لحمداﷲ پاکستان بلخصوص صوبہ پنجاب کے ہر ضلع کی ہر تحصیل
میں تحصیل ہیڈ کواٹرز ہسپتال شاندار بلڈنگ کے ساتھ موجود ہیں بلکہ بعض
تحصیلوں میں THQ ہسپتالوں کے علاوہ اکثر قصبوں میں رورل ہیلتھ سنٹر جبکہ
یونین کونسل کی سطح پر BHU اپنی خدمات سر انجام دے رہے ہیں ۔ اس میں بھی
کوئی شک نہیں بلکہ یہ حقیقت ہے کہ ہم ’’ صحت اور تعلیم ‘‘ کے معاملے میں
پیچھے بلکہ بہت پیچھے ہیں ! جس کے لئے صرف ایک مثال ہی کافی ہے کہ ابھی ہر
گاؤں تو دور ہر یونین کونسل ( کم و بیش سات دیہاتوں ) میں بھی بنیادی صحت
کا مرکز نہیں ! یہ مسائل فوری توجہ کے مستحق ہے ان پر بات کریں گئے ابھی جو
بات قابلِ ذکر ہے کہ ایک طرف شاندار ، خوبصورت بلند و بالا بلڈنگ دوسری طرف
دکھوں دردوں کی ماری بے بس عوام اپنے مسیحاؤں سے نالا نظر آتی ہے!
کسی بھی مسئلے کا پائیدار حل اس وقت تک ممکن نہیں جب تک تمام ممکن پہلوں پر
غوروغوض نہ کیا جائے۔
پہلے BHU کی بات کرنی تھی ! لیکن عام تحصیل ہیڈ کواٹرز ہسپتال کی بات کرتے
ہے۔ کسی بھی تحصیل ہیڈ کواٹرز ( سول ہسپتال ) پنجاب میں دیکھ لیں عملہ پورا
نہیں عملہ سے مراد ( ڈاکٹرز و پیرامیڈیکس اسٹاف ) وغیرہ ۔پنجاب بھر میں
کوئی ایسی تحصیل نہیں جہاں کم از کم ایک سو بیس دہیاتوں پر مشتمل نہ ہو!اور
عموماً پچاس پچاس کلومیٹر تک ایک تحصیل کے دیہات یعنی شہری رہائش پزیر ہوتے
ہیں۔ تصور کریں ہماری سٹرکیں وہ بھی دور دراز علاقوں کی کسی سے ڈھکی چھپی
نہیں لیکن پھر بھی اگر کوئی شہروں سے ہٹ کر صرف سٹرکوں روڈوں کا خاکہ اپنے
دماغ میں بیٹھانا چاہیے تو بارش کے بعد ہمارے مثالی شہروں کا نکاس روڈ دیکھ
کر بخوبی اندازہ لگا سکتا ہے آج مقصد سڑکوں پر بات کرنا نہیں بلکہ تحصیل
ہیڈ کواٹرز ( سول ہسپتالوں ) تک مریضوں کا ایمرجنسی کی حالت میں پہنچانا
کتنا دشوار ہوتا ہے یہ بتانا مقصد ہے ۔
پاکستان کے اکثر دیہاتوں میں ایمبولینس کا کوئی تصور نہیں بعض گاؤں تو ایسے
ہیں جہاں امیر لوگوں نے غریبوں ، مسکینوں کے لئے خدا ترسی کے لئے ایمبولینس
سورسزمہیا کر رہے ہیں ۔ یہ اور بات ہے اکثر بے بس مجبور اور غریب کو بوقت
ضرورت ایمبولینس تو دور عام گاڑی بھی نہیں ملتی ۔ خیر جیسے بھی ہو لوگ با
امر مجبوری کسی نہ کسی صورت مریض کو THQ قریب ترین پہنچا ہی دیتے ہیں !
جیسے ہی ہسپتال کی بلند و بالا بلڈنگ پر نظر پڑتی ہے ۔ دل ہی دل میں کچھ
اطمنان کچھ دعائیں نکلتیں ہیں ۔عموماً ہسپتال کا عملہ ایمرجنسی کی صورت میں
اپنے تمام وسائل بروئے کار لاتے ہوئے مریض / مریضہ کی بہتری کے لئے جو کچھ
ممکن ہو کرتے ہیں اس کی ایک وجہ ’’ جس نے ایک انسانی جان بچائی گویا اس نے
پوری انسانیت کو بچا لیا ‘‘ یہی اﷲ تعالیٰ اور نبی کریم ﷺ نے ہمیں تعلیم دی
۔ ویسے بھی پاکستان کا شماران ممالک میں ہوتا ہیں جہاں حکومت کے شانہ بشانہ
خدمتِ خلق کرنے والے قدم سے قدم ملا کر ملک ِ عزیز سے جہالت ، افلاس اور
بیماریوں کا خاتمہ کرنے میں مصروفِ عمل ہے۔ پاکستانی مخیر خواتین و حضرات
ہمیشہ اﷲ اور اﷲ کے رسول ﷺ کے بتائے ہوئے طریقے سے اپنی اپنی حثیت کے مطابق
اپنے اپنے مورچوں میں رہتے ہوئے دکھی انسانیت کی خدمت میں ہمہ تن مصروف عمل
ہے۔ تقریباًاگر ہر گاؤں میں نہیں تو ہر یونین کونسل میں لوگوں نے اپنی مدد
آپ کے تحت ڈسپنسری، کلینک اور چھوٹے ہسپتال بنائے ہوئے یہ بات اپنی جگہ
اہمیت کی حامل ہے کہ کم از کم ایمرجنسی علاج معالجہ مریض کو مل جاتا ہے جس
سے اکثرو بیشتر بڑے نقصان سے مریض کا بچ جانا ہی بہت بڑی بات ہے۔
اگر اس بات کو دوسرے لفظوں میں کروں تو جب ایک مریض دل، دمہ ، سانپ ، کتا
یا زہر وغیرہ کھانے کی صورت میں جب مقامی NGOs کے زیرِ اہتمام قائم
ہسپتالوں کا رُخ ایمرجنسی کی صورت میں کیا جاتا ہے تو پھر مریض کو دیکھنے
کی بجائے بڑے ہسپتال میں لے جانے کا مشورہ دیا جاتا ہے ۔ مریض اور لواحقین
اپنی جگہ پریشان ہوتے ہیں کہ ڈاکٹرز/ نرس وغیرہ نے ہاتھ بھی نہیں لگایا تو
کہتے ہیں بڑے ہسپتال فوری طور پر مریض کو پہنچایئے۔ ایسا صرف چھوٹے کلینک
ہسپتالوں میں ہی نہیں ہوتا بلکہ زیادہ تر THQ وغیرہ میں ہوتا ہیں۔اس کی بہت
ساری وجوہات ہو سکتیں ہیں مگر ہم صرف دو وجوہات کا ذکر کرتے ہیں اور یہی
حقیقت کسی ایک تحصیل ہیڈ کواٹرز ہسپتال کی نہیں بلکہ پورے پنجاب ایک جیسی
صورت حال ہے۔ماہرین ِ امراض کا فقدان اور بیماری کی تشخیص کے لئے ضروری
سہولیات کا مہیا نہ ہونا۔ گزارش ہے حکومت لوگوں کو بنیادی صحت کی سہولت سے
آراستہ کرنے لئے ڈاکٹرز / پیرا میڈیکل اسٹاف اور ماہر امراض (Specialists
)کی خالی آسامیاں مکمل کرے بلکہ حکماء اور ہومیوپیتھک ڈاکٹرز کی بھرتیوں پر
پابندی اٹھا کر انہیں حکومتی سرپرستی میں خدمت خلق کرنے کی اجازت دی جائے ۔
ایک طرف پڑھے لکھے ڈاکٹرز نوکریوں کے لئے در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں
دوسری طرف مریضوں کی کثیر تعداد مناسب دیکھ بھال ، علاج معالجہ نہ ملنے کی
وجہ سے زندگی سے تنگ آکر مسیحاؤں کو دعائیں دینے کی بجائے بدعائیں دیتے ہیں
۔
صرف مریض یا اس کے لواحقین ہی جانتے ہیں جب بیماری پریشانی کی حالت میں
مریض کو ہسپتال لایا جاتا ہے اور آگئے سے دوسرے شہر لیکر چلے جاؤ کا فرمان
ملتا ہے۔ گاڑی جو ایمرجنسی کی صورت میں منت سمات اور مانگے ہوئے پیسوں کی
وجہ مریض کو دور دراز سے تحصیل ہیڈ کواٹرز/ بعض اور ڈسٹرکٹ ہیڈ کلواٹرز
ہسپتالوں میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے ۔ اس کی وجہ طبی عملہ کی کمی اور مریض کی
بیماری کے ماہر ڈاکٹر کا نہ ہونا یا پھر مریض کی تشخیص کے لئے ضروری ٹیسٹوں
کی مشینوں کا نہ ہونا شامل ہیں ۔ وہ گاڑی والہ جو ایمرجنسی کی صورت میں
لایا تھا اب دوسرے شہر کا رخ کرنے کئے وہ بھی بونس کی گیم کھیلے گا ۔ سب
کچھ جانتے ہوئے مریض لواحقین خاموشی اور صبر کو غنیمت سمجتے ہیں۔
حکومت کو چاہیے ایسے ہسپتالوں کے باہر نمایاں حروف میں لکھوا دیں کہ اس
ہسپتال میں فلاں فلاں مرض کا علاج معالجہ کیا جاتا ہے اور فلاں فلاں مرض کے
ماہر ڈاکٹرز موجود نہیں تاکہ کسی انسانی جان کا قیمتی وقت اپنے ساتھ قیمتی
جان کا نقصان نہ کر سکے
|