نجات کی اساس

 ایمان کا سائنسی ایجادات اور سہولیات سے کوئی تعلق واسطہ نہیں ہوتا۔صحرا کی حد ت میں جینے والے اور ائر کنڈیشنڈ میں محوِ استراحت ہونے والے کی پہچان صرف ایمان ہوتی ہے۔ جس کا ایمان مضبوط ہو گا اس کا صلہ بھی بڑا ہو گا۔جو کی روٹی کھانے والے کی علمی وسعت آج بھی ضرب المثل ہے ۔یہی تو وہ عظیم شخصیت تھی جس نے سایہ ِ دیوار ِ خانہ کعبہ میں اعلان کیا تھا کہ جس نے جو کچھ پوچھنا ہے مجھ سے پوچھ لے ۔ انسانی تاریخ میں اہلِ جہاں کو چیلنج دینے کی دوسری کوئی مثال نہیں ملتی۔رسول اﷲ ﷺ کا ارشاد ہے کہ( میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ) ایک دوسری جگہ ارشاد ہے (جس کا میں مولا اس کا علی مولا) دنیا بھر کے سوالات کے جوابات دینے کیلئے مولا علی کا علمی افق کس نے اتنا بلند کیاتھا؟ عرب کے بے آب و گیاہ صحرا میں پرورش پانے والا ایک بوریا نشین دنیا کو چیلنج دے رہا ہے تو کون اس کی توجیہ کریگا ؟ان کے پاس علم کا یہ خزینہ کس کی عطا تھی ؟ شائد یہی بات وحی کی حقانیت ثا بت کرنے کیلئے کافی ہے۔ایک دفعہ ایک سائل نے مولا علی سے سوال پوچھا کہ کونسے جانور انڈے دیتے ہیں اور کونسے جانور بچے دیتے ہیں۔ یہ ایک مشکل اور پچیدہ سوال تھا لیکن مولا علی نے صرف ایک جملے میں اس ا نتہائی پچیدہ،طویل اور مشکل سوال کا جواب مرحم فرما دیا۔(جن کے کان باہر ہیں وہ بچے دیتے ہیں اور جن کے کان اندر ہیں انڈے دیتے ہیں)عظیم تاریخ دان گبن کے بقول صدیوں قبل ایسا جواب دینا عقلِ انسانی کیلئے ممکن نہیں تھا ۔یہ کسی خاص عنائیت کا اعجاز تھا جس نے انسانوں کے اذہان کو وسعتِ افلاک بخشی تھی ۔وہی تو ہے جسے خدا ئے مطلق کہتے ہیں۔عقل حیران و شسدر ہے جبکہ سائنس ان کی دور نگاہی پر نہال ہے۔ ایمان کا تعلق چونکہ اﷲ تعالی کی ذات سے منسلک ہو تا ہے اسی لئے انسان ایک ان دیکھے خدا پر یقین رکھتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ظن و تحمین کی علم کی بارگاہ میں کوئی وقعت نہیں ہوتی ۔ ہر وہ چیز جو منطق اور دلیل کی صفت سے خالی ہو بے اعتباری ہوتی ہے ۔ انسان کسی ایسی چیز کو کیسے تسلیم کر لے جس کی کوئی بنیاد ہی نہ ہو ۔انسان اس کرہِ ارض پر اﷲ تعالی کی نعماء،نشانیوں،ر عنائتوں،عطاؤں اور رحمتوں سے اس کی موجودگی کا اعتراف کرتا ہے۔ (ارشادِ ربانی ہے۔ تم میری کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤگے؟)مومن اﷲ تعالی کی رضا پر یقین رکھتا ہے حتی کہ ایک دن رضائے الہی کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کر دیتا ہے۔کیا سائنس ایسی قربانی کا کوئی منطقی استدلال پیش کر سکتی ہے ؟ قربانی ، ایثار اور احسان جیسے اعمال سائنس کی دسترس سے باہر ہو تے ہیں لہذا وہ اس پر تحقیق کرنے کی بجائے خاموشی کی چادر اوڑھ لیتی ہے۔اہلِ یورپ کی خدا بیزار سوچ کو جسطرح علامہ اقبال نے بے نقاب کیا دنیا کا کوئی دوسرا ادیب اور شاعر اس انداز سے یورپ کااصلی چہرہ دنیا کو دکھا نہیں سکا ۔ دیکھئے اقبال کی للکار۔ (تری نگاہ میں ثابت نہیں خدا کا وجو ۔،۔ مری نگاہ میں ثابت نہیں وجود ترا)۔،۔(وجود کیا ہے فقط جوہرِ خودی کی نمو ۔ ،۔ کر اپنی فکر کہ جو ہر ہے بے نمود ترا)

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ سائنس کا کام ضابطہ اخلاق و ضع کرنا نہیں بلکہ اس کا کام اشیاء کی ماہیت کو بیان کرنا ہے۔جذبات و احساسات سا ئنس کے دائرہ اختیار سے کوسوں دور ہیں۔کیا کوئی سائنسدان کسی انسان کی اخلاقیات اور ایمانیات کا فیصلہ کر سکتا ہے؟ بالکل نہیں کیونکہ اس کا کام انسانوں کی داخلی دنیا میں مداخلت کرنا یا ان کیلئے ا خلاقیات اور عبادات کی فہرست مرتب کرنا نہیں بلکہ تسخیر کائنات کے رموز و اسرار کوبیان کرنا ہے جبکہ مذہب کا میدان کردار کی عظمت کی پاسبانی ہے۔ سائنس اور مذہب ،دو الگ دنیائیں لیکن دونوں انتہائی اہم ۔آ گسٹ کے بقول (مذہب اس شہ کا تصور ہے جو انسان کے آگے پیچھے اور اس کے اندر ہے ۔و ہ جو حقیقت ہے اور حقیقت بننے کیلئے منتظر بھی ہے۔وہ شہ جو ہر چیز میں مفہوم پیدا کر دیتی ہے ۔ مذہب اعتقاد کی اس قوت کا نام ہے جس سے انسان کی اندرونی پاکیزگی ہو جاتی ہے۔یعنی مذہب ان صداقتوں کے مجموعہ کا نام ہے جن میں یہ قوت ہوتی ہے کہ انسانی کریکٹر میں انقلاب پیدا کر دیں جب انھیں خلوس کے ساتھ قبول کیا جائے اور بصیرت کے ساتھ سمجھا جائے۔مذہب عالمگیر وفا شعاری کا نام ہے ) پروفیسر آئن سٹائن کے بقول (سائنس کی دنیا میں آرزوؤں،اقدار،خیر و شر،نصب العینِ حیات کا کوئی تصور نہیں ہوتا ۔ سائنس نہ تو اقدار متعین کر سکتی ہے اور نہ ہی انھیں انسانی سینے کے اندر داخل کر سکتی ہے۔سائنس زیادہ سے زیادہ ایسے ذرائع فراہم کر سکتی ہے جن سے انسان مقصد حا صل کر لے ۔مقصد کا تعین صرف بلند ہستیاں کر تی ہیں ۔ اقدار، تجربات کے بعد وضع نہیں کی جاتیں ۔یہ مقتدر ہستیوں کی وساطت سے بذریعہ وحی ملتی ہیں ۔ان کی بنیادیں عقل پر نہیں ہو تیں لیکن وہ تجربہ کی کسوٹی پر پوری اترتی ہیں ) ۔ پروفیسر جوڈ کے بقول (عقل جن حقائق کا احاطہ بتدریج کرتی ہے روح انھیں وجدانی طور پر فورا پا لیتی ہے)عظیم فلاسفر برگسان کے بقول(انسان تنہا عقل کی روشنی میں صحیح راہ پر چل ہی نہیں سکتا۔عقل اسے کسی دوسرے راستہ پر ڈال دیگی ۔عقل ایک خاص مقصد کیلئے پیدا کی گئی ہے جب ہم اسے اس سے بلند مقاصد کی طرف لے جانا چاہتے ہیں تو وہ اس بلند سطح کے متعلق ممکنات کا سراغ دے سکے تو شائد ،ورنہ وہ حقیقت کا پتہ توکسی صورت میں دے ہی نہیں سکتی) برائٹ مین کے بقول(جس طرح انسانی آنکھ خارجی روشنی کی محتاج ہے اس طرح عقلِ انسانی وحی کی روشنی کے بغیر یقین کی حد تک نہیں پہنچ سکتی) سینٹ تھامس کے بقول(مذہب خدا سے تعلق کا نام ہے)برگسان کے بقول(نبوت ،خدائی الہام پر مبنی ہوتی ہے ۔ صاحبِ وحی انسان کے مقد رات اور مستقبل کے متعلق خدا کی آواز سنتا ہے )فکرِ اقبال کا اعلان سنئیے ۔ (ولائت، پادشاہی، علمِ اشیاء کی جہانگیری ۔،۔ یہ سب کیا ہیں فقط اک نقطہ ِ ایماں کی تفسیریں)۔،۔

سائنسد انوں کے بقول یہ کائنات ایک دھماکہ سے پیدا ہو گئی تھی۔ وہ اسے بنگ بینگ کے نظریہ سے موسوم کرتے ہیں۔ ایک دن آئیگاجب یہ کرہِ ارض سیاروں کے باہمی ٹکراؤ سے تباہ و برباد ہو جائیگا اور یوں اس کرہِ ارض سے انسان کا خاتمہ ہو جائیگا ۔کوئی یومِ حساب نہیں،کوئی روزِ قیامت نہیں،کوئی روزِ محشر نہیں،یہ سب افسانوی باتیں ہیں لہذا انسانی اعمال کیلئے نہ تو کوئی میزان کھڑی ہو گی اور نہ ہی انسان اپنے اعمال کا جوابدہ ہو گا۔ سانسوں کی ڈوری ٹوٹنے پر انسان مٹی میں مل کر مٹی ہو جائیگا اور ٹائیں ٹائیں فش۔اسے ہی تومادیت پرستی کہتے ہیں۔یورپی اقوام کے اعمال کامحوردنیاوی زندگی ہے لہذا وہ مکمل جزیات کے ساتھ اپنی زندگی سے لطف اندوز ہوناچاہتے ہیں۔حظوظِ نفس کی ساری حدیں پار کرنا چاہتے ہیں،لذائذِ دنیا سے متمتع ہونا ان کی ساری سوچ کا محور ہے،ان کیلئے رشتوں ناطوں کی کوئی اہمیت اور تقدیس نہیں لہذا حیوانی جذبوں کی تسکین ان کی اولین ترجیح ہے ۔ ایک ایسی زندگی جو شترِ بے مہار کی علامت ہو اس کا چلن یورپ میں بخوبی دیکھا جا سکتا ہے جس کی وجہ سے وہاں اضطراب ہے ۔ ان کی معاشرتی ، سماجی، خاندانی اور ثقافتی زندگی ،جنسی بے راہ روی کا شکار ہے جس سے ان میں شرم و حیاء اور پاکیزگی کا کوئی تصور باقی نہیں رہا ۔ ان کی خاندانی اور روحانی دنیا بالکل خالی ہے جس کا انھیں خود بھی اعتراف ہے۔ وہ ایک ایسی دلدل میں دھنس چکے ہیں جس کا فطری نتیجہ تباہی ہے ۔مذہب کسی سائنسی تو جیہ کا محتاج نہیں ہوتااور نہ ہی کسی سائنسدان کی ہدایات کا پابند ہوتا ہے بلکہ یہ خدائی احکامات پر ایمان لانے کا نام ہوتا ہے اور یوں انسان اپنے اعمال اورخدا سے تعلق سے پہچانا جاتاہے ۔یہی تعلق انسانی عظمت کا تعین کرتا ہے ۔ یورپ کی نقالی میں پاکستان کے ترقی پسند ، لبرل اور ماڈرن حلقے یورپ کی جنسی بے راہ روی اور اوربے حیائی کی روش کو پاکستان میں بھی پھلتا پھو لتا دیکھناہتے ہیں،وہ مادر پدر آزادی کے خواہاں ہیں لیکن انھیں ہمیشہ منہ کی کھانی پڑتی ہے کیونکہ خدائے واحد پر یقین رکھنے والی قوم ایسی ہر سازش کو ناکام بنا کر شرم وحیا، عزت و عفت اور پاکیزگی کا علم بلند کرتی ہے ۔اسلام ہماری پہچان ہے لہذا غلامانِ مصطفے ﷺ ہرقربانی دے کراسلامی اقدار کی لاج رکھیں گے۔ فلسفہِ اقبال کا نچوڑ ۔ ( قوم مذہب سے ہے، مذہب جو نہیں تم بھی نہیں)۔،۔
 

Tariq Hussain Butt
About the Author: Tariq Hussain Butt Read More Articles by Tariq Hussain Butt: 629 Articles with 515798 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.