گرینڈ الائنس

آج کل گرینڈ الائنس کے بڑے چرچے ہیں، چند روز قبل میاں نوازشریف کے جارحانہ بیانات سے اخبارات کی رونق تھی، حکومت (وفاقی) کی ناکامی کے اعلانات تھے، اس کی کرپشن کی مذمت تھی، اس کی جمہوریت کشی کا تذکرہ تھا، آزاد کشمیر میں دھاندلی کے الزامات تھے، اور آخر کار حکومت کی رخصتی کا اعلان تھا ، کہ اب وہ مناسب وقت آچکا ہے کہ حکومت کو اب چلے جانا چاہیئے۔ اب یہ رونق تصویری جھلکیوں کی صورت میں ڈھل چکی ہے، میاں صاحب نے اگلاقدم یہ اٹھایا ہے کہ اس گرینڈ الائنس کے لئے عملی کوششوں کا آغاز کردیا ہے، وہ اب تک سابق وزیراعظم بلخ شیرمزاری اور پی پی کے سابق وزیر خارجہ اور پارٹی سے ناراض لیڈر شاہ محمود قریشی سے ملاقاتیں بھی کرچکے ہیں۔ امید ہے ملاقاتوں کا یہ سلسلہ چند روز تک چلے گا، بعض قائدین کرام سے ٹیلی فونک رابطے بھی ہونگے،چند روز بعد اس ہنگامی مشن میں ضرور کوئی پیش رفت ہوجائے گی۔

چار برس پیچھے مڑ کر دیکھیں تو معلوم ہوگا، کہ اس وقت بھی میاں نواز شریف سخت جلدی میں تھے، مشرف سے معاہدہ کی صورت میں وقوع پذیر ہونے والی ڈیل کے نتیجے میں ہونے والی جلاوطنی سے واپسی پر اول تو میاں صاحب مشرف کے زیرانتظام کرائے گئے الیکشن میں حصہ ہی نہیں لینا چاہتے تھے، انہوں نے بائیکاٹ کیا ، پھررجوع کرلیا ، کسی سیانے نے مشورہ دیا ہوگا کہ جنا ب اگر آپ الیکشن نے میدان میں نہ کودے تو آپ کے سیاسی پہلوان میدان خالی کردیں گے۔ دریں اثنا بے نظیر زرداری کا سانحہ ارتحال وقوع پذیر ہوگیا، میاں صاحب نے جذباتی فیصلہ کرتے ہوئے ایک مرتبہ پھر الیکشن کا بائیکاٹ کردیا، مگر جب دیکھا کہ خود مرحومہ کے ورثاءہی الیکشن لڑنے پر آمادہ ہیں توانہوں نے ایک مرتبہ پھر اپنے اعلان کو منسوخ کردیا۔

عوام نے دیکھا کہ ہر طرف این آر او کے چرچے ہیں، ایک فوجی آمر نے بے نظیر زرداری سے کچھ اس قسم کی ڈیل کی کہ ان کے تمام گنا ہ دھل گئے، اس بہتی گنگا میں بہت سے سیاستدانوں اور بیوروکریٹس نے بھی اشنان کئے۔گنگا نہاکر ، پاک صاف ہوکر موجودہ حکمران طبقہ عوام پر مسلط ہوگیا، بلکہ یوں کہئے کہ عوام نے خود اپنے سروں پر اسے مسلط کیا۔ پھر میثاق جمہوریت والے آگے بڑھے اور ملک بچانے کی کوششیں کرنے لگے، اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے ، کہ میان نواز شریف کے بھر پور تعاون سے پی پی حکومت قائم ہوگئی۔ قوم کو بتایا گیا کہ میثاق جمہوریت ایک مقدس صحیفہ ہے، جولندن سے درآمد کیا گیا ہے، اس کی روح کے مطابق عمل کرنے سے ملک کا سیاسی نظام مستحکم ہوجائے گا، معیشت مضبوط ہوجائے گی، ملک ترقی کی شاہراہوں پر سرپٹ دوڑنے لگے گا۔

پھر مفاہمتی سیاست کادور چلا(جوکہ اب بھی جاری ہے۔)ن لیگ اور پی پی شیرو شکر ہوئے رہے، لیکن مفاداتی اتحاد زیادہ دیر قائم نہ رہ سکا، پھر عوام نے فرینڈلی اپوزیشن کے چرچے سنے، مشرف کے ہاتھوں وزارتوں کا حلف اٹھانے والے وزراءبھی اپوزیشن بن گئے، مگر کھیلے کچھ یوں کہ ”پولے پولے “ بال ہوتے رہے اور مرضی کی بیٹنگ ہوتی رہی، حکومت چلتی رہی ، اپوزیشن ہوتی رہی۔ لیکن جب دیکھا کہ اب ہرطرف سے طعنہ زنی شروع ہوچکی ہے، اور جلتی پر تیل کا کام ق لیگ کا حکومت میں شمولیت نے کیا، جب ن لیگ حکومت میں شامل تھی تو سب اچھا تھا۔یہ حقیقت بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ موجودہ وفاقی حکومت کے لچھن تو بچے بچے کو معلوم تھے ، ایسے میں ن لیگ کے قائد کو کیوں معلوم نہ ہوسکا، کیا وہ عوام کے برابر بھی سوچ نہیں رکھتے؟دوسرے یہ کہ وہ اب یکدم گرینڈ الائنس کی طرف کیسے پلٹ آئے ، وہ تو کسی کو قبول کرنے کے لئے تیا ر نہیں تھے۔ کیا ایم کیو ایم یا مولانا فضل الرحمن کی سیاست بھی این آر او کی طرح اپنے گناہ معاف کروا آئی ہیں؟ یا موجودہ حکومت کو گرانے کے بعد پھر نئے دشمن ، نئے دوست۔
muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 472789 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.