ْٓؓٓؒاقبال ؒکی سوچ کو شورش کاشمیری نے اپنی کتاب’’
فیضان اقبال‘‘ میں کوزے میں بند کیا ہے۔ ’’اقبال کے جواہرپارے‘‘ صفحہ نمبر
۴۴کاحوالہ دیتے ہوئے شورش کاشمیری اپنی کتاب ’’ فیضان اقبال تجلیاتِ کلیم و
مشاہداتِ حکیم ‘‘ کے صفحہ۱۳۵؍میں حیات اقبال کے عنوان میں لکھتے ہیں کہ
اقبالؒ نے فرمایا ’’میراکلام باقی رہے گا‘‘۔۔۔ واقعی اقبالؒ کا کلام باقی
ہے اور ان شاء اﷲ باقی رہے گا۔ اس باقی کو ڈاکٹر شفیق عجمی نے اپنی کتاب’’
مقالاتِ اقبالیت ‘‘میں عصر حاضر میں اقبالؒ کے چاہنے والوں کے سامنے پیش کر
کے اقبالؒ کو زندہ جاوید بنانے میں مدد کی۔ یہ کتاب اور بمعہ دو اور کتب
’‘مقالاتِ شریف‘‘ تالیف پروفیسر میاں محمد شریف اور’’بزم اکبر سے بزم اقبال
تک‘‘ تالیف ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار، بزم اقبال، کلب روڈ لاہورکے ڈائریکٹر
جناب ریاض احمدچوہدھری صاحب نے تحفتاً پیش کیں۔ آج اقبال ؒ کے کلام کے
ابلاغ کی غرض سے’’ مقالاتِ اقبالیات‘‘ پرگفتگو کرنی ہے۔
مصنف ڈاکٹر شفیق عجمی صاحب کا شمار پاکستان کے مشہور ماہرین اقبالیات میں
ہوتا ہے۔ زیرنظر کتاب میں ڈاکٹر شفیق عجمی کے گیارہ مقالات ہیں۔بچپن سے ہی
اقبالؒ کی نظم’’لب پہ آتی ہے دعا‘‘ خوبصورت آواز میں پڑھا کرتے تھے۔ ۱۹۷۳ء
میں ریڈیو پاکستان سے منسلک ہوئے۔ بشیر احمد چٹھہ جو ڈائریکٹر اقبال اکیڈمی
پاکستان سے بھی فیض حاصل کیا۔۱۹۷۹ء میں محکمہ تعلیم پنجاب میں ملازمت کی۔
بطور شعبہ اُردو نصابات خصوصا! اقبالیات کے پرچے کو عصری تناظر میں ایپ ٹو
ڈیٹ کیا۔ ایم اے؍ بے اے(آنرز)
اُردو ایم فل اور پی ایچ ڈی کی سطع کے کئی مقالات کی نگرانی کی۔ جن میں
ایسے تحقیقی مقالات بھی تھے جن کا موضوع اقبالیات تھا۔ دسمبر ۲۰۱۳ء میں قبل
از وقت ریٹائرڈ ہوئے۔ ریڈیو پرگرام ’’آہنگ اقبال‘‘ کاحصہ رہے۔راقم نے اس
کتاب کے مطالعہ کے دوران ڈاکٹر شفیق عجمی سے ٹیلیفونک رابطہ کیا۔ان کو اب
بھی اقبالؒ کا شیدائی پایا۔ ڈاکٹر شفیق عجمی نے کئی مشہور معروف ہستیوں سے
اقبال کی نظم اور نثر کو سمجھا ۔اس کتاب میں ’’ تحقیق اور اقبالیاتی
تحقیق‘‘ میں فرماتے ہیں کہ بے مقصد تحقیق اور مضوعات پر بے سود کئی صفحات
تو سیاہ کر کے ڈگڑیاں تو حاصل کی جاسکتیں ہیں لیکن علمی د ادبی روایات میں
اضافہ ثابت نہ ہو سکے گا۔اقبالیات کے حوالے سے کہتے ہیں کہ اقبالیات خود
ایک شعبہ علم کی حیثیت اختیار کر چکاہے جس کے ڈانڈے دیگر دینی، ادبی،
سیاسی، سماجی اور فکری علوم سے باہم مربوط ہیں۔ لہٰذا، اقبا لیات کو موضوع
تحقیق بناتے وقت ان علوم کی کی کم از کم مبادیات سے آگاہی ضروری ہے۔۔۔باقی
دُور کی باتیں تو اور اہل علم جانیں اور اقبال ؒجانیں۔ شورش کاشمیری کی
کتاب ’’ فیضان اقبال‘‘ میں اقبالؒ کی اسلامی سوچ کے بارے میں اقبالؒ کا یہ
فرمان کہ’’ میرے کلام پر ناقدانہ نظر ڈالنے سے پہلے حقائق اسلامیہ کا
مطالعہ ضروری ہے‘‘( حوالہ پروفیسرآل احمد کے نام صفحہ۱۴۳) ۔۔۔کیا اقبال ؒ
نے فلسفیانہ انداز میں تحقیق کرنے والوں کے ذہین کو اسلام کے مطالعہ کی طرف
موڑنے کی کوشش نہیں کی ؟ ڈاکٹر شفیق عجمی تحریر فرماتے ہیں کہ اقبالیات میں
اضافہ کرنے والوں کاتعلق لسانیات و ادبایات اور فلسفہ ست رہا ہے ۔مگر اس
میں سیاسی قائدین، مورخین، مستشرقین، سماجیات کے ماہر ، ریاضیات اور طبعیات
دان، مذہبی سکالر، آرٹ اور دیگر علوم سے متعلق شخصیات نے بھی اپنے اپنے
انداز میں افکار اقبال سے شغف کا اظہار کیا ہے۔ ۔۔درست! مگر راقم
تواقبالیات کا طالب علم ہونے کے ناطے سمجھتا ہے کہ اقبالؒ
انسانیت،فلسفہ،مغرب، مشرق، ادیان ، اسلام،برعظیم اور نہ جانے کون کون سے
علم کو سمجھنے والی شخصیت ہے۔
مصنف ’’ممتاز جرمن مستشرق اور اقبال شناس :ڈاکٹر میری شمل‘‘ کے عنوان میں
لکھتے ہیں کہ:۔اقبال شناسی میں اِنھیں ممتاز مقام حاصل ہے۔میری شمل مختلف
یونیورسٹیوں میں پچیس سال تک انڈو مسلم کلچر کی پروفیسر رہیں۔شاہ عبدلطیف
بھٹائی، سچل سرمست اور اقبال کے وطن سے انھیں خاص لگاؤ تھا۔ وہ ۱۹۵۸ء میں
اپنے پہلے دورہ پاکستان کے بعد اپنی وفات تک مسلسل پاکستان تشریف لاتیں
رہیں ۔اقبال پر اپنی تصنیف gabriel,s wing۔کی تیاری کے سلسلہ میں کئی ماہ
تک پاکستان مقیم رہیں۔ یہ کتاب ۱۹۶۲ء میں پہلی بار ہالینڈ اور پہلی
بارپاکستان میں اقبال اکیڈمی نے اسے ۱۹۶۳ء میں شائع کیا۔ڈاکٹر شفیق عجمی
لکھتے ہیں ’’افکاراقبال پر مبنی تصنیف‘‘اُردو ترجمہ’’ شہپر جبریل‘‘ کو
پاکستان میں شہرت اور پذیرائی حاصل ہوئی۔ مصنف ڈاکٹر شمل کی زبان سے نکلے
جملے اس طرح لکھتے ہیںِ’’ میری کوشش یہ رہی ہے کہ اس کتاب میں اقبال کے طرز
فکر،ان کے اسلوب بحث ، ان کی ہمدردی، اور مذہب سے ان کے اطمنیانِ قلب حاصل
کرنے کی کیفیت کو منعکس کردوں‘‘ لکھتے ہیں اس کے علاوہ اقبال پر ڈاکٹر میری
شمل کی اقبالیات پر سات مستقل تصانیف اور بھی ملتی ہیں۔ ڈاکٹر شفیق عجمی کے
نذدیک اس عظیم المرتبت سکالر کی علمی دریافتوں کو ابھی تک اعلی سطح ُپر
موضوع تحقیق نہیں بنایا گیا۔
عنوان’’مظفر حسین: تفہیم ِ اقبال سے توسیعِ اقبال تک‘‘ میں لکھتے ہیں
کہ:۔مظفر حسین اقبال ؒکے شیدائی مولانامودودی کے عقیدت مند اور ڈاکٹر محمد
رفیع الدین کے رفیق اور فکری جانشین تھے۔مظفر حسین کی اسلام، اقبال اور
پاکستان سے متعلق متعدد تصانیف و تالیف کی ہیں۔ مظفر حسین ڈاکٹرر فیع الدین
کی چار سالہ مختصر رفاقت کو اپنی خوش بختی تصور کرتے ہیں کہ جس کی بدولت
انھیں ڈاکٹر مرحوم کے اقبالیات میں گہرے فکر و اسلوبِ تحقیق سے فیض یاب
ہوئے۔ڈاکٹر شفیق عجمی لکھتے ہیں کہ مظفر حسین نے رفیع الدین کی رہنمائی میں
تفہیم اقبال کے کئی مراحل یقیناً طے کیے لیکن ان کی فکری سوچ نے اقبالیاتی
سرمایا میں نئی دریافتتوں کے ذریعہ بہت کچھ اضافہ کیا۔
عنوان’’ اقبال اور فرزند اقبال‘‘میں فرماتے ہیں کہ :۔ سال اقبال ۲۰۰۲ء کا
ایک تحفہ جو ۲۰۰۳ء میں منظر عام پر آیا۔ فرزند اقبال جسٹس (ریٹائرڈ)ڈاکٹر
اقبال جاوید اقبال کی خود نوشت سوانح حیات’’ اپنا گریبان چاک‘‘ ہے جس کا
عنوان’’بال جبریل‘‘ کی غزل کے ایک شعر سے لیا گیا ہے۔
فارغ تو نہ بیٹھے گا محشر میں جنوں میرا
یا اپنا گریباں چاک یا دامن یزداں چاک
ڈاکٹر جاوید اقبال نے اس کی وضاعت اپنے وراثتی نظریہ حیات کے حوالے سے کی
ہے۔کہ’’ حیات خوب سے خوب تر کی تحصیل کے لیے تگ و دو کا نام ہے اور یہ تگ و
دو صرف اسی جہان تک ہی محدود نہیں بلکہ حیات بعد موت کے عالم میں بھی جاری
میں جاری و ساری جانی چاہیے‘‘۔۔ راقم کے نذدیک ڈاکٹر جاوید اقبال کی تگ دو
کی تشریع کیسے قبول ہو کہ تگ د ود تو اس زندگی میں ہی ہے۔ محشرمیں تویوم
حساب ہے۔ کیا یہ ان جعلی پیروں کی ہاں میں ہاں ملانے والی بات تو نہیں کہ
جعلی پیر مریدوں سے چندہ حاصل کرنے کے سند دیتے ہیں کہ’’ ہم آخرت میں حضور
کا دامن پکڑ کر بیٹھ جائیں گے کہ ہمارے مریدوں کو معاف کیا جائے ورنہ ہم
یہاں سے نہیں ہٹیں گے‘‘ ڈاکٹر شفیق عجمی لکھتے ہیں کہ :۔بہرحال ڈاکٹر جاوید
اقبال کی یہ( باتصویر) خود نوشست اپنی گوناگوں خوبیوں، لن ترنیوں اور
لغزشوں کی بدولت اُردو آپ بیتی کی روایات میں ایک خوبصورت اورجرات مندانہ
اضافہ قرار دی جاسکتی ہے۔۔۔ ڈاکٹر جاوید اقبال نے اپنی کتاب’’ زندہ رُود‘‘
کے صفحہ نمبر۶۱۱ میں لکھا ہے کہ:۔ ’’یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ اقبال
کے نذدیک بنک کاسود لینا حرام نہ تھابلکہ وہ منافع تھا۔ اس لیے جائز تھا‘‘۔
اقبال ؒ جو قرآن اور حدیث کا مفسر تھا ۔یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ سود کو حرام
نہ سمجھتا ہو؟
عنوان’’مطالعہ بیاض اقبال‘‘ ڈاکٹر شفیق عجمی لکھتے ہیں کہ:۔اقبالؒ نے اپنی
زندگی میں باقاعدہ طور پر ڈائری نہیں لکھی۔ البتہ ۱۹۰۱ء میں انھوں نے چند
ماہ تک اپنے افکار و خیالات کو شذروں یا مختصر اقوال کی صورت میں قلمبند
کرنے کی کوشش کی جو انگریزی زبان میں ہیں اور جنھیں پہلے اقبال نےstray
thought اور بعد میں thought قلم زد کر کے stray refelectionکا نام
دیا۔ڈاکٹر اقبالؒ کے مطابق یہ ان متفرق تحریروں پر مشتمل ہے جو اس زمانے
میں زیر مطالعہ کتب کے تاثرات یا اپنے ماحول کے بارے میں ان کے خیالات و
احساسات اور ایام علمی کی یادوں پر مبنی ہیں۔لکھتے ہیں کہ ان شذرات میں
علامہ نے بعض ایسے موضوہات پر بھی اظہار خیال کیا جو بعد میں ان کی فکر کے
بنیادی تصوارات ثابت ہوئے۔
عنوان’’خطبات اقبال کی عصری اہمیت‘‘ میں فرماتے ہیں کہ:۔ فکر اسلامی کی
تشکیل نو کے موضوع پر اقبال کے خطباتreconsrtuction of reigious thought in
islam ( تشکیلِ جدیدالہیات اسلامیہ یا اسلامی فکر کی نئی تشکیل یامذہبی
افکار کی تعمیر نو) کا ان کا شاندار فکری کارنامہ قرار دیا جاتاہے جس کی
مثال اسلامی فکر کی روایت میں اور بلخصوص بیسویں صدی کے عالم اسلام میں
مشکل سے ہی ملے گی۔
عنوان’’ اقبال اور عصری مسائل‘‘ میں فرماتے ہیں کہ:۔ ڈاکٹر فاطمہ یوسف کی
حب الوطنی کا ایک ثبوت ان کی حالیہ تصنیف ’’ اقبال اور عصری مسائل‘‘ بھی ہے
جسے شائع کرکے انھوں نے نہ صرف اپنے ایک ادھورے کا م کو مکمل کیا ہے۔ اقبال
اور اقبال کے پاکستان کے ساتھ اپنی بے پاناں محبت کا اظہار کرتے ہوئے یہ
کوشش کی ہے کہ نوجوان نسل اقبالؒ سے شناسائی حاصل کر ے اور رہنمائی بھی
کیونکہ اقبالؒ کے پاکستان میں ہی ایسے دانشور اور مورخ بھی ہیں جو اقبالؒ
کو چھوٹا بنا کر پیش کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔
عنوان ’’ فکر اقبال میں اجتہاد کی اہمیت‘‘ میں اقبالؒ کے اجتہاد کی اساس
قرآن کی آیت کو قرار دیتے ہیں۔ ’’ جو لوگ ہماری خاطر مجاہدہ کریں گے ہم
انھیں اپنے راستے دکھائیں گے(العنکبوت: ۶۹)دراصل اقبالؒ کے تصور اجتہاد کی
تفہیم ان کے تصورات و کائنات کی تفہیم سے منسلک ہے جو انھوں نے قرآن سے اخذ
کیا ہے۔ ان کے نذدیک اسلام ایک ایسی تحریک ہے جو کائنات کے سکونی نظریے کو
مسترد کرتی ہے۔ وہ جو انسانی کی وحدت پر یقین رکھتے ہیں اور حیات کی اصل ان
کے مطابق روحانی ہے جسے وہ ذات الہٰیہ بھی کہتے ہیں جو ایک قائم و دائم
وجود ہے جسے ہم تغیر و ربدل میں جلوہ گر دیکھتے ہیں۔ اگر معاشرے کی اساس
حقیقت الہٰیہ کے اس تصور پر مبنی ہے تو پھر اس کے دونوں پہلوں یعنی ثبات
اور تغیر کو قبول کرنا ہو گا۔ اقبالؒ سوال کرتا ہے کہ اسلام ہیبت ترکیبی
میں وہ کونسا عنصر ہے جو اس کے اندر حرکت اور تخیر کو قائم رکھتا ہے۔
عنوان’’ اقبال کا تصور روحانی جمہوریت اور اس کے ناقدین‘‘ میں اقبالؒ نے
سرمایا دارانہ جمہوریت کے بارے میں تواتر کے ساتھ اظہار خیال کیا اور اس کے
مقابل روحانی جمہوریت کا تصور پیش کر کے اسے’’ultimate aim of islam قرار
دیا جو ان کی نگاہ میں حقیقی اسلامی نصب العین ہے۔اقبال ؒنے وفات سے چند
ماہ قبل لاہور ریڈیو اسٹیشن سے سال نو کاجو پیغام نشر ہواس میں بھی انھوں
نے زور دے کر کہا کہ انسان کی بقا کا راز انسانیت سے احترام میں ہے اور جب
تک دنیا کی علمی قوتیں احترام انسانیت پر اپنی توجہ مر کوز نہ کر دیں گی یہ
دنیابدستور درندوں کی بستی بنی رہے گی۔’’مخلوق خدا کاکنبہ ہے‘‘ کے اصول کا
قائل نہ ہوجائے گا، اخوت، جرات، حریت اور مساوات کے شاندار الفاظ شرمندہ
معنی نہ ہوں گے۔جو دانشور اپنے تعصبات اور مغالطوں کو اقبال کے فکری تضادات
قرار دیتے ہیں۔انھیں تعصب اور انانیت سے بلند ہو کر فکر و تحقیق کا طریق
اختیار کرنا چاہیے۔اسی صورت انھیں اقبال کا تصور ِ روحانی جمہوریت ہی نہیں
دیگر علمی و فکری امور بھی روشنی اور رہنمائی کی توفیق حاصل ہو سکے گی۔
عنوان’’ فرزند اقبال کا علمی مقام‘‘ میں مصنف فرماتے ہیں کہ:۔ ڈاکٹر جاوید
اقبال نے اپنی پوری علمی و تحقیقی زندگی میں فرزند اقبال کی حیثیت سے کہیں
بھی اقبالؒ کا دفاع نہیں کیا۔ڈاکٹر شفیق عجمی ،ڈاکٹر جاوید سے قربت کا بھی
اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ڈاکٹر جاوید میں تنقید برداشت کرنے کا حوصلہ
تھا۔ الحمرا کی ایک تقریب میں ایک صحافی نے یہاں تک کہہ دیاکہ آپ کے خاندان
نے ہر سیاسی دور میں مفادات حاصل کیے۔ہال میں سناٹا چھا گیا۔ڈاکٹر جاوید نے
خود تو کچھ نہیں کہا۔ اسٹیج پر بیٹھی شخصیات کی توجہ ان جملوں کی طرف
دلائی۔ یوم اقبال کا پروگرام مزار اقبال پر رکھا گیا۔ ڈاکٹر جاوید اس میں
یہ کہہ کر شریک نہیں ہوئے کہ یہ بھی قبر پرستی ہے۔مصنف نے ڈاکٹر جاوید کے
سردار عبدلقیوم خان کے درمیان معرکہ آرائی کا بھی ذکر کیا۔ سردار عبدالقیوم
نے جہاں تک کہہ دیا کہ اقبال کو پڑھنے والوں اکثر گمراہ دیکھے ہیں۔اس لیے
اقبال کو پڑھنے سے منع کرتا ہوں۔۔۔ہمارے نذدیک سردارعبد القیوم قلت فکر کی
وجہ سے پیچھے رہ گئے اور آج ہر سمت اقبال ہی اقبال ہی نظر آتے ہیں۔
آخر میں عنوان’’ آہنگِ اقبال‘‘ میں مصنف لکھتے ہیں ریڈیو پاکستان لاہور نے
فکراقبال کے فروخ کے لیے نشریاتی ٹیکنیک استعمال کی۔مدتوں تک صوفی غلام
محمد تبسم ریڈیو لاہور سے ’’اقبال کاایک شعر‘‘ کے عنوان سے اقبال کی اُردو
؍ فارسی اقبال کے اشعار کی مختصر اور مواثر تشریع کرتے رہے۔جو بعد میں ’’
صد شعرِ اقبال‘‘ کے عنوان سے اقبال صدی کے موقع پر ۱۹۷۷ء میں مرکزی
اُردوبورڈ(اب اُردو سائنس بورڈ) کی جانب سے شایع ہو چکی ہے۔ پاکستان براڈ
کاسٹنگ کارپوریشن اسلام آباد کے فیصلے کی روشنی میں ’’آہنگ اقبال‘‘
ورثہfm.94 ریڈیو پاکستان لاہور کی جانب سے سینئر پروڈیوسر رائے محمد عرفان
کی نگرانی میں شروع کیا گیا۔’’آہنگ اقبال‘‘ کے سامعین کاحلقہ وسیع تھا جس
میں ہر عمر اور ہر مکتبہ فکر کے لوگ شامل تھے۔ عام شہری سے لے کر طلبہ ،
اسا تذہ، اور دانشوروں کی پسندیدگی اور تحسین و تنقید کا اندازہ live
transmisstion کے دوران موصول ہونے والے feed back سے ہوتا رہا۔ڈاکٹر شفیق
عجمی جو تیس سال اقبال ہی پڑھاتے رہے ۔ ’’آہنگ اقبال‘‘ کے کلepisode 350
میں سے 200 سو سے زاہد میں شرکت کی۔آخر میں لکھتے ہیں اقبال کی گائیکی نے
بھی اہم کرادر ادا کیا۔ ترتیب اور تزئین کے امتزاج کے نتیجے میں ’’ آہنگ
اقبال‘‘ جیسا پروگرام متشکل ہوا جسے ریڈیو پاکستان لاہور کے اقبالیاتی
سلسلے کے پروگراموں کی ایک اہم پیش کس کے طور پر یاد رکھاجائے گا۔
صاحبو! ہم بھی اقبالیات کے طالب علم ہیں۔ ہفتہ میں دو دفعہ شعبہ علم ادب
قلم کاروان جماعت اسلامی ضلع اسلام آباد کے تحت ،ایک پروگرام بعد نماز مغرب
منگل کے دن منعقدہوتا ہے۔ دوسرا عالمی پروگرام بدھ کے دن بعد نماز مغرب
’’بیداری فکر اقبال‘‘ کے عنوان سے آن ایئر منعقد ہوتا ہے۔ ان پروگراموں میں
نظریہ پاکستان اور پاکستان کے اسلامی تشخص پر دانشور اپنے مقالے پیش کرتے
ہیں ۔ سوال جواب اور تنقید اور شاعری کے سیشن ہوتے ہیں۔جس میں عام عوام کو
اقبالؒ سے رو شناس کرانا ہے۔ راقم’’اقبال قائد مودودی فکری فورم‘‘ کے تحت
اقبال کا خواب قائد کاخواب میں رنگ بھرنا اور مودودی کا اس کی پاکستان میں
عملی تشکیل اور اس کی حفاظت کے کام پر معمور ہیں۔ اسی نام سے ایک یادگاری
لائبریری بھی قائم کی ہوئی ہے۔پاکستان کا مستقبل اسلام سے وابستہ ہے۔ اقبال
،قائد، مودودی اسلام کے سچے شیدائی ہیں۔ اﷲ مملکت اسلامی جمہور پاکستان مثل
مدینہ ریاست کی حفاظت فرمائے آمین۔
|