کورونا سے زیادہ خطرناک شرما (رام بھکت گوپال)

رام بھکت گوپال شرما ملک کی مشہور ترین شخصیات میں اس لیے شامل ہے کہ اس کی شناخت کے لیے تصویر ہی کافی ہے۔ اس کا کریڈٹ مرحوم دانش صدیقی کو جاتا ہے جنہوں نے جنوری 2020کے دوران اسے دہلی میں سی اے اے؍این آر سی کے خلاف طمنچہ لہرا کر فائرنگ کرتے ہوئے اپنے کیمرے کی مدد سے ساری دنیا تک پہنچا دیا ۔ اس کے باوجود حکومت نے اسے قید کرنے کی زحمت نہیں کی ۔ سرکار کی اس بلاواسطہ پشت پناہی کا یہ نتیجہ نکلا کہ گوپال شرما نے مبینہ طور پر ہریانہ کے پٹودی کی دوران مہاپنچایت میں اشتعال انگیزی کرتے ہوئے مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کی اور نہایت نازیبا الفاظ کا استعمال کیا اور لڑکیوں کو اغوا کرنے تک کی ترغیب دے ڈالی۔ اس طرح پانی سر سے اونچا ہوگیا اور ہریانہ کی بی جے پی حکومت کو گرفتار کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ ویسے منوہر لال کھٹر بھی یوگی اور امیت شاہ کی مانند بے حسی اور ڈھٹائی کا مظاہرہ کرسکتے لیکن انہوں نے رام بھکت کو گرفتار کرکے عدالت میں پیش کردیا ۔ رام بھکت کے ستارے گردش میں تھے جو اس کا سابقہ محمد صغیر جیسے دلیر جیوڈیشیل مجسٹریٹ سے پیش آگیا۔

ملزم رام بھکت گوپال شرما کو فرقہ وارانہ کشیدگی پھیلانے کی کوشش کے الزام میں کئی طرح کے دفعات کے تحت جب گروگرام کی عدالت میں پیش کیا گیا تو عدالتی حراست میں تھا ۔ اسے توقع رہی ہوگی کہ اپنی سرکار ہے اس لیے بڑے آرام سے ضمانت مل جائے گی اور پھر ڈھول تاشوں کے ساتھ باہراس کا استقبال کیا جائے گا لیکن عدالت نے زبردست جھٹکا دے دیا ۔ عدالت نے نہ صرف اس کی ضمانت والی عرضی کو خارج کر دیا بلکہ ایسا کرتے ہوئے جو تبصرہ کیا وہ خاصہ اہمیت کا حامل ہے۔ جیوڈیشیل مجسٹریٹ محمد صغیر نے رام بھکت گوپال کو سخت الفاظ میں ڈانٹ لگا تے ہوئے کہا کہ جو لوگ اس طرح کی فرقہ واریت پر مبنی تقریر کرتے ہیں وہ ملک کے لیے کووڈ وبا سے زیادہ نقصان دہ ہیں۔ گروگرام کورٹ نے یہ بھی کہا کہ ’’مذہب یا ذات کی بنیاد پر نازیبا زبان کا استعمال آج کل فیشن بن گیا ہے اور پولیس بھی ایسے واقعات سے نمٹنے میں بے بس نظر آتی ہے۔ اس طرح کے لوگ جو نفرت پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں، دراصل اس ملک کو وبا سے زیادہ نقصان پہنچا رہے ہیں۔‘‘ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے سب واقف ہیں لیکن مجسٹریٹ محمد صغیر کا ببانگ دہل اس کا اظہار کرنا قابلِ تعریف ہے اور وہ اس کے لیے مبارکباد کے مستحق ہیں ۔

عام طور پر وطن عزیز میں رام بھکت گوپال جیسے دہشت گردوں کو بہ آسانی ضمانت مل جاتی ہے اس کے برعکس تفتیشی ایجنسیاں غیر متعلق اوربے قصور لوگوں کو اوٹ پٹانگ الزامات میں پھنسا کر اپنی پیٹھ تھپتھپاتی ہیں۔ اس کام کو آگے بڑھانے کا کام میڈیا کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔ عدالت کے بجائے ذرائع ابلاغ کے جوکر میڈیا ٹرائل شروع کردیتے ہیں اور ایک خطرناک قسم کی ماحول سازی کی جاتی ہے جس سے سارے الزامات درست لگنے لگتے ہیں۔ اس طرز عمل پر لگام لگانے کا کام پچھلے دنوں نیوز براڈکاسٹنگ اسٹینڈرڈس اتھاریٹی نے کیا اور ایک انگریزی اور دو کنڑا نیوز چینلوں کو کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے لیے تبلیغی جماعت کو مورد الزام ٹھہرانے کی پاداش میں جرمانہ عائد کردیا۔ این بی ایس اےنے 16جون 2021 کوتمام فریقین کے دلائل سننے کے بعد کہا کہ "نشریاتی اداروں کے مذکورہ چینلوں کو خبروں کی ترسیل میں مقصدیت اور غیر جانبداری کے بنیادی اصولوں کی خلاف ورزی اور رپورٹنگ میں محتاط رہنے کے بجائے لاپروائی کا مجرم پایا گیا ہے۔ نسلی اور مذہبی ہم آہنگی سے متعلق گائیڈ لائن کی خلاف ورزی کرنے کے سبب نیوز 18؍ اور ٹائمز بناو پر ایک لاکھ روپے کا جرمانہ عائد کیا گیا ۔اسی طرح کنڑا کے ’سورنا نیوز ‘کو 50 ہزار روپے جرمانہ ادا کرنے کا حکم دیا گیا ۔ ویسے یہ رقم بڑی نہیں ہے لیکن ان نامور چینلس کی رسوائی اچھی نظیر قائم کرتی ہے جس کو مسابقین نے خوب اچھالا۔

ذرائع ابلاغ کی اس دھاندلی کے خلاف چیف جسٹس آف انڈیا جسٹس این وی رمنا نے پی ڈی دیسائی میموریل لیکچر کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ججوں کو رائے عامہ کے اس جذباتی دلدل سے متاثر نہیں ہونا چاہیے ، جسے سوشل میڈیا کے ذریعہ جذباتی مبالغہ آرائی کی مدد سے فروغ دیا جاتا ہے۔ میڈیا ٹرائل مقدمات کا فیصلہ کرنے میں رہنما نہیں ہوسکتا۔ سوشیل میڈیا کے رجحانات کس طرح مختلف اداروں کی کارکردگی کو متاثر کرسکتے ہیں اس پر مباحثے کو ضروری بتایا ۔ موصوف کے مطابق میڈیا کے نئے آلات اس بات کی صلاحیت رکھتے ہیں کہ وہ صحیح اور غلط کو جس طرح چاہیں پیش کریں ۔ اچھے ،برے ، حقیقی اور جعلی کے مابین فرق کیا جانا چاہیے۔ چیف جسٹس نے کہاہے کہ جج آئیویری قلعوں میں بیٹھ کر سماجی مسائل سے متعلق فیصلہ نہیں کرسکتے ۔ جج حضرات اور عدلیہ کو سماج سے مکمل طور پر الگ بھی نہیں ہو جانا چاہیے۔

اپنے خطاب میں چیف جسٹس نے کچھ بنیادی مسائل کو اٹھایا مثلاً ہر چند سال میں حکمرانوں کے بدل جانا ظلم کے خاتمہ کی گارنٹی نہیں ہے۔ آزادی کے بعد جملہ 17میں 8؍انتخابات میں حکمراں بدل گئے ۔ اس بابت عوام نے عدم مساوات، ناخواندگی ، پسماندگی ،غربت اورجہالت کے باوجود ذہانت کا ثبوت دے کر اپنی ذمہ داری نبھائی ۔ اب حکومت چلانے والوں کو غور کرنا چاہیے کہ کیا انہوں نے اپنی آئینی ذمہ داریوں کا حق ادا کیا؟ عوامی خودمختاری کی تکمیل کے لیے انسانی وقار، آزادی اور جمہوریت کی فعالیت لازم ہے ۔ انتخابی عمل سے بیجا توقعات وابستہ کرنے والوں کے لیے اس بیان میں تازیانہ عبرت ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا ،عدلیہ کی ذمہ داری اس بات کو یقینی بنانے کی ہے کہ وضع کردہ قوانین آئین کے مطابق ہو۔ من مانے قوانین بنانے والی موجودہ حکومت کے لیے اس میں خطرے کی گھنٹی ہے۔ عدلیہ کی آزاد ی کو مستحکم کرنے پر زور دیتے ہوئے وہ بولے براہ راست یا بالواسطہ مقننہ یا انتظامیہ کے ذریعہ اسے قابو میں نہیں رکھا جاسکتا۔ بصورت دیگر قانون کی حکمرانی الجھن کا شکار ہوجائے گی۔ انہوں نے سارے لوگوں کو ملکی قوانین سے آسان زبان میں واقف کرانے کو لازم قرار دیا ۔ موصوف کے مطابق تعصب اور جانبداری اقلیتوں کے ساتھ ناانصافی کا سبب بنتی ہے۔

جسٹس رمنا نے کہا برطانوی استعمار سیاسی جبر کی خاطر قانون کا استعمال کرتا تھا اور وہ انگریز وں اور ہندوستانیوں میں تفریق کرتا تھا تاکہ ہندوستانی غلاموں کو قابو میں رکھ سکے ۔ انہوں نے انگریزوں کی آڑ میں موجودہ حکومت کے رویہ کو بے نقاب کردیاکیونکہ ان دونوں میں عملاً کوئی فرق نہیں ہے۔ انہوں نے1775 کے مقدمہ کا حوالہ دیا جس میں راجہ نند کمار نے گورنر وارن ہیسٹنگ کے خلاف بدعنوانی الزا م لگایا تو گورنر کو بخش دیا گیا الٹا راجہ نند کمارکو سزائے موت دے دی گئی ۔ آج کل اس کی بے شمار مثالیں ہیں ۔ دہلی فساد کے لیے ذمہ دار انوارگ ٹھاکر جیسے فسادیوں کو ترقی دے کر کابینی وزیر بنا دیا گیا اور عمر خالد جیسے انصاف پسندوں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے ٹھونس دیا گیا ہے ۔ بنگال میں ٹی ایم سی سے جولوگ بی جے پی میں آگئے انہیں ناردا چٹ فنڈ معاملے میں راحت دے دی گئی ہے۔

جسٹس رمنا کے مطابق 150سال بعد آزادی، مساوات، انصاف اور خوشحالی کے اقدار کی بابت بیداری میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے اور لوگ جان گئے ہیں کہ استعماریت ان کو کیسے پامال کرتی تھی ۔ اس بیداری کے باوجود انسانی حقوق کی پامالی زور شور سے جاری ہے۔ جسٹس رمنا نے گاندھی جی کا یہ قول یاد دلایا کہ غلام ہندوستان کے اندر 100 میں 99 معاملات میں ہندوستانیوں کے ساتھ ناانصافی کرکے انگریزوں کا ساتھ دیا جاتا تھا ۔ اس لیے گاندھی جی اس نتیجے پر پہنچے کہ قانون کا نفاذ شعوری یا غیر شعوری طور پر استحصال کرنے والوں کے حق میں ہوتا ہے۔ آج حکومت پر تنقید کرنے والوں کے ساتھ یہی ہورہا ہے ورنہ صدیق کپن جیل کے اندر اور ارنب گوسوامی آزاد نہیں گھومتے۔ ملک سے ہزاروں کروڈ لے کر فرار ہونے والوں کی گرفتاری کی صرف خبر آتی ہے و ہ پکڑے نہیں جاتے مگر اعظم خان جیسے لوگوں کو جھوٹے الزامات میں گرفتار کرکے جیل بھیج دیا جاتا ہے۔

آزادی کے 75سال بعد آج یہ حالت ہے کہ لال قلعہ سے ترنگا پرچم سے اوپر نشان صاحب لہرانے والے بی جے پی کے ایجنٹ گرو جوت سنگھ کو ضمانت مل جاتی ہے مگر اسٹین سوامی کو عدالتی حراست میں آخری سانسیں لینی پڑتی ہیں ۔پرتاپ سنگھ سارنگی اور پرگیہ ٹھاکر جیسے مجرم پیشہ لوگ رکن پارلیمان بن کر عیش کرتے ہیں اور سدھا بھاردواج اور شرجیل امام کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھیج دیا جاتا ہے۔ جسٹس رمنا نے تنقید اور احتجاج کی آواز جمہوریت کا لازمی جزو قرار دیتے ہوئے کہا فی الحال ایگزیکٹو (حکومت) دباؤ کے بارے میں بہت چرچا ہے۔ انہوں نے پروفیسر جولیس اسٹون کا حوالہ دے کر کہا کہ تنقید اور مخالفت کی آواز جمہوریت کا لازمی جزو ہے ۔ اب تو سپریم کورٹ میں بغاوت کا فرسودہ قانون زیر بحث آگیا ہےحالانکہ سابق چیف جسٹس شردبوبڈے کے زمانے میں اس کا تصور بھی محال تھا ۔ جسٹس رمنا نے مودی یُگ میں جس جرأتمندی کا مظاہرہ کیا ہے وہ واقعی قابلِ تحسین ہے اور بہتر مستقبل کا اشارہ ہے۔
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1450598 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.