یکم؍ محرم الحرام سے بین الاقوامی عازمین عمرہ کیلئے حرمین شریفین میں حاضری کی اجازت

الحمد ﷲ ! سعودی وزارت حج و عمرہ نے یکم محرم الحرام۱۴۴۳ ہجری (10 اگست 2021ء ) سے بین الاقوامی عازمین عمرہ کے لئے عمرہ کی بحالی کا اعلان کیا ہے۔ ہانی علی الامیری رکن سعودی عرب قومی کمیٹی برائے حج و عمرہ کے مطابق سعودی وزارت حج و عمرہ کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ تمام ممالک کے عازمین عمرہ راست فلائٹس سے سعودی عرب پہنچ سکتے ہیں۔ تاہم 9 ممالک(ہندوستان، پاکستان، انڈونیشیا، مصر، ترکی، ارجنٹینا، برازیل، جنوبی افریقہ اور لبنان ) کے عازمین عمرہ کے لئے کسی تیسرے ملک میں 14 روزہ کورنطین کی تکمیل ضروری ہے ۔14 روزہ کورنطین کی تکمیل کے بعد عمرہ کی ادائیگی کی غرض سے سعودی عرب آنا ہوگا۔سعودی وزارت حج و عمرہ کی جانب سے جاری کردہ اعلان میں مزید کہا گیا ہے کہ عمرہ کی ادائیگی کی غرض سے آنے والے تمام عازمین کے لئے لازمی ہوگا کہ وہ فائزر ،مورڈینا ،ازٹرازینیکا یا جے اینڈ جے کمپنی کے کورونا ویکسین کے دونوں ویکسین لے چکے ہوں۔18سال سے زائد عمر کے افراد کو عمرہ کی ادائیگی کی اجازت ہوگی۔اور ساتھ ہی یہ بھی لازمی ہوگا کہ عازمین عمرہ وزارت حج و عمرہ سعودی عرب کی جانب سے مسلمہ عمرہ ایجنسی کے ذریعہ سعودی عرب آئیں۔واضح رہے کہ ہر سال دنیا بھر سے لاکھوں مسلمان سعودی عرب کا سفر کرتے ہیں جن کا مقصد مکہ میں عمرہ کی ادائیگی اور مدینہ منورہ میں روضۂ رسول صلی اﷲ علیہ و سلم پر حاضری اور مسجد نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم کی زیارت کرنا ہوتا ہے۔ خاص طور پر رمضان کے مہینے میں اس مقصد کیلئے سفر کرنے والوں کی تعداد کافی زیادہ ہوتی ہے۔ سعودی عرب میں وزارت حج و عمرہ کے ترجمان ہشام سعید نے کہا ہے کہ عمرہ ویزوں کی کارروائی شروع کردی گئی ہے۔‘انہوں نے کہا کہ ’رہائش، ٹرانسپورٹ اور کھانے پینے کے پیکیج فراہم کیے جائیں گے۔ عمرہ زائرین ماہ محرم کے آغاز سے مملکت آ سکتے ہیں۔‘ ہشام سعید نے کہا ہے کہ ’پابندیوں کا مقصد انسانی صحت و سلامتی کا تحفظ ہے۔ سعودی عرب چاہتا ہے کہ عمرہ زائرین صحت و سلامتی کے ساتھ مملکت آئیں اور یہاں سے ان کی واپسی بھی صحت و سلامتی کے ساتھ ہو۔‘انکا مزید کہنا تھا کہ ’ایس ایف ڈی اے مملکت میں کورونا کی مزید ویکسینوں کا جائزہ لے رہی ہے۔ موثر ثابت ہونے پر منظور شدہ کی تعداد بڑھا دی جائے گی۔‘ہشام سعید نے کہا کہ’ حفظان صحت کے ضوابط، سکیموں اور پابندیوں کی بدولت اس سال حج کو کامیاب بنانے میں مدد ملی ہے۔‘

تیونس میں حالات کشیدہ ۰۰۰ پارلیمنٹ معطل ۰۰۰وزیر اعظم اور دیگراہم وزراء برطرف
پھر ایک اسلامی ملک سنگین حالات کا شکار ہوچکاہے۔ تیونس کے صدر قیس سعید نے وزیراعظم کی برطرفی اور پارلیمنٹ معطل کرنے کے اعلان کے دوسرے روز وزیر دفاع ابراہیم برتاجی اور قائم مقام وزیر انصاف حسنہ بن سلیمان کو بھی برطرف کر دیااور ساتھ ہی انہوں نے رات 7بجے سے صبح 6بجے تک ملک میں کرفیو کا اعلان کیا ہے۔صدر کے اس اقدام کو پارلیمنٹ کی سب سے بڑی سیاسی اسلام پسند جماعت النہضہ نے بغاوت قرار دیا ہے۔ صدر قیس سعید نے بغاوت قرار دینے کو رد کرتے ہوئے کہاکہ اسلام پسند جماعت النہضہ کے ساتھ کئی ماہ کے ڈیڈ لاک او راختلاف کے بعد آئین کے تحت ایمرجنسی اختیارات کا استعمال کیا گیا ہے۔یہاں یہ بات واضح رہے کہ اتوار کو صدر قیس سعید نے اعلان کیا تھا کہ انہوں نے تیونس ریاست اور اسکے عوام کو بچانے کے لئے ضروری فیصلے کئے ہیں۔ذرائع ابلاغ کے مطابق بتایا جاتا ہیکہ 26؍ جولائی کو فوج کی جانب سے رکاوٹیں کھڑی کرنے کے بعد وزیراعظم ہشام مشیشی کو برطرف کرتے ہوئے پارلیمنٹ کو 30 روز کے لیے بند کرنے کا اعلان پر عوام نے شدید احتجاج کیا اور حالات سنگین نوعیت اختیار کرگئے کیونکہ دوسری طرف صدر قیس سعید کی جانب سے حکومت کی برطرفی کے اعلان کے بعد ہزاروں کی تعداد میں عوام نے جشن منانے کے لئے سڑکوں پر نکل آئے اورگاڑیوں کے ہارن بجانے کے علاوہ آتش بازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے خوشی کا اظہار کیا۔ بتایا جاتا ہیکہ النہضہ جماعت صدر قیس سعید کی اصل سیاسی مخالف ہے اور یہی وجہ ہوسکتی ہے کہ صدر تیونس نے انکی مخالف سب سے بڑی سیاسی جماعت’’النہضہ ‘‘ کی حکومت کے خلاف فیصلہ کیا ہے۔ادھرتیونس کی مخلوط حکومت کی بڑی جماعت النہضہ نے اس اقدام کو ’انقلاب اور آئین کے خلاف بغاوت‘ قرار دیتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ ’ان کے ارکان انقلاب کا دفاع کریں گے۔‘ حالیہ بحران ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب کئی مہینوں سے صدر، وزیراعظم اور النہضہ کے سربراہ راشد غنوشی کے درمیان ڈیڈلاک رہا ہے۔ اس کے نتیجے میں وبائی صورتحال خراب ہوئی اور نتیجتاً ایک کروڑ 20 لاکھ آبادی کے ملک تیونس میں 18 ہزار ہلاکتوں کے ساتھ شرح اموات کہیں زیادہ رہی ہے۔بتایا جاتا ہیکہ پولیس کی جانب سے قطری چینل الجزیرہ کا مقامی بیورو بھی بند کر دیا گیا ہے۔ چینل کے تیونس میں ڈائریکٹر لطفی حاجی نے دفتر کے بند کئے جانے کی تصدیق کرتے ہوئے تنبیہ کی کہ ’جو ہو رہا ہے وہ بہت خطرناک ہے۔ یہ ثبوت ہے کہ میڈیا کی آزادی کو دھمکایا گیا ہے‘۔

سعودی عرب اور دیگر عالمی ممالک کی جانب سے ردّعمل:سعودی عرب نے تیونس کے امن و استحکام کیلئے اس کے ساتھ کھڑے ہونے کا اعلان کیا ۔ سعودی ذرائع ابلاغ کے مطابق سعودی عرب کا کہنا ہیکہ تیونس کی قیادت پر اعتماد ہے کہ وہ موجودہ صورتحال سے گزرجائے گی۔ سعودی عرب نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہیکہ وہ صحت اور معیشت سے متعلق چیالنجوں کا مقابلہ کرنے کے لئے تیونس کے شانہ بشانہ کھڑی ہو۔ سعودی عرب کا کہنا ہیکہ ’’تیونس کے اندرونی معاملے کو اس کی خود مختاری سے متعلق شمار کرتے ہیں، تیونس کے برادر عوام کی ترقی اور خوشحالی کے متمنی ہیں‘‘۔ بتایا جاتا ہیکہ سعودی عرب کے وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان کو ان کے تیونسی ہم منصب نے فون کر کے ملک میں ہونے والے واقعات اور پیشرفت سے آگاہ کیا۔ گفتگو کے دوران شہزادہ فیصل نے مملکت کی جانب سے تیونس کی سکیورٹی، استحکام اور خوشحالی اور اس مقصد کو حاصل کرنے میں معاون کاموں سے تعاون کے عزم کا اعادہ کیا۔دونوں رہنماؤں نے باہمی تعلقات اور مختلف شعبوں میں انہیں بڑھانے کے طریقوں کا جائزہ لیا۔قطر کی سرکاری نیوز ایجنسی کے مطابق قطر نے پیر کے روز تیونس کے سیاسی بحران سے متعلق تمام پارٹیوں سے مطالبہ کیا کہ کشیدگی بڑھانے کے بجائے مذاکرات کی راہ اپنائیں۔وزارت خارجہ کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کیو این اے کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’قطر کو توقع ہے تیونس کی جماعتیں بحران سے نکلنے کے لیے مذاکرات کا راستہ اختیار کریں گی‘۔

امریکہ کی جانب سے تیونسی صدر کی جانب سے حکومت کی برطرفی پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے تیونس سے مطالبہ کیا کہ ’جمہوری اصولوں‘ کی پاسداری کی جائے۔ فرانس نے تیونس میں قانون کی حکمرانی کے احترام کا مطالبہ کرتے ہوئے تمام سیاسی جماعتوں سے تشدد سے باز رہنے کا کہا۔عرب لیگ نے بھی پیر کے روز تیونس کے وزیرخارجہ سے ہونے والی ٹیلیفونک گفتگو میں ملک کو استحکام کی جانب واپس لے جانے کی توقع کا اظہار کیا۔عرب لیگ نے اس توقع کا اظہار کیا کہ تیونس موجودہ بحران سے جلد نکل آئے گا اور استحکام و سکون کے ذریعے لوگوں کی ضرورت اور خواہشات کے مطابق ریاست کے کام کرنے کی صلاحیت کو بحال کر دیا جائے گا۔‘ اقوام متحدہ نے تیونس کی تمام جماعتوں سے مطالبہ کیا کہ ’تشدد سے اجتناب کریں اور یقینی بنائیں کہ صورتحال پرسکون رہے‘۔اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس کے ترجمان فرحان حق نے پیر کے روز کہا کہ ’تمام اختلافات اور تنازعات کو مذاکرات کے ذریعے حل کیا جائے۔‘ ترکی کی وزارت خارجہ نے ’گہری تشویش‘ کا اظہار کرتے ہوئے ’جمہوریت کی بحالی‘ کا مطالبہ کیا۔کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوو نے مختصر تبصرے میں کہا ’روس تیونس میں ہونے والی پیشرفت پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ ہمیں توقع ہے کہ کسی بھی اقدام سے ملک کے شہریوں کی سلامتی اور استحکام کو خطرہ نہیں ہو گا۔‘ جرمن وزارت خارجہ کی ترجمان ماریہ ادیباہر نے کہا کہ جرمنی کو توقع ہے کہ ’تیونس جلد از جلد آئینی استحکام کی جانب لوٹے گا۔ ہم بغاوت پر بات نہیں کرنا چاہتے تاہم ہمیں تشویش ہے۔ آئین کی بالادستی کی طرف جلد از جلد واپسی اہم ہے۔‘ پارلیمنٹ کے سپیکر اور اسلامی تحریک النہضہ کے سربراہ پروفیسر راشد الغنوشی نے اسے ’آئین اور (عرب بہار) انقلاب کے خلاف بغاوت قرار دیا ہے‘۔ ایف ایم نیوز ریڈیو کے مطابق رات کے وقت سپیکر راشد الغنوشی نے ایک ساتھی کے ہمراہ پارلیمنٹ پہنچنے کی کوشش کی تاہم انہیں روک دیا گیا۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق صدر کے حامیوں نے النہضہ کے ان افراد اور انکی رہنمائی کرنے والے اسپیکر راشد الغنوشی پر پتھراؤ کیا جو پارلیمنٹ کی عمارت کے داخلے سے روکے جانے کے بعد وہاں دھرنا دے رہے تھے۔معطل اسپیکر راشد الغنوشی کا کہنا ہیکہ صدارتی اعلان کے باوجود پارلیمنٹ کو فعال رہنا چاہیے۔ صدرسعید نے تشدد کو اپنے فیصلوں کی وجہ قرار دیتے ہوئے تنبیہہ کی کہ امن عامہ کو خطرے میں ڈالنے والے عناصر کے خلاف شدید کارروائی کی جائے گی۔

صدر قیس سعید نے ٹیلی ویڑن پر جاری کردہ بیان میں کہا کہ ’ہم نے یہ فیصلے کیے ہیں۔۔۔ جب تک تیونس میں سماجی امن واپس نہیں آ جاتا اور ریاست کو بچا نہیں لیا جاتا۔‘ انہوں نے تیونس کے آئین کی ایک شق کو استعمال کیا ہے جس کے تحت ’ملک کی آزادی اور اداروں کو درپیش خطرے کی وجہ سے غیرمعمولی اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔‘ان اقدامات کے تحت وہ پارلیمنٹ کو غیر معین مدت کے لیے معطل رکھ کر ایگزیکٹو اختیارات استعمال کر سکتے ہیں۔تاہم راشد الغنوشی کا کہنا ہے کہ صدر نے ان سے یا وزیراعظم سے مشاورت نہیں کی جو مذکورہ شق کے تحت لازم ہے۔ تینوں کے درمیان تنازعہ رہا ہے۔ سابق صدر منصف مرذوقی نے سیاسی مذاکرات کا مطالبہ کرتے ہوئے فیس بک ویڈیو میں کہا کہ ’ہم نے آج پیچھے کی جانب سفر کیا ہے، ہم ڈکٹیٹر شپ کی جانب لوٹے ہیں۔‘غرض کہ تیونس میں سب سے بڑی سیاسی اسلام پسند جماعت ’’النہضہ‘‘ اور اس کے اتحادی حکومت کے وزیراعظم اور دیگر وزراء کو برطرف کرنا اور پارلیمنٹ کو 30روز کے لئے معطل کرنا ملک کی سلامتی و استحکام کے لئے کتنا ضروری ہے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن اتنا ضرور ہیکہ پھر ایک اور مسلم ملک انتشار کا شکار ہوچکا ہے اور حالات سنگین نوعیت اختیار کرتے جارہے ہیں ۰۰۰
***
 

Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid
About the Author: Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid Read More Articles by Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid: 352 Articles with 210111 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.