یقیناً محبت اظہار مانگتی ہے مگر افسوس کہ ہم
خالی اقرار کو اظہار سمجھ لیتے ہیں۔
دراصل دور حاضر میں کوئی ایسی عام یا خاص درس گاہ نہیں جہاں محبت کا سبق کم
از کم پڑھایا ہی جاتا ہو۔
بلکہ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ فلموں ڈراموں اور قصہ کہانیوں میں جو ہوس
دکھائی دے رہی ہے ہم اسی کو محبت مان کر چل رہے ہیں۔ اس وجہ سے شاید معاشرے
میں بگاڑ بھی بڑھتا چلا جا رہا ہے۔
مگر محبت تو بڑا جذبہ ہے۔ یہ بے لوث عقیدت ہے۔
محبت چاہے والدین سے کی جائے یا اولاد سے، خواہ اساتذہ سے خواہ اپنے روزگار
و کاروبار سے، خواہ کسی محبوب یا محبوبہ سے یا پھر حقیقی محبت حق تعالٰی
اور اسکے محبوب مصطفٰی صلی اللہ علیہ والہ و سلم کی ذات پاک سے کی جائے۔ اس
میں بے لوث ہونا تو فرض ہے۔
یعنی محب اپنے لیئے کچھ نہ چاہے اور ہر اس حال میں کلمہ شکر پڑھے جس حال
میں اسکا محبوب اس سے راضی ہو۔ اور وہ خود محبوب کے لیئے ہر طرح سے خیر بن
جائے۔
بیدم شاہ وارثی فرما گئے
"یہاں ہونا نہ ہونا ہے نہ ہونا عین ہونا ہے
جسے ہونا ہو کچھ خاک در جانانہ ہو جائے”
مطلب محب کے لیئے محبوب کے در کی خاک بن جانا ہی بڑی عزت، تسلی اور تشفی کا
مقام ہے کہ جب محبوب وہاں سے گزرے تو اپنے قدم مجھ پر رکھ کر گزرے۔
اب بھائی اس کے بعد تو مجھے نہیں لگتا کہ میں نے جاگتی آنکھوں سے کچھ زیادہ
محبت کرنے والے دیکھے ہیں۔ ہاں بہت قلیل بے حد قلیل دیکھے ہیں۔
افسوس کہ اس جہاں میں بے انتہا اکثریت خود پرست باقی ہیں۔ تو پھر انہیں خدا
کیسے سمجھ میں آ سکتا ہے۔
بابا بلہے شاہ علیہ رحمتہ فرما گئے کہ
"”جیں دل وچ پیار دی رمز نہیں، بس اوں دل کوں ویران سمجھ،””
یعنی اندھیرا اور تاریکی ہے ایسے دل میں اور روشنی و نور کی گنجائش ہی
نہیں۔
آگے فرماتے ہیں،
"”جیں کوں پیار دی جانڑ سنجانڑ نہیں، اوں بندے کوں نادان سمجھ،””
نادان کا مطلب تو دانائی سے عاری۔ تو واقعی ظلمت اور حکمت ایک ہی بت میں
یکجا تو نہیں ہو سکتی ہے۔
"”ایہو پیار ہے درس ولی یاں دا، اے مسلک پاک نبی یاں دا،””
اب اس شعر کی اس سے زیادہ آسان تشریح میں کیا کروں؟ بھائی یہ محبتیں بانٹنا
اللہ والوں کا کام ہے۔
"”انمول پیار دی دولت ای یہ، ایں کوں عقبا دا سامان سمجھ،
ہیں پیار دی خاطر عرش بنڑے، ہیں پیار دی خاطر فرش بنڑے،
خد پیار خدا وچ وسدا ہے، میں سچ اہداں قران سمجھ،”
یہاں تو میری عقل کی حد ختم ہی سمجھیں، محبت کو عاقبت کی تیاری بھی کہہ دیا
گیا اور اسکو تخلیق جہاں کی وجہ بھی بتا دیا اور یہ بھی فرما دیا کہ اللہ
پاک خود بھی پیار اور محبت کرنے والا رب ہے کہ یہی سبق قرآن بھی دے رہا ہے۔
"”ناں چاونڑ پیار دا سوکھا اے، ہیں کوں طوڑ نبھاونڑ اوکھا ہے،
معراج تھیندن ایندے سولیاں تے، کئی چڑھدے نوک سنان سمجھ،””
ہاں یہ بات بالکل درست ہے کہ محبت کا نام لینا یا دعوی کرنا تو واقعی بہت
آسان ہے لیکن نبھانے والے مر مر کے جیتے اور کٹ کٹ کر مرتے ہیں۔
"”ایہو پیار تاں رب ملوا ڈیندے،
سُتے لیکھ نظیر جگا ڈیندے،””
فرماتے ہیں کہ یہی محبت بالآخر رب ذالجلال سے جوڑ دیتی ہے اور خوشبختی و
خوش نصیبی کی آمد کا ذریعہ بنتی ہے۔
"”جیں دل وچ پیار دے دیرے ہن، بس ہوں دل کوں عرفان سمجھ،””
اچھا اب عرفان تو کہتے ہیں معرفت رکھنے والے کو، یعنی کہ جو اللہ کو
پہچاننے والا ہو۔ گویا محبت و سوز رکھنے والا دل یقیناً اللہ کا عارف ہے۔
اب بھلا ایسے بزرگوں کے عارفانہ کلام سے ہٹ کر کوئی کیا سیکھے یا سکھائے گا
عشق و محبت کے اسرار و رموز۔
اللہ اکبر!
دعا کریں خدا محبت کرنے والا بنا دے تاکہ مرنے سے پہلے ہم بھی اللہ کو
پیارے ہو جائیں۔ آمین
|