قلم سے قلب تک/ شیخ خالد زاہد (پیش لفظ)

قلم سے قلب تک/ شیخ خالد زاہد
(پیش لفظ)
٭
پروفیسرڈاکٹر رئیس احمد صمدانی
شیخ خالد زاہد کو قلم و قرطاس سے وابستہ ہوئے دوسری دیہائی ہونے کا آئی ان کا قلم ان کے قلب سے رہنمائی لیتے ہوئے کالم نگاری، شاعری اور افسانہ نگاری کے جوہر دکھارہا ہے۔وہ ”قلم سے قلب تک“ کے عنوان سے کالم لکھتے رہے ہیں اسی مناسبت سے انہوں نے اپنے کالموں کے مجموعے کانام بھی قلم سے قلب تک رکھا ہے۔زیر نظر مجموعہ میں انھوں نے نہایت وقتِ نظر سے زندگی کے ہر ہر موضوع اور معاشرے میں بگڑتی صورت حال، اسباب وجوہات اور اس کی بہتری کی تجاویز کو کالموں کی صورت میں یکجا کردیا ہے۔شیخ خالد زاہد سے ہمارے تعلق کی بنیادویب گاہ’ہماری ویب‘ ہے۔ عرصہ دراز سے یہ ہماری ویب پر مضامین و کالم لکھ رہے ہیں۔ میں بھی اس ویب گاہ سے وابستہ ہوں۔2013 ء کی بات ہے میں سعودی عرب سے واپس آیا تو یہ تحریک پیدا ہوئی کہ ویب گاہ’ہماری ویب‘کے سائے تلے لکھاریوں کا ایک ادارہ تشکیل دیا جائے تاکہ آن لائن لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ چناں چہ ویب گاہ ’ہماری ویب‘ کے آفس واقع شاہرہ فیصل پر ایک میٹنگ میں ”ہماری ویب رائیٹرز کلب“ کے نام سے آن لائن لکھاریوں کے پہلے ادارے نے کراچی میں جنم لیا۔ مجھے صدارت کااعزاز بخشا گیا۔ یہاں کئی احباب تھے اکثریت سے ملاقات اور تعلق کا ذریعہ یہی ہماری ویب رائیٹرز کلب بنا۔ ان میں ایک شیخ خالد زاہد بھی ہیں۔کھلتا ہوا چہرہ، سنجیدہ گفتگو، کچھ کرنے کی امنگ ان کے عمل سے صاف ظاہر تھی۔ رفتہ رفتہ انہوں نے کلب کی سرگرمیوں میں اپنی موجودگی کا احساس دلانا شروع کردیا۔ اندازہ ہوا کہ ان میں ہماری ویب رائیٹرز کلب کی چھتری تلے کچھ کرنے کی جستجو پائی جاتی ہے۔ چناں چہ مارچ 2016ء میں کلب کی انتظامیہ میں کئی احباب کو شامل کیا گیا کچھ کو زیادہ اہم ذمہ داریاں سونپی گئیں ان میں سے ایک شیخ خالد زاہد بھی تھے جنہیں ایسو سی ایٹ سیکریٹری جنرل کا عہدہ تفویض کیا گیا۔ یہ رائیٹرز کلب کی سرگرمیوں میں زیادہ فعال ہوگئے ساتھ ہی ساتھ انہوں نے لکھنے کا عمل جاری و ساری رکھا۔ شیخ خالد زاہد کے مشورہ پر رائیٹرز کلب نے کئی ادبی پروگرام بھی منعقد کیے۔ ان تمام سرگرمیوں کے علاوہ یہ بغیر کسی طلب خاموشی سے مضامین و کالم و مضامین بھی لکھتے رہے جو ہماری ویب، اخبارات اور رسائل و جرائد میں شائع ہوتے رہے۔ مارچ کے ابتدائی دنوں میں انہوں اپنی نئی آنے والی کتاب’قلم سے قلب تک‘ کا پیش لفظ تحریر کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ چند دن بعد ان کی کتاب ”قلم سے قلب تک“ کی پی ڈی ایف فائل موصول ہوگئی۔خالد زاہد ایک محبت اور عزت کرنے والے انسان ہیں۔ مجھے بھی ان سے اتنی ہی انسیت ہے۔ پیار اور محبت کا یہی تعلق میری اس تحریر کا سبب ہے۔
شیخ خالد زاہد جن موضوعات پر لکھتے رہے ہیں ان میں حالاتِ حاضرہ، علمی، ادبی موضوعات، سیاسی، معاشرتی، عالمی سیاست، شخصیات، کتاب اور صاحب کتاب کے علاوہ معاشرہ میں پھیلی برائیوں کی نشاندھی کرتے دکھائی دیتے ہیں، ان میں بہتری کی تجاویز پیش کرنا بھی شامل ہیں۔ لکھنا شیخ خالد زاہد کا شوق ہے اور شوق کا کوئی مول نہیں۔نثر کے علاوہ شاعری سے بھی شغف رکھتے ہیں۔ پیش نظر تصنیف کا خوبصورت عنوانی صفحہ، منفرد عنوان، قلم اور شیخ خالد زاہد کی تصویر آمنے سامنے، خوبصورت امتزاج ہے،ان کی تحریروں میں ان کا قلب دھڑکتا دکھائی دیتا ہے۔ زبان بہت سادہ اور عام فہم، مضمون نویسی کے تقاضے پورے ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ موضوعات میں تنوع ہے، پڑھنے والے کو موضوع کے حوالے سے
مثالیں اور نظیریں بھی ملتی ہیں۔ پیش نظر مجموعے میں 48 منتخب کالم و مضامین شامل ہیں۔ زندگی کے اکثر موضوع پر انہوں نے قلم اٹھایاہے۔ جس موضوع پر بھی لکھا، سیر حاصل معلومات فراہم کر کے موضوع کا حق ادا کردیا۔
‘ مجموعے کا پہلا کالم سالِ گزشتہ 2020ء کے حوالے سے ہے جس میں انہوں نے اس سال کو دنیا کی تاریخ میں منفی الفاظ سے یاد رکھا جا نے والا سال قرار دیا۔ اس کی وجہ انہوں نے عالمی وبا ”کورونا“ کو قرار دیا ہے اور یہ بات سچ بھی ہے کہ یہ عالمی وائرس اسی سال شروع ہوا جس کا سلسلہ سال رواں میں بھی جاری و ساری ہے۔ کورنا وائرس کے حوالے سے انہوں نے متعدد کالم تحریر کیے۔ ان میں ”آخر کورونا چاہتا کیا ہے؟، ”ستائیس(27)فروری کرونا جراثومہ کا حملہ“، ”کرونا وائرس: پاکستان نے دنیا سے کیا سیکھا“، ”ساری دنیا ایک طرف پاکستان ایک طرف“، ”کوتاہیاں زندگیاں نگل رہی ہیں“ اور ”موجودہ حالات اور بڑھتا ہوا ذہنی دباؤ“شامل ہے۔ ان میں کورونا کی وجوہات، اسباب، تباہ کاریوں اور بچاؤ کی تدابیر پر گفتگو کی گئی ہے۔ صوبہ سندھ کے اہم اور پیچیدہ مسئلہ’کوٹہ سسٹم‘ کو اپنا موضوع بنایا۔اس موضوع پر ایک مضمون انگریزی میں اور ایک کالم اردو میں بہ عنوان ”کیا کوٹہ سسٹم پر بات ہونی چاہیے؟“ تحریر کیا۔ سندھ کے حوالے سے یہ موضوع عرصہ دراز سے سندھ میں دو بڑی اقوام کے درمیان اختلاف، ایک کے لیے مفید تو دوسرے کے لیے مشکلات کا باعث بنا ہوا ہے۔ شخصیات بھی کالم نگار کا موضوع رہی ہیں۔ محمد علی سد پارہ سرد موسم میں بلند ترین چوٹی کے ٹو کو سر کرنے میں کامیاب تو ہوئے لیکن اپنی جان کی بازی ہار گئے۔ خالد زاہد نے محمد علی سد پارہ کو اپنے کالم کا موضوع بنایا اور مرحوم کو خراج تحسین پیش کیا۔ اسی طرح اے ایس آئی محمد بخش بڑور کی بہادری کو اپنا موضوع بنایا ہے۔ اس قسم کے دلیرانہ واقعات دوسروں میں احساس ذمہ داری اور حق کے لیے کچھ بھی کر گزرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ شخصیات کے حوالے سے ہی انہوں نے معروف شاعرہ ”زیب النسا ء زیبی کے ساتھ گفتگو“کی اس کی روداد کو اپنا موضوع بنایا۔ زیب النساء زیبی اردو کی معروف شاعرہ ہیں انہوں نے شاعری کی مختلف اصناف میں طبع آزمائی کی۔ ان کی شاعری کے متعدد مجموعے منصہ شہودپر آچکے ہیں۔ان کا ایک شعر دیکھئے ؎
یہ زندگی ہے اپنی کبھی خوش کبھی اداس
اس کشمکش سے مجھ کو خدا یا رہائی دے
کالم نگار شخصیات کو عمدگی سے متعارف کرانے کے فن سے آگاہ ہیں،وہ شخصیت کی زندگی اوراس کی علمی و ادبی خدمات کا سیر حاصل احاطہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔زیب النسا ء زیبی سے سوال و جواب سے قبل اپنے موضوع کا تعارف کراتے ہوئے رقم طراز ہیں کہ ”زیب النسا ء زیبی کی سے نمایاں خصوصیت کہ آپ نے روائیتی طرز کے ادب میں جدیدیت کی آمیزش بذریعہ اپنی تہم و فراست کی اور یہ عمل اس وقت عمل میں آیا جب ادب سسک رہا تھا اور اس میں سوانے کی ایک روح پھونک دی“۔
پاکستان کے ہلچل مچانے والے سیاسی حالات، سیاست دانوں اور ان کے منفی رویوں پر لکھنے والوں کو اپنی جانب متوجہ کرتے ہیں۔ خالد زاہد بھلا سیاسی موضوعات کو کیسے درگزر کر سکتے تھے۔ انہوں نے سیاسی موضوعات کو بھی اپنا موضوع بنایا اور مختلف زاویوں اور مختلف انداز سے سیاسی حالات اور سیاست دانوں کے منفی رویوں اور ایک دوسرے پر منفی الزام در الزام کی روش،یہاں تک کہ غیر اخلاقی، غیر مہذب، غیر شائستہ گفتگو پر تنقید اورمثبت باتوں کی تعریف کی ہے۔ جیسے ایک کالم ”انسانوں کے غیر انسانی رویے“ میں دراصل انہوں نے سیاست دانوں کے غیر انسانی رویوں کی بات کی ہے۔اسی طرح روز مرہ ہونے والے واقعات پر بھی وہ وقت اور حالات کے مطابق کالم لکھتے رہے ہیں۔ کراچی کے حالات کے حوالے سے ان کا کالم ’کراچی کی آواز ہمیں تو اپنوں نے لوٹا“ کراچی میں ہونے والے افسوس ناک واقعات کی یاد دلاتا ہے۔شیخ خالد زاہد کی نظر تاریخی، سیاسی، تہذیبی، معاشرتی، ثقافتی، علمی موضوعات پر بھی بہتررہی ہے۔ انہوں نے ان موضوعات کا مطالعہ کیا ہے اور ان موضوعات کو خوبصورتی سے قرطاس پر منتقل کیا۔ وہ قومی اور عالمی سیاسی موضوعات کا بھی ادراک رکھتے ہیں۔ وہ زندگی کے ہر موضوع پر خواہ اس کا تعلق سیاست سے ہو، مذہب سے، دہشت گردی سے ہو، گروہی تعصبات سے وہ ہر موضوع کو اپنا موضوع بناتے ہیں۔ ان کا اسلوب سادہ، مشکل الفاظ کے استعمال سے پرہیز کرتے ہیں، اپنی بات عام فہم انداز سے اور سہل طریقے سے بیان کرنے کی مہارت رکھتے ہیں۔اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔ (18مارچ 2021ء)
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1277368 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More