کیریئر کا انتخاب کیسے کیا جائے

کیریئر کیا ہے؟

عملی زندگی کامیابی کے ساتھ گزارنے کے لیے کسی پیشے کا انتخاب کیریئر کہلاتا ہے- ماہرین کے رائے میں کیریئر کی تعریف کچھ یوں ہے-

1- انسان کے کام اور کاروبار کے متعلق تجربات

2- زندگی بھر کے لیے ملازمت یا کاروبار کا سلسلہ

3- کسی پیشے کا انتخاب جیسے قانون٬ طب٬ فوج وغیرہ جس میں آگے بڑھنے کے ظاہری راستے موجود ہوں

4- کسی ادارے میں آگے کی طرف بڑھنا

کیریئر کے معنی زندگی گزارنے کا طریقہ ہیں اور پیشہ کسی خاص شعبے میں یقینی مستقبل کو اختیار کرنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے لیکن اس مضمون میں ہم کیریئر اور پیشے (پروفیشن) کو ہم معنی سمجھتے ہوئے گفتگو کریں گے-

اپنے لیے اچھا کیریئر منتخب کرنے کا مطلب یہ ہے کہ انسان ایسا ذریعہ معاش اختیار کرے جو اس کی صحت٬ صلاحیتوں اور رجحان کے مطابق ہو تاکہ وہ اس خاص پیشے میں زیادہ ترقی کر سکے اور کام کرنے سے اسے اکتاہٹ یا تھکن محسوس نہ ہو بلکہ تسکین٬ اطمینان اور مسرت حاصل ہو-

کیریئر کیوں ضروری ہے؟

انسان کی زندگی مسلسل جدوجہد کا نام ہے- اشرف المخلوقات کی حیثیت سے ہمیں جو ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں ان کی ادائیگی کے لیے انسان کو مادی وسائل کی ضرورت ہوتی ہے- ایک خاندان کے سربراہ کو اپنے اہل خانہ کے لیے زندگی کی بنیادی ضروریات٬ غذا٬ لباس٬ رہائش٬ تعلیم اور علاج فراہم کرنا ہوتا ہے تاکہ خاندان کا ہر فرد عزت کے ساتھ نشو و نما پا سکے٬ معاشرے میں اپنا مقام حاصل کرسکے٬ اپنی سماجی ذمہ داریوں کی تکمیل کر سکے-

مادی وسائل مہیا کرنے کے لیے انسان ملازمت کرتا ہے یا کاروبار اختیار کرتا ہے تاکہ اس کی معاشی سرگرمیوں کے نتیجے میں وہ مادی وسائل مہیا ہوں جو اس کی اور اس کے اہل خانہ کی ضروریات زندگی کی تکمیل کر سکیں- یہ معاشی سرگرمی (ملازمت یا کاروبار) ہی اس کا کیریئر ہوتا ہے- اسی کیریئر کی بنیاد پر اسے معاشرے میں عزت اور مقام حاصل ہوتا ہے اور اسی کی وجہ سے وہ اپنی خواہشات کی تکمیل کرتا ہے- اپنی اور اپنے بچوں٬ بہن بھائیوں اور دوسرے زیرِ کفالت افراد کے لیے غذا٬ لباس٬ رہائش٬ تعلیم اور علاج کے وسائل فراہم کرنا ایسی ذمہ داری ہے جس سے کسی صورت بچا نہیں جا سکتا- اس ذمہ داری کو احسن طریقے سے ادا کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی پیشہ اختیار کرنا ضروری ہے- انسانی معاشرے کا یہی دستور ہے اور کامیابی کے لیے یہی ایک راستہ ہے جس پر چل کر معاشرے میں باعزت مقام حاصل کیا جا سکتا ہے-

ماہرین عمرانیات نے انسانی زندگی کو محرک بنانے والی درج ذیل ضروریات کا تعین کیا ہے:

1- طبی / جسمانی ضروریات: ان میں خوراک٬ لباس٬ مکان شامل ہیں- جب تک یہ ضروریات پوری نہیں ہوں گی کوئی چیز انسان کو محرک نہیں کرسکے گی-

2- تحفظ: خوف نقصان اور جان کے خطرے سے تحفظ ٬ ملازمت / روزگار سے محرومی٬ جائیداد٬ خوراک٬ لباس سے محرومی کے خوف سے تحفظ انسان کی ضرورت میں شامل ہے- اسن ضرورت کی تکمیل اسے محرک بناتی ہے-

3- معاشرے کی ضرورت: مل جل کر رہنا انسان کی فطرت ہے- مل جل کر رہنے اور دوسروں کے ساتھ زندگی گزارنے کے لیے ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے ہوتے ہیں- ان حقوق کی ادائیگی سماجی ضرورت ہے-

4- اندرونی احساسات: مندرجہ بالا ضروریات پوری ہونے کے بعد انسان میں قوت٬ عزت اور اعتماد کا احساس پیدا ہوتا ہے- یہ احساسات انسان کو دلی خوشی اور اطمینان بخشتے ہیں جو کامیاب زندگی کے لیے نہایت ضروری ہے-

5- ترقی کی خواہش: ایک خاص مقام پر پہنچنے کے بعد انسان کی فطری خواہش اس سے آگے بڑھنے کی ہوتی ہے- ترقی کرنے کا یہ احساس ہی اس کارخانہ حیات کی رونقوں کی بنیاد ہوتا ہے-

ملازمت یا کاروبار؟

آپ ملازمت کریں یا کاروبار درحقیقت آپ اپنی زندگی کی ضروریات کو پورا کر رہے ہوتے ہیں- آپ کا کاروبار آپ کا پیشہ بھی ہے ملازمت بھی- کامیابی کے لیے شرط یہ ہے کہ آپ نے اس سلسلے میں منصوبہ بندی مکمل کی ہوئی ہو اور اپنی ترقی کے ہدف مقرر کیے ہوئے ہوں- کسی مفکر کا کہنا ہے کہ پیشہ کوئی بھی ہو٬ اس کی اصل حیثیت تجارت سے مختلف نہیں ہو سکتی٬ ایک ٹوکری ڈھونے والا مزدور بھی دراصل ایک تاجر ہے جو اپنی جسمانی مشقت فروخت کر کے روزی کماتا ہے٬ دفتر میں کام کرنے والا کلرک بھی تاجر ہے جو اپنی دماغی محنت فروخت کر کے معاوضہ حاصل کرتا ہے اور ایک دکان دار تو ہے ہی تاجر وہ اپنا مال فروخت کر کے دولت اکھٹی کرتا ہے- اسی طرح وکیل٬ ڈآکٹر٬ انجینئر٬ منتظم ٬ سب تاجر ہیں- ہر شخص دنیا کے بازار میں اپنی اپنی صلاحیتیں٬ قوت٬ محنت اور مال فروخت کر کے زندگی گزارنے کا سامان مہیا کر رہا ہے-

اس عمل میں انسان سب سے زیادہ خوشی کس ذریعے میں محسوس کرتا ہے اور اپنی صلاحیتوں کو بہ درجہ اتم کس چیز میں بروئے کار لاتا ہے- اس ذریعے اور چیز کے علم٬ فہم اور اس کے شعوری انتخاب کو کیرئیر کا انتخاب کہتے ہیں-

گویا ملازمت ہو یا کاروبار- یہ دونوں کیریئر کے دو راستے ہیں-

کیریئر کا انتخاب؟

اپنے اطراف ہونے والی معاشی سرگرمیوں پر نظر ڈالیے تو آپ کو تمام لوگ تین قسم کے کام کرتے نظر آئیں گے-

1- عملی کام- یہ ایسے کام ہیں جن میں کام کرنے والا اپنے ہاتھوں کے ذریعے کسی ایسے عمل میں مصروف ہوتا ہے جس سے کوئی مشین٬ آلہ٬ پرزہ حرکت کرتا ہے-

جیسے انجینئر٬ پائلٹ٬ کسان٬ کمپیوٹر آپریٹر وغیرہ

2- کاغذی کام- ہر وہ کام ہیں جو خط و کتابت٬ لکھنے٬ پڑھنے اور اعداد و شمار سے متعلق ہیں جیسے اکاؤنٹنٹ٬ صحافی٬ آرکیٹیکٹ٬ سیکریٹری وغیرہ

3- عوامی / افرادی کام- ایسے کام جن میں کام کرنے والے کا واسطہ عوام یا مختلف افراد سے زیادہ ہوتا ہو٬ اس زمرے میں آتے ہیں جیسے ڈاکٹر٬ استاد٬ ایئر ہوسٹس وغیرہ

شعوری یا غیر شعوری طور پر ہر نوجوان٬ دورانِ تعلیم چند پیشوں کو پسند کرنے لگتا ہے- اس پسند کے پسِ منظر میں اس کے خاندان کے افراد کے پیشے٬ اس کے دوستوں کے والد یا بھائیوں کے پیشے٬ قومی ہیروز کے پیشے یا کسی خاص شخصیت سے اس کی ذہنی وابستگی اور عقیدت کار فرما ہوتی ہے-

جب نوجوان زندگی کے اس دوراہے پر پہنچے جہاں اسے اپنی پیشہ ورانہ تعلیم کے مرحلے میں داخل ہونا ہے تو اپنی پسند کے پیشوں کی ایک ترجیحی فہرست بنا لینا چاہیے- اس فہرست میں کم سے کم تین پیشے ہوں پہلے نمبر پر سب سے پسندیدہ٬ دوسرے نمبر پر اس سے کم پسند کا اور تیسرے نمبر پر سب سے کم پسند کا پیشہ-

پیشے کے انتخاب کے دوسرے مرحلے میں٬ درج ذیل چھ بنیادی باتوں کو پیشِ نظر رکھ کر اپنا جائزہ لینا چاہیے کہ “میرے لیے کون سا پیشہ بہتر ہو سکتا ہے؟

1- صلاحیتیں

2- تعلیم

3- ذہانت

4- رجحان / میلان

5- دلچسپی

6- حالات / ماحول

1- صلاحیتیں- صلاحیتوں کا مطلب انسان کی ذہنی اور جسمانی خوبیاں ہیں- لیکن خوبیوں کا اندازہ ہم کو اسی وقت ہوسکتا ہے٬ جب اپنی خامیوں یا کمیوں کا احساس ہو-

ایک نوجوان کی خواہش پائلٹ بننے کی ہے لیکن اس کی نظر کمزور ہے اس لیے وہ پائلٹ نہیں بن سکتا- یا کوئی شخص صحافی بننا چاہتا ہے لیکن اسے زبان پر عبور نہیں تو وہ اس پیشے میں کامیاب نہیں ہوسکتا- اچھی گفتگو کی صلاحیت رکھنے والے وکالت یا سیلز کے پیشے میں کامیاب ہو سکتے ہیں-

2- تعلیم- تعلیم کا مطلب یہ ہے کہ اس نے اب تک جو تعلیم حاصل کی ہے وہ اس پیشے کی ضرورت کے مطابق ہونا چاہیے جو وہ اختیار کرنا چاہتا ہے- ڈاکٹر کا پیشہ اختیار کرنے کی خواہش رکھنے والے کو ضروری ہے کہ اسے انٹرمیڈیٹ سائنس کا امتحان پری میڈیکل گروپ میں کامیاب کرنا ہوگا جب ہی وہ ایم بی بی ایس کے لیے کالج میں داخلے کا اہل ہوگا-

3- ذہانت- زندگی میں کامیابی کے لیے تعلیم کے ساتھ ذہانت بھی لازمی ہے- ذہانت کا مطلب اپنے علم اور تجربے کو تجزیے کے ساتھ بروقت استعمال کرنا ہے- اچھی یادداشت ذہانت کو حسن عطا کرتی ہے- کم سے کم وسائل کو زیادہ سے زیادہ مؤثر بنانا بھی ذہانت کا کرشمہ ہے- انسان کوئی بھی کیریئر منتخب کرے٬ ذہانت کامیابی کے لیے ضروری ہے-

4- رجحان / میلانِ طبع- ہر شخص کو کوئی ایک یا چند کام آسان لگتے ہیں وہ انہیں دوسروں کے مقابلے میں جلد سیکھ جاتا ہے٬ ان کے تکنیکی پہلوؤں کو فوری طور پر سمجھ لیتا ہے- دوسرے افراد کے مقابلے میں اسے یہ برتری اس لیے حاصل ہوتی ہے کہ اس کا رجحان اس خاص کام یا شعبے کی طرف ہوتا ہے بعض نوجوانوں کو الیکٹرونکس کے آلات سے اس قدر دلچسپی ہوتی ہے کہ اس کے اسرار و رموز سے خود بہ خود واقف ہوجاتے ہیں- لڑکے گڑیوں کے کھیل میں دلچسپی نہیں رکھتے لیکن لڑکیاں وہی کھیل کھیلتی ہیں-

پیشے کے انتخاب میں رجحان کو ضرور مدِ نظر رکھنا چاہیے اور اس کے مطابق اپنی ترجیحات میں سے کیریئر کا انتخاب کرنا چاہیے-

5- دلچسپی- بعض کام جو دوسروں کے لیے مشکل ہوتے ہیں وہ آپ کے لیے آسان ہوں گے اور جو کام آپ کو مشکل نظر آتے ہیں وہ دوسروں کے لیے بہت سہل ہو سکتے ہیں- یہ مشکل اور آسان کا سارا کھیل ہماری ذاتی دلچسپی کا نتیجہ ہے٬ جس کام سے ہمیں دلچسپی ہوتی ہے وہی ہمارے لیے آسان ہو جاتا ہے- عملی زندگی کے لیے پیشے کا انتخاب کرتے وقت “دلچسپی“ کا عنصر نہایت اہم ہے کیونکہ انسان کو وہی کام بہ طور پیشہ اپنانا چاہیے جو اسے دلچسپ نظر آئے- کام دلچسپ٬ رجحان کے مطابق ہو تو وہ کام نہیں رہتا مشغلہ بن جاتا ہے اور اس کام کو انجام دیتے وقت انسان تھکن محسوس نہیں کرتا خواہ اس میں کتنا ہی وقت صرف کیوں نہ ہوجائے-

کوشش کرنی چاہیے کہ جو کام آپ کے لیے دلچسپ ہیں وہی آپ کا پیشہ بھی ہوں-

6- حالات / ماحول- انسان کا ماحول اس کی زندگی پر اثر انداز ہوتا ہے- یہی ماحول پیشے کے انتخاب میں آپ کے فیصلے کو بھی متاثر کر سکتا ہے٬ آپ کی جدوجہد کا رخ متعین کر سکتا ہے جیسے ایک کم وسائل رکھنے والے نوجوان کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے والد کا ہاتھ بٹانے کے لیے دسویں جماعت کے بعد ملازمت کرے- یہ نوجوان اپنے خاندان کے حالات کے پیشِ نظر دسویں جماعت کے بعد ملازمت کر سکتا ہے اور شام کے کالج میں یا علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے ذریعے اپنی تعلیم جاری رکھ سکتا ہے-

حالات مشکل ہوں یا آسان٬ ان کو زندگی کی حقیقت سمجھ کر قبول کرنا چاہیے اور انہیں حالات میں اپنا راستہ تلاش کرنا چاہیے-


(بشکریہ: محمد بشیر جمعہ " زندگی کے راستے")
Aleem Khan
About the Author: Aleem Khan Read More Articles by Aleem Khan: 45 Articles with 349672 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.