انڈیا میں ہر روز کروڑوں ریپ ہوتے ہیں اور ویسے تو ہر ریپ
ہی ضمیر جنجھوڑ کے رکھ دیتا ہے لیکن کئی واقعات ایسے بھی ہیں جن سے لگتا ہے
کہ معاشرہ بالکل ہی اپنے حواس کھو بیٹھا ہے جیسا کے ایک دماغی پاگل کو نہیں
معلوم کے اس نے کپڑے پہنے ہیں۔یا بلکل ننگا ہے ہمارا معاشرہ اس ڈگر پر چل
نکلاہے۔ اس میں زیادہ تر حکومتی مداریوں کے بنائے ہوئے غلط قوانین ہیں جو
وہ اپنی عیاشیاں چھپانے کے لئے عوام پر نافذ کر دیتے ہیں جیسا کے مندر میں
دیو داسی ۔پر بو داسی۔روم پارٹنر کے ساتھ سیکس جسکی ہندو حکومت نے کھلی
اجازت دی ہے۔یعنی کوئی بھی لڑکی روم پارٹنر کے نام سے کسی سے بھی زنا کر
سکتی ہے
اسی طرح کا دل ہلا دینے والا ایک واقعہ دلی میں ہوا، جہاں پولیس نے ایک 30
سالہ شخص کو گرفتار کیا ہے جس پر ایک 86 سالہ دادی کو ریپ اور اس پر تشدد
کرنے کا الزام ہے۔
دلی کمیشن فار ویمن کی سربراہ سواتی مالیوال نے بی بی سی کو بتایا کہ پیر
کو ایک بوڑھی خاتون اپنے گھر کے باہر دودھ لینے کے لئے گوالے کا انتظار کر
رہی تھی کہ ایک شخص وہاں آیا۔
اس نے انھیں بتایا کہ دودھ والا آج نہیں آ رہا ہے اور ساتھ ہی کہا کہ وہ
انھیں اس جگہ لے جائے گا جہاں دودھ مل رہا ہے۔
بوڑھی عورت نے اس کا بھروسہ کیا اور اس کے ساتھ چل پڑیں۔ سواتی مالیوال کے
مطابق وہ شخص ان خاتون کو ایک قریبی فارم میں لے گیا، جہاں اس نے ان کا ریپ
کر دیا۔
’وہ روتی رہی چلاتی رہی اور اس کی منتیں کرتی رہیں کہ وہ انھیں چھوڑ دے۔
انھوں نے اسے یہاں تک کہا کہ وہ اس کی دادی کی عمر کے برابر ہیں۔ لیکن اس
شیطان نے ایک نہ مانی اور جب انھوں نے اپنے تحفظ کے لیے مزاحمت کی تو وہ بے
رحمی سے ان پر تشدد کرتا رہا۔اسکو تھپڑ تک مارنے لگا
مقامی گاؤں والے وہاں سے گذر رہے تھے، جب انھوں چیخیں سنیں تو مدد کے لیے
آئے اور ان کو اس شخص سے چھڑایا۔ بعد میں انھوں نے حملہ آور کو پکڑ کر
پولیس کے حوالے کر دیا۔
سواتی مالیوال نے، جو منگل کو ان خاتون سے مل کر آئی ہیں، بتایا کہ ملاقات
بڑی ’دلخراش‘ اور افسوس ناک تھی۔
’ان کے ہاتھوں پر مکمل جھریاں پڑی ہوئی ہیں۔ جب آپ سنتے ہیں کہ ان کے ساتھ
کیا ہوا تو آپ کو بہت صدمہ پہنچتا ہے۔ ان کے چہرے اور پورے جسم پر زخم ہیں
اور انھوں نے مجھے بتایا کہ اندام نہانی سے بھی خون بہا تھا۔ وہ انتہائی
بزرگ بوڑھی دادی کس صدمے کی حالت سے گذر رہی ہیں۔
سواتی مالیوال کا مطالبہ ہے کہ حملہ آور کو سزائے موت دی جائے، جن کے متعلق
وہ کہتی ہیں کہ ’وہ انسان نہیں ہے۔‘ سیکس کو پروموٹ کرنے والے درندے ہیں جن
کا انسانیت سے کوئی تعلق نہیں
انھوں نے کہا کہ ’میں دلی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اور شہر کے لیفٹیننٹ گورنر
کو لکھ رہی ہوں کہ اس مقدمے کی فاسٹ ٹریل سنوائی ہو اور اسے چھ ماہ میں
لٹکا دیا جائے۔‘
ریپ اور جنسی تشدد دسمبر 2012 سے توجہ کا مرکز ہے جب دلی میں ایک 23 سالہ
فزیوتھراپی کی سٹوڈنٹ کو ایک چلتی بس میں سموئی گینگ ریپ کیا گیا تھا۔ وہ
بعد میں سنگاپور میں علاج کے دوران انتقال کر گئی تھیں۔ اس گھناؤنے فعل میں
ملوث چار افراد کو مارچ میں پھانسی دی جانی تھی۔
لیکن جنسی جرائم پر مکمل فوکس کے باوجود بھی ان میں مسلسل بڑی تیزی اضافہ
ہو رہا ہے۔
دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے، جبکہ بھارت میں آج بھی پربوداسی نامی
روایت کا بول بالا ہے۔ یہ غلیظ اور گھٹیا روایت ساتویں صدی کے درمیان پروان
چڑھی۔ کچھ جاہل انسانوں اپنے مفادات کی خاطر غریب اور معصوم بچیوں کا جنسی
استحصال کرنا شروع کیا۔
صدیوں سے جاری اس فرسودہ روایت کا پس منظر اور تاریخ کچھ یوں ہے کہ غریب
نابالغ بچیوں اور لڑکیوں کو سماج کا ایک بدمعاش اور طاقتور گروہ مندر لے
جاتا ہے، جہاں رسم و رواج کا گھناونا کھیل کھیلا جاتا ہے اور ان معصوم
بچیوں کی شادی بھگوان سے کرائی جاتی ہے۔ غریب والدین کو پیسے بھی دیے جاتے
ہیں اور ساتھ کہا جاتا ہے کہ ان کی بچیاں مقدس کام کے لئے چنی گئی ہیں،
والدین بھی خوشی خوشی ان بچیوں کو گھٹیا لوگوں کے سپرد کردیتے ہیں۔ ان کی
شادی بھگوان سے کروادی جاتی ہے جسے پٹوکاٹو (pato kato) کہا جاتا ہے۔ بچیاں
یہ سمجھتی ہیں کہ وہ کوئی پاکیزہ کام کرنے جارہی ہیں، اس لئے شروع شروع میں
وہ خوش ہوتی ہیں۔ انہیں کیا معلوم کہ درندے انہیں کن گھناونے مقاصد کی
تکیمل کے لئے یہاں لائے ہیں۔
بھگون کے ساتھ شادی کی رسم تو محض ایک دھوکا ہے! بھگوان سے شادی کا جھانسہ
دے کر ان بچیوں کو سیکس ورکرز کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ ان کے جسموں
کی خرید و فروخت کی جاتی ہے، مندر کے نام پر ان بچیوں سے جنسی زیادتی ہوتی
ہے۔ مندر کا حصہ بننے کے بعد ماں باپ کا گھر ان کے لئے حرام ہوجاتا ہے، جب
یہ بچیاں ادھیڑ عمر کو پہنچ جاتی ہیں تو پھر انہیں مندر سے بے دخل کردیا
جاتا ہے، اب گلیاں، سڑکیں ان کا مقدر ہوتی ہیں بلکہ یہ ایڈز پھیلانے والی
فیکٹریاں بن چکی ہوتی ہیں کھانے پہنے سونے اور روزمرہ کی ضروریات کو پورا
کرنے کے لئے ہر وقت جسم فروشی کرنی پڑتی ہے اور اسی بدترین صورتحال کا شکار
ہو کر یہ خواتین مر جاتی ہیں۔ ۔ ۔
دیوداسی بچیوں کو شروع شروع میں یہ تلقین کی جاتی ہے کہ ان کے ساتھ جو مرد
ہمبستری کرے، وہ ان مردوں کو ہر صورت خوش کریں۔ اس لئے یہ بچیاں رضامندی سے
مردوں کے ساتھ ہمبستری کرتی ہیں۔ ساتھ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جو بچی غیر
مرد کے ساتھ ہمبستری نہیں کرے گی، بھگوان اس سے ناراض ہو جائے گا اور وہ
نرگ میں جائے گی۔
نیشنل کرائم ریکارڈز بیورو کے مطابق، 2018 میں پولیس نے 33,9772 کیسز
ریکارڈ کیے ہیں، جس کا مطلب ہے کہ ہر 2 منٹ میں ایک ریپ۔ لیکن ریپ کے خلاف
مہم چلانے والے کہتے ہیں کہ دراصل حقیقی نمبر اس سے کہیں زیادہ ہیں کیونکہ
بہت سے کیسز تو رپورٹ ہی نہیں کروائے جاتے۔
اور سب خبروں میں بھی نہیں آتے، صرف بہت زیادہ ظالمانہ اور چونکا دینے والے
ہی پریس میں رپورٹ ہوتے ہیں۔
گذشتہ کچھ دنوں میں جب انڈیا کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے مشکلات کا شکار
ہے، ایسی بھی اطلاعات ہیں کہ کووڈ۔19 کی مریضہ کو لے کے جانے والی ایک
ایمولینس کے ڈرائیور نے انھیں راستے میں ہی ریپ کر دیا۔
گذشتہ ماہ گنے کے ایک کھیت میں ایک 13 سالہ لڑکی کو ریپ کرنے کے بعد قتل کر
دیا گیا تھا اور اس کے والد کا کہنا تھا کہ اس کی آنکھیں نکال دی گئی تھیں
اور زبان کاٹ دی گئی تھی۔ اور اسکے پرائیوٹ پارٹ تک کاٹ دئے گئے تھے یہ
ہندو پرجاتی آخر اتنا ظلم کیوں کرتی ہے
جولائی میں ایک چھ سالہ بچی کو بھی اغوا کرنے کے بعد ریپ کیا گیا تھا اور
اس پر حملہ کرنے والے نے اس کی آنکھوں پر زخم لگائے تھے جو کہ بظاہر اس لیے
کیا گیا تھا کہ وہ حملہ آور کی شناخت نہ کر سکے۔
خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم کارکن یوگیتا بھایانا، جو کہ ایک غیر سرکاری
تنظیم پیپلز اگینسٹ ریپ ان انڈیا (پری) کے لیے کام کرتی ہیں، کہتی ہیں کہ
’میں ایک ایک ماہ کی بچی اور ایک 60 کی دہائی میں عورت سے ملی ہوں جنھیں
کیپشن
انڈیا نے 2013 میں ریپ کے خلاف ایک سخت نیا قانون بنایا تھا
دلی میں دسمبر 2012 میں ہونے والے بہیمانہ بس ریپ کے بعد، جس کی پوری دنیا
میں مذمت کی گئی، انڈیا نے ریپ کے جرم کے سخت قوانین متعارف کرائے تھے، جن
میں بے رحم کیسز میں موت کی سزا بھی شامل تھی، یہ بھی وعدہ کیا گیا تھا کہ
ریپ کیسز میں فوری طور پر عدالتیں لگیں گی اور مجرموں کو سزائیں دی جائیں
گی۔
تاہم سرگرم کارکن کہتے ہیں کہ اب بھی کچھ زیادہ نہیں بدلا ہے۔ سب ویسے کا
ویسا ہی ہے
بھایانا کہتی ہیں کہ ’صورت حال نہیں بدلی ہے کیونکہ عورتوں اور لڑکیوں کی
حفاظت کو حکومت کی اولین ترجیحات میں ہونا چاہیئے لیکن وہ تو وہاں کہیں نظر
نہیں آتی۔‘ بلکہ منتری سادھو گرے منتری سب کے سب اس گھناؤنے جرم کے سرپرست
ہیں
’انڈیا بیرونی سکیورٹی پر بات کرتا ہے، لیکن میں ان سے پوچھتی ہوں کہ
اندرونی سکیورٹی کے متعلق کیا خیال ہے؟ آپ عورتوں اور لڑکیوں کی حفاظت کو
یقینی بنانے کے لیے کیا کر رہے ہیں؟‘
بھایانا کہتی ہیں کہ انھوں نے ریپ کا شکار عورتوں کے لیے انصاف کے متعلق
وزیرِ اعظم نریندر مودی کو 100 سے زیادہ خط لکھے ہیں اور انھیں ابھی تک ایک
جواب بھی نہیں آیا ہے۔کیونکہ یہ چائے والا بھی کئ ریپ کی سرپرستی کرتا ہے‘
جب مودی چائے والا اپوزیشن میں تھا تو اس نے کئی ریلیوں میں دلی کو ’ریپ کا
دارالحکومت‘ کہا تھا۔ ’ اور یہ بھی کہا تھا کے یہ دھلی ریب کی شمسان گھاٹ
ہے یعنی جیسے ہر ہندو ارتھی کو جلنا ہوتا ہے ویسے ہی ہر کنواری یا بوڑھی
ادھیڑعورت سے ریپ جرور ہوتا ہے پولیس خاموش تماشائی بنی ہوتی ہے
سنہ 2012 میں ایک طالبہ سے اجتماعی جنسی زیادتی اور قتل کے بعد دلی میں
شدید مظاہرے ہوئے تھے
سنہ 2014 میں وزیرِ اعظم کا عہدہ سنبھالنے کے بعد لگتا تھا کہ یہ ان کی
ترجیحات میں شامل تھا کیونکہ انھوں نے اپنی یومِ آزادی کی پہلی تقریر میں
ریپ پر بات کی تھی اور والدین کو مشورہ دیا تھا کہ کس طرح وہ بیٹوں کی اچھی
پرورش کر سکتے ہیں۔
انھوں نے کہا تھا کہ ’جب ہم ان ریپس کے متعلق سنتے ہیں تو ہمارے سر شرم سے
جھک جاتے ہیں۔‘ پوری دنیا میں ہم شرم سار ہو جاتے ہیں ہم اگر کسی ملک میں
نمائندگی کے لئے جاتے ہیں ہمارے ساتھ جو مہلائیں بھی ہوتی ہیں لیکن دنیا اس
شک سے ہمیں دیکھتی ہے کے شائد ان استری کا ریپ بھی ہوا ہے چاہے وہ بے چارگی
کتنی ہی پوترہی کیوں نہ ہو اور حیران پریشان ہو جاتے ہیں کے مندر اور پروبو
داسی اور پروہت کی حرکات کیسے مندر سے باہر آجاتی ہیں
انھوں نے والدین کو کہا کہ ’ہر گھر میں والدین اپنی بیٹیوں سے بڑے سوال
کرتے ہیں کہ وہ کہاں جا رہی ہیں، کب واپس آئیں گی، اور کہتے ہیں کہ جب وہ
اپنی منزل پر پہنچے تو انھیں ضرور اطلاع دے۔
’لیکن کیا آپ نے کبھی اپنے بیٹے سے پوچھا ہے کہ وہ کہاں جا رہا ہے، کیوں جا
رہا ہے اور اس کے کون دوست ہیں؟ بہر حال، جو شخص ریپ کر رہا ہے وہ بھی تو
کسی کا بیٹا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ والدین اپنے بیٹوں پر بھی ضرور نظر رکھیں۔
انڈیا جیسے جاگیردارانہ اور پدرشاہی معاشرے میں اسے ایک اہم اعلان کے طور
پر دیکھا گیا۔
لیکن اس کے بعد سے جنسی تشدد کے کیسز میں اضافہ ہوا ہے اور کئی ایک میں
بااثر افراد بھی شامل ہیں اور 2018 میں ایک ٹویٹ کے علاوہ جس میں وزیرِ
اعظم مودی نے کہا تھا کہ ’انڈیا کی بیٹیوں کو انصاف ملے گا‘، وہ زیادہ تر
چپ ہی رہے ہیں۔ ان کا یہ ٹویٹ بھی اس وقت سامنے آیا تھا جب ان کی پارٹی کے
کچھ افراد کے متعلق ریپ کی خبریں شہ سرخیوں میں تھیں۔ یہ ہی BJP پارٹی
زیادہ تر ریپ میں ملوث ہے
بھایانا کہتی ہیں کہ ’کوئی جادو کی چھڑی، کوئی ایک چیز‘ صنفی تشدد کے اس
مسئلے کو رات بھر میں غائب نہیں کر سکتی۔
دلی گینگ ریپ کے بعد جنسی تشدد کے واقعات کے پولیس کے پاس اندراج میں سو فی
صد سے زیادہ اضافہ دیکھنے میں آیا اور تو اور اداکارہ شلپھا سیٹھی کے گھر
پورن فلمیں بنتی ہے جو باہر ممالک میں مہنگے داموں میں ایڈینگ کر کے فروخت
کی جاتی ہیں بلکہ بھارت میں 95 %فی میل ایکٹریس شادی سے پہلے ہی سنطان پیدا
کرچکی ہیں۔جو کے انسانیت کے ساتھ ایک کھیلواڑ ہے۔ پھر گینگ ریپ کا شغل تو
انکے مقابلے میں بہت ہی چھوٹا لفظ ہے۔بھارت میں کسی بھی استری کی عزت محفوظ
نہیں ہے
وہ کہتی ہیں کہ بہت کچھ بدلنے کی ضرورت ہے، پولیس اور عدالتی اصلاحات،
پولیس اور وکلا میں زیادہ حساسیت، اور تفتیش کے بہتر آلات۔مندروں میں سادھو
پروہتوں دیو داسی۔پر ابو داسی۔ان سب کو سخت سزا دی جائے۔پھر ریپ کا سلسلہ
رک پائے گا وہ بھی کچھ فیصد تک.
|