پہلی جنگ عظیم کے بعد مسلمان قوم کا شیرازہ بکھر گیاتھا ۔
خلافت عثمانیہ بزور ختم کر دی گئی ۔برطانوی اور دیگر یورپی استعمارعالمِ
اسلام پر مسلط ہو گیا۔مسلمان ممالک یا تو غلام بن گئے یا یورپی اقوام کے
اشارہِ ابرو کے محتاج بن گئے تھے ۔ پورے عالم اسلام پر ظلمت ِشب کی تاریکی
مسلط تھی ۔ان حالات میں شاعرِ مشرق حضرت علامہ اقبالؒ احیائے فکرِ اسلامی
اور تجدیدِ ملّت اسلامی کے علمبردار بن کر اُبھرے ۔ اگرچہ اس وقت ملّت
اسلامیہ پس ماندہ، دبی ہوئی ، پسی ہوئی اور غیروں کی محتاج بنی تھی لیکن
اقبالؒ نے اپنی شاعری ، اپنے خطابات اور اپنی سیاسی بصیرت سے ان میں اُمیدِ
سحر جگائی ۔ اُمّت کو نشاۃِ ثانیہ کی بشارت دی اور مستقبل میں احیائے اسلام
اور احیائے ملّت کی نوید دے کر مسلمانانِ عالم کو امید کی ڈوری سے باندھے
رکھا ۔:
ملّت کے ساتھ رابطہ استوار رکھ
پیوستہ رہ شجر سے اُمیدِ بہار رکھ
اس دور میں ہندوستان میں مذہبی اور سیاسی تحریکیں زور پکڑ رہی تھیں ۔انتہا
پسند ہندو تنظیمیں شدھی اور سنگھٹن زور و شور سے تحریک شروع کیے ہوئے تھیں
۔ یہ تحریکیں مسلمانوں اور دوسری اقلیتوں کو ہندو بنانے پر تلی ہوئی تھیں ۔ان
کا زیادہ زور پس ماندہ اور ان پڑھ مسلمانوں پر تھا ۔یہ تمام حالات دیکھ کر
اقبالؒ کو ہندوٗوں کے رویّے پر سخت مایوسی ہوئی اور مسلمانوں کی بے بسی پر
رونا آیا ۔ ان کی وجہ سے وہ وطنیت اور قوم پرستی کے دائرے سے نکل کر داعیِ
اسلام بن گئے ۔اب انہوں نے اپنی گزشتہ وطنیت کی یوں نفی کی ۔:
ان تازہ خداؤں میں بڑ اسب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے
بازو ترا توحید کی قوّت سے قوی ہے
اسلام ترا دیس ہے تو مصطفویؑ ہے
علامہ اقبالؒ کی قلبی ماہیت کتنی عظیم ہے کہ کل جو شخص کہہ رہا تھا ’’ رفعت
میں آسماں سے بھی اُونچا ہے بامِ ہند‘‘ اور ’’ خاکِ وطن کا مجھ کو ہر ذرہ
دیوتا ہے ‘‘ وہ آج اس وطن کو سب سے بڑ ابُت قرار دے کر اُسے ڈھا دینے کے
لیے اس قدر بیتاب ہے ۔ وطنیت اور قومیت کا یہ بُت پاش پاش کرنے کے لیے
اقبال ؒنے پھر انقلابی تحریک کا کام انجام دیا ہے ۔ وہ اپنی انقلاب آفریں
شاعری،چشم کشا مقالات اور دیگر تحریر و تقریر کے ذریعے قوم کی رہنمائی
فرمارہے تھے ۔:
اُٹھ کہ اب بزمِ جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے
بیداریِ ملت اور خود آگاہی کے شاعرانہ پیغامات کے ساتھ ساتھ علامہ اقبالؒ
نے اپنا قائدانہ سیاسی کردار بھی ادا کیا ۔بیسویں صدی کے پہلے تین چار
عشروں میں برصغیر میں سب سے مقبول مسلم رہنما علامہ اقبالؒ ہی تھے ۔
حالانکہ عمومی طور پر وہ عملی سیاست سے دور رہتے تھے مگر مقبول ترین شاعر،
مفکر اور فلسفی کی حیثیت سے ان کا فکر اور فلسفہ مسلمانوں کے دلوں میں
فوراً جاگزین ہو جاتا تھا۔علما اور دیگر مسلم رہنما بھی ان کی سوچ و فکر سے
استفادہ کرتے تھے ۔
اس دور میں مسلمانانِ ہند کو سب سے بڑی فکر اس بات کی تھی کہ ایک فرد ایک
ووٹ کا طریقہ اختیار کیا گیا تو تو مسلمان ہمیشہ کے لیے ہندوٗوں کی عددی
برتری تلے دب کر رہ جائیں گے ۔ اس کے لیے دو قومی نظریے کو آگے بڑھانے کی
ضرورت محسوس ہو ئی تاکہ ہندوستان کے قومی دھارے میں رہتے ہوئے مسلمانوں کا
الگ تشخص قائم رہے ۔ ہندوستان میں دو قومی نظریے کی بنیاد سر سید احمد خان
نے انیسویں صدی میں رکھ دی تھی مگر وہ صرف نوکریوں اور تعلیم کے حقوق کے
حصول کی کوششوں تک محدود تھا کیونکہ اس وقت انگریزوں کے قدم سختی سے جمے
ہوئے تھے ۔ اس لیے اس نظریے پر زیادہ پیش رفت نہیں ہوئی ۔مگر بیسویں صدی
میں حالات بدل رہے تھے ۔ہندو مذہبی تنظیمیں اور کانگریس زوروں پر تھی۔ایسے
میں مسلمانوں کو اپنے حقوق کی فکر ہوئی لیکن مسلمان منتشر تھے۔ مسلم لیگ
قائم ہو چکی تھی مگر اس کا دائرہ ِ اثر محدود تھا اور اکثر اندرونی انتشار
کا شکار رہتی تھی ۔ سب سے اہم مسئلہ یہ تھا کہ مسلمانوں کا کوئی متفقہ لیڈر
نہیں تھا اورنہ کوئی نصب العین یا لائحہ عمل تھا ۔مسلمانوں کی قیادت
کانگریس، مسلم لیگ ، تحریکِ خلافت اور دیگر جماعتوں میں منقسم تھی ۔
قیادت کے اس خلا کو علامہ اقبال ؒنے بخوبی پُر کیا ۔ ان کی قیادت نے پھر
تحریک کاکام کیا ۔ انہوں نے دو قومی نظریے کے احیا کے ذریعے مسلمانوں کے
لیے نصب العین کا تعین کیا ۔ عام مسلمانوں سے لے کر علما او رسیاسی قیادت
کو قائل کیا کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی بقا ان کی الگ قوم کے طور پر
شناخت کے ذریعے ہی ممکن ہے ۔:
اپنی ملت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم ِ رسولِ ہاشمی
ورنہ وہ ہندو اکثریت کے ذریعے ہمیشہ کے لیے اپنے حقوق سے محروم رہ جائیں
گے۔اسی نظریے کی بنیاد پر آگے چل کر انہوں نے مسلمانوں کے لیے الگ وطن کا
مطالبہ کیا ۔ علامہ ؒنے شاعری کے علاوہ کئی مقالات میں مسلمانوں کی فکری
رہنمائی فرمائی ۔ ایک مقالے میں لکھتے ہیں ۔ :’’ مسلمانوں اور دیگر قوموں
میں یہ فرق ہے کہ قومیت کا اسلامی تصور دوسری اقوام سے مختلف ہے ۔ ہماری
قومیت کا اصل اصول نہ اشتراکِ زبان ہے، نہ اشتراکِ وطن،نہ اشتراکِ غرضِ
اقتصادی، بلکہ ہم لوگ اس برادری میں جو جناب رسالت مآبﷺ نے قائم فرمائی تھی
اس لیے شریک ہیں کہ مظاہرِ کائنات کے متعلق ہم سب کے اعتقادات کا سر چشمہ(
قرآن مجید) ایک ہے ‘‘
ایک اور جگہ فرماتے ہیں : ’’ یہ بدقسمت قوم حکومت کھو بیٹھی ہے ، صنعت کھو
بیٹھی ہے، تجارت کھو بیٹھی ہے۔ اب وقتی تقا ضوں سے غافل اور افلاس کی تیز
تلوار سے مجروح ہو کر ایک بے معنی توکل کا عصا ٹیکے کھری ہے‘‘
علامہ اقبال ؒنے جب سے خارزارِ سیاست میں قدم رکھا وہ مسلمانوں کے لیے
جداگانہ حیثیت اورجداگانہ انتخابات کے اصول پر سختی سے قائم رہے ۔ اس مسئلے
پر ان کا پارٹی کے صدر سر شفیع محمد سے اختلاف ہوا تو انہوں نے پارٹی کے
جنرل سیکرٹری کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا لیکن اپنے موقف سے نہیں ہٹے ۔ اس
مسئلے پر مسلم لیگ کئی گروپوں میں بٹ گئی ۔ آخر کار ان سب کو علامہؒ کی بات
کا قائل ہونا پڑا ۔ علامہؒ نے نہ صرف اپنا اصولی موقف برقرار رکھا بلکہ
اپنی قائدانہ صلاحیتوں سے مسلم لیگ کے اندرونی اختلافات ختم کرکے اسے متفقہ
اور فعال جماعت بنانے میں نہایت اہم کردار ادا کیا ۔ یہی جماعت آگے چل کر
پاکستان کی خالق جماعت بنی ۔علامہ اقبال ؒنے پھر قائد اعظمؒ کو مسلمانوں کی
رہنمائی کے لیے راضی کیا جن کی ولولہ انگیز قیادت میں مسلمانان ہند نے آزاد
وطن پاکستان حاصل کیا ۔
آسماں تیری لحد پہ شبنم افشانی کرے
سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
|