امریکا،برطانیہ،روس، فرانس،چین،انڈیا،پاکستان،اسرائیل
اورشمالی کوریاوہ9ممالک ہیں جن کے پاس جوہری ہتھیارہیں۔ ایک جوہری بم سب سے
بڑے غیرجوہری بم سے کہیں زیادہ تباہی لاسکتاہے۔ان کے دہماکے اتنے طاقتور
ہیں کہ صرف ایک جوہری بم پورے شہرکوراکھ بناسکتاہے۔ اس بارے میں بارباریہ
کہاجاتاہے کہ کچھ ملکوں کے پاس جوہری بم نہیں ہوناچاہیے جبکہ کچھ ملک انہیں
رکھ سکتے ہیں،کس ملک کو انہیں رکھنے کی اجازت ہونی چاہیے اورکس کونہیں،اس
بحث کااحاطہ کرنا مشکل کام ہے مگرہم نے جوہری ہتھیاروں کے بارے میں اہم
سوالوں کے جواب جمع کیے ہیں۔ آپ نے سکول میں سائنس کی کلاسوں میں ایٹم
اورآئسوٹوپ کاذکرسنا ہوگا،یہ دونوں جوہری دھماکہ کرنے میں اہم ہوتے ہیں۔بم
کو ایٹم توڑنے یاان کے اندرموجود خفیف ذرات کوملانے سے توانائی ملتی ہے۔اسی
لیے جوہری بم کواکثرایٹم بم بھی کہاجاتاہے۔جوہری بم تاریخ میں صرف
دوباراستعمال ہوئے ہیں،1945میں دوسری جنگ عظیم کے دوران امریکانے جاپان کے
دوشہروں ہیروشیما اورناگاساکی پر ایٹم بم گرائے اور76برس کے بعدبھی ان کی
تباہی کی شدت امریکاکے سیاہ ،مکروہ اورظالم چہرے کی گواہی دیتی ہے۔
ایٹم بم کے اثرات کئی ماہ تک رہے اوراندازے کے مطابق
ہیروشیمامیں80ہزارافراداورناگاساکی میں70ہزارسے زیادہ افرادہلاک ہوئے۔اس کے
بعدکسی بھی جنگ میں ان کااستعمال نہیں ہوا۔جوہری ہتھیاروں سے بڑی تعداد میں
تابکاری خارج ہوتی ہے۔دھماکے کے بعدبھی اس کے اثرات طویل عرصے تک رہتے ہیں
جس سے متلی،الٹیاں، اسہال،سردرداوربخارہوجاتاہے۔ اس وقت دنیامیں پانچ تسلیم
شدہ جوہری ریاستیں امریکا،چین،برطانیہ، فرانس اورروس ہیں جبکہ چاردیگرممالک
بھی جوہری ہتھیار رکھتے ہیں۔ان میں سےانڈیا،پاکستان اورشمالی کوریاجوہری
تجربات کرچکے ہیں جبکہ اسرائیل کے بارے میں یہی خیال ہے کہ اس کے پاس جوہری
ہتھیار ہیں تاہم سرکاری طورپراس کی نہ تصدیق کی جاتی ہے نہ تردید۔
امریکی سائنسدانوں کی فیڈریشن(ایف اے ایس)کے مطابق ان ممالک کے پاس کل
ہتھیاروں کی تعداد 14 ہزارکے لگ بھگ ہے اوران میں سب سے زیادہ ہتھیارروس
(6930)اوردوسرے نمبرپر امریکا(5550)کے پاس ہیں۔اس کے
بعدفرانس(300)،چین(290)، برطانیہ(215)، پاکستان (150)، انڈیا(140)،
اسرائیل(80)اورشمالی کوریاکے پاس (25)ہیں۔ایک اندازے کے مطابق امریکااورروس
میں ایک ہزارسے زائد ہائی الرٹ پرہیں گویاچندمنٹوں میں دنیاکبھی بھی تباہ
ہوسکتی ہے۔اس کاقوی امکان ہے کہ چین جلدان دونوں ملکوں کے ہم پلہ ایٹمی
ہتھیاررکھنے والا تیسرا ملک بن جائے گا۔اس فہرست میں پانچواں نمبربرطانیہ
کاہے اوراس کے بعدپاکستان اورانڈیاہیں۔ فہرست میں آٹھواں نمبراسرائیل اوراس
کے بعدشمالی کوریاہے۔
ویسے توجس کے پاس بھی ٹیکنالوجی،مہارت اورسہولیات موجودہیں وہ انہیں
بناسکتے ہیں لیکن کس ملک کوانہیں بنانے کی اجازت ہونی چاہیے،یہ ایک بالکل
الگ بحث ہے۔اس کی وجہ ہے جوہری عدم پھیلا ؤ کاوہ معاہدہ ہے جس کامقصدجوہری
ہتھیاروں میں تخفیف اورپھیلا ؤ کوروکناہے۔1970 سے لیکراب تک191ممالک جوہری
عدم پھیلا ؤکے معاہدے “این پی ٹی”میں شامل ہوئے ہیں اوراس معاہدے کے تحت
پانچ ممالک کوجوہری ہتھیار رکھنے والی ریاستیں سمجھاجاتاہے جن میں
امریکا،روس، فرانس،برطانیہ اورچین شامل ہیں۔ان 5ممالک کویہ ہتھیاررکھنے کی
اجازت ہے کیونکہ انہوں نے جوہری ہتھیارکاتجربہ یکم جنوری1967کومعاہدے کے
نفاذ سے پہلے کیاتھالیکن اس معاہدے کے تحت انہیں بھی ان کی تعدادمیں کمی
لاناہوگی اوروہ انہیں ہمیشہ کیلئے نہیں رکھ سکتے۔اسرائیل نے اپنے پاس جوہری
ہتھیارہونے کااعتراف کیاہے اورنہ ہی انکار،پاکستان اور انڈیا” این پی
ٹی”میں شامل ہی نہیں ہوئے جبکہ شمالی کوریا 2003 میں اس معاہدے سے علیحدہ
ہوگیاتھا۔
ایران نے اپناجوہری پروگرام 1951میں شروع کیااورہمیشہ اس بات پراصرارکیاکہ
یہ ایک جوہری توانائی کاامن پسندپروگرام ہے مگرمغرب کااصرار ہے کہ ایران اس
پروگرام کی آڑمیں خفیہ طورپرجوہری ہتھیاربنارہاہے جس کی وجہ سے 2010میں
اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل،امریکااوریورپی یونین نے ملک
پرکمرتوڑپابندیاں عائد کردیں۔اس کے بعد2015میں ایران اوردیگر بڑی طاقتوں نے
ایک معاہدہ کیاجس میں جوہری پروگرام میں کمی کے بدلے ایران پرسے تجارتی
پابندیاں اٹھائی گئیں مگرٹرمپ مئی2018میں اس معاہدہ سے علیحدہ ہوگیا۔اب
یورپی ممالک نے ایران سے معاہدے کی شرائط پرعمل نہ کرنے کے الزام میں اسے
چیلنج کیاہے۔ایران اور امریکامیں بڑھتی کشیدگی کے بعدٹرمپ نے اعلان کیاکہ
جب تک وہ صدرہیں ایران کوجوہری ہتھیاررکھنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کی بغدادمیں امریکاکے ہاتھوں ہلاکت کے بعدایران
نےمعاہدے سے علیحدگی کا اعلان کردیاتھاتاہم جوبائیڈن حکومت ایران کے بارے
میں نرم پالیسی اختیار کرنے کا سوچ رہی ہے۔فیڈریشن آف امریکن سائنٹسٹس کے
مطابق امریکا،برطانیہ اورروس نے اپنے ہتھیاروں میں کمی کی ہے۔ 1986میں
دنیامیں جوہری ہتھیاروں کی تعداد 70ہزارتھی جواب کم ہوکر14 ہزارہو گئی ہے
مگرچین،پاکستان،انڈیااورشمالی کوریامزیدہتھیاربنارہے ہیں۔
گوکہ امریکااوربرطانیہ جیسے ممالک اپنے جوہری ہتھیاروں میں کمی لارہے ہیں
مگرماہرین کے مطابق وہ اب بھی اپنے موجودہ ہتھیاروں کوجدیدطرزپر لا رہے ہیں
اور انہیں پہلے سے بہتربنارہے ہیں۔برطانیہ اپنے جوہری ہتھیاروں کے نظام
کوجدیدبنارہاہے اورامریکاممکنہ طورپراپنے جوہری ہتھیاروں کو جدیدبنانے
کیلئے2040 تک ایک کھرب ڈالرخرچ کرے گا۔ اب واضح طورپرامریکی تیاریوں نے
دنیاکوایک نئے خوف میں مبتلاکردیاہے۔
جس وقت ”منٹ مین 3”نامی بین البراعظمی میزائل پرکام شروع ہواتھااس وقت لنڈن
جانسن امریکاکے صدرتھے اورویتنام جنگ اپنے عروج پر تھی۔ 1970میں جب یہ
میزائل باقاعد ہ سروس میں آیاتویہ وہ پہلامیزائل تھاجوایک سے زیادہ
وارہیڈکومتعددمختلف اہداف تک پہنچاسکتاتھا۔اس بات کو50 سال ہونے کوآئے ہیں
اوراس وقت منٹ مین امریکاکا واحدبین البراعظمی میزائل ہے۔ امریکا کی5مغربی
ریاستوں میں چارسوسے زائدمیزائل صدارتی حکم ملنے کے چند لمحوں کے
اندرفائرکیے جانے کیلئے تیارہیں۔امریکاکاایٹمی مثلث زمین
پرموجوداڈوں،سمندرمیں موجودآبدوزوں اورفضامیں اڑتے بمبار طیاروں پرمشتمل
ہے۔یہ ایٹمی مثلث وقت پڑنے پرامریکا کے 1457ایٹمی ہتھیارہدف پرداغ
سکتاہے۔تاہم ایٹمی مثلث میں شامل یہ تینوں ہی چیزیں اب پرانی ہوتی جارہی
ہیں۔ 1970کی دہائی میں تیارہونے والاامریکا کاسب سے پرانابمبارطیار ہ بی52
اب66سال پراناہوچکاہے اوراگلے 10سال میں ریٹائرہو جائے گا۔سب سے پرانی
اوہایوکلاس آبدوزکوبھی نومبرمیں 40 سال ہوجائیں گے۔ان ہتھیاروں کے متبادل
پرکام ہو رہا ہے۔ ایک نئے بمبار طیارے بی21ریڈرکی پہلی ٹیسٹ فلائٹ اگلے سال
کی جائے گی۔اگلے دس برس میں ایک نئی کولمبیا کلاس آبدوز بھی سمندروں میں
موجود ہوگی، تاہم بین البراعظمی میزائلوں کامستقبل غیریقینی کاشکارہے۔
اگرمنٹ مین3کے بعدنئے میزائل کی بات کی جائے تواس پرکاغذی کاروائی ہورہی
ہے۔ستمبرمیں امریکی فضائیہ نے نارتھروپ گرومین نامی اسلحہ ساز کمپنی
کوگراونڈ بیسڈاسٹریٹیجک ڈیٹیرنٹ(زمین سے مارکرنے والاہتھیار)تیارکرنے کیلئے
تقریبا13/ارب ڈالر فراہم کیے ہیں۔یہ نیابین البراعظمی میزائل2029تک
تیارہوگااور2075 تک سروس میں رہے گا۔یہ میزائل زیادہ قابل اعتباراور زیادہ
دورتک ہدف کوبخوبی نشانہ بنانے کی صلاحیت کاحامل ہوگا۔تاہم اس پروگرام
کومکمل پذیرائی حاصل نہیں ہورہی۔جنوری2019میں امریکی کانگریس کے بجٹ آفس نے
اندازہ لگایاتھاکہ صدر ٹرمپ کی جانب سے شروع کیے جانے والے ایٹمی ہتھیاروں
کی تجدید کے پروگرام پر2019سے2028تک 494 ارب ڈالرکے اخراجات ہوں گے،جن میں
سے61ارب ڈالرصرف نئے بین البراعظمی میزائل پرخرچ ہوں گے۔اس منصوبے کے
ناقدین کہتے ہیں کہ جب بمبارطیارے اور آبدوزیں یہ کام کرسکتی ہیں تو نئے
میزائل پراتناخرچ کرنے کی کیاضرورت ہے؟
تاہم نئے میزائل کے حامی یہ دلیل دیتے ہیں کہ ایٹمی مثلث میں زمین سے
مارکرنے والامیزائل سب سے زیادہ قابل اعتباراورتیزتر ہتھیارہے۔ بمبار
طیاروں کوفضاسے واپس تو بلایاجاسکتاہے لیکن انہیں اڑانے کیلئے تیاری کرنے
میں وقت لگتاہے۔اسی طرح ایک آبدوزاپنے ہدف کے بہت قریب پہنچ سکتی ہے لیکن
اس سے رابطہ برقراررکھنابہت مشکل ہوتا ہے۔ان دونوں کے برعکس زمین سے ایک
بین البراعظمی میزائل کوچندمنٹوں کے اندرفائر کیا جاسکتاہے۔یہ مستعدی ہی
ناقدین کوپریشان کیے ہوئے ہے۔ وہ اسے ایک ایٹمی بحران کانقطہ آغازسمجھتے
ہیں لیکن اس مستعدی کایہ مطلب بھی ہے کہ امریکی میزائل کسی بھی دشمن ملک کے
میزائلوں کو فائر ہونے سے پہلے ہی تباہ کرسکتے ہیں یاکسی حملے کی صورت دشمن
ملک کے میزائلوں کے گرنے سے پہلے ہی امریکااپنے میزائل استعمال
کرسکتاہے۔ہڈسن انسٹی ٹیوٹ نامی ایک تھنک ٹینک نے اپنی رپورٹ میں کہاہے
کہاگر یہ بین البراعظمی میزائل نہ ہوں توکسی دشمن کوامریکاکے زیادہ ترایٹمی
ہتھیار تباہ کرنے کیلئے صرف پانچ اہداف کوہی ہدف بنانا ہوگا(3فضائی اڈے
جہاں بمبارطیارے موجودہیں اور2 بحری اڈے جہاں ایٹمی ہتھیاروں سے لیس
آبدوزیں موجود ہوتی ہیں)۔
دوسری دلیل یہ ہے کہ یہ میزائل پانی کے اندرسراغ رسانی اورفضائی دفاع کی
جدید ٹیکنالوجی کے خلاف موثررہتے ہیں،جبکہ بمبارطیاروں اورآبدوزوں کواس
ٹیکنالوجی سے خطرہ ہوسکتاہے۔تیسری اورنسبتاغیرحقیقی دلیل یہ ہے کہ اگرروس
امریکا کے میزائلوں کونشانہ بناناچاہے گاتواسے اپنے ایٹمی میزائلوں کی
خاطرخواہ تعدادزمین پرموجود امریکی میزائل اڈوں کے خلاف استعمال کرناپڑے گی
لیکن اس حملے کے بعدبھی امریکاکے پاس فضامیں اڑتے ہوئے بمبارطیاروں
اورآبدوزوں کی صورت میں اتنے ایٹمی میزائل موجود ہوں گے،جو روس کوتباہ کرنے
کیلئےکافی ہوں۔ناقدین کاکہناہے کہ یہ دلیل اس وقت ہی قابل قبول ہوسکتی ہے
جب آپ روس کی جانب سے ایٹمی حملے میں پہل کے امکان کوتسلیم کرلیں۔
اس دلیل نے ایک سیاسی بحث کو بھی جنم دیا ہے۔ گزشتہ سال امریکی کانگریس نے
ایٹمی مثلث، بشمول بین البراعظمی میزائلوں کی تجدید نو کیلئے رقم جاری کی
تھی۔ تاہم ہاوس آرمڈ سروسز کمیٹی کے سربراہ ایڈم اسمتھ اور دیگر معروف
ڈیموکریٹ اراکین کو اس پر تحفظات تھے۔ سماعت کے دوران صدر بائیڈن کے
سیکرٹری برائے دفاع لائیڈ آسٹن اور ان کی نائب کیتھلین ہکس نے اس منصوبے
کیلئےاپنی حمایت کا اظہار کیا تھا۔ تاہم مغربی ریاستوں، جہاں ان میزائلوں
کے اڈے واقع ہیں کے سینیٹروں نے اس پر سوالات اٹھائے تو ان دونوں کا یہی
کہنا تھا کہ اس حوالے سے حتمی فیصلہ صدر بائیڈن ہی کریں گے۔
امریکی ایٹمی پالیسی میں اس مثلث کومرکزی حیثیت حاصل ہے۔اس حوالے سے ماہرین
کاکہناہے کہ یہ دراصل پینٹاگون کی مقدس تثلیث ہے اور اسی وجہ سے صدر اسے
ختم نہیں کرسکتے ۔ کارنیگی انڈاومینٹ سے تعلق رکھنے والے پنارے وادی کے
مطابق اس مثلث کوختم کرنے کی بجائے ایک متبادل کام یہ ہوسکتاہے کہ منٹ مین
3کی تعدادمیں کمی لائی جائے اور اضافی میزائلوں کو پرزہ جات کی فراہمی
کیلئے رکھ لیاجائےاس طرح روس کے ساتھ میزائلوں اورایٹمی ہتھیارں کے حوالے
سے مذاکرات کیلئے وقت بھی مل جائے گا۔واضح رہے کہ روس بھی اگلے سال نیابین
البراعظمی میزائل متعارف کروانے کاارادہ رکھتاہے۔ صدربائیڈن اس منصوبے کی
حمایت کرتے ہیں یا نہیں یہ بعدکی بات ہے لیکن ایٹمی ہتھیاروں کے حوالے سے
امریکاکارویہ تبدیل ہورہاہے۔اپنی انتخابی مہم میں ڈیموکریٹک جماعت نے ٹرمپ
کی جانب سے زمین، فضااورسمندرسے مارکرنے والے پرانے ایٹمی ہتھیاروں پر
انحصاراوراخراجات پرسخت تنقید کی تھی۔
ایک جانب تویہ بحث کی جارہی ہے کہ امریکاکوکس قسم کے ایٹمی ہتھیار تیارکرنے
اور ان ہتھیاروں کوکس طرح استعمال کیاجاناچاہیے ۔ایک سوال یہ بھی موجودہے
کہ آیاامریکاان ہتھیاروں کے استعمال کوصرف اپنے دفاع کیلئے استعمال کرنے
کااعلان کرے یانہیں؟اس قسم کافیصلہ بہت معصومانہ معلوم ہوتا ہے۔بحیثیت نائب
صدر جوبائیڈن نے اپنے آخری دنوں میں ایٹمی حملے میں پہل نہ کرنے کی پالیسی
کی حمایت کی تھی۔اس طرح امریکا اپنے اتحادی ممالک پرہونے والے حملے کی صورت
میں بھی جواباًاپنے میزائل استعمال نہیں کرسکتاتھا۔ویسے بھی امریکاکے
ایشیائی اوریورپی اتحادی ممالک امریکاکی ایٹمی چھتری کی حفاظت میں ہی ہیں
اوروہ اسی قسم کی پالیسی سے خوش نہیں ہوں گے۔ بہرحال جب تک امریکاکی مغربی
ریاستوں میں موجود میزائل اڈوں میں بین البراعظمی میزائل موجودہیں تب تک
امریکا کے حریفوں کوبہت زیادہ فکرمند نہیں ہوناچاہیے۔
جولائی2017میں ایک موقع پرایسالگاکہ دنیاجوہری ہتھیاروں سے پاک ہونے کے
قریب آگئی ہے جب100سے زائد ممالک نے اقوام متحدہ کے اس معاہدے کی توثیق کی
جس میں ان پرمکمل پابندی لگانے کی بات کی گئی،مگرجوہری ہتھیاررکھنے والے
ممالک امریکا،برطانیہ،فرانس اورروس نے اس معاہدہ کابائیکاٹ کیا۔برطانیہ اور
فرانس کے مطابق یہ معاہدہ عالمی سکیورٹی کے تقاضوں سے مطابقت نہیں
رکھتا۔جوہری ہتھیار70سال سے زیادہ عرصے سے جنگوں کی حوصلہ شکنی کاسبب رہے
ہیں کیونکہ تمام ممالک یہ جانتے ہیں جوہری جنگ کوئی نہیں جیت سکتا۔اس میں
سب کی ہارہے ،گو کہ آج دنیا میں جوہری ہتھیاروں کی تعداد 30 سال پہلے کی
نسبت کم ہے لیکن یہ اب بھی اتنے ہیں کہ دنیا کو کئی مرتبہ تباہ کر سکتے ہیں
اور عنقریب دنیا ان سے پاک ہوتی نظر نہیں آ رہی۔
|