دو سال کا لاک ڈاؤن! کشمیر کہاں کھڑا ہے؟

دوسال یعنی سات سو تیس دن گزر گئے کشمیری جبری اور عالمی وباء کورونا کے لاک ڈاؤن میں دبے ہوئے ہیں۔ کاروبار زندگی اور معمولات زندگی مفلوج تر ہو کر رہ گئے ہیں۔ جو کام اغیار کیلئے مشکل ترین تھا اسے کورونا کی وباء نے تقویت دے دی ہے ۔ کشمیر فلسطین کے بعد دنیا کی بڑی انسانی جیل بن چکا ہے جو نام نہاد لبرلز کے احکامات کے زیر اثر ہے۔کورنا وبا ء کی وجہ سے لگنے والی عالمی پابندیوں نے کشمیریوں کی آواز بھی دبادی ہے۔ 5اگست 2019کی جو بھارتی حکومت نے عالمی قوانین کی دھجیاں اڑاتے ہوئے کشمیریوں اور کشمیرپر غاصبانہ قبضہ کیا ہے ؟اس کے رد عمل میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ عالمی برادری ایک آوازہو کر بھارتی دہشتگرد ی کی مذمت کر تی۔ اس کے برعکس عالمی برادری نے تو اس وقت بھی آواز نہیں اٹھائی جب نام نہاد بھارتی لبرل حکومت نے مذہبی تعصبات سے بھر پور قوانین پاس کر کے بھارتی اقلیتوں کو ملک بدر کرنے کی ٹھان لی تھی ۔ اس طرح سے بھارتی حکومت کی جانب سے پیش کئے گئے ۔ سی آر سی اور سی اے سی اے متنازع قوانین کے خلاف جاری شاہین باغ،علی گڑھ یونیورسٹی اور بھارت بھر کی دیگر ریاستوں کے احتجاج بھی کو رونا کی نظر ہوگئے ۔ ایک کشمیر ی دانشور کے مطابق کشمیر ی قوم نے مجموعی طور پر اس سے پہلے خود کو کبھی اتنا بے بس محسوس نہیں کیا جیسا اس بار وہ بے زبان ، بے بس اور یتیمی محسوس کررہے ہیں ۔ کیونکہ بھارت نواز اور آزادی پسند قیادتیں دونوں ہی بحران سے دو چار ہیں ۔ان میں سے کوئی ایسا لیڈر سامنے نہیں آرہا جو نئی دہلی حکومت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کشمیریوں کا حق مانگ سکے ۔ بیشتر کشمیری حریت پسندلیڈر یا تو جیلوں میں ہیں یا اپنے گھروں میں نظر بند اور باقی سیاسی قیادت کو دیوار سے لگادیا گیا ہے ۔ لوگوں نے سیاسی قیادت پی ڈی پی اور نیشنل کانفرنس سے امید وابستہ کی تھی کہ وہ مودی حکومت کی تنگ نظری کے خلاف ان جماعتوں کے ساتھ مل کر سینہ سپر ہوجائیں گے مگر دونوں سیاسی قیادتوں نے انہیں مایوس کیا ہے ۔ ایک برقی ذریعہ ابلاغ کے مطابق سابق وزیراعلٰی محبوبہ مفتی کے دست راست وحیدپرہ کو دہشت گردی سے متعلق دفعات کے تحت حراست میں لے لیا گیا ا ور الزام لگایا گیا کہ وہ عسکریت پسندوں میں ایک ارب روپے تقسیم کرتے پکڑا گیا ہے۔ اس الزام کو مقامی لوگ بھونڈا مذاق سمجھتے ہیں ۔ محبوبہ مفتی کے اقتدار کے زمانے میں وحید پرہ سکیورٹی فورسز کی آنکھ کا تاراتھا اور اب محبوبہ مفتی کے نظر بند ہونے پر اسے جھوٹے الزامات میں گرفتار کر لیا گیا ہے ۔ بھارت کے موجودہ وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے وحید پرہ کو کشمیری نوجوانوں کے لیے رول ماڈل کہا تھا ۔ ایک اور مقامی تجزیہ کار کے مطابق 1953کے بعد سے بھارت نے ایک ایسے مؤثر سیاسی ڈھانچے کی تشکیل کی تھی جو بڑی حدتک کشمیریوں اور بھارت کے درمیان ایک نفسیاتی پل کا کام کر رہا ہے ۔ اور مشکل وقت میں نئی دہلی کے لیے مدد گار ثابت ہوتا رہا ہے ۔ لیکن 5اگست 2019کے مودی حکومت کے موذی فیصلے نے اس پل کو گرا دیا ہے ۔پہلے بھی حکومتیں کشمیرکے حوالے سے معیاری رویوں کی حامل نہیں رہیں مگر ایک سسٹم موجودتھا ۔ مگر اب کوئی انتظامی ڈھانچہ موجود نہیں اور کشمیر کو حکم ناموں سے چلا یا جارہا ہے ۔ جن 3900پنڈت خاندانوں کی کشمیر میں آباد کاری کو کشمیری آبادی کے تناسب میں بگاڑ کا مؤجب قرار دیا جارہاتھا وہی خاندان نئی دہلی حکومت کی سیاست اور ذاتی مفادات کی بھینٹ چڑ رہے ہیں اور اب بھی وہ ڈرتے ہیں کہ انہیں دوبارہ اسی مقصد کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے ۔ مقامی کشمیری پنڈتوں کے لیڈر نے ایک نجی مراسلے کے نمائندے کو انٹر ویوں میں کہا تھا کہ جن 3900پنڈت خاندانوں کو کشمیرمیں نوکری کا جھانسہ دے کر ہجرت کروائی گئی تھی وہ آج بھی کیمپوں میں مقیم ہیں اور ان کا کوئی پر سان حال نہیں ۔ جبکہ آر ایس ایس کے پر وردہ پنڈت جو دہلی اور جموں میں مقیم ہیں کو ان پنڈت خاندانوں کی آواز بنا کر عالمی سطح پر پیش کیا جارہا ہے جو عالمی دنیا میں کشمیر کے حوالے سے حکومت اور کشمیریوں کا ایک نیا چہرہ بنا کر پیش کر رہے ہیں ۔ حال ہی میں آر ایس ایس نے عالمی دارالحکومتوں میں GKPD (Global kashmiri pandit Diaspora) کے نام سے ایک تنظیم بنائی ہے جنہیں کشمیری تار کین وطن کے خلاف استعمال کر کے کشمیری حریت پسند بیانیے کو کمزور کرنے کی سازش رچی جارہی ہے ۔ ایک اور نجی برقی ذریعہ ابلاغ کے مطابق کشمیری پنڈت اس خوف میں مبتلا ہیں کہ فالس فلیگ آپریشن کے ذریعے انہیں ما ر کر حکومت کشمیری مسلمانوں پر ظلم و ستم بڑھاکر اور ان کا قتل عام کرکے اپنا سیا سی و عسکری مفاد حاصل کر سکتی ہے ۔ ان کے مطابق یہ بھونڈی ہرزہ سرائی کرنے والوں میں عام طور پر بھارتی خفیہ اداروں کے لوگ بھی شامل ہوتے ہیں ۔ بھارتی عسکری و سیاسی حکومتوں نے بھرپور سازش کے ذریعے برہان وانی، افضل گورو اور مقبول بٹ جیسے مقبول حریت پسند عسکرز کو شہید کر نے کے باوجود بھی ایک مضبوط اور منظم تحریک کو کچلنے کیلئے ہر حد پار کرنے کیلئے تیار ہے۔بھارت کے ایک نجی ذریعہ ابلاغ کے مطابق کشمیرمیں مزید تین سو فوجی کمپنیوں کے دستے تعینات کئے گئے ہیں جن میں بیشتر کی تعیناتی شمالی کشمیر میں کی گئی ہے۔فوجی دستوں کی غیر معمولی نقل و حرکت نے علاقے میں ایک ہیجان بپا کر دیا ہے کہ کیا کچھ بڑا ہونے جا رہا ہے؟ نیشنل کانفرنس کے راہ نما فاروق عبد اﷲ اور عمر فاروق عبداﷲ نے نئی دہلی میں نریندر مودی سے ملاقات کی جس میں مودی نے اس بات کی یقین دہانی کروائی کہ 370 اور 35-A پر عملدرآمد کرنے سے پہلے کشمیری سیاسی قیادت کو مشاورت میں شامل کیا جائے گا۔ مگر سرینگر آنے کے تیسرے روز ہی انہیں حراست میں لے لیا گیا تھا۔جموں اور وادی میں مختلف افواہیں پھیلا کر سازش کے تحت کشمیریوں کی ذہن سازی کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ پہلی افواہ ہے کہ جموں و کشمیر کا نام بدل کر جموں پردیش رکھا جا ئے گا اس طرح ہندوتوا ایجنڈے کو تقویت ملے گی۔دوسری افواہ ہے کہ جنوبی کشمیر کے کئی اضلاع کو جموں کے ساتھ ملا کر ایک علیحدہ صوبہ تشکیل دیا جائے گا ۔ تیسری افواہ ہے کہ شمالی کشمیر کو لداخ میں ضم کر کے ریاست لداخ قائم کی جائے ۔ پانچویں یہ ہے کہ وادی ء کشمیر کا کل رقبہ 15520 مربع کلومیٹر ہے ، جس میں سے 8600 مربع کلو میٹر پر جموں اور دہلی میں رہنے والے کشمیری پنڈتوں کو بسا کر مرکز زیر انتظام ایک علیحدہ علاقہ تشکیل دیا جائے گا جس کا نام پنن کشمیر رکھا جائے گا۔ان افواہوں کا ذکر معروف صحافی مزمل جلیل نے اپنے ایک کام میں کیا ہے۔ پاکستان میں موجودہ سیاسی قیادت کے منتخب ہونے کے بعد سے بھارتی سرکار اور تھنک ٹینکس نے اپنی حکمت عملی ظلم و جبر پر مبنی بنا لی ہے۔اور وقتا فوقتا ایسی پالیسیاں اور عملی اقدامات مرتب کر رہا ہے کہ کشمیری عوام کا پاکستان پر سے بھروسہ ختم ہو جائے اور حریت پسندوں کے خاتمے کے بعد کشمیر کو ہمیشہ کیلئے بھارت کا حصہ بنا لے۔ جس میں بظاہر تو وہ کامیاب ہوتے دکھائی دے رہے ہیں، پاکستان عالمی سطح پر کشمیر کا اس طرح سے سفیر نہیں بن پایا ہے جس طرح سے بننا چاہئے تھا، جسکی وجہ سے کشمیری کافی حد تک پاکستان کی جانب سے مایوسی کا شکار ہیں۔ اور سید علی گیلانی جیسے حریت پسند راہ نماؤں کے دنیا چھوڑتے ہی اگر انہیں حریت پسند لیڈرنہ ملا تو کشمیر کی حریت تحریک دم توڑ سکتی ہے۔ کیونکہ جماعت اسلامی کشمیر اور کشمیر لبریشن فرنٹ کے حریت پسند نوجوانوں کی پکڑ دھکڑ اور ان کی شہادتوں کے بعد سے ان تحریکوں میں لیڈر شپ کا فقدان نظر آتا ہے ۔ موجودہ صورتحال میں پاکستان کا کردار انتہائی اہم ہو چکا ہے ۔ اگر مزید تاخیر ہوئی تو دشمن خطے میں اپنی سازشوں کے ذریعے کوئی بھی گھمبیر صورتحال کھڑی کر سکتا ہے۔
 

Malik Shafqat ullah
About the Author: Malik Shafqat ullah Read More Articles by Malik Shafqat ullah : 235 Articles with 190125 views Pharmacist, Columnist, National, International And Political Affairs Analyst, Socialist... View More