ویسٹ کوٹ سے بریف کیس تک

آزادکشمیر میں ایک بزرگ سیاستدان کا کوٹ بہت مشہور تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میرپور میں پی پی پی کے ایک راہنماءنے کوٹ کا ذکر چھیڑا تو ایک سماجی جلسے میں ادھم مچ گیا۔ ادھم مچانے والوں کو شاید اس کوٹ سے کوئی تعلق تھا یا نہیں البتہ وہ اس کوٹ کی برکت سے بننے والی حکومت میں وزیر تھے اور انہیں اچھی طرح معلوم تھا کہ اگر کوٹ کے ذکر پر احتجاج نہ کیا تو صاحب کوٹ کی اولاد اسے وزارت سے محروم ضرور کر دے گی۔ اپنی وزارت بچانے کے لیے ایک بزرگ سیاستدان نے کوٹ کا ذکر نہ کرنے پر جلسے کی کاروائی جاری رکھنے کی اجازت دی وگرنہ ملک بھر سے آنے والے شرکاءاور مندوبین اپنے مقاصد ادھورے چھوڑ کر واپس جانے پر مجبور ہو جاتے ۔ یہ واقعہ ۰۸ کی دہائی کا ہے، تب ہم بھی کوٹ اور پھر اس کی جیب سے واقف ہوئے۔ اس کے بعد جب بھی کبھی کوٹ کا ذکر ہوتا تو بات ہماری سمجھ میں آجاتی۔ گزشتہ دنوں انٹر نیٹ پر ایک تصویر بہت معروف ہوئی لیکن اس کا مفہوم سمجھ میں نہیں آتا تھا۔ اس میں تصویر ایک رکشے کی پشت پر پشتو زبان میں لکھا تھا ” بابا ایزی لوڈ ورکہ“(بابا ایز لوڈ مانگتا ہے)۔ پٹھانوں میں بہت سے خوبیاں ہیں، ان میں سب سے بڑی خوبی دلیری اور بے باکی ہے۔ جب پشاور جانا ہوا تو کئی ایک رکشوں پر یہی عبارت لکھی تھی۔ میرے ہم سفر نے بتایا کہ وزیراعلیٰ کے والد محترم کے پاس جو بھی کوئی کام لے کر جاتا ہے تو وہ ایک ہی بات کہتے ہیں کہ ایزی لوڈ کرواؤ تو ابھی فون کرتا ہوں۔ میں نے عرض کیا کہ ہمارے ہاں تو کوٹ اور اس کے جیب کے چرچے تو سنے تھے لیکن وقت اور حالات بدلنے کے ساتھ، ساتھ لینے دینے کے اسلوب بھی تبدیل ہو چکے ہیں۔ نئی ٹیکنالوجی کی آمد سے کئی ایک خیراتی ادارے بھی موبائل کے ذریعے فنڈ ریزنگ کرتے ہیں۔ کاروباری کمپنیاں اور سٹے باز بھی مختلف سوالات کے جوابات پرفی ایس ایم ایس پانچ یا دس روپے عائد کرکے موبائل کمپنی کے اشتراک سے رقم جمع کرتی ہیں۔ سمجھدار سیاستدانوں نے بھی جدید ٹیکنالوجی کو استعمال میں لاتے ہوئے عوام سے جیب خرچ جمع کرنے کی ترکیب تلاش کرلی۔ ایسے صاحب حکمت کو داد دینی چاہیے۔

خیبر پختون خواہ میں سیاستدانوں کے ریٹ کم ہیں، اس لیے وہ ایزی لوڈ کا استعمال کرتے ہیں ، دوسرے وہاں عوام اور سیاستدانوں میں کوئی گیپ نہیں، ہر کوئی صاحب اقتدار لوگوں کے پاس آسانی سے رسائی حاصل کرلیتا ہے۔ جبکہ آزادکشمیر میں عوام کی بڑے سیاستدانوں تک رسائی مشکل ہوتی ہے۔ ان کے پاس دوسرے درجے کے سیاستدانوں کا ہی آنا جانا ہوتا ہے۔ گزشتہ پانچ سالوں کے دوران آزادکشمیر میں کئی حکومتیں تبدیل ہوئیں اور اس دوران اس تبدیلی کے پس منظر میں موجود ایک بڑی شخصیت کے بارے میں یہ کہانیاں زبان زد عام ہیں کہ انہوں نے فلاں اور فلاں سے بریف کیس وصول کیے کہ تمہیں اس بار وزیر اعظم بنوائیں گے۔ تین وزارتیں تبدیل کروانے کے دوران خوب کمائی کی اور تیسری بار بھی انہوں نے کوشش کی کہ اگر تبدیلی کا موقع ہاتھ آئے تو تیسرے بریف کیس کا حق بھی ادا کر دیا جائے،جو ممکن نہ ہو سکا۔ اسی حوالے سے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ تیسرے بریف کیس کا حق نمک ادا کرنے کے لیے ایک آزاد امیدوار کو کامیاب کرواکر اسمبلی میں لانے کی کوشش کی گئی ، جو بری طرح ناکام ہوئی۔

عوام کی زبان کون روک سکتا ہے، پشاور میں رکشہ ڈرائیور سرعام اشتہار لگا کر گھوم رہا ہے اور آزادکشمیر میں ہر خاص و عام یہ کہانیاں سنا رہا ہے۔ جتنے منہ اتنی باتیں لیکن کشمیری سیاستدانوں کو پختونوں پر یہ برتری حاصل ہے کہ وہ ایزی لوڈ کے بجائے بریف کیس کا استعمال کرتے ہیں، جس کا کوئی ریکارڈ نہیں ہوتا جبکہ ایزی لوڈ کا ریکارڈ کسی بھی وقت حاصل کیا جا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کشمیریوں کو الیکشن میں دھاندلی کے جتنے گُر آتے ہیں ، ہمارے پختون بھائی شائید اگلی صدی تک وہ طریقے اختیار نہ کر سکیں۔ ہمارے ہاں تو اب اس ٹیکنالوجی کو باقاعدہ سند بھی حاصل ہونے والی کہ کیونکہ سلطان محمود چوہدری نے برملا کہا ہے کہ یہ برطانیہ یا امریکہ کے الیکشن نہیں، آزادکشمیر کے الیکشن ہیں اور اس خطے کے اپنے تقاضے ہیں۔ اب تو عام لوگ بھی بقول سلطان محمود یہی کہہ رہے ہیں کہ یہ کون سے برطانیہ کے الیکشن ہیں کہ دھاندلی نہ ہو۔

یوں لگتا ہے کہ کوٹ کا دور ختم ہونے کے بعد بریف کیس پالیٹکس بھی کم از کم اگلے پانچ سال تک مندے کا شکار ہو گی ۔ نیا سیشن آنے تک ”کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک“ کے مترادف ناامیدی میں ہی زندگی کٹے گی۔ 2016 میں شائید کوٹ ، ایزی لوڈ اور بریف کیس کے بجائے کوئی نئی ٹیکنالوجی دریافت ہو جائے، تاہم اس کے استعمال کے لیے بھی عقل درکار ہو گی، جو بازار سے نہیں ملتی ۔ عوام کو دھوکہ دینے کا دور بھی رفتہ، رفتہ ختم ہو رہا ہے۔ بہت پسماندہ اور بلندو بالا پہاڑی علاقوں کے لوگوں نے بھی برج الٹنے اور مورثی سیاست کو لات مار کر یہ پیغام دیا ہے کہ موروثیت ان کے مسائل کا حل نہیں۔ دادا اور باپ کے بعد پوتے کو کئی جگہوں پر عوام نے مسترد کر دیا ہے۔ امید ہے اب عوام کی جان کوٹ اور بریف کیس سے بھی چھٹ جائے گی تاہم جو لوگ نذرانے ادا کر چکے ہیں ، وہ اب ہاتھ ہی مل سکتے ہیں۔ ان سے اظہار ہمدردی ہی کیا جا سکتا ہے۔
Atta ur Rahman Chohan
About the Author: Atta ur Rahman Chohan Read More Articles by Atta ur Rahman Chohan: 129 Articles with 105773 views عام شہری ہوں، لکھنے پڑھنے کا شوق ہے۔ روزنامہ جموں کشمیر مظفرآباد۔۔ اسلام آباد میں مستقل کالم لکھتا ہوں۔ مقصد صرف یہی ہے کہ ایک پاکیزہ معاشرے کی تشکیل .. View More