ترقی پسند حسن حمیدی‘رانا خالدؔ محمود قیصر کی نظر میں ٭ پروفیسرڈاکٹر رئیس احمد صمدانی پروفیسر ایمریٹس، منہاج یونیورسٹی،لاہور پیش نظر تصنیف رانا خالد محمود کا ایم فل مقالہ ہے جو جامعہ کراچی کے شعبہ اردو میں پائے تکمیل کو پہنچا اور موصوف کو ایم فل کی سند عطا ہوئی،اب یہ مقالہ کتابی صورت میں منصہ شہود پر آرہا ہے۔ یہ 2019ء کی بات ہے۔خالدؔ محمودکا علم و ادب سے انسیت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے بنک کی پیشہ ورانہ مشکل زندگی، نجی گھریلو مصروفیات، بچوں کی ذمہ داریوں، شاعری اور نثر نگاری کے ساتھ ساتھ ایم فل کی تکمیل کو اپنے لیے ممکن بنایا۔ یہ ایک قابل تحسین عمل ہے۔ عام طور پر احباب اس عمر میں اور اس قسم کی مصروفیات کے ساتھ تحقیق کی جانب سوچتے بھی نہیں۔ امید کرتا ہوں کہ وہ اپنے اس حوصلہ اور شوق کو قائم و دائم رکھتے ہوئے پی ایچ ڈی کی جانب بھی قدم بڑھائیں گے۔ یہ نا ممکن نہیں، مَیں اپنی مثال ہی دیا کرتا ہوں کہ مجھے ڈاکٹریٹ کی ڈگری اور ریٹائرمنٹ کا اعزاز ایک ساتھ حاصل ہوا۔ اعلیٰ تعلیم کا عمر اور مالی منفعت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ ڈاکٹریٹ کی ڈگری ایک ایسا منفرد امتیاز ہے کہ جس کا کوئی ثانی نہیں۔ بنکاری خالد محمود کا پیشہ ہے جب کہ شاعری، تنقید نگاری اور شخصیت نگاری ان کی خاص پہچان ہے۔ان کے شعری مجموعے ’ہندسوں کے درمیاں‘اور ’امید سہارا دیتی ہے‘، جب کہ شخصیات کے حوالے سے ان کی تصنیف ’اربابِ قرطاس و قلم‘، نثری مضامین کا مجموعہ ’ادبی جمالیات‘ مجھ تک پہنچیں۔ شاعری کے مجموعہ پر تو میں لکھ سکا،ابھی دیگر تصانیف پر لکھانا مجھ پر قرض ہی تھا کہ رانا خالدؔ محمودنے اپنی یہ کتاب جس کا اوپر ذکر کیا گیا فلیپ لکھنے کے لیے بھیج دی۔ خالدؔ محمودسے ادبی تعلق کے علاوہ راجپوت ہونا قدر مشترک ہے۔ ایم فل تحقیق کے لیے بھی انہوں نے سندھ کی ایک ترقی پسند شخصیت ’حسن حمیدی‘ کی شخصیت، شاعری و نثر نگاری کا تحقیقی و تنقیدی مطالعہ کا انتخاب کیا۔ حسن حمیدی سندھ کے شہر سکھر سے تعلق رکھتے تھے لیکن ترقی پسند ی کے اعتبار سے وہ پورے پاکستان کی ایک جانی پہچانی شخصیت تھی۔ان کے اجداد کا تعلق ہندوستان کے صوبہ بہار کے شہر پٹنہ سے تھا جو عظیم آباد کے نام سے جانا جاتا تھا، ان کے والد حمید عظیم آبادی معروف شاعر شادؔ عظیم آبادی کے تلامذہ میں سے تھے۔ ادبی ذوق انہیں ورثہ میں ملا۔ اینگلو پبلک اسکول پٹنہ سے میڑک کے بعد ایم اے فارسی، انگریزی اور قانون کی ڈگری سے بھی آراستہ ہوئے۔ ولی خان کی جماعت سے وابستہ رہے، قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا ایک خاص دور میں ترقی پسندوں کے لیے عام سے بات تھی حسن حمیدی کی زندگی بھی قید و بند سے عبارت ہے۔ مصنف نے حسن حمیدی کی شخصیت کی من جملہ پہلوؤں کو خوبصورتی سے سمیٹا ہے خاندان،پیدائش، تعلیم، ملازمت، پیشہ ورانہ، ادبی و سیاسی سرگرمیوں میں کردار،جملہ تصانیف کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ، شاعری کا احاطہ خوبصورت انداز سے کیا ہے۔ ترقی پسند تحریک کے نظریات کی وضاحت اور ان نظریات سے پختہ وابستگی جس کی پاداش میں انہوں نے قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں لیکن اپنے نظریات پر سیسہ پلائی دیوار کی مانند ڈٹے رہے۔حسن حمیدی کی تصانیف شہرِ سلاسل، جرم و آگہی، سحر آواز دیتی ہے، ریزہ ریزہ ہو بہ زنجیرِ گراں (کلیات حسن حمیدی)، حسن حمیدی کی نثری نگارشات کا تذکرہ ایک علیحدہ باب میں ترقی پسند ی کے حوالے سے لیاگیا ہے۔ خالدؔ محمود کی نظم و نثر کے مطالعہ کی روشنی میں مجھے یہ کہنے میں کوئی قباحت نہیں کہ خالد ؔ محمود نہ صرف ایک اچھے شاعر ہیں بلکہ عمدہ شخصیت نگار اور تنقید نگار بھی ہیں۔ پیش نظر تحقیقی مطالعہ ان کی دیگر تصانیف سے اس طرح ممتاز ہے کہ اس میں موضوع کا احاطہ جامعاتی تحقیقی اصول و ضوابط کے مطابق کیا گیا ہے۔ اس تحریر کو جامعات کے قابل و محترم اساتذہ کی عمیق نگاہ کے بعد قبولیت کا درجہ حاصل ہوا ہے۔ آخر میں دعا گو ہوں کہ اللہ پاک مصنف کو علمی و ادبی کاوشوں کو جاری و ساری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
|