسب دیکھاجائے کہ کتنے ایسے افراد ہیں جو کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔ہماری معلومات کے مطابق ایسے کامیاب افراد کی تعداد سو میںدوچار کی ہے ۔توجناب سیدھی سی بات ہے کہ یہ ایک جواءہے ۔جس میں زندگی داﺅ پر لگاکر سنہرے مستقبل کی کوشش کی جاتی ہے۔جسے بہرحال مستحسن اقدام قرار نہیں دیاجاسکتااورنہ ہی ہمارا مذہب یامعاشرہ اس کی اجازت دیتاہے ۔بلکہ عام کہاوت مشہور ہے کہ گھر کی آدھی باہر کی ساری سے بہترہے۔اس لیے ضروری ہے کہ ہم عوام بھی اس معاملہ میں کچھ عقلمندی کامظاہرہ کریں کیونکہ تقریباًتین سے پانچ لاکھ روپے کی ادائیگی کرنے اورزندگی کوداﺅپرلگانے کے بعد لوگ یورپ پہنچنے میں کامیاب ہوتے ہیںاوراگر اسی رقم سے اپنے ملک میں ہی کوئی کاروبار شروع کیاجائے توہمارے خیال کے مطابق زیادہ ترقی کے مواقع میسر آسکتے ہیںبہ نسبت اس کے کہ سومیں سے دس بھی اگریورپ پہنچ جائیں توباقی نوے افراد نے صرف نقصان کے علاوہ کچھ نہ کیا۔تو جس کام میں نوے فی صدچانسز ناکامی کے ہوں وہ کام شروع کرنابے وقوفی کے علاوہ اورکچھ نہیں۔

دوسری بات یہ کہ مادیت پسندی کے وہ بندے جو صرف اورصرف پیسے کے لالچ میں لوگوں کی زندگیاں داﺅ پر لگادیتے ہیں ان کے خلاف ٹھوس اقدامات کرنے کی اشد ضرور ت ہے تاکہ ان انسانیت کے دشمنوں کوان کے جرائم کی سخت سے سخت سزا دلوائی جاسکے ۔اس کے لیے اگر قانون میں ترمیم بھی کرناپڑے توکرنی چاہے اور انسانی سمگلروں کیلئے کم سے کم سزا، سزائے موت ہونی چاہئے تاکہ ایسے پیشے سے وابستہ افراد کی حوصلہ شکنی ہوجو اپنے بچوں کی روٹی کی خاطر دوسروں کے بچوں کی زندگیوں سے کھیلتے ہیں۔ایسے کئی واقعات سامنے آچکے ہیں اورکافی تعداد میں ایسے جرائم میں ملوث افراد منظر عام پر ہیںجن کے بارے ٹھو س شواہد بھی دستیاب ہیں کہ وہ ایسے مکروہ دھندے میں ملوث ہیں یارہے ہیں۔روزنامہ اسلام کی 26جون کی اشاعت میں یہ دوکالمی خبر شامل ہے کہ ”ایف آئی اے کی بیس سے زائد انسانی سمگلروں سے تفتیش “۔تفصیلات کے مطابق 37افراد ترکی سے ڈی پورٹ کےے گئے جو غیر قانونی طور پر گوادر اورکوئٹہ کے راستے سنہرے خوابوں کی تعبیر پانے کیلئے یونان جاناچاہتے تھے اورترکی میں گرفتار کرلےے گئے ۔ان افراد کو جہاز سے نکلتے ہی پاکستانی حکام نے اسلام آباد ایئر پورٹ سے گرفتارکرلیا۔تفتیش کے دوران ان لوگوں نے جو کہانی سنائی وہ کہانی اس سے مختلف نہیں جو اوپر بیان کی گئی ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ جو افراد ناکام واپس لوٹے ان کے تاثرات بھی ویسے ہی ہیں جیسے یونان میں کامیابی سے داخل ہونے والے کی کہانی میں بیان کیے گئے ہیں۔تواس سے ثابت ہواکہ اس سفر کے راہی بظاہر کامیاب ہوں یاناکام درحقیقت وہ ناکام ہی ہوتے ہیں ۔

اس سارے معاملہ سے متعلق فریقین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی اپنی ذمہ داری احسن طریقے سے پوری کریں تاکہ انسانی سمگلنگ جیسے مکروہ دھندے میں ملوث جرائم پیشہ افراد کی سرکوبی کی جاسکے ۔تاکہ عوام اپنی محنت مزدوری کی کمائی اوراپنی اولاد سے محروم ہونے سے بچ سکیں۔

میں امید کرتاہوں کہ میرے سینئر کالم نگار اس معاملہ کوپوائنٹ آﺅٹ کرنے میں میری مدد کریں گے ۔اوراگر اپوزیشن یاحکومتی بنچ کے کسی رکن اسمبلی یاسینیٹر کی توجہ اس جانب مبذول ہوجائے تووہ پارلیمنٹ میں اس معاملہ کواٹھائے اوراس مسئلہ کافوری حل تلاش کیاجائے تاکہ مزید لوگ ایسے نقصانات سے محفوظ رہ سکیں۔
Aijaz Ahmed Qasmi
About the Author: Aijaz Ahmed Qasmi Read More Articles by Aijaz Ahmed Qasmi: 11 Articles with 7084 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.