قیدی نمبر ⁶50 یعنی ڈاکٹر عافیہ صاحبہ

غلاظت کفر کی صفائی کے لیے
اک اور محمد بن قاسم چایئے

دو دشمنوں نے آپس میں ہاتھ ملایا اور ایک امن معاہدے پر دستخط کر دیئے جسکے بعد ہر طرف سے ’مبارک ہو، مبارک ہو‘ کی آوازیں آنے لگیں، مجھے ان آوازوں کے پیچھے کچھ ہچکی نما سسکیاں سنائی دیں۔

میں نے ان سسکیوں کو غور سے سننے کی کوشش کی، دور بہت دور سے سنائی دینے والی سسکیوں کو میں نے اپنا وہم قرار دے کر نظر انداز کرنیکی کوشش کی لیکن یہ میرا وہم نہ تھا۔

یہ ایک عورت کی آواز تھی جو درد بھرے انداز میں روتے ہوئے پوچھ رہی تھی کہ یہ امریکا، یہ برطانیہ ، یہ اقوام متحدہ، یہ مہذب دنیا یہ سب کے سب تو طالبان کو دہشت گرد کہتے تھے پھر ان دہشت گردوں کیساتھ امن مذاکرات بھی ہوئے اور اب دوحا میں ان کیساتھ امن معاہدہ بھی ہو گیا، اب اگر یہ دہشت گرد نہیں رہے تو میرا کیا قصور ہے؟ مجھ پر بھی تو دہشت گردی کا الزام لگایا تھا آپ سب نے اور کہا تھا کہ میں طالبان کیساتھ ملکر امریکیوں پر حملے کے منصوبے بنا رہی تھی، اب پوچھو ان طالبان سے میں نے کب اور کہاں انکے ساتھ ملکر حملوں کا منصوبہ بنایا؟ میں نے غور کیا تو یہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی آواز تھی۔

میں نے اپنے سر کو زور سے جھٹکا دیا، افغان طالبان کے نمائندے ملا عبدالغنی برادر اور امریکی حکومت کے نمائندے زلمے خلیل زاد کے درمیان امن معاہدے پر دوحا میں دستخط ہوئے اور دنیا بھر میں کروڑوں لوگ یہ منظر دیکھ کر ایک دوسرے کو مبارکبادیں دے رہے تھے اور میرے کانوں میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی آواز گونج رہی تھی جو دوحا سے ہزاروں میل دور امریکا کی ایک جیل میں 86سال قید کی سزا بھگت رہی ہے۔

وہ صرف ایک عورت نہیں بلکہ ایک المیہ ہے اور اگر آپکا ضمیر ابھی زندہ ہے تو اس المیے کی سسکیاں آپ کو بھی سنائی دیں گی، آپ بھی غور سے ان سسکیوں کو سنیے، ڈاکٹر عافیہ صدیقی آپ سے پوچھ رہی ہے: اے میرے پیارے پاکستان کے پیارے لوگو! آج تم دنیا کو بڑے فخر سے بتا رہے ہو کہ اگر پاکستان مدد نہ کرتا تو امریکہ اور افغان طالبان میں امن معاہدہ کبھی نہ ہوتا لیکن ذرا مجھے یہ تو بتاؤ کہ اس امن معاہدے کے تحت امریکی اور افغان حکومت پانچ ہزار افغان طالبان قیدیوں کو رہا کریگی اور طالبان ایک ہزار مخالف قیدیوں کو رہا کرینگے، کیا اس سارے معاملے میں پاکستان کے حکمران اپنی قوم کی ایک بیٹی کو رہا نہیں کروا سکتے تھے؟ جنہوں نے طالبان کیساتھ ہاتھ ملا لیا اور اُن کیساتھ امن معاہدے پر دستخط بھی کر دیے، اُنکے لئے ڈاکٹر عافیہ صدیقی ابھی تک دہشت گرد کیوں ہے؟

کیونکہ سندھ میں عرب لشکر پہنچنا مقدر ہو چکا تھا اس لیے ادھر بھی ایک قیدی لڑکی کو کاغذ قلم مل گیا اور اس نے نا صرف ایک خط لکھا بلکہ اسے اوورسیز میل کے ذریعے عراق میں بنو امیہ کے مشہور گورنر حجاج بن یوسف کو بھجوا بھی دیا۔ چچ نامہ کی روایت میں خط کا ذکر نہیں بلکہ لکھا ہے کہ ایک عورت نے چیخ کر کہا کہ ”اے حجاج، اے حجاج! میری مدد کو پہنچ“ ۔ یہ سنتے ہی حجاج نے کہا ”لبیک، لبیک“ ۔ یعنی میں آیا میں آیا۔

حجاج بن یوسف ایک نہایت قابل منتظم اور جرنیل تھا۔ اس نے پہلے تو بنو امیہ کے عرب مخالفین کو چن چن کر تہ تیغ کیا،
پھر اس مظلوم لڑکی کی دادرسی کرتے ہوئے
اس کا بھتیجا محمد بن قاسم، دیبل فتح کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ یہ تھے اللہ سے ڈرنے والے اصل مسلمان جسسے کفر کا کانپتا تھا

لیکن 29؍ فروری 2020ء کو دوحا میں طالبان اور امریکا کے مابین امن معاہدے کے بعد کئی پاکستانی مجھ سے اس خاتون کے بارے میں پوچھ رہے ہیں کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کب رہا ہو رہی ہے؟ میرا بھی عجیب معاملہ ہے۔

مجھے نوبیل انعام یافتہ پاکستانی طالبہ ملالہ یوسفزئی جسکا اصلی نام گل مکئ بڑی حیرت ہوئی
مجھے یہ حقیقت دیکھ کر کے امریکہ نے گل مکئ کو اپنے مقاصد کے لیے نوبل انعام سے نوازا تو ان ممالک کی اسکول جاتی بچیوں اور معصوم دودھ پیتے بچوں کا کیا قصور تھا جیسے لیبیا عراق ویتنام۔صومالیہ۔چیچینیا افانستان۔ شام فلسطین ۔کشمیر ۔ جن کو ان انسانیت کے دشمن یہودی۔کافر مشرک میزائیل داغ کر شہید کئی عشرہ سے کر رہے ہیں۔اس اندھی کانی گونگی اقوام متحدہ کے سایہ اور سپورٹ سے یہ ظلم ہو رہا ہے۔ مجھے قدرت کے اس لفظ سے بہت پیار ہے " کے دنیا مکافات عمل ہےوہ ہر حال میں کاٹنا ہوتا ہے جو بیجا جاتا ہے"

پاکستان کےایک ٹی وی پروگرام میں وزیر داخلہ نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو ایک خطرناک عورت قرار دیا جس سے واضح ہو گیا کہ یہ عورت ہماری حکومت کی تحویل میں ہے۔ اسکی قید طویل صرف ہمارے دغا باز حکمرانی بھیڑیے ہی ہیں ورنہ قاتل و دہشت گرد ریمنڈ ڈیوس یہاں سے با عزت بڑی نہ ہوتا

پھر عمران خان نے بار بار عافیہ صدیقی کیلئے آواز بلند کی لیکن اُسکا کوئی سراغ نہ ملا، عافیہ صدیقی کے معاملے پر انسانی حقوق اور خواتین کے حقوق کی تنظیموں نے زیادہ آواز نہیں اٹھائی کیونکہ جنرل پرویز مشرف کی ’’روشن خیال‘‘ حکومت اپنے اکثر جرائم کو دہشت گردی کیخلاف جنگ قرار دیکر اپنے ہم وطنوں کو بیوقوف بنا دیا کرتی تھی۔

یہ بھی کہا گیا کہ عافیہ نے اپنے سابقہ خاوند امجد سے طلاق لیکر القاعدہ کے کسی دہشت گرد سے شادی کر لی تھی لیکن یہ الزام بھی کہیں ثابت نہ ہو سکا، ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی مشکلات کا آغاز اکتوبر 2002ء میں اپنے شوہر سے علیحدگی کے بعد ہوا۔

اُن کے سابقہ شوہر کا دعویٰ ہے کہ وہ 2003ء میں گرفتار نہیں ہوئی تھیں بلکہ خود ہی غائب ہو گئی تھیں حالانکہ 30مارچ 2003ء کو پولیس کی وردیوں میں ملبوس افراد نے انہیں کراچی سے گرفتار کیا تو بہت سے لوگوں نے یہ گرفتاری اپنی آنکھوں سے دیکھی اور اگلے دن یہ خبر کراچی کے کئی اخبارات میں شائع بھی ہوئی۔

عصمت صدیقی نے جن شخصیات کے ذریعہ اپنی بیٹی کی رہائی کیلئے کوششیں کیں اُن میں اُس وقت کے چیئرمین سینیٹ میاں محمد سومرو بھی شامل تھے جنہیں یہ کہا گیا کہ تھوڑے دن میں عافیہ کو چھوڑ دیا جائیگا لیکن پھر اُس کی گمشدگی ایک معمہ بن گئی۔

یہ ایک عافیہ کی کہانی نہیں، مشرف کے دور میں علی اصغر بنگلزئی اور زرینہ مری سمیت سینکڑوں افراد کی گمشدگی معمہ بنی اور ان میں سے اکثر کا آج تک پتا نہیں چلا۔

عافیہ کی کہانی میں نیا موڑ جولائی 2008ء میں آیا، مشرف کا اقتدار ختم ہونے سے صرف ایک ماہ پہلے امریکی حکومت نے دعویٰ کیا کہ عافیہ کو افغانستان کے شہر غزنی سے گرفتار کر لیا گیا ہے جہاں وہ طالبان کیساتھ مل کر حملوں کی منصوبہ بندی کر رہی تھی۔

عافیہ کو زخمی حالت میں گرفتار کیا گیا، ستمبر 2010ء میں عافیہ پر مقدمہ چلایا گیا جس میں الزام لگایا گیا کہ اُس نے ایک امریکی فوجی سے رائفل چھین کر اُس پر گولی چلائی لیکن وہ بچ گیا۔

عافیہ کیخلاف 9 گواہوں کو پیش کیا گیا جن میں ایک افغان شہری احمد گل بھی شامل تھا لیکن کسی رائفل پر عافیہ کے فنگر پرنٹ ثابت نہ ہو سکے، 14دن کے ٹرائل کے دوران عافیہ نے بار بار بتایا کہ اُس پر امریکیوں نے تشدد کیا لہٰذا عدالتی کارروائی میں خلل ڈالنے کے الزام میں اُسے عدالت سے نکال دیا گیا اور صرف اقدامِ قتل کے الزام میں 86سال قید سنا دی گئی۔

یہ قید 30؍ اگست 2083ء کو ختم ہو گی، عافیہ کی رہائی کیلئے پاکستان کی قومی اسمبلی 21اگست 2008ء کو پہلی قرارداد منظور کی، اُس وقت یوسف رضا گیلانی وزیراعظم اور شاہ محمود قریشی وزیر خارجہ تھے۔

سینیٹ نے عافیہ کی رہائی کیلئے 15؍ نومبر 2018ء کو قرارداد منظور کی تو پھر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی تھے، دوحا میں امن معاہدہ ہوا تو وہاں بھی قریشی صاحب موجود تھے اور معاہدے کا کریڈٹ عمران خان کو دے رہے تھے۔ وہی عمران خان جنہوں نے 2003ء میں سب سے پہلے عافیہ کیلئے آواز بلند کی تھی وہ آج پاکستان کے وزیراعظم ہیں۔

عافیہ نے کچھ عرصہ قبل جیل میں ہیوسٹن کے پاکستان قونصل جنرل کو عمران خان کے نام ایک خط بھی دیا، پتا نہیں یہ خط خان صاحب تک پہنچا یا نہیں لیکن عافیہ کی سسکیاں بہت لوگوں تک پہنچ رہی ہیں۔ وہ پوچھ رہی ہے کہ مجھ پر کسی ایک انسان کا بھی قتل ثابت نہیں ہوا مجھے 86سال کیلئے قید میں ڈالا گیا اور جو خود کش حملوں کی ذمہ داریاں قبول کرتے رہے انکے ساتھ امن معاہدہ ہو گیا، کیا میرا قصور صرف یہ ہے کہ میں پاکستانی ہوں


امریکہ کی قید میں پاکستانی ڈاکٹر عافیہ صدیقی، معاشرے کے اندھیروں کو دور کرنے والا ایسا چراغ ہے جس کو بجھانے میں عالمی مُنصِفوں نے کوئی کسر نہ چھوڑی۔ ”عافیہ صدیقی اپنی ذات میں ادارے کی حیثیت رکھتی ہے۔ وہ جہاں جائے گی تبدیلی لائے گی۔ “ پروفیسر نوم چومسکی کا یہ قول عافیہ صدیقی کی قابلیتوں اور کارناموں سے بھرپور مختصر زندگی کو واضح کرنے کے لیے کافی ہے۔

ڈاکٹر عافیہ صدیقی بیک وقت اعلیٰ تعلیم یافتہ اور بہترین تحریری و تقریری صلاحیتوں کی مالک تھی۔ قرآن اور دینی علوم سے دلچسپی اور ان پر عبور اس کی اضافی قابلیت تھی۔ گلستان شاہ لطیف اسکول سے لے کر ایم آئی ٹی (MIT) برینڈیز (Brandeis) جیسی امریکہ کی بہترین جامعات سے پی ایچ ڈی کی ڈگری کے حصول تک ان کا تعلیمی ریکارڈ نہایت شاندار رہا ہے۔ اعلیٰ تعلیم کے لیے ان کا مضمون ”ایجوکیشن“ تھا۔ دین کے علم کی پیاس بجھانے وہ خاص طور پر امریکہ سے پاکستان آئی۔ شوق کے ساتھ قرآن حفظ کیا۔ قابل شخصیات کی معاونت کے ساتھ ”اسلام، عیسائیت اور یہودیت“ کے موضوع ہر تحقیق کی۔ انہوں نے ”پاکستان میں اسلامی نظام کے نفاذ اور خواتین پر اس کے اثرات“ کے موضوع پر بھی تحقیق کی اور کیرول وِلسن ایوارڈ حاصل کیا۔

بچوں سے محبت کی وجہ سے خصوصی طور پر ان کے لیے تربیتی نشستوں کا اہتمام کیا۔ ان کے پی ایچ ڈی کا موضوع بھی ”ابتدائی عمر میں بچوں کی نشو و نما“ تھا۔ ان کے مطابق، معاشرے کی زوال پذیری ہی نئی نسل کے انحطاط کی وجہ ہے۔ معاشرے کی مثبت تبدیلی اور خوشحالی ان کا خواب تھا جس کی تعبیر کے لیے وہ تن من دھن سے مصروفِ عمل تھیں۔

وہ اسلامی نظامِ تعلیم کے ذریعے معاشرے میں انقلاب لانے کی جستجو میں رہتی تھیں۔ وہ ایسا جدید نصاب تیار کر رہی تھیں جو کم وقت میں دلچسپی کے ساتھ بچوں کی سمجھ میں آ سکے۔ ان کا مرتب کردہ نصاب اسلام کے محور سے مربوط تھا۔

یونی ورسٹی سرگرمیوں میں دیگر مختلف تنظیمیں اپنی دلچسپی کے اسٹالز لگاتی تھیں۔ عافیہ کا بھی اسٹال ہوتا جس پر لکھا ہوتا ”فری انسائیکلو پیڈیا فور یور لائف“۔ وہ اپنے جیب خرچ سے قرآن کے تراجم خرید کر مفت تقسیم کیا کرتی تھی۔ لوگوں کے پوچھنے پر جواب ہوتا، ”یہ آپ کی زندگی کا مکمل انسائیکلو پیڈیا ہے۔ “

بزرگ خواتین سے محبت اور ان کی خدمت عافیہ کے شوق میں شامل تھی۔ وہ اولڈ ہومز میں جا کر ان کی اعزازی خدمت کر کے سکون محسوس کرتی تھی۔

عافیہ دنیا بھر میں مسلمانوں پر روا ظلم و ستم پر افسردہ تھی۔ اس کے نزدیک اس ظلم و ستم کے ذمہ دار امتِ مسلمہ کے حکمران ہیں۔ اس نے بوسنیائی کشمیری فلسطینی مسلمانوں کے لیے ہزاروں ڈالرز فنڈ جمع کیے۔

تعلیم کے ذریعے دنیا میں مثبت تبدیلی عافیہ صدیقی کا خواب تھا۔ حالات کی ستم ظریفی اور حکمرانوں کی مفادپرستی کس طرح ان کے خوابوں کی تعبیر میں مانع رہے؟ اس کا اندازہ ان کے ساتھ پیش آنے والے پے درپے دردناک سانحات سے ہوتا ہے۔

ڈاکٹرعافیہ صدیقی تعلیم مکمل ہونے بعد کراچی منتقل ہو کر والدہ کے گھر رہائش پذیر ہوتی ہیں۔ 2003 میں اپنے کاموں کی غرض سے اسلام آباد روانگی کے لیے ایئرپورٹ جاتے ہوئے حکمرانِ وقت پرویز مشرف کے حکم پر انہیں تین چھوٹے بچوں سمیت اغوا کر لیا جاتا ہے۔ بگرام ایئربیس افغانستان لے جا کر پانچ سال تک امریکی عقوبت خانے میں انسانیت سوز مظالم میں قید رکھا گیا۔ برطانوی نَومسلم صحافی ایوون ریڈلے نے یہیں سے رہائی پانے کے بعد عالمی میڈیا کے سامنے امریکی جیل میں موجود ”قیدی نمبر 650“ کے ڈاکٹر عافیہ ہونے کا انکشاف کیا۔

ریڈلے نے عافیہ پر امریکی فوجیوں کے شرمناک اور دل دہلا دینے والے مظالم کا انکشاف بھی کیا۔ اس کے بعد اس خاتون کے خلاف سازشی مقدمہ تیار کیا گیا۔ جس کے مطابق یہ کمزور اور زخموں سے چُور خاتون M۔ 4 گن اٹھا کر امریکی فوجیوں پر حملے کی غرض سے فائر کر دیتی ہے۔ فائر اس ڈرامائی انداز سے خطا ہوتا ہے کہ آس پاس در و دیوار میں کہیں گولی کا نام و نشان نہیں۔ ایک فوجی قریب سے گولی مار کر عافیہ کو زخمی کر دیتا ہے، مگر وہ بچ جاتی ہیں اور 2009 میں امریکہ منتقل کر دی جاتی ہیں۔ ان پر امریکی قیدیوں پر حملہ کرنے اور مارنے کا الزام لگایا جاتا ہے۔ نام نہاد مقدمہ چلا کر عدالت میں جرم ثابت کیے بغیر 86 سال قید کی سزا سنا دی جاتی ہے۔ عافیہ اپنا فیصلہ اللّٰہ کے حوالے کرنے کا اعلان کرتی ہیں۔ قید کی سزا کے طور پر انہیں 6 × 6 کے تنگ و تاریک کوٹھڑی میں رکھا جاتا ہے۔ جسمانی تشدد اور برہنگی کی اذیت، قرآن کی بے حرمتی پر لباس دینے کی شرط مظالم کا حصہ ہونے کے باوجود اس کا عزم قوی تر ہے۔

دوسری جانب اس کے اہلِ خانہ اس مظلوم بیٹی کے لیے انصاف کی تلاش میں مسلسل سرگرداں ہیں۔ عدالتی فیصلے میں ان کو دی جانے والی سزا کو سیاسی سزا کہا گیا ہے۔ اس تعلق سے اس کو سیاسی کیس کے طور پر ڈیل کیا جانا چاہیے تھا۔ مگر سیاست کے ایوانوں میں اس کیس کے لیے کوئی ڈیل نہ کی جاسکی۔ پرویز مشرف نے اس کی گرفتاری کے عوض ڈالرز وصول کیے اور اپنی کتاب میں اس کا شرم ناک تذکرہ بھی کیا۔ آصف ذرداری نے امریکہ سے آئی ہوئی کیس کی اہم دستاویز پر دستخط صرف اس وجہ سے نہ کیے کہ بقول ان کے، یہ عافیہ کو بھیجنے والوں کا کام ہے۔ اس طرح پیپلز پارٹی کی حکومت نے عافیہ کی رہائی کے سلسلے کی اہم ترین کوشش کو ناکام بنا دیا۔ حسین حقانی کا کردار اس سلسلے میں نہایت سفّاک ہے۔ انہوں نے بیوہ اور غمزدہ ماں کے ساتھ، ان کی بیٹی کو واپس لانے کا جھوٹا مذاق کیا۔ حکومت سے پیسے بٹورنے کے باوجود عافیہ کو ٹارچر سیل کے حوالے کیا۔

عدم تعاون کے حکومتی روئیوں سے بددل ہوکر عافیہ کے اہلِ خانہ نے عافیہ کی رہائی کی کوششوں کو ایک تحریک کی صورت میں آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا۔ اس مقصد کے لیے عافیہ موومنٹ کے پلیٹ فارم سے ملک بھر سے رضاکار پورے خلوص اور جاں فشانی کے ساتھ عافیہ کی رہائی کے لیے مسلسل سرگرداں ہیں۔ عافیہ کی رہائی کی اہم ترین کوشش حکومتی تعاون سے مشروط تھی۔ اس کے مطابق امریکی صدر باراک اوباما، صدارتی اختیارات کی نئے صدر کو منتقلی سے قبل کچھ قیدیوں کو آزاد کرنا چاہتے تھے۔ اس ضمن میں صدر یا وزیرِاعظم کا دستخط شدہ خط امریکی صدر کو مطلوب تھا۔ تمام تر عوامی دباؤ کے باوجود حکومت نے اپنے مذموم مقاصد کے پیشِ نظر اس کام کو اہمیت نہ دی۔ وقت گزرتا رہا۔ بلآخر اوباما کی مدتِ صدارت کے خاتمے پر عافیہ کی رہائی کے روشن ترین امکانات معدوم کردیے گئے۔ بیوہ ماں کی آنکھوں میں اُمید کے جگنوؤں کی جگہ آنسوؤں اور ہچکیوں نے لے لی۔

سوچنے کی بات ہے، سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر، سابق وزیرِ اعظم پاکستان یوسف رضا گیلانی اور چیف جسٹس سندھ سید سجّاد علی شاہ کے مغوی عزیز بحفاظت بازیاب ہو چکے ہیں۔ قوم نے بچشمِ سر دیکھا کہ ان سیاسی اور اعلیٰ عہدے داروں کی اولادوں کی گھر واپسی کے لیے پوری انتظامیہ اورایجنسیوں نے کس مستعدی کا مظاہرہ کیا۔ اس لئے کہ وہ حاکموں کے بیٹے تھے؟ جب کہ عافیہ ایک بیوہ ماں کی بیٹی ہے جس کے وسائل بھی محدود ہیں!

امریکی جاسوس اور قاتل ریمنڈ ڈیوس کے ذریعے عافیہ کی رہائی کی ڈیل ہوسکتی تھی۔ لیکن حکومت نے یہ قیمتی موقع بھی ضائع کیا اور اس فرد کو پانچ بے گناہ شہریوں کا قتل کرنے کے بعد بھی باعزت طریقے سے امریکہ رخصت کیا۔ پھر ریمنڈدیوس ہی کیا، کئی اور جاسوس بھی جرم کر کے حکومتی سرپرستی میں اپنے وطن روانہ کیے گئے۔ ہزاروں پاکستانیوں کی موت اور معذوریوں کے ذمہ دار بھارتی دہشت گرد جاسوس، کلبھوشن کی انسانی ہمدردی کے ناتے عزت افزائی عافیہ کے زخموں پر نمک پاشی ہے۔ کیا ڈاکٹرعافیہ کا تعلق انسانی گروہ سے نہیں ۔


 

Syed Maqsood ali Hashmi
About the Author: Syed Maqsood ali Hashmi Read More Articles by Syed Maqsood ali Hashmi: 171 Articles with 173119 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.