ن لیگ کیوں ناکام ہوئی ؟

پچیس جولائی سیالکوٹ میں عام دنوں کی نسبت کچھ زیادہ گرم اور حبس زدہ دن تھا اس کے باوجود سیاسی جماعتوں کے کارکنان کا جوش و خروش دیدنی تھا آزاد کشمیر میں قانون ساز اسمبلی کے الیکشن ہورہے تھے اور سیالکوٹ اور گوجرنوالہ میں جموں کے مہاجرین کی ایک کثیر تعداد آباد ہونے کی وجہ سے ان دو اضلاع میں کافی گہما گہمی محسوس ہورہی تھی ۔

گوجرانوالہ اور سیالکوٹ ایک عرصے سے مسلم لیگ ن کے گڑھ کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں یہاں کچھ ماہ پہلے ہونے والے ضمنی الیکشنز میں مسلم لیگ ن کی واضح برتری بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ یہاں نواز شریف اگر کسی کھمبے کو بھی کھڑا کردیتے تو وہ بھی جیتنے کی اہلیت رکھتا تھا تاہم حالیہ مہاجرین کے الیکشن کا نتیجہ بالکل الٹ نکلا , پی ٹی آئی کے ایل اے 36 سے امیدوار حافظ حامد رضا اور ایل اے 35 سے چوہدری مقبول گجر نے مد مقابل اُمیدواروں کو شکست سے دو چار کردیا۔

مذکورہ دو حلقوں سے ن لیگ کی شکست آسانی سے ہضم ہونے والی بات نہیں ، اگر حقائق کو دیکھا جائے تو حافظ حامدرضا عوامی لیڈر ہیں لوگوں کے دکھ سکھ کے ساتھی ہیں سیالکوٹ شہر اور گردونواح میں انکی ساکھ ایک مہذب مذہبی شخصیت ہونے کے ساتھ ہر کسی کی باآسانی ان تک رسائی بھی ہے۔ دوسری طرف چوہدری مقبول گجر کی جیت میں ان کی اپنی شخصیت سے ذیادہ تحریک انصاف کے مقامی رہنماؤں کا عمل دخل محسوس ہوتا ہے تحصیل سمبڑیال سے بریگیڈئر(ر) اسلم گھمن اور ان کے بھائی چوہدری عظیم نوری گھمن کی دن رات کی محنت نے بھی اس جیت میں بڑا اہم کردار ادا کیاان دونوں بھائیوں کے عوامی روابط بہت مضبوط ہیں ۔

حقیقت یہ ہے کہ حالات کی ابتری اور مہنگائی کے اس قدر طوفان کے باوجود عمران خان کی ناقص حکمت عملیوں سے تنگ آئے ہوئے لوگ بھی اب نواز شریف کا ریاست مخالف بیانیہ قبول کرنے کو تیار نہیں، قوم کو اب لندن میں بیٹھ کر سیاست کرنے والے ناگوار گزرنے لگے ہیں مسلم لیگ آہستہ آہستہ عوامی ردعمل کا شکار ہوتی چلی جارہی ہے ۔

شکست کی ایک بڑی وجہ لیگی قائدین کی اپنے حلقوں کی عوام سے دوری ہے، خود ہمارے اپنے علاقے کے لیگی ایم پی اے ارشد وڑائچ تین سال گزرنے کے بعد اب کہیں اکا دکا تقریبات میں نظر آتے ہیں یہی وجہ ہےکہ حالیہ الیکشن کمپئین میں ان کے ساتھ ایک بدمزگی کا واقعہ بھی پیش آیا جب ایک گاؤں میں ایک نوجوان کے ساتھ ان کی اچھی خاصی تلخ کلامی ہوئی اور انہیں تقریب ادھوری چھوڑ کر جانا پڑا۔
کم و بیش پینتیس سال تک صوبائی و وفاقی حکومت کے مزے لینے والے جب ہر مشکل وقت میں اپنے کارکنان کو چھوڑ کر کبھی سعودیہ تو کبھی لندن بھاگ جائیں تو کون ان پہ اعتبار کرنے کو تیار ہوگا ؟ کس منہ سے کہتے ہیں ووٹ کو عزت دو؟ حالانکہ یہ خود اپنے ووٹر کو تنہا چھوڑ کر بیرون ملک خود ساختہ جلا وطنی اختیار کئے ہوئے ہیں ۔

مسٹر ٹین پرسنٹ کے نام سے شہرت پانے والے زرداری صاحب کو مجید نظامی مرحوم( چیف ایڈیٹر نوائے وقت) نے انہی خوبیوں کی وجہ سے مرد حر کا خطاب دیا تھا کہ تمام تر الزامات کے باوجود کبھی انہوں نے ملک چھوڑ کر بھاگنا گوارہ نہیں کیا, آپ جماعت اسلامی , ق لیگ یا تحریک لبیک کے قائدین کی قربانیاں دیکھیں حیران رہ جائیں گے اور اس کے مقابلے میں ن لیگ کے کارکنان کی بیچارگی ملاحظہ کیجئے ان کی ساری مرکزی قیادت لندن کے عالیشان گھروں میں بیٹھ کر دن رات ملک و قوم کے غم میں گھل رہی ہے ۔
میں سمجھتا ہوں موجودہ الیکشن میں لوگوں نے ووٹ تحریک انصاف کی حمایت میں نہیں بلکہ نواز شریف کی مخالفت میں دیا ہے ۔

کالم ختم کرتے ہوئے چوہدری نصراللہ صاحب ( رہنماء جموں وکشمیر یونائٹڈ موومنٹ)
کی ایک بات مجھے بڑی شدت سے یاد آرہی ہے وہ کہتے ہیں " کشمیر کے نام پہ ووٹ مانگنے آنے والوں سے ایک بات ضرور پوچھنا کہ آپ نے آج تک کشمیر کے لئے کیا کیا ہے؟"
یہ سوال کرنے کے لئے اب ہمیں مزید کچھ سال انتظار کرنا پڑے گا کیونکہ غالب گمان ہے کہ منتخب نمائندے اب کم از کم اگلے چار سال تو شائد نظر نا آئیں ۔

لیکن یہ کوئی پہلی بار ایسا نہیں ہوگا کیونکہ ہمارے حکمران کشمیر کی آزادی کے نام پہ پچھلے ستر سال سے ہمیں مسلسل بے وقوف بنارہے ہیں سو ایک اور بار بے وقوف بننے میں کیا مضائقہ ہے ؟۔



 

Shahid Mushtaq
About the Author: Shahid Mushtaq Read More Articles by Shahid Mushtaq: 114 Articles with 87183 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.