گدھا لکھتا مگر آج کل کھوتے کی اصطلاح عام ہے اس لئے اردو
یا کوئی بھی دوسری زبان بولنے والوں کو سمجھ آ جائے گی کہ کھوتے سے میرا
مطلب گدھا ہی ہے۔ یہ کھوتے اور طوطے ہمارے نظام تعلیم کا نابغہ روزگار
نمونہ بھی ہیں اور پیداوار بھی ہیں۔ اس مصنوعی دور میں جب ہر چیز بناوٹ اور
دکھاوے پر مبنی ہے۔ ہمارے معاشرے کے دانت بھی ہاتھی کے بن چکے ہیں۔ دکھاوا
اور باتیں تو ریاست مدینہ کی ہو رہی ہیں مگر مدینہ تو دور ریاست بھی نہیں
بن پا رہی۔
اس کے واحد وجہ ہمارا نظام تعلیم ہے۔ جس کی بدولت کھوتے اور طوطے عام ہیں۔
ہر طرف اور ہر جگہ ہمیں کھوتوں اور طوطوں سے ہی واسطہ پڑ رہا ہے۔ کسی بھی
ادارے میں چلے جائیں کسی بھی محکمے میں چلے جائیں یہ دونوں اصناف بہت ہی
عام ہیں۔ ان سے ایسے ایسے فیصلے سر زد ہوتے ہیں کہ ہماری آئندہ نسلیں تو
کیا ترقی یافتہ ممالک کے تھنک ٹینک منہ میں قلم لے کر سوچنے پر مجبور ہو
جاتے ہیں کہ کاش ہم بھی ایسے کسی نظام سے گزرے ہوتے؟ اگر کسی میں کوئی سوچ
ہو تو وہ سمجھ جاتا ہے کہ یہ طوطا کہاں سے آیا ہے؟
آج کل زیادہ معلومات رکھنے والوں کے پاس علم کی اتنی ہی کمی ہے جتنی کہ
گوگل کے پاس۔ گوگل انفارمیشن تو رکھتا ہے مگر علم سے بے بہرہ ہے اسی طرح
ہماری یہ کھوتوں اور طوطوں پر مبنی نسل بھی بے شمار معلومات کی حامل ہے مگر
علم کی عین بھی ان کے نزدیک سے نہیں گزری۔ کتابوں کا بوجھ ان کی کمر پر
ضرور ہے مگر وہ کتابیں صرف ڈھوتے ہیں ان سے استفادہ کرنا ان کے لئے شجر
ممنوعہ کی مانند ہے۔ نرسری کلاس کے بچے کا بستہ دیکھیں جس نے اس کی کمر
دوہری کر رکھی ہوتی ہے۔
یہی بستے کا وزن ہی اس نے ساری تعلیمی زندگی میں اٹھانا ہے اور آخر میں جب
وہ کتابیں اتار پھینکتا ہے اور عملی زندگی میں چلا جاتا ہے تو اسے کبھی
گمان بھی نہیں گزرتا کہ اس نے کتنی کتابیں ڈھوئیں کیونکہ پڑھی تو اس نے صرف
رٹنے کے لئے تھیں! وہ وہی روایتی طریقوں سے اپنی نوکری یا کام کرتا ہے جس
کی بنیاد پتہ نہیں کس کے زمانے میں رکھی جا چکی تھی۔
ہمارے اس برگزیدہ نظام تعلیم کی رہی سہی کسر کورونا وبا نے نکال دی ہے۔ آن
لائن تعلیم نے تعلیم کا کام تمام کر دیا۔ ہر چیز آن لائن ہو گئی یہاں تک کہ
امتحان بھی گھر بیٹھے ہونے لگے۔ طالب علم تو ہمیشہ سے ہی سہل پسند اور تن
آسان رہے ہیں مگر ارباب اختیار تو زمانہ ساز تھے انہوں نے یہ کیا کمال کیا۔
کھوتے اور طوطے بڑھانے کے لئے سارے اقدامات کر ڈالے۔ مجھے بہت سارے
یونیورسٹی کے طالب علموں نے بتایا کہ انہوں نے کسی نہ کسی سینئر یا استاد
سے پرچہ حل کروایا ہے۔
گھر بیٹھے جب پرچے ہوں گے تو انہیں حل بھی تو ویسے ہی کیا جائے گا۔ کئی ایک
لطیفے زبان زد عام ہو چکے ہیں ان آن لائن طالب علموں کے بارے میں۔ کسی سے
فزکس کے شعبہ کی نوکری کے لئے انٹرویو میں انٹرویو پینل نے پوچھا کہ نیوٹن
کا دوسرا قانون کیا ہے تو گھر بیٹھے پاس ہونے والے امیدوار نے جواب دیا کہ
جناب میں کوئی قانون دان نہیں ہوں قانون بنانا اور بتانا قانون دانوں کا
کام ہے۔
کھلا ذہن اور وسیع سوچ کا ہمارے تعلیمی نظام میں کہیں ذکر نہیں ہے۔ عجیب
گورکھ دھندا بنا رکھا ہے اس نظام تعلیم کو۔ بچے کا نام خارج نہیں کرنا بے
شک وہ سارا سال سکول نہ آئے اگر بورڈ کی کلاس کا ہے تو اس کا داخلہ بھی
نہیں روکنا اور نتیجہ فیل آئے تو ذمہ دار استاد ہے اس کی ترقی روکی جائے
گی! جب نظام تعلیم ایسا ہو تو اس کی پروڈکٹ کیسی ہوں گی آپ خود تصور کر
سکتے ہیں۔ اوپر سے کسی قسم کی جزا سزا کا عمل نہیں ہے۔ حکومت نے سزا منع کر
دی ہے اور انعام اگر دینا ہے تو استاد اپنی جیب سے دے۔
اس پر مستزاد استادوں کو چیک کرنے والے افسران تہہ در تہہ موجود ہیں۔
مانیٹرنگ ٹیمیں بنی ہوئی ہیں جو کہ استاد کی چیکنگ کی بجائے اس کی بے عزتی
کرنا اپنا فرض اولین سمجھتی ہیں۔ طالب علموں کی حاضری بھی چیک کرتی ہیں اگر
طالب علم سکول نہیں آیا تو اس کا ذمہ دار بھی پرنسپل اور اس کلاس کا انچارج
ہے۔ استاد کی ڈیوٹی میں اب یہ بھی شامل کر دیا گیا ہے کہ وہ طالب علم کے
گھر جا کر اسے منت ماجرا کر کے سکول لائے۔ گالیاں کھائے مگر مار نہیں پیار!
المختصر یہ کہ ہمارے تعلیمی نظام کے تحت پڑھائی کے علاوہ باقی تمام تکلفات
لازمی قرار دیے گئے ہیں یہی وجہ ہے کہ جب یہ طوطے ڈاکٹر انجینئر یا سی ایس
پی افسر بنتے ہیں تو انہیں کوئی احساس نہیں ہو پاتا کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔
پی ایچ ڈی کر کے سی ایس پی افسر بن کے اور ڈاکٹر انجینئر بن کے اگر آپ نے
بے ایمانی ہی کرنی ہے تو یہ کام تو ان پڑھ بھی کر سکتا ہے بس اس کو موقع آپ
دے دیں۔ ہم اس سارے نظام کا تجزیہ مختصر یوں کر سکتے ہیں کہ اس کے نتیجے
میں یا تو کتابوں کا بوجھ اٹھانے والے کھوتے پیدا ہو رہے ہیں جو ساری
اخلاقی اور سیاسی اقدار کو پامال کر رہے ہیں یا پھر طوطے ہیں جو بڑے بڑے
عہدوں پر پہنچ کر بھی کرپشن کا بازار گرم کیے ہوئے ہیں۔ اللہ ہمیں سیدھی
راہ دکھائے۔ آمین!
|