مریضوں کو بہترین طبی سہولیات فراہم کرنے والا ٹی ایچ کیو کلرسیداں خود مسائل کا شکار

ٹی ایچ کیو کلرسیداں ہسپتال موجودہ وقت کی ضرورت کے مطابق مریضوں کو صحت کی بہترین سہولیات فراہم کر رہا ہے خاص طور پر جب سے کورونا کی لہر آئی ہے اس ہسپتال میں کورونا کے مریضوں کیلیئے ایک الگ وارڈ قائم کر دی گئی ہے اور اس مرض میں مبتلا مریضوں کی بہت اچھے طریقے سے دیکھ بھال کی جا رہی ہے کورونا کے مریضوں کا علاج کرتے کرتے ہسپتال کے بہت سے ڈاکٹرز نرسز اور دیگر سٹاف بھی متاثر ہو چکا ہے لیکن ہسپتال کا عملہ اپنی جانوں کی پرواہ کیئے بغیر ایم ایس ساجد قریشی کی نگرانی میں پھر بھی بلا خوف و خطر اپنی خدمات جاری رکھے ہوئے ہے اس کے علاوہ یہاں پر روزانہ سینکڑوں کی تعداد میں مریض جن میں مرد عورتیں بچے بوڑھے علاج و معالجے کی غرض سے آتے ہیں اور مطمئن ہو کر واپس جاتے ہیں ہسپتال کے ایم ایس سمیت تمام عملہ اپنے فرائض نہایت ہی احسن طریقے سے سر انجام دے رہے ہیں لیکن یہاں کی سیاسی قیادت اور محکمہ صحت کے اعلی حکام ہسپتال ھذا پر کوئی خاصا دھیان نہیں دے رہے ہیں مریضوں و اہل علاقہ کو بہترین طبی سہولیات فراہم کرنے والا ہسپتال خود بے شمار مسائل کا شکار ہو چکا ہے ہسپتال میں مریضوں کیلیئے 3 وارڈز موجود ہیں جن میں سے ایک مردانہ اور دوسری خواتین اور تیسری گائنی کیسز کیلیئے مختص کی گئی تھی گائنی وارڈ میں کورونا ویکسین سنٹر قائم کر دیا گیا ہے خواتین کی وارڈ کو گائنی کیسز کیلیئے مختص کر دیا گیا ہے اور اب مردانہ وارڈ کے دو حصے بنا کر ایک مردوں کیلیئے اور دوسرا حصہ خواتین کیلیئے مختص کر دیا گیا ہے ایک ہی وارڈ میں مرد و خواتین کو رکھنا اخلاقی لحاظ سے بھی مناسب نہیں ہے اس حوالے سے بھی کافی پیچیدگیاں پیدا ہو چکی ہیں اور مرد و خواتین مریضوں کو بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے وقت کی اہم ضرورت کے پیش نظر مزید ایک اضافی وارڈ کی تعمیر کی اشد ضرورت ہے جہاں پر مردانہ زنانہ وارڈ قائم ہیں ان کی چھت پر اگر ایک اور وارڈ بنا دی جائے تو تھوڑی بہتری آ سکتی ہے اور مرد و خواتین مریضوں کو الگ کیا جا سکتا ہے اسی طرح ہسپتال میں ایمرجنسی کیسز کو ڈیل کرنے کیلیئے سہولیات تو موجود ہیں لیکن موجودہ وقت کی ضرورت کے مطابق یہ شعبہ انتہائی کمزور ہے حاثاتی دور ہے کسی بھی وقت کوئی بڑا حادثہ رونما ہو سکتا ہے جس کے پیش نظر ٹراما سنٹر کا قیام اور ایمرجنسی وارڈ کو مزید فعال بنا نا اور اس میں اضافی سٹاف کی تعیناتی بہت ضروری ہے زچہ بچہ سنٹر میں انکوبیٹر موجود نہیں ہیں شوگر اور اس طرح کی دیگرا مراض میں مبتلا خواتین کی ڈیلیوری یہاں پر نہیں ہو رہی ہیں کم از کم 6انکوبیٹرزکی یہاں پر فراہمی سے ان مسائل پر قابو ممکن ہو سکے گا سب سے اہم شعبے ٹیسٹنگ لیبارٹری جس میں صرف 2بجے تک ٹیسٹ ہوتے ہیں اس کو بڑا کیا جائے اور سیکنڈ شفٹ شروع کروائی جائے 2بجے کے بعد بھی ٹیسٹ ہونے بہت ضروری ہیں جس طرح دن کو مریض بے شمار تعداد میں آتے ہیں اور ان کو ہینڈل کرنے کیلیئے ڈاکٹرز اور نرسز بھی زیادہ تعداد میں موجود ہوتے ہیں بلکل اس طرح شام کے وقت بھی ڈاکٹرز اور نرسز موجود ہونے چاہئیں شام کے اوقات میں کم از کم دو ڈاکٹرز اور ایک لیڈی ڈاکٹرز اپنے پورے سٹاف کے ساتھ ڈیوٹی پر مامور ہونا اہل علاقہ کی بہت بڑی ڈیمانڈ بن چکی ہے بلڈ بینک جو بلکل غیر فعال ہو چکا ہے مقامی بلڈ ڈونرز سے رابطہ کر کے اس کو ہر لحاظ اور مکمل طور پر فعال کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے ہسپتال جیسی جہگوں پر جہاں پانی کی بہت زیادہ ضرورت ہوتی ہے لیکن ہسپتال ھذا میں پانی کے حوالے سے بھی بے شمار مسائل موجود ہیں سرکاری واٹر سپلائی سے جو پانی ہسپتال کو دیا جاتا ہے اس کے تو مخصوص اوقات ہیں اگر ہسپتال میں پانی کی ہر وقت فراہمی کیلیئے اپنا ایک الگ سے نظام موجود ہونا چاہیئے جس سے ہسپتال انتظامیہ کو اپنی ضرورت پوری کرنے کیلیئے کسی کے منہ کی طرف نہ دیکھنا پڑے سیکورٹی جو کسی بھی اس طرح کے انتظامی ادارے کیلیئے بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہوتی ہے اس ہسپتال میں 24گھنٹے کم از کم 3سرکاری اہلکار سکورٹی ڈیوٹی پر مامور ہونے چاہئیں کیوں کہ اکثر دیکھا گیا ہے کہ کہیں دو فریقین میں لڑائی جھگڑا ہو جاتا ہے تو فورا میڈیکل کیلیئے ٹی ایچ کیو پہنچتے ہیں اور وہاں پر دونوں فریقین آمنے سامنے آنے پر دوبارہ جھگڑا شروع کر دیتے ہیں جو کہ ہسپتال انتظامیہ کیلیئے بھی خطرے کا باعث بنتے ہیں بہترین سیکورٹی نظام سے اس طرح کے مسائل پر قابو پایا جا سکتا ہے آؤٹ دوڑ مریضوں کی سہولت کیلیئے ایک سائیڈ پر سائیہ دار جہگہ بنانے سے رش میں کمی ممکن بنائی جا سکتی ہے اتنے بڑے ہسپتال میں گیس کی سہولت موجود نہ ہونا سمجھ سے بالاتر ہے گیس جو ہر طبقہ فکر کے افارد کیلیئے بہت ضروری ہے لیکن ہسپتال جیسے اہم سرکاری ادارے میں گیس کی فراہمی نہ ہونا ہسپتال انتطامیہ کی کارکردگی پر بھی سولات اٹھتے ہیں گیس کی طرح بجلی بھی ضرورت کے مطابق کم مل رہی ہے بڑے ہسپتال میں ٹرانسفارمر کم وولٹیج کا نصب کیا گیا ہے ہسپتال کی مکمل ضرورت کو پورا کرنے کیلیئے بڑے ٹرانسفارمر کی شدید ضرورت ہے پارکنگ جو ہسپتال کے فرنٹ پر بنائی گئی ہے جس وجہ سے آنے والے مریضوں کو رکاوٹ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اس کو ہسپتال کے آپریشن تھیٹر کی بیک سائیڈ پر شفٹ کر دینے سے بہت سی بہتری پیدا ہو سکتی ہے اس کے علاوہ ڈپٹی ڈسٹرکٹ آفیسر ہیلتھ اور محکمہ بہبود آبادی کے دفاتر بھی ہسپتال کی عمارت میں قائم ہیں ان کیلیئے اگر الگ سے کوئی سرکاری عمارت قائم کر دی جائے تو ہسپتال کیلیئے مزید جہگہ کی گنجائش نکل سکتی ہے ایم ایس ڈاکٹر علی سجاد قریشی اور ان کی دیگر پوری ٹیم تو ہسپتال کی کارکردگی کو بہتر بنانے مین اپنا کردار ادا کر رہے ہیں لیکن کچھ حکومتی اور محکمانہ کام جو ان کے بس میں میں نہیں ہیں وہ حکومتی نمائندے ہی کر سکتے ہیں پی ٹی آئی کے 3سالہ دور میں ٹی ایچ کیو کلرسیداں میں کوئی خاصا کام نہیں ہو سکا ہے ہسپتال کے حوالے سے جن مسائل کی نشاندہی کی گئی ہے ایم این اے صداقت علی عباسی اور ایم پی اے راجہ سغیر احمد کیلیئے یہ بہترین موقع ہے کہ وہ مذکورہ مسائل کے حل کیلیئے اپنا کردار ادا کرتے ہوئے عوام کے دلوں میں اپنے لیئے جہگہ پیدا کریں اور محکمہ صحت کے اعلی حکام جو ہسپتالوں سے ہر دن کی کارکردگی مانگ رہے ہیں محکمہ صحت اگر اس ہسپتال کیلیئے درکار تمام سہولیات فراہم کرنے میں ناکام رہے گا تو بہترین کارکردگی کی امید ہ کیسے رکھی جا سکتی ہے اعلی حکام ہسپتال میں موجود مسائل پر بھی توجہ دیتے ہوئے ان کے حل میں اپنے فرائض منصبی ادا کریں اسی طرح سیاسی و سرکاری شخصیات کے ساتھ ساتھ درد دل رکھنے والی مقامی سماجی شخصیات بھی اپنے عطیات کے زریعے ہسپتال کی بہتری کیلیئے اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں یہاں پر ایک سماجی شخصیت کی مثال دینا بہت ضروری ہے کلرسیداں ہی سے تعلق رکھنے ارشد محمود بھٹی جو مخیر حضرات اور اپنے وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے مختلف سرکاری اداروں میں فلاحی کام کروانے میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں ٹی ایچ کیو کلرسیداں میں ان کی خصوصی کاوشوں کی وجہ سے یو کے کمیونٹی کی طرف سے لیپرو سکوپی مشین جس کی قیمت 22لاکھ روپے ہے مہیا کی گئی ہے اور گورنمنٹ گرہز ہائی سکول میں بڑا بور کروایا گیا ہے جس پر 3لاکھ روپے خرچہ آیا ہے اسی طرح اگر دیگر سماجی شخصیات بھی اس حوالے سے اپنا کردار ادا کریں تو ٹی ایچ کیو کلرسیداں میں موجود تمام مسائل پر با آسانی قابو پایا جا سکتا ہے


 

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Muhammad Ashfaq
About the Author: Muhammad Ashfaq Read More Articles by Muhammad Ashfaq: 244 Articles with 144188 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.