14 اگست 1947ء کو اسلامی جمہوریہ پاکستان دنیا کے نقشے پر
اپنی نئی پہچان کے ساتھ ظاہر ہوا۔ یہ نام اور مقام حاصل کرنے کے لیے لاکھوں
مسلمانوں نے اپنے خون کا نذرانہ پیش کیا۔ پاکستان کا مطلب کیا لا الٰہ الا
اللہ، یہ وہ نعرہ ہے جو تحریکِ پاکستان کے دوران ہر جانثار کی زبان پر جاری
تھا۔ محض اس نعرے پر غور و فکر کرنے سے بھی قیامِ پاکستان کے مقصد کا پتہ
چل جاتا ہے۔ قیامِ پاکستان کا مقصد ایک خالص اسلامی اور نظریاتی ریاست کا
قیام تھا۔ لاکھوں مسلمانوں نے اپنی جان و مال کی قربانی اس لیے دی تاکہ ایک
ایسے معاشرے کو تشکیل دیا جاسکے جو اسلام کی آفاقی تعلیمات کا عکس ہو۔ جہاں
مسلمان اپنی تہذیب وتمدن کو زندہ رکھ سکیں۔ جہاں اسلامی تشخص کا تحفظ کیا
جاسکے۔ بابائے قوم محمد علی جناح کی تقاریر سے بھی اسی قسم کی سوچ و فکر کا
پتہ چلتا ہے۔1946ء میں مصری ریڈیو پر خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا: "ہم
چاہتے ہیں کہ ایک آزاد خود مختار قوم کی حیثیت سے اپنی زندگی بسر کریں اور
تمام اقدار کا تحفظ کریں جن کا اسلام علمبردار ہے۔ "لیکن بعض ناسمجھ لوگ ان
کی طرف یہ بات منسوب کرتے ہیں کہ وہ ایک سیکولر ریاست کا قیام چاہتے تھے۔
حالانکہ ان کے بیسیوں فرمودات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ وہ ایک خالص
اسلامی ریاست کا قیام چاہتے تھے۔ آئیے! ان ہی کے اقوال کی روشنی میں قیامِ
پاکستان کے مقاصد کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
بانئ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کی کئی تقاریر سے یہ بات ثابت ہوتی
ہے کہ اس ملک کے قیام کا مقصد غلبۂ دین تھا نہ کہ اہلِ اسلام کو دین سے
آزاد کرنا۔ جیسا کہ 14 دسمبر 1947ء کو آل انڈیا مسلم لیگ کونسل سے خطاب
کرتے ہوئے انہوں نے فرمایا:"میں صاف طور پر واضح کردوں کہ پاکستان اسلامی
نظریات پر مبنی ایک مملکت ہوگی۔" اسی طرح 14 دسمبر 1942ء کو کراچی میں آل
انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں فرمایا: "پاکستان کا مقصد اس کے سوا
اور کیا ہے کہ پاکستان میں اللہ کے دین کا نظام قائم ہوگا۔"
قائدِ اعظم پاکستان کے نظام کو اسلامی قوانین کے مطابق چلانے کے خواہاں تھے۔
1938ء میں ایک خطاب کے دوران انہوں نے کہا: "مسلمانوں کے لیے پروگرام تلاش
کرنے کی ضرورت نہیں ہے، ان کے پاس 1300 برس سے ایک مکمل پروگرام موجود ہے
اور وہ قرآن پاک ہے۔ قرآن پاک میں ہماری اقتصادی، تمدنی و معاشرتی اصلاح و
ترقی کا سیاسی پروگرام بھی موجود ہے۔ میرا اسی قانونِ الٰہیہ پر ایمان ہے
اور جو میں آزادی کا طالب ہوں وہ اسی کلامِ الٰہی کی تعمیل ہے۔ "
قیام ِ پاکستان کے مقاصد کے متعلق یہ بابائے قوم کے فرمودات کی ایک جھلک
تھی۔ اس عنوان پر اگر ان کے تمام اقوال کو جمع کیا جائے تو ایک ضخیم کتاب
تیار ہوسکتی ہے۔ لیکن اگر ان کے اِن چند فرمودات کو بھی غور و فکر کی نظرسے
دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ قیامِ پاکستان کا بنیادی مقصد ایک خالص اسلامی
و نظریاتی ریاست کا قیام تھا۔ باقی جو لوگ ان کی طرف غلط بات منسوب کرتے
ہیں، ان کو قائدِ اعظم کے اس فرمان کی روشنی میں اپنے دعویٰ کو جانچنا
چاہیے۔ 1948ء کو پاکستان کے گورنر جنرل کی حیثیت سے کراچی بار ایسوسی ایشن
کے استقبالیے سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے فرمایا: "میں ان لوگوں کے عزائم
نہیں سمجھ سکا جو جان بوجھ کر شرارت کررہے ہیں اور یہ پروپیگنڈہ کررہے ہیں
کہ پاکستان کے آئین کی بنیاد شریعت پر نہیں ہوگی۔ ہماری زندگی پر آج بھی
اسلامی اصولوں اسی طرح اطلاق ہوتا ہے جس طرح 1300 سال پہلے ہوتا تھا۔"
|