سپریم کورٹ کی یوگی جی کو ایک اور پھٹکار

اتر پردیش کی یوگی آدتیہ ناتھ کے کئی پسندیدہ مشاغل میں سے ایک عدالت کی پھٹکار کھانا ہے۔ اس لیے وہ کبھی الہ باد ہائی کورٹ کی ڈانٹ کھاکر خوش ہوجاتے ہیں تو کبھی عدالت عظمی ٰ کے غم و غصے سے لطف اندوزہوتے ہیں ۔ یوگی جی نے جب سے اقتدار سنبھالا ہے وہ عوام کی فلاح و بہبود کا کوئی کام نہیں کرتے ۔ وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے ان کا کام مخالفین کو ٹھکانے لگانا اور وزیر اعظم کی چاپلوسی کرنا ہے۔ اس کے علاوہ ملک بھر کے انتخابات میں زہر افشانی کی خاطر ان کی خصوصی خدمات حاصل کی جاتی ہیں جسے وہ بخوبی ادا کرتے ہیں یہ اور بات ہے اس کا خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوتا۔ دہلی سے حیدرآباد تک اور بنگال سے جھارکھنڈ تک ہر جگہ ان کے ہاتھ ناکامی ہی آئی ہے۔ اس سے یوگی کو کوئی فرق نہیں پڑا کیونکہ ان کی اپنی کرسی پر آنچ نہیں آئی لیکن اب انہیں خود انتخاب لڑ کر اپنا اقتدار بچانا ہے ۔ بدقسمتی سے کورونا کی پہلی لہر نے ان کی نااہلی کو اجاگر کیا اور دوسری نے تو ان کے وقار کو گنگا برد کردیا ۔ اس سے ایک طرف مرکز اور دوسری جانب ارکان اسمبلی میں بے اطمینانی پیدا ہوگئی ۔ مودی کے علاوہ نائب وزیر اعلیٰ کیشو پرشاد موریہ بھی اس کا استعمال کرنے کے فراق میں ہیں۔ مبصرین کو یقین ہے کہ اگر وہ کامیاب بھی ہوگئے تو آسام کے وزیر اعلیٰ سونوال کی طرح ان کی چھٹی کردی جائے گی ۔

سپریم کورٹ سے یوگی ادیتیہ ناتھ کو تازہ پھٹکار کانوڈ یاترا کو لے کر ملی ۔ ہر سال کے مہینے میں ہونے والی اس یاترا میں اڑیسہ ، جھارکھنڈ، بہار ، اترپردیش ، راجستھان ،ہریانہ وہ دیگر صوبہ جات سے شیوبھکت پیدل اتراکھنڈ جاتے ہیں اور گنگوتری سے گنگا جل لے کر لوٹتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ میدانی علاقہ میں تو ’پاپیوں کے پاپ ڈھوتے ڈھوتے‘ گنگا میلی ہوچکی ہے۔ 80 کی دہائی میں جب گنگا کا پانی آلودہ نہیں ہوا تھا اس یاترا کے اندر بہت کم لوگ شریک ہوتے تھے لیکن سیاست میں قوم پرستی کی آلودگی نے کانوڈیوں کی تعداد میں زبردست اضافہ کردیا ۔ 2016میں اس میں جملہ 2کروڈلوگوں نے حصہ لیا ۔ 2019میں ان لوگوں نے خوب غنڈہ گردی کی، جم کر گاڑیوں کو توڑا اور دوکانوں کو لوٹا۔ یوگی سرکار سےقبل پہلے ان کی غنڈہ گردی کو قابو میں کرنے کی کوشش کی جاتی تھی لیکن انہوں نے کھلی چھوٹ دے کر اپنی سیاست کو چمکانے کی کوشش کی ۔ یوگی سرکار نے کانوڑیوں کے ڈی جے پر لگی شور کی پابندی ہٹا دی ۔ ان کو بغیر ہیلمیٹ کے پٹرول لینے کی اجازت دےدی گئی۔ ان پر ہیلی کوپٹر سے پھول برسائے گئے۔ ان کے راستے پر اسکول اور گوشت کی دوکانیں بند کروائی گئیں ۔ یہاں تک کچھ افسران ان کی غنڈہ گردی کو قابو میں کرنے کے بجائے پیر دباتے نظر آئے۔
پچھلے سال کورونا کے سبب یہ یاترا منسوخ کردی گئی لیکن اب اترپردیش انتخاب قریب آلگا ہے اور یوگی جی شیو بھکتوں کو خوش کرکے ان کا ووٹ لینا چاہتے ہیں اس لیے انہوں نے تیسری لہر کے اندیشے سے علی الرغم کانوڈ یاترا کی تیاری کا حکم دے دیا اور اعلان کردیا کہ یہ ہر صورت میں ہوگی۔ اس بیچ راجستھان، بہار، اوڈیشہ اور جھارکھنڈ کی حکومتوں نے کانوڑ یاترا پر روک لگا دی ۔ اس سے یوگی جی کا فائدہ ہوگیا ۔ان کے لیے یہ کہنا آسان ہوگیا کہ سارے غیر بی جے پی والے ہندووں کے دشمن ہیں ۔ یوگی کے سوا کوئی ان کےمذہبی جذبات کا خیال نہیں رکھتا اور نہ تحفظ کرسکتا ہے۔ اس بابت یوگی ادیتیہ ناتھ کو پہلا جھٹکا ان کی جنم بھومی اتراکھنڈ سے لگا۔ یوگی ادیتیہ ناتھ کسی زمانے میں جس اتراکھنڈ سے یوپی آئے تھے وہاں ان کی پارٹی کے وزیر اعلیٰ پشکر سنگھ دھامی نے کانوڈ یاترا پر روک لگا دی ۔ اس سے رنگ میں بھنگ پڑ گیا کیونکہ اتراکھنڈ میں ہی کانوڈ یوں کی یاترا اختتام پذیر ہوتی ہے۔

پشکر سنگھ دھامی کا یہ اقدام قابلِ فہم ہے کیونکہ ان کے پیش رو تیرتھ سنگھ راوت نے اپنے سابق وزیر اعلیٰ ترویندر سنگھ راوت کی مرضی کے خلاف کمبھ میلے کا زور وشور سےاہتمام کیا اور بہت سارے اوٹ پٹانگ دعویٰ کیے۔ اس کے باوجود کمبھ کے سبب عالمی سطح پر خوب بدنامی ہوئی۔ شمالی ہندوستان میں کورونا کی تباہی کے لیے کمبھ کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔ پشکر سنگھ نے اعلان کیا کہ وہ صوبے کی سرحد پر دفع 144 نافذ کرکے اسے سیل کردیں گے۔ کوئی کانوڈ اگر سڑک پر نظر آگیا تو اس کو پکڑ پاس کے کسی مندر میں لے جانے کے بعد سرحد کے باہر لے جاکر چھوڑدیا جائے گا۔ چوری چھپے ہری دوار میں داخل ہوجانے والوں کی بابت یہ حکم دیا گیا کہ اول تو ان کے خلاف ایف آئی آر درج کی جائے گی اور پھر 14دن کے لیے قرنطینہ میں بھیج دیا جائے یعنی 14 دن کی سزا سنا دی جائے گی ۔ اترا کھنڈ کے ان سخت احکامات کے بعد یوگی جی کو بیدار ہوجانا چاہیے تھا لیکن انتخاب جیتنے کا جنون رکاوٹ بن گیا ۔ وہ حسبِ عادت اپنے فیصلے پر اڑ گئے اور صوبے مختلف حصوں سے تیاری کی خبریں آنے لگی حالانکہ وزیر اعظم بھیڑ بھاڑ کی بابت تشویش کا اظہار کرچکے تھے۔

اس دوران یہ ہوا کہ سپریم کورٹ نے اس معاملہ میں از خود نوٹس لے کر مرکز، اتراکھنڈ اور اتر پردیش حکومت سے کانوڑ یاترا کے تعلق کی بابت جواب طلب کرلیا ۔ سماعت کے دوران اتر پردیش حکومت نے کہا کہ کانوڑ یاترا پر پوری طرح روک لگانا ممکن نہیں ہے اور وہ چاہتی ہے کہ علامتی طور پر یاترا کرائی جائے ۔ کورونا کے پروٹو کول کا پاس و لحاظ کی ضمانت دی گئی جو ناممکن تھی۔ عدالتِ عظمیٰ میں روہنگٹن نریمن کی بینچ اس جواب سے مطمئن نہیں ہوئی ۔ سپریم کورٹ کا موقف یہ تھا کہ یہ عمومی اہمیت کا موضوع ہے اور ہر فرد کی زندگی اہم ہے۔ زندہ رہنے کے بنیادی حق سے مذہبی اور دیگر جذبات بالاتر نہیں ہیں۔ مرکزی حکومت نے اترپردیش حکومت کے برعکس سپریم کورٹ میں کہہ دیا کہ کانوڑ یاترا کو اتراکھنڈ جانے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیئے۔ اتراکھنڈ نے پہلے ہی پابندی عائد کرچکا تھا اس لیے یوگی سرکار اکیلی پڑ گئی . ایسے میں یوگی کی حالتِ زار پر یہ شعر صادق آگیا کہ ؎
دشمنوں نے جو دشمنی کی ہے
دوستوں نے بھی کیا کمی کی ہے

سپریم کورٹ نے موقع غنیمت جان کر یوگی حکومت کو ہدایت دی کہ وہ کانوڑ یاترا کرانے کے اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرے، بصورت دیگر عدالت عظمیٰ تین دن بعد اپنا فیصلہ صادر کر دے گی۔ یوگی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ کسی کی پراہ نہیں کرتے۔ اپنی مرضی کے خلاف مودی جی کو بھی خاطر میں نہیں لاتے لیکن یہ سارا بھرم کھل گا۔ مودی سے بے خوف یوگی عدالت سے ڈرگئے اور اگلی سماعت سے دودن قبل ہی یاترا منسوخ کرنے کا اعلان کردیا۔ یہ کہا گیا کہ وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کی ہدایت پر ایڈیشنل چیف سیکریٹری (داخلہ) اونیش اوستھی اور ڈی جی پی مکل گوئل نے کانوڑ سنگھ سے بات چیت کی ۔ یہ بات کب اور کہاں ہوئی کوئی نہیں جانتا۔ عدالت کی پھٹکار سے قبل یہ ر ائے مشورہ کیوں نہیں ہوا؟ یہ بھی سوال ہے۔ اب یوپی حکومت یہ کہہ رہی ہے کہ وہ عقیدت مندوں کو گنگا کا پانی فراہم کرنے کا منصوبہ بنارہی ہے۔ یہی کام پہلے ہوجاتا تو یوگی سرکار اس خصوصی رسوائی سے بچ جاتی لیکن جو مقدر کا لکھا ہے وہ تو ہوکررہتا ہے۔ اتنے برسوں تک کانوڑیوں کو خوش کرنے کے بعد جب اجرت لینے کا موقع آیا تو سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت اور اتراکھنڈ سرکار کے ساتھ مل کر یوگی جی کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا اور یوگی کی حالت قائم چاندپوری کے اس شعر کے مصداق ہوگئی؎
قسمت تو دیکھ ٹوٹی ہے جا کر کہاں کمند
کچھ دور اپنے ہاتھ سے جب بام رہ گیا

 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1449262 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.