وطن عزیز سماجی امتحان، سیاسی آزمائش، اقتصادی چیلنجز
سمیت خطے میں موجود کئی طوفانوں سے نبرد آزما ہے۔ افغان طالبان کے قدموں کی
چاپ پاک۔افغان چمن بارڈر پر سنی ہی نہیں بلکہ پیش قدمی دیکھی بھی گئی کہ
عید الاضحی سے قبل انہوں نے اسپین بولدک پر قبضہ کرلیا۔ یہ پاکستان کے لئے
نہایت اہمیت کے حامل کا باعث بنا، باب دوستی پر افغان طالبا ن کے پرچم
لہرائے جانیپر سرحد سیل کرکے اضافی فورسز تعینات کردی گئی۔ اسی دوران
برطانیہ کی جانب سے دلچسپ بیان سامنے آیا کہ اگر افغان طالبان نے افغانستان
کا کنڑول سنبھال لیا تو وہ ان کے ساتھ بھی کام کرنے کے لئے تیار ہیں۔ یہ
حقیقی معنوں میں غنی اتحادیوں کے لئے غیر متوقع دھچکا ہوگا، گر ایسا کچھ
بھی ہوا۔ اس تبدیلی کی بنیاد ی کئی وجوہ ہوسکتی ہیں لیکن اس کی اہم وجہ
کابل انتظامیہ کی ساڑھے تین لاکھ فوج، ہزاروں جنگجو ؤں کی ملیشیا اور داعش
کا افغان طالبان کی پیش قدمی کو روکنے میں ناکامی قرار دیا جارہا ہے کہ
ٹریلین ڈالر کے اخراجات و فوجی تربیت لینے کے باوجود افغان سیکورٹی فورسز
اپنے زیر کنٹرول علاقوں کا دفاع تک نہیں کرپائیں۔ افغان طالبان کی پیش قدمی
کی رفتار میں تیزی کی ایک وجہ فضائی حملوں کی اُس لہر کا کم ہونا ہے جو
امریکی و نیٹو فورسز کی جانب سے تواتر کئے جاتے تھے، غیر ملکی افواج کو
فضائی برتری حاصل تھی لیکن اصل جنگ زمین یا مذاکرات کی ٹیبل پر ہی لڑی جاتی
ہے۔ افغانستان میں مغربی نظام کو قابل قبول بنانے کے لئے امریکہ اور
اتحادیوں کی کوششیں تاحال جاری ہیں، جب کہ افغان طالبا ن نفاذ شریعت کو
نافذ کرنا اپنا مقصد قرار دیتے ہیں، افغانستان کی سرزمین پر کون سا نظام
ہونا چاہے اور اس کے خدوخال کیا ہوں، اس حوالے سے دنیا افغانیوں کو مشورہ
تو دے سکتی ہے لیکن ان پر اپنے فیصلے مسلط نہیں کرسکتی۔ اس وقت دنیا میں جن
جن ممالک میں جو بھی نظام حکومت رائج ہے وہ کسی دوسرے ملک کے نظریات و
ثقافت کی وجہ سے اختلافات کا شکار ہے اور کسی بھی ملک کے نظام و انصرم کو
اس وقت رول ماڈل قرار نہیں دیا جاسکتا جب تک اس کے مثبت اثرات ظاہر نہ ہوں۔
یہ ضرور ہے کہ امیر ممالک میں دولت کی فروانی کی وجہ سے صورت حال ترقی پذیر
ممالک سے مختلف ہے، لیکن ایسے کئی مغربی ممالک ہیں جہاں آج بھی انسانی حقوق
کی خلاف ورزیاں ہوتی ہیں، جرائم کی شرح زیادہ ہے، خواتین کو حقوق سے محرومی
اور تشدد کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آتا ہے، جنسی بے راہ روی سمیت عدم
برداشت با افراط ہے۔ پاکستان میں بھی نفاذ شریعت کے نام پر ریاست ے ساتھ
معاہدہ ہوا تھا، اگربات صرف سرحدی علاقوں یا پختون قوم بشمول افغانی عوام
کی جائے تو ان میں روایات و ثقافت کی جڑیں سیکڑوں برسوں سے اس قدر واثق ہیں
کہ روایتی طور پرفوری و سستے انصاف کے ساتھ ساتھ ایسے سخت گیر قوانین
اوررسومات بھی رائج ہیں جو قبل از اسلام سے چلی آرہی ہیں، تاہم دنیا کاکوئی
بھی ملک اپنے انسانی نظام کو دین اسلام سے بہتر ثابت نہیں کرسکتا، لیکن یہ
ضرور ہے کہ منفی پروپیگنڈا محاذ نے جہاں اسلام کے زریں قوانین اور اصولوں
کو کو اوجھل رکھا ہوا ہے تو وہیں اس میں زیادہ قصور قدامت پسند طبقات کا
بھی ہے،آپسی اختلافات میں عدم برداشت کے رجحان کی وجہ سے مخالفین کے
پروپیگنڈوں کو تقویت ملتی رہی جس کا نقصان مسلم امہ کو یکساں اٹھانا پڑتا
ہے۔ افغان طالبان افغانستان میں جو نظام چاہتے ہیں اگر عوام کو قبول نہیں
تو وہ کبھی بھی نافذ نہیں کرسکتے، جنگجو خو بو افغانیوں کی روح میں رچی بسی
ہے، افغان تاریخ کے مطالعے میں یہ بھی دیکھنا ضروری ہے کہ غیر ملکی حملہ
آور آتے رہے، قبضہ کرنے کی کوشش میں کئی کئی دہائیاں لگا دیں لیکن ان سب کا
نتیجہ ایک ہی رہا کہ وہ اپنی مرضی کا نظام زیادہ عرصے تک افغانیوں پر مسلط
نہیں کرسکے۔ چمن بارڈر سے قبل پشاور میں افغان طالبان کے حامیوں کی موجودگی
اور حمایت سے ظاہر ہوتا ہے کہ افغان مہاجرین میں انہیں اندازوں سے
زیادہمقبولیت حاصل ہے، چونکہ پاکستان میں گذشتہ چار دہائیوں سے افغان
مہاجرین رہ رہے ہیں اور افغانستان کے حالات پر عام پاکستانی سے زیادہ ان کی
نظر ہے، اس لئے سمجھنا ہوگا کہ انہیں علم ہے کہ چار دہائیوں میں سوویت
یونین،امریکہ سمیت پچاس ممالک کی افواج افغان سرزمین میں وہ امن قائم کرنے
میں ناکام رہیں جو افغان طالبان نے صرف پانچ برس میں قائم کردیا تھا۔ اس
زمینی حقیقت کو ناقدین جو بھی نام دیں لیکن اس سچائی کو جھٹلا نہیں سکتے کہ
چار دہائیوں میں سب سے زیادہ بہترامن کا دور افغان طالبان کا ہی رہا ہے، یہ
ضرور ہے کہ ان کی سخت گیری سے اختلاف کیا جاسکتا ہے، لیکن آج کا افغان طالب،
ماضی کے مقابلے میں دور جدید کے تقاضوں، سیاست و سفارت کاری کے تقاضوں کو
سمجھتا ہے، افغان طالبان کی قیادت بخوبی جان چکی کہ جنگ و امن میں ان کا
رویہ کیا ہونا چاہے، دنیا سے بہتر تعلقات استوار کرنے کے لئے انہیں عبوری
دور کے تقاضوں کے تحت کچھ معاملات میں مصلحت سے بھی کام لینا ہوگا، جس کے
لئے افغان طالبان کی سیاسی و عسکری قیادت ذہنی طور پر تیار بھی نظر آتے ہیں۔
افغان طالبان، پاک۔ افغان سرحدی علاقے اسپین بولدک سے قبل دیگر پڑوسی ممالک
کے سرحدی گذر گاہوں کا کنٹرول بھی سنبھال چکے اور یقین دہانی بھی کراتے نظر
آئے کہ پڑوسی ممالک کو تشویش میں مبتلا نہیں ہونا چاہے، لیکن یہ بھی حقیقت
ہے کہ ان کے مخالفین کی بڑی تعداد نہیں چاہتی کہ ان پر افغان طالبان حکومت
کریں، اسے نسلی تناظر میں دیکھا جانا چاہے کیونکہ یہ افغان سرزمین کی روایت
رہی ہے کہ نسلی و گروہی بنیادوں پر قبائل ایک دوسرے سے پنجہ آزمائی کرتے
رہتے ہیں، فرقہ وارنہ یا مسلکی تناظر میں اختلافات کا حصہ آٹے میں نمک کے
برابر ہے۔ اس لئے مسلکی بنیادوں پر افغانیوں کے درمیان جھڑپیں، نسلی
بنیادوں پر خانہ جنگی سے کم ہی متوقع ہیں۔افغان جنگ میں تذیرواتی تبدیلی پر
مختلف قیاس آرائیاں اور پیشگوئیوں کا نہ رکنے والا ایک سلسلہ جاری ہے، یہ
ایک فطری عمل ہے کیونکہ خطے کا پورا نقشہ بدلنے جارہا ہے اور دنیا کی نظریں
افغانستان سمیت اس کے تمام پڑوسی ممالک پر ہیں، بالخصوص پاکستان پر تو دوست
دشمن سب ہی ٹکٹکی باندھے بیٹھے ہیں، لیکن یہ بھی جانتے ہیں کہ پاکستان ماضی
کی غلطیوں یا حکمت عملی دہرانا نہیں چاہتا، کیونکہ ریاست اچھی طرح جانتی ہے
کہ کسی بھی غلط قدم اٹھنے کے مضمرات کس قدر خطرناک ہوسکتے ہیں۔
|