محترم قارئین کرام مشہور شاعر منوررانا کا نام ذہن میں
آتے ہی اس معصوم بچے کی شبیہ نگاہوں میں گھومنے لگتی ہے جس کی کل کائنات
اس کی ماں ہے۔ منور نے اردو شاعری کو روایتی محبوب کے دامن سے نکال کر ماں
کے مقدس آنچل سے باندھا ہے۔ ماں کو ان کی شاعری میں ایک مخصوص اہمیت حاصل
ہے۔ انہوں نے اپنی غزلوں میں محبت کے ایک بالکل ہی انوکھے رنگ کو متعارف
کروایا ہے۔ وہ رنگ جو کبھی پھیکا نہیں پڑتا۔ وہ محبت جسے کبھی زوال نہیں
آتا۔ اردو غزل میں آج تک کسی شاعر نے ماں پر اتنا نہیں لکھا جتنا منور
رانا نے لکھا ہے۔ ان کی شاعری میں ماں اپنے پورے تقدس کے ساتھ نظر آتی ہے
اور ماں سے منسوب شعروں میں منور اپنی پوری معصومیت اور فطری محبت کے ساتھ
جلوہ گر ہوتے ہیں۔ وہ ماں کی قدموں تلے کی جنت کو حاصل کرنے کے لیے ہر
دشوار گذار راستے سے گذرنے کے لیے تیار ہیں۔ محبت کا یہ جذبہ شدت اختیار
کرکے جب عقیدت میں ڈھل جاتا ہے۔ تب منور کی شاعری اپنے پورے جو بن پر نظر
آتی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ لبوں پہ اس کے کبھی بددعا نہیں ہوتی بس ایک ماں ہے جو مجھ
سے خفا نہیں ہوتی
ان کا ایک اور شعر ہے
اے اندھیرے دیکھ لے منہ تیرا کالا ہو گیا ماں نے آنکھیں کھول دی گھر میں
اجالا ہو گیا
قارئین: ماں پر اس طرح کی شاعری کرنے والا شاعرلیکن آج بدل گیا ہے۔ اس کے
نزدیک صرف اس کی ماں ہی ماں کہلاتی ہے باقی کی مائیں اس کے نزدیک کوئی
اہمیت نہیں رکھتی ہیں۔ماں پر اتنی بہترین شاعری کرنے والا اچانک آپے سے
باہر ہوجاتا ہے اورایک چرسی اور جواری کی طرح دوسرے کی ماں کو گالی بکتا ہے۔
دراصل دوستو واقعہ کچھ یوں ہوا کہ یوپی میں ان دنوں الیکشن کا بخارکافی تیز
ہوگیا ہے۔ اورہر سیاسی پارٹی الیکشن کو لے کر فکر مند ہے لیکن تعجب جب ہوتا
ہے جب شاعر منور راناسیاسی بیان بازیاں کرنے لگتا ہے۔ اور بیان بازی میں
اتنی آگے بڑھ جاتا ہے کہ سیدھے ماں کی گالی دے دیتا ہے۔ وہ الگ بات ہے کہ
جب سے ان کے گھر یوگی حکومت نے چھاپے مارے ہیں تب سے ان کی Languageہی بدل
گئی ہے تب سے منور رانا اپنی ماں کے آنچل سے باہر آگئے ہیں اور ایک چرسی
کی گود میں چلے گئے ہیں۔وہ آئے دن مجلس اتحاد المسلمین کے صدر بیرسٹر اسد
الدین اویسی کو برا بھلا کہنا نہیں چھوڑتے۔
کبھی وہ کہتے ہیں کہ اویسی اور بی جے پی ایک ہی سکہ کے دو پہلو ہیں، وہ
دنیا کو دکھانے کے لئے ایک دوسرے سے لڑتے ہیں، اویسی ووٹوں کو اس طرح
پولرائز کرتے ہیں کہ اس کا فائدہ بی جے پی کو پہنچتا ہے۔وہ آگے مزید کہتے
ہیں کہ اگر یوپی کے مسلم اویسی کے جھانسے میں آکر ان کی پارٹی آل انڈیا
مجلس اتحاد المسلمین کو ووٹ کریں گے تو ایسی صورت میں کوئی بھی یوگی آدتیہ
ناتھ کو اترپردیش کا دوبارہ وزیر اعلی بننے سے نہیں روک سکے گا۔ اور اگر
یوگی دوبارہ وزیر اعلی بنتے ہیں تو میں یہ سمجھوں گا کہ اب یہ ریاست
مسلمانوں کے رہنے کے قابل نہیں ہے۔کبھی وہ مسلمانوں کے زیادہ بچوں کے بارے
میںکہتے ہیں کہ مسلم آٹھ بچے اس لئے پیدا کرتے ہیں کہ اگر دو کو پولیس اٹھا
لے اور دو کی کورونا میں موت ہو جائے تو اس کے بعد بھی اس کے چار بچے اپنے
والدین کی خدمت و دیکھ بھال کے لئے گھر میں موجود ہوں گے۔‘کبھی وہ بابری
مسجد کے تعلق سے متنازعہ بیان دیتے ہیں تو کبھی کسی او رموضوع کو ٹارگیٹ
کرنے کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔۔۔۔پتہ نہیں منور رانا سٹھیا گئے ہیں
یا پھر یوگی کے چیلوں کی دھمکیوں کا یہ اثر ہورہا ہے۔ جو کچھ بھی ہو لیکن
منور رانا نے اس طرح کی بازاری اور گھٹیا زبان میں اپنی بات نہیں کہنی
چاہئے تھی۔انھوں نے کم از کم اپنے رتبہ ،مذہب اور ماں کے حوالے سے جانےاور
پہچانے جانےکا تو خیال رکھنا تھا۔
ان کے اس بھدے اور انتہائی گھٹیا رویے کی وجہ سے ان کی پوری شاعری مشکوک
نظر آنے لگی ہے ۔انھیں چاہئے تھا کہ وہ اپنے دشمن کی ماں کا بھی احترام
کریں چاہے پھر وہ کسی بھی مذہب اور سماج سے تعلق رکھتا ہوں اور خاص طور پر
یہ خیال رکھنا چاہئے تھا کہ وہ جس کو ماں کی گالی دے رہے ہیں وہ ان کا اپنا
دینی وایمانی بھائی ہے۔رانا صاحب نے شہد سے زیادہ شیریں زبان میں شاعری کی
ہے لیکن ان کے اس کڑوے بول نے پوری شاعری کو کسیلا او رکھٹا کردیا ہے ۔
دوستو تنقید کا حق ہر ایک کو ہے مگر اس کے بھی کچھ دائرے ہوتے ہیں کچھ
تہذیب ہوتی ہے تمدن ہوتا ہے انسانیت ہوتی ہے اور یہ ذمہ داری تب اور بڑھ
جاتی ہے جب آپ اردوادب کے حوالے سے ساری دنیا میں جانے پہچانےجاتے ہیں۔ارے
کم از کم یہ تو دیکھنا چاہئے تھا کہ آپ میڈیاسے مخاطب تھے۔جہاں سے پوری
دنیا میں آپ کا وہ میسج وائرل ہونے والا تھا۔ لیکن آپ اخلاق کے دائرے سے
باہر نکل گئے اور آپ نے جتنا ادب ابھی تک لکھا ہے اس پر کالک پوت
دی۔۔۔۔خیر کسی کا کچھ گیا نہیں ۔۔۔آپ ہی کی عزت مٹی میں مل گئی۔۔۔لوگ یہ
سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ دراصل یہ ہے اصلی چہرہ منور رانا کا جو صبروضبط
اور تحمل سے بالکل عاری ہے اور اپنا جواب اور اپنی تنقید گالیوں سے دینے پر
مجبور ہوگیا ہے۔
ہمارے کچھ دوست اکثر کہتے ہیں کہ منور رانا کو دراصل سیاست کا س نہیں معلوم
لیکن انہیں تنقید کرنا بڑا اچھا آتا ہے۔اور پھر اس پرچور پر مور یہ کہ
ہمارے یہاں یہ سب سے بڑالمیہ ہے کہ ہم بغیر تحقیق کے الزام لگانے میں بڑے
ماہر ہیں۔ منور رانا کو چاہئے تھا کہ وہ اسد الدین اویسی کے کئے گئے کاموں
پر ذرا نظر ثانی کرلیتے ،تھوڑی اور تحقیقات کرلیتے۔انہیں یہ پتہ ہونا چاہئے
تھا کہ پارلیمنٹ میں اکیلے مسلمانوں اور دبے کچلے طبقات کی آواز صرف
اسدالدین اویسی ہی بنے ہوئے ہیں۔ انہیںمزید تحقیق کرنا چاہئے تھا کہ اویسی
برادران اور مجلس نے جہاں جہاں اپنے امیدوا رکھڑے کئے ہیں کیا ان سے واقعی
بی جے پی کو فائدہ پہنچا ہے یا پھر کانگریس اور دیگر پارٹیاں ووٹ کٹوا
پارٹیاں بنی ہے؟دراصل ایک پہلو یہ بھی سامنے آیا ہے کہ منور رانا کو اپنی
بیٹی کو سیاست کے میدان میں اتارنا ہے جس کے لئے وہ ابھی سے اپنی بیٹی کے
لئے راستے ہموار کررہے ہیں اور رانا اپنے آقائوں کے حکم پرہی گذشتہ کئی
مہینوںسے اویسی کو گالیاں دینے لگے ہیں ۔کبھی کبھی لگتا ہے منور رانا
سیکولرازم کا پانی پینے کے بعد اپنے آقائوں کو خوش کرنے کے چکر میں اور
بیٹی کاسیاسی کریئر بنانے کے چکر میں یہ نہ کہہ دیں کہ ہاں میں آدھا ہندو
ہوں اور آدھا سیکولر مسلمان ہوں۔
اگر منو ررانا صاحب اپنی بات کہنے کے لئے اردو کا سہارا لے لیتے۔۔۔ادب میں
بات کہہ دیتے تو بات کی بات ہوجاتی تھی اورکام کا کام ہوجاتا تھا۔۔۔۔خیر
انہیں یہ بتانا ضروری ہے کہ
ہندکی آن بان ہے اردو
رونق کل جہان ہیں اردو
کیا کہااردو غیر ملکی ہے
منور رانا صاحب۔۔۔۔تیری ماں کی۔۔۔ زبان ہے اردو
|