جب کسی انسان کو اﷲ تعالیٰ اولاد کی عظیم نعمت سے سرفراز
فرماتا ہے تو اس کے شکرانے کے طور پر اس سے متعلق چند احکام متوجہ ہوتے
ہیں، جن کا ذکراحادیثِ مبارکہ میں تفصیل سے آیا ہے۔اولاد کی ولادت کے وقت
داہنے کان میں اذان اور بائیں میں اقامت کہنا،اچھا نام رکھنا،تحنیک کروانا
(یعنی کسی نیک آدمی سے کھجور یااس جیسی کوئی میٹھی چیز چبواکر نومولود کے
منہ میں لگانا) ساتویں دن عقیقہ کرنا، اس کے سر کے بال منڈوانا اور بال کے
بقدر چاندی یا اس کی قیمت صدقہ کرنا۔یہ اعمال سنت و مستحب ہیں ،رسول اﷲا نے
حضرات حسنینؓ کی ولادت پر یہ امور انجام دیے ہیں اور ارشاد فرمایا: ہر بچّہ
عقیقے کی وجہ سے گروی ہوتا ہے اس لیے ساتویں دن اس کی طرف سے جانور ذبح کیا
جائے اوراس کے بال کاٹے جائیں۔ (بخاری)ایک حدیث میں فرمایا: ہر لڑکے کے
ساتھ عقیقہ ہے، اس کی طرف سے خون بہاؤاور تکلیف ہٹاو۔ (ترمذی)
عقیقے کے معنی
لغت میں ان بالوں کو ’عقیقہ‘ کہتے ہیں جونو مولود کے سر پر ہوتے ہیں۔
(تہذیب الاسماء) اصطلاحِ شرع میں لڑکا یا لڑکی کی ولادت کے ساتویں دن جانور
ذبح کرنے کو عقیقہ کہا جاتا ہے۔(المصباح المنیر)دراصل عربی زبان میں ’عق‘کے
معنیٰ کاٹنے کے ہیں، عقیقے میں ایک طرف تو جانور ذبح کیا جاتا ہے اور دوسری
طرف اس بچّیکے بال کاٹے جاتے ہیں جس کا عقیقہ ہوتا ہے، اس دو ہری مناسبت کی
وجہ سے اہلِ عرب اس کو ’عقیقہ‘کہا کرتے تھے، اس طرح ماقبل اسلام سے اس پر
عمل ہے اور اسلام نے بھی اسے باقی رکھا ہے۔ (حلال و حرام)
عقیقے کا حکم
اس لیے اگر گنجائش ہو تو ہر ماں باپ کو اپنی اولاد کا عقیقہ ضرور کرنا
چاہیے۔اس سے متعلق عام طور پر تین طرح کی احادیث ملتی ہیں، ایک وہ جن میں
رسول اﷲ ا نے عقیقہ کرنے کا حکم دیا ہے، یا پھر جن میں آپ اکے حضرات حسنین
ؓکا عقیقہ کرنے کا تذکرہ ہے اور اسی طرح کی احادیث کی تعداد زیادہ ہے،
دوسری وہ احادیث ہیں، جن میں حضورا نے عقیقے کی اباحت کی طرف اشارہ فرمایا
ہے، اس طرح کی حدیثیں کم ہیں، تیسری قسم وہ ، جن میں عقیقے کے منسوخ کیے
جانے کا تذکرہ ہے۔ احادیث کے ظاہری اختلاف کے سبب فقہا کے مسالک بھی متعدد
ہوگئے، احناف کے یہاں اس سلسلے میں دو قول پائے جاتے ہیں، ایک استحباب کا
اور دوسرا جواز کا۔(در مختار)
عقیقہ کون کرے
جس پر بچّے کا نفقہ واجب ہے، اگر وہ صاحبِ مال ہو تو اس کو عقیقہ کرنا
چاہیے، اس کے باوجود اگر والدین کو اس کی توفیق نہیں ہوئی اور دوسرے ( رشتے
دار) کرنا چاہیں اور والدین رضا مند ہوجائیں، تو کافی ہو جائے گا۔ (فتاویٰ
رحیمیہ)
عقیقے کا وقت
عقیقے میں مستحب یہ ہے کہ ساتویں روز کیا جائے، اگر ساتویں روز نہ ہو تو
چودھویں روز یا اکیسویں روز کرے، بغیر کسی مجبوری کے اس سے زیادہ تاخیر نہ
کرے۔(فتاویٰ رحیمیہ) یعنی پیدائش کا دن شامل کرکے ساتواں دن ، اس طرح کہ
اگر جمعہ کے دن پیدائش ہوئی تو عقیقہ جمعرات کے دن ہوگا اور اگر جمعے کی
رات میں پیدائش ہوئی ہے، تب بھی جمعرات کے دن ہی عقیقہ ہوگا، اس لیے کہ یہی
دن ساتواں دن ہوتا ہے۔ بعض علما نے لکھا ہے کہ اگر ساتویں دن عقیقہ نہ
کرسکے تو چودھویں یا اکیسویں دن کرلے، عقیقہ کے گوشت کی دعوت کرنا بھی درست
ہے اور گوشت تقسیم کرنا بھی۔ (المغنی)
عقیقے کا جانور
جس جانور کی قربانی درست ہے، اس کا عقیقہ بھی درست ہے اور جس جانور کی
قربانی جائز نہیں، اس کا عقیقہ بھی درست نہیں۔(بہشتی زیور) یعنی عقیقے کا
جانور اسی عمر اور انھی خوبیوں کا مالک ہونا چاہیے جو قربانی کے لیے ہوا
کرتا ہے اور عیوبات سے بھی اسی طرح پاک رہنا چاہیے جس طرح قربانی کا جانور
ہواکرتا ہے۔ (الفقہ الاسلامی وادلتہ)
بچّے اور بچی کے عقیقے میں فرق
حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں، رسول اﷲ ا نے ہمیں حکم دیا کہ لڑکی کی طرف سے ایک
اور لڑکے کی طرف سے دو بکرے یا بکریاں ذبح کریں۔ (ترمذی) لیکن اگر گنجائش
نہ ہو تو لڑکے کے عقیقے میں بھی دو جانوروں کے بدلے ایک جانور بھی چل سکتا
ہے۔ (فتاویٰ رحیمیہ)بلکہ اگر کوئی بالکل ہی عقیقہ نہ کرے تو بھی کوئی حرج
نہیں (یعنی وہ گنہگار نہیں ہوگا، ان شاء اﷲ)۔ (بہشتی زیور)
عقیقے کی دعا
عقیقے کے لیے احادیث میں کوئی خاص دعا منقول نہیں، اگر اردو زبان میں کہہ
لے یا صرف دل میں نیت کرلے کہ یہ فلاں کا عقیقہ ہے، اے اﷲ!آپ اسے قبول فرما
لیجیے، تو کافی ہے البتہ جانور ذبح کرتے وقت بسم اﷲ، اﷲ اکبر کہنا چاہیے
کیوں کہ جانور ذبح کرتے ہوئے اﷲ کا نام لینا ضروری ہے۔ بعض اہلِ علم نے
عقیقے کے مقصد و منشا کو سامنے رکھتے ہوئے اس موقع پر یہ کلمات بتلائے ہیں:
اَللَّھْمَّ ھٰذِہ عَقِیقِۃٌ،دَمْھَا بِدَمِہ وَعَظمْھَا بِعَظمِہٖ، وَ
شَعرْھَا بِشَعرِہٖ، اَللّٰھْمَّ اجْعَلہٗ فِدءً لَّہٗ، اَللّٰھْمَّ مِنکَ
وَلَکَ۔ اس کے بعد بسم اﷲ، اﷲ اکبر کہہ کر جانور ذبح کردے، یہ الفاظ لڑکے
کے عقیقہ کے لیے ہیں، اگر عقیقہ لڑکی کا ہو تو بِدَمِہ، بِعَظمِہ، بِشَعرِہ
کی جگہ بِدَمِھَا، بِعَظمِھَا، بِشعرِھَا کہنا چاہیے، دعا کے یہ الفاظ ذبح
کرنے کے بعد بھی کہہ سکتے ہیں۔ (فتاویٰ رحیمیہ)
جانور کی کھال اور گوشت کا حکم
جو حکم قربانی کے جانور کی کھال اور گوشت کا ہے، وہی حکم عقیقے کے گوشت اور
کھال وغیرہ کا بھی ہے۔
بعض غلطیوں کی اصلاح
یہ جو دستور ہو گیا ہے کہ جس وقت بچّے کے سر پر استرا رکھا جائے اور نائی
سر مونڈنا شروع کرے، فوراً اسی وقت بکرا ذبح ہو، یہ محض مہمل رسم ہے، شریعت
میں [یہ] سب جائز ہے؛ چاہے سر مونڈنے کے بعد ذبح کرے یا ذبح کرنے کے بعد سر
مونڈے، بے وجہ ایسی باتیں تراش لینا بُرا ہے۔(اغلاط العوام)نیز بہت مشہور
ہے کہ عقیقے کا گوشت بچّے کے ماں، باپ، نانا، نانی، دادا، دادی کو کھانا
درست نہیں، سو اس کی کوئی اصل نہیں، اس کا قربانی جیسا حکم ہے[جس طرح
قربانی کا گوشت سب اہلِ خانہ کھا سکتے ہیں، اسی طرح عقیقے کا بھی کھا سکتے
ہیں]۔(اغلاط العوام)
|