اردو شاعری حسن و عشق زلف و رخسار تک محدود تھی، اس کے
موضوعات کی فہرست میں اضافہ نہیں ہوا تھا، غزل کے لباس میں قلبی جذبات
واحساسات بیان کئے جاتے تھے، اس کا مقصد تفریح طبع کا سامان فراہم کرنا
تھا، زندگی کے مشکلات و مصائب سے بے خبر کرنا تھا، شعرا جمع ہوتے دنیا وما
فیھا کے تمام غم کو شاعری کی مجلسوں میں بھول جایا کرتے تھے،محبوب اور
محبوب کا تذکرہ، حسن اور حسن کی رعنائیاں، ان کی طبیعتوں کو مدہوش و شرسار
کئے رہتی تھیں، وہ اپنے تمام مسائل کو شاعری کی نذر کرد یتے تھے۔
عرصئہ دراز تک یہی طرز اردو شاعری میں جاری رہا، اسی طرز پر شاعری کا
کارواں آگے بڑھتا رہا، وقت نے کروٹ لی،زمانے میں تغییر ہوا، شعرا کے قلوب
میں احساس کی چنگاری سلگنا شروع ہوئی، اور دیکھتے ہی شعلہ بن گئی، جس نے
قدیم طرز شاعری کو جلا کر خاک کرنے کی کوشش کی، جو کامیاب نا ہوئی، البتہ
اس کی روشنی سے اردو شاعری میں مزید راہیں روشن ہوگئیں۔ شعرا کو احساس ہوا
کہ ان فرسودہ مضامین کے ذریعہ ہمیشہ اردو شاعری کو زندہ نہیں رکھا جاسکتا
ہے، لہذا اس میں اضافہ کی ضرورت ہے، اسی خیال کے مطابق انجمن تحریک پنجاب
کا قیام عمل میں آیا اور شاعری کی کایا کلپ ہوئی، زندگی کے مسائل کائنات
کا حسن و جمال شاعری کے موضوع قرار پائے، اور اس کے لئے مناسب پیرایہ بیان
کا انتخاب کیا گیا، اور وہ پیرایہ نظم کی شکل میں منتخب کیا گیا، حالی اور
آزاد نے اس سمت رہنمائی کی اور عملی نمونے بھی پیش کئے، اقبال، اختر
شیرانی اور احسان دانش نے اس کی اہمیت و وسعت کا احساس کرایا، اس کی قسمت
کا ستارہ بلند کیا، جوش، فیض، حفیظ نے اس کے حسن و خوبصورتی اور عمدگی کو
عوام و خواص پر عیاں کیا اس کو ترقی کے اسباب میسر کئے،جوش و ساغر نظامی نے
اس میں آہنگ روانی اور جوش و جذبہ پیدا کیا، ن م راشد اور میرا جی نے اس
میں کامیاب تجربات کئے، اور نظم کو وہ موضوعات میسر آئے جو وقت کی پکار
تھے۔
نظم کی ابتدا ہوچکی ہے، اس کاسفر آب و تاب کے ساتھ رواں ہے۔ اس کے افق پر
چند افراد ستاروں کی مانند چمک رہے ہیں، اسی دور میں ایک اور نام آسمانِ
نظم پر طلوع ہوا، اور اس کی خوبی و خوبصورتی کاذریعہ بن گیا، یہ نام اس
کہکشاں کا حصہ ہے، جس کہکشاں میں جوش کا نام بھی شامل ہے، اور اس شخصیت
کانام ساغر نظامی ہے، 1905 میں علی گڑھ میں پیدا ہوئے صبح صادق کا وقت تھا،
اِدھر کائنات میں روشنی کی پو پھوٹ رہی تھی، اُدھر شاعری میں رونق کا باعث
مشاعروں کے اسٹیج کا حسن سامعین کے قلوب میں فرحت و انبساط پیدا کرنے والا،
اور جذبات سے مملو کرنے والا شخص دنیا میں پیدا ہورہا تھا، صبح صادق کے
مبارک وقت میں ساغر نظامی پیدا ہوئے، صمد یار خاں نام رکھا گیا، نویں جماعت
میں تھے، کہ کانگریس کی تحریک عدم تعاون سے متاثر ہو کر اسکول چھوڑ دیا،
بعض روایتیں یہ بھی ثابت کرتی ہیں کہ ان کی تعلیم مکتب میں ہوئیں، انہوں نے
محض 14 سال کی عمر میں شاعری کی دنیا میں قدم رکھا، اور مشاعروں کی دنیا کے
سرتاج بنے، جس مشاعرے میں تشریف لے جاتے سامعین کے قلوب پر چھا جاتے، ساغر
نظامی کے قلب سے نکلے ہوئے ترانے لوگوں کو جھومنے پر مجبور کر دیتے،ساغر
تخلص کرتے تھے، خواجہ حسن نظامی سے بیعت ہوئے اس لئے ساغر نظامی کے نام سے
مشہور ہوئے، خواجہ حسن نظامی کہتے ہیں۔ ”اٹھارہ برس کی عمر میں میرے ہاتھ
پر میرے مکان علی منزل میں مرید ہوئے” (بادہ مشرق صفحہ 27)
سیماب اکبرآبادی کے چہیتے شاگردوں میں سے تھے اسلئے ابتدا میں ساغر سیمابی
تھے اور بعد میں شاعر نظامی ہوگئے۔ اگر چہ استاد و شاگرد کے رشتہ سے وابستہ
کچھ تلخیاں بھی رہیں، جن پر گفتگو کا یہ موقع نہیں ہے۔
ساغر نظامی کی نظم نگاری مختلف موضوعات کو محیط ہے، جن میں حب الوطنی کا
پہلو نمایاں ہے، وہ اپنے وطن کے عاشق اور اس کی مٹی کے دیوانے ہیں، انہوں
نے وطن سے محبت کے نغمہ جس جوش و جذبہ اور والحانہ محبت سے گائے ہیں ۔اس کا
اندازہ ان کی حب الوطنی پر مشتمل نظموں سے لگایا جا سکتا ہے۔وطن کی محبت ان
کی رگوں میں خون کی مانند دوڑتی ہے، وطن پر مٹنے کا پیغام دیتے ہیں، وطن کی
عزت وحرمت کو خودی کے ادراک کا ذریعہ خیال کرتے ہیں، وطن کی آزادی کو بیش
بہا نعمت گردانتے ہیں، آزادی پر قربان ہونے کو باعث فخر سمجھتے ہیں،
آزادی کے لئے کوششیں کرنا، جان لٹانا، وطن کی اہمیت کو بیان کرنا ان کی
نظموں کا نمایاں پہلو ہے، جس کا اندازہ لگانے کے لئے، ان کی نظموں پر ایک
نگاہ ڈال لینا بھی کافی ہے، خاص طور پر ان کی نظم پرتگیا، پرچم، نعمۂ وطن،
ہندوستان، میری زمیں، وطن، میرے ان دعوں کو دلائل فراہم کرتی ہیں، اس کے
علاوہ وطن کے نغمات اور اس سے عقیدت و محبت کے نغمات گانے کا جو اشتیاق ان
کے قلب میں موجود ہے، وہ بہت کم افراد کو میسر آتا ہے، گویا کہ ان کا قلب
وطن کی محبت میں دھڑکتا ہے، ان کی نظموں سے چند شعر پیش خدمت ہیں:
گولیاں چاروں طرف گھیر لیں گی جب مجھے
اور تنہا چھوڑ جائیگا میرا مرکب مجھے
اور سنگینیوں پہ چاہیں گے اٹھانا سب مجھے
اے وطن اس وقت بھی تیرے نغمہ گاؤں گا
مرتے مرتے ایک تماشائے وفا بن جاؤں گا
ان اشعار کی روشنی میں ان کی فکری بنیادوں کو دیکھا جاسکتا ہے، جو حب
الوطنی پر قائم ہیں، اور ان کا دائرہ محض یہیں تک محدود نہیں ہیں، بلکہ
حصول آزادی کے بعد انہوں نے آزادی کی خوشی کو بھی اپنی نظموں کا پیکر عطا
کیا ہے، ملک کے تمام باشندوں کے جذبات کو اپنے الفاظ عطا کئے، جس سے ان کی
قدر و منزلت دوبالا ہوگئی ہے، یقینی طور پر یہ بات کہی جاسکتی ہے، الفاظ پر
جو پکڑ جوش کو ہے، وہ اردو زبان و ادب میں کسی کو نصیب نہیں ہوئی ہے، لیکن
ساغر نظامی کو غنائیت اور ترنم میں انفرادیت اور ملکہ حاصل تھا وہ اس میدان
میں جوش کے ہم مشرب نظر آتے ہیں ، وہ اپنی نظموں میں اتنی روانی پیدا
کریدتے ہیں، کہ وہ سامعین کو تنکوں کی مانند بہائے لے جاتی ہے، اور الفاظ
کا استعمال اتنی چابک دستی سے کرتے ہیں کہ ان کی نظمیں لوگوں کے قلوب میں
گھر کرلیتی ہیں، جس کا اندازہ لگانے کے لئے خوشی کے جذبات کو متضمن چند
اشعار پیش خدمت ہیں:
یہ عید ہے عیدِ آزادی ہاں دور چلے ہاں دور چلے
ہاں دور چلے ہاں دور چلے فی الفور چلے فی الفور چلے
روٹھوں کو مناتی آئی ہے
بچھڑوں کو ملاتی آئی ہے
آزادی کے دیوانوں کی روحوں کو جگاتی آئی ہے
آزادی کی خوشی میں ڈوبا ہوا شاعر کس خوبصورت و دلکش انداز میں اپنی محبت
کا اظہار کرہا ہے، اس کا اندازہ بخوبی ہوگیا ہے، ساغر نظامی کی نظم نگاری
کے یہ وہ پہلو ہیں جس کی جاذبیت خوبصورتی اور چاشنی نے سامعین اور ناقدین
کو ان کے اسی پہلو تک محدود رکھا ہے، کم لوگ ہیں، جو ان کی نظموں کے دیگر
عنوانات کی طرف متوجہ ہوئے ہیں، حالانکہ ان کی نظم نگاری میں بہت سی
خصوصیات اور عناوین موجود ہیں، جو ان کی عظمت کو عیاں کرتے ہیں، انہوں نے
مختلف شخصیات کو خراج عقیدت پیش کیا ہے، اپنی نظموں میں ان کے کارناموں ان
کی زندگی کی خصوصیات اور اس کے مثبت نتائج کو بہت ہی خوبصورت انداز کے ساتھ
پرویا ہے، جس سے ان بزرگوں کی شخصیت کے پہلو مکمل طور پرنمایاں ہوگئے ہیں،
ان افراد سے شاعر کی محبت و عقیدت بھی نمایاں ہوگئی ہے، اس قسم کی نظموں
میں رام نور ایشیا گوتم بدھ نہرو نامہ بہت مشہور اور خاصی اہمیت کی حامل
ہے، رام پر کہی گئی نظم سے دو شعر پیش خدمت ہیں:
ہندیوں کے دل میں باقی ہے محبت رام کی
مٹ نہیں سکتی قیامت تک حکومت رام کی
زندگی کی روح تھا روحانیت کی شام تھا
وہ مجسم روپ میں انسان کے عرفان تھا
حالی اور آزاد نے فطرت نگاری کی جو تحریک شروع کی تھی، نظم نگاروں نے اس
میں اپنی حیثیت کے مطابق فطرت نگاری کے نمونے پیش کئے ہیں، اس میدان کو
ساغر نظامی نے بھی تشنہ نہیں چھوڑا ہے، الفاظ کا استعمال، تخیل کی بلندی،
کائنات کا حسن جمال اور کائنات میں موجود اشیائ کی خوبصورتی أن کی فطرت
نگاری کے آعلی ترین نمونے ہیں، برکھارت، تاج محل،اتنا خوبصورت و دلکش جوان
کے فن کا قائل کردے۔ پیرایہ تشبیہات کی عمدگی اور خوبصورتی بے مثال ہے، جس
سے ان کی فطرت نگاری کی بلندی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے، خاص طور پر سورج
کو انہوں نے جس طرح سے پیش کیا ہے، اردو شاعری میں اس کے نمونے کم ہی ملتے
ہیں، اور خوبصورت عمارتوں کی تصویر کشی ساغر نظامی کی نظموں کو مزید
خوبصورت بناتی ہے، ان کی نظم سور ج کے چند شعر پیش خدمت ہیں:
ذروں کو چمکاتا نکلا
بھیروں راگ سناتا نکلا
خاک کو درپن کرنے والا
کوہ کو معدن کرنے والا
چاند کو روشن کرنے والا
خار کو گلشن کرنے والا
دم بھر میں دنیا چمکادی
نور کی اک چادر پھیلا دی
گنگا جمنی تہذیب أن کے خون میں ہے، وہ ہندوستان کی قدیم تہذیب کے دلدادہ
ہیں، اس سے محبت کرتے ہیں، اس پر فدا ہیں، اس سے متعلق بہت سی اشیا کا
تذکرہ کرتے ہیں، اور وہ روایت جس کو نذیر اکبر آبادی نے ہولی اور دیگر غیر
مسلم قوم کے تہواروں کی منظر کشی اور عظیم شخصیت کی تعریف کرکے شروع کیا
تھا، اس روایت کو بھی بہت خوبی و خوبصورتی سے آگے بڑھاتے ہیں، جس کی
شاندار مثال ان کی نظم ہولی ہے، پیش ہیں، اس کے چند اشعار:
فصل بہار آئی ہے ہولی کے روپ میں
سولہ سنگھار لائی ہے ہولی کے روپ میں
راہیں پٹی ہوئی ہیں عبیر و گلال سے
حق کی سواری آئی ہے ہولی کے روپ میں
ساغر نظامی کی نظم نگاری میں مختلف موضوعات ہیں۔ حب الوطنی، فطرت نگاری
،منظر نگاری،شخصیات کا تذکرہ ان کی نظموں میں موجود ہے۔فلسفیانہ طرز بھی ان
کی نظموں میں موجود ہے۔ندرت خیال و ندرت بیان کا بھی مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔
جن کو انہوں نے بخوبی نبھایا ہے۔ ان میں حب الوطنی نمایاں ہے، وہ وطن سے
محبت کرتے تھے، وہ مشاعروں کے بادشاہ تھے، انہوں چھوٹی بحروں میں بھی نظمیں
کہیں سادہ الفاظ اور عمدہ تراکیب کا استعمال بھی کیا، نغمگی ان کی طاقت
تھی، موسیقی اور ترنم ان کی پہچان تھی، جس کی وجہ سے ان کی نظمیں مشہور
ہوئیں، اور آج بھی ان کی نظموں میں وہ نغمگی موجود ہے کہ پڑھئیے تو بس
پڑھتے چلے جائیے، اور ان کی عظمت کے معترف ہوجائیے،جدید لب و لہجہ کو بھی
انہوں نے بھر پور انداز میں نبھایا ہے۔ہندی کے الفاظ کو بھی انہوں نے بہت
عمدہ طریقہ سے اپنی نظموں میں استعمال کیا ہے۔ساغر نظامی عمدہ نظم نگار
ہیں۔ان کے کلام کی اپنی خوبیاں و خصو صیات ہیں،البتہ ان کے یہاں وہ گہرائی
گیر ائی نہیں ہے جو اقبال ،فیض اور اس معیا ر کے دیگر نظم نگاروں کا نصیبہ
ہے،لیکن ساغر نظامی اپنے دائرے اور میدان میں بہت حدتک کامیاب ہیں۔ان کے
نغمات دماغ کے لئے نہیں بلکہ دل کے لئے غذا فراہم کرتے ہیں اور سماعتوں کو
متائثر کرتے ہیں۔کانوں میں رس گھولتے ہیں۔زبان پر خود بخود جاری ہوجاتے
ہیں۔حافظہ میں بآسانی محفوظ ہو جاتے ہیں۔اہل دل آج بھی ان کے نغمات کا
اثر محسوس کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ان کے نغمات زبان و دل کو اپنا اسیر
بناتے ہیں اور بناتے رہیں گے۔
ساغر نظامی کو ان کی عظیم خدمات کی بنا پر پدم بھوشن ایورڈ سے بھی نوازہ
گیا ہے۔انہوں نے نظم کے ساتھ ساتھ غزل کے میدان میں بھی وقیع خدمات انجام
دی۔ان کے شعری مجموعے شہابیات،صبوحی، بادہ مشرق،موج ،ساحل ،رنگ، محل،مشعل
زندگی،بھکارن،پجارن،طلوع،کے نام شائع ہوئے۔ان مجموعوں میں نظمیں ،غزلیں،گیت
اور رباعیات شامل ہیں۔ان کی کلیات تین جلدوں پر مشتمل ہے۔اس کو ڈاکڑمظفر
حنفی نے ترتیب دیا اور 1998 میں زیور طبع سے آراستہ ہوئی۔آسمان نظم کا یہ
تابندہ ستارہ 27 فروری 1984 کو دنیا سے رخصت ہوا اور اپنے ادبی و صحافتی
کارناموں کی وجہ سے تاریخ کے صفحات پر ہمیشہ کے لئے محفوظ ہوگیا۔
|