افغانستان کے بیشتر اضلاع میں طالبان کا قبضہ بڑھتا جارہا
ہے اور ان کی مضبوط گرفت کے بعد افغان حکومت اور امریکہ کی جانب سے طالبان
کے ٹھکانوں پر شدید فضائی حملے کئے جارہے ہیں ۔ امریکی اور نیٹو افواج کے
انخلاء کے بعد افغانستان میں صورتحال انتہائی سنگین نوعیت اختیار کرتی
جارہی ہے۔ ایک طرف طالبان کی پیشرفت ملک کے بیشتر اضلاع میں جاری ہے تو
دوسری جانب افغان فورسز کی جانب سے طالبان کے ٹھکانوں پر حملے سخت کئے جانے
کی اطلاعات ہیں جس کے پیشِ نظر عام شہریوں کی ہلاکت بڑی تعداد میں ہونے کا
خدشہ ہے۔
ذرائع ابلاغ کے مطابق افغان حکومت نے بڑے پیمانے پر طالبان کے ٹھکانوں پر
مزید سخت ترین حملے کرنے کے احکامات جاری کردیئے گئے ہیں جس کے جواب میں
طالبان نے بھی کابل میں ایک بڑا دھماکہ کیا ہے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق بتایا
جاتا ہے کہ طالبان افغان ٹی وی چیانل پر بھی قبضہ کرلیا ہے جبکہ کابل کے
انتہائی حساس علاقے پر افغان طالبان نے حملہ کیا ہے۔افغانستان کے ایک بڑے
شہر لشکرگاہ میں طالبان اور افغان فوج کے مابین شدید لڑائی جاری ہے جس کے
بعد ان خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ بین الاقوامی افواج کے انخلا کے
بعد شاید یہ شہر طالبان کے قبضے میں آنے والا پہلا صوبائی دارالحکومت ہو
سکتا ہے۔جنوبی ہلمند صوبے کے شہر لشکر گاہ میں امریکی اور افغان ایئرفورس
کے طالبان کے خلاف لگاتار حملے جاری ہیں۔ مگر اس کے باوجود طالبان عسکریت
پسند فورسز پر شدید حملے جاری رکھے ہوئے ہیں۔اگر لشکر گاہ افغان حکومت کے
ہاتھ سے نکل گیا تو یہ 2016ء کے بعد طالبان کے کنٹرول میں آنے والا پہلا
صوبائی دارالخلافہ ہو گا۔اسی طرح افغانستان کے مغربی شہر ہرات اور جنوب میں
صوبہ ہلمند کے مرکزی شہر لشکرگاہ میں شدید لڑائی کے بعد طالبان نے دعویٰ
کیا ہے کہ وہ ان بڑے شہروں کے مختلف حصوں پر قابض ہو چکے ہیں۔دوسری جانب
افغان سکیورٹی فورسز کا دعویٰ ہے کہ کچھ جگہوں پر قبضے کے بعد کل سے طالبان
جنگجوؤں کو ان شہروں سے واپس پیچھے دھکیل دیا گیا ہے۔ذرائع کے مطابق مغربی
شہر ہرات میں افغان حکام کا کہنا ہے کہ سکیورٹی فورسز اور طالبان کے درمیان
شہر کے اندر لڑائی جاری ہے لیکن اْن کے مطابق گذشتہ رات سے طالبان کے کئی
ٹھکانوں پر بڑے پیمانے پر فضائی بمباری بھی کئے گئے ہیں اور شہر میں اْن کے
داخلے کی کوششوں کو ناکام بنا دیا گیا ہے۔افغانستان میں فوجی آپریشن کے
سربراہ جنرل سمیع سادات نے لشکر گاہ کے رہائشیوں سے کہا ہے کہ وہ جلد از
جلد طالبان کے زیر کنٹرول علاقوں کو چھوڑ دیں اس سے پہلے کہ سکیوریٹی فورسز
یہاں آپریشن شروع کریں۔ اس اعلان کے بعد بتایا جاتا ہیکہ لشکر گاہ سے بڑی
تعداد میں عوام تخلیہ کررہے ہیں اور کئی افراد شدید لڑائی کی وجہ سے شہر
میں پھنس چکے ہیں۔ طالبان نے گذشتہ روز کابل کے علاقے شیرپور میں افغانستان
کے قائم مقام وزیر دفاع بسم اﷲ محمدی کے گھر پر حملے کی ذمہ داری قبول کرلی
ہے اس حملے میں چار حملہ آور سمیت آٹھ افراد کی ہلاکت بتائی جارہی ہے جبکہ
بیس افراد زخمی بتائے جارہے ہیں۔افغان طالبان نے ذمہ داری قبول کرتے ہوئے
کہا ہے کہ یہ حملہ متعدد خودکش حملہ آوروں نے ایک کاربم دھماکے کے ذریعہ
کیا ہے ۔ انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ اس حملے کے وقت وزیر دفاع کے گھر پر ایک
اہم ملاقات ہورہی تھی اور حملے کے نتیجے میں انہیں شدید نقصان پہنچا ہے۔
ذرائع ابلاغ کے مطابق بتایا جاتا ہیکہ دارالحکومت کابل میں افغان شہریوں نے
گلیوں اور چھتوں پر آکر افغان فورسز کی حمایت میں اﷲ اکبرکے نعرے لگائے
ہیں۔ اس سے قبل ہرات شہر میں بھی طالبان کی پیش قدمی روکنے کے بعد شہریوں
کی جانب سے اﷲ اکبر کے نعرے لگائے گئے تھے۔ افغان صدر اشرف غنی نے اﷲ اکبر
کے نعروں سے متعلق اپنے ایک ویڈیو پیغام میں کہا کہ طالبان کو سمجھنا چاہیے
کہ اس ملک کی عوام نے اﷲ اکبر پر ان کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔ صدر اشرف غنی
نے مزید کہا کہ ’’ہرات کے شہریوں نے گذشتہ شب یہ ثابت کردیا کہ اﷲ اکبر
نعرے کی نمائندگی کون کررہے ہیں‘‘۔ اس کے جواب میں طالبان کے ترجمان ذبیع
اﷲ مجاہد نے چہارشنبہ کے روز جاری اپنے ایک بیان میں کہا ہیکہ ’’یہ ہمارا
نعرہ ہے نہ کہ امریکہ کے غلاموں اور سیکولرز کا‘‘۔واضح رہیکہ طالبان نے
اعلان کیا ہے کہ وہ افغانستان میں ایک بہترین حکومت فراہم کریں گے اور دیگر
ممالک کے ساتھ انکے روابط بھی بہتر سے بہتر رہیں گے۔ سمجھا جارہا ہے کہ
ماضی کی بعض غلطیوں نے افغان طالبان کو مستقبل کے لائحہ عمل کو ترتیب دینے
میں مدد کی ہے اور اس مرتبہ افغانستان پر انکا مکمل قبضہ ہونے کے بعد وہ
عوام کو خوشحال زندگی فراہم کریں گے۔ فی الحال افغانستان اس وقت خانہ جنگی
کی صورتحال سے دوچار دکھائی دے رہا ہے ۔ ایک طرف حکومت کے سیکوریٹی فورسز
طالبان کو نشانہ بنانے کی کوشش کررہے ہیں تو دوسری جانب طالبان بھی
سیکوریٹی فورسز کے خلاف کارروائی کررہے ہیں ان دونوں کے درمیان عام شہریوں
کی ہلاکت بڑی تعداد میں ہوسکتی ہے اور لاکھوں شہری بے گھر ہوسکتے ہیں۔افغان
حکام کے مطابق ہرات شہر کے مغربی حصے شیوان، دستگر، پشتون پل اور ایئرپورٹ
کے راستوں کو طالبان سے چھڑوا لیا گیا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی شہر کے داخلی
راستوں پر لڑائی تاحال جاری ہے۔ہرات کے گورنر عبدالصبور قانع نے صحافیوں کے
ساتھ بات چیت میں دعویٰ کیا کہ شہر کی حفاظت کیلئے افغان سکیورٹی فورسز کے
ساتھ عوامی لشکر بھی ہمہ وقت تیار ہیں۔’ہم ہرات کے شہریوں کو آپ کے توسط سے
یہ یقین دہانی کرواتے ہیں کہ سیکورٹی فورسز جنگ کے میدان میں ہیں اور شہر
کی حفاظت کر رہی ہیں۔ ہرات شہر طالبان کے قبضے میں نہیں جا رہا۔‘ہرات شہر
میں طالبان کے خلاف سکیورٹی فورسز کے ساتھ سابق جنگجو کمانڈر اسماعیل خان
بھی میدان جنگ میں ہیں۔ اْن کا کہنا ہے کہ وہ دشمن کے سامنے کھڑے ہیں۔ ’ہم
پوری کوشش کر رہے ہیں کہ اﷲ کی مدد سے دشمن کو شہر میں گھسنے نہ دیں۔‘ ہرات
شہر میں حکام کا دعویٰ ہے کہ شہر پر کنٹرول کے لیے طالبان کے تمام حملوں کو
پسپا کر دیا گیا ہے اور سو سے زیادہ طالبان جنگجوؤں کو ہلاک کیا گیا
ہے۔حکام نے ایک اعلامیے میں کہا ہے کہ شہر کے بعض شمالی علاقوں اور ضلع
انجیل میں طالبان جنگجوؤں کے خلاف آپریشن شروع کیا گیا ہے اور شہریوں کو
اپنے گھروں میں ہی رہنے کی تلقین کی گئی ہے۔دوسری جانب طالبان ترجمان کا
دعویٰ ہے کہ اْن کے جنگجو آج بھی ہرات شہر میں موجود ہیں اور اْن کے صرف
پانچ جنگجو افغان فورسز کے حملوں میں مارے گئے ہیں۔طالبان کی جانب سے ہرات
اور ہلمند میں افغان فورسز کو بھاری نقصانات پہنچانے کے دعوے کیے گئے ہیں۔
بتایا جاتا ہیکہ لشکرگاہ میں شدید لڑائی جاری ہے۔ ’ایک طرف فضائی بمباری ہو
رہی ہے تو دوسری جانب زمینی لڑائی بھی جاری ہے۔ لوگ اپنے گھروں میں ہی
محصورہوکر رہ گئے ہیں۔‘ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہیکہ ہلمند امریکی اور
برطانوی فوجی کارروائیوں کیلئے مرکزی اہمیت کا حامل تھا اور اگر طالبان اس
پر قابض ہو جاتے ہیں تو یہ افغان حکومت کیلئے بہت بڑا دھچکا ہو گا۔ ذرائع
کے مطابق طالبان کی جانب سے ایک ویڈیو ہرات شہر کے علاقے پل پشتو کے بارے
میں جاری کی گئی ہے اور دعویٰ کیا گیا ہے کہ شہر کا یہ علاقہ تاحال اْن کے
کنٹرول میں ہے۔لشکرگاہ اور ہرات کے علاوہ طالبان کی جانب سے افغانستان کے
دوسرے بڑے شہر قندھار پر بھی قبضے کی کوششیں جاری ہیں۔ اگر طالبان نے
قندھار کا کنٹرول حاصل کر لیا تو یہ بہت بڑی علامتی فتح ہو گی اور اْنھیں
ملک کے جنوب پر کنٹرول مل جائے گا۔دوسری جانب افغان صدر اشرف غنی نے لڑائی
میں اضافے کی وجہ امریکی افواج کے اچانک انخلا کو قرار دیا ہے۔اْنھوں نے
پارلیمان سے خطاب کرتے ہوئے کہا: ’ہماری موجودہ صورتحال کی وجہ اس فیصلے کا
اچانک لیا جانا ہے۔‘اشرف غنی کا کہنا تھا کہ اْنھوں نے واشنگٹن کو خبردار
کیا تھا کہ انخلا کے ’نتائج‘ ہونگے۔ تقریباً تمام امریکی اور نیٹوافواج
افغانستان سے نکل گئی ہے، اس کے باوجود امریکہ نے افغان افواج کو مدد فراہم
کرنے کیلئے فضائی حملے جاری رکھے ہوئے ہیں اور افغان حکومت کے مطابق مزید
سخت ترین حملے کئے جاسکتے ہیں۔ افغانستان میں امریکہ اور نیٹو کے ساتھ کام
کرنے والے افغان شہریوں کیلئے امریکی صدر جو بائیڈن نے پیر کو اعلان کیا کہ
تشدد کی لہر میں اضافے کی وجہ سے امریکی افواج کے ساتھ کام کرنے والے
ہزاروں دیگر افغان شہریوں کو اپنے ملک میں پناہ دے گا۔طالبان کے بڑھتے ہوئے
قبضوں نے سینکڑوں افغان شہریوں کو خوفزدہ کرکے رکھ دیا ہے کیونکہ ماضی میں
طالبان نے جس طرح ملک میں شہریوں پر سخت قوانین لاگو کئے تھے اور ان شہریوں
کو خدشہ ہے کہ طالبان انہیں امریکہ اور افغان حکومت و فورسز کا ساتھ دینے
کی صورت میں عتاب کا شکار بنائینگے۔ اب دیکھنا ہیکہ مستقبل قریب میں اگر
طالبان اقتدار حاصل کرلیتے ہیں تو عام شہریوں اور خواتین و لڑکیوں کیلئے کس
قسم کے احکامات صادر کرتے ہیں اور ملک کی معیشت کے استحکام کیلئے پڑوسی
ممالک کے ساتھ کس قسم کے تعلقات قائم کرتے ہیں۰۰۰
ترکی کے جنگلات میں بھیانک آگ ۰۰۰ سازش ہونے پر سخت سے سخت کارروائی کا
اعلان۔ رجب طیب اردغان
اﷲ اکبر! ترکی کے جنگلات میں لگی آگ ترکی کی معیشت کو بڑی حد تک متاثر
کردیا ہے۔ جنگلات میں لگنے والی بھیانک آگ بجھانے کے لئے ترک حکومت کے ساتھ
ساتھ عام شہریوں کے علاوہ پڑوسی ممالک روس، آذربائیجان اور یوکرین نے
طیاروں، جدید مشینری اور فائرفائٹرز کے دستے ترکی روانہ کئے ہیں جو آگ پر
قابو پانے کیلئے بھیجے گئے ہیں۔ذرائع ابلاغ کے مطابق ترک صدراتی دفتر سے
جاری کردہ اعداوشمار کے مطابق 129 مقامات پر لگی آگ میں سے 122 پر قابو پا
لیا گیا ہے جبکہ بقیہ 7 پر آگ بجھانے کا کام جاری ہے جو بہت جلد قابو پالیا
جائے گا۔صدراتی ترجمان فرحتین التان کا کہنا ہے کہ انطالیہ کے 35 شہروں میں
لگنے والی آگ پر کافی حد تک قابو پا لیا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ آگ بجھانے
کیلئے تمام دستیاب وسائل استعمال کیے جا رہے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ ساحلی
خطے انطالیہ میں لگنے والی آگ کے نتیجے میں 8 افراد کے جاں بحق ہونے کی
تصدیق ہو چکی ہے۔جبکہ 271 افراد کوزخمی حالت میں ہسپتال منتقل کیا جا گیا
ہے۔
ترکی نے مہلک آگ پر قابو پانے کے لیے یورپی یونین سے مدد کی درخواست کی
تھی۔بتایا جاتا ہے کہ اتنے بڑے پیمانے پر لگی آگ پر قابو پانے کے لیے ترکی
کے پاس انتظامات ناکافی ہیں۔عرب نیوز کے مطابق اس قدرتی آفت کے بعد انقرہ
نے جنگل میں لگی آگ سے شہری اثاثوں کے تحفظ میں مدد کیلئے یورپی کمیشن کو
متحرک کیا ہے۔ بیلجیم کی جانب سے اس آگ پر قابو پانے کے لیے چند ہوائی
جہازوں کو بھیجا گیا ہے جن میں کینیڈین فضائی کمپنی کا طیارہ بھی شامل ہے۔
کروشیا اور اسپین یورپی یونین کی جانب سے ریسکیوا سکواڈ میں شامل ہے۔بحرانی
کیفیت پر قابو پانے کے لئے یورپی یونین کے ادارے کے کمشنر جینز لینارک نے
کہا ہے کہ اس مشکل وقت میں یورپی یونین ترکی کے ساتھ مکمل یکجہتی کے ساتھ
کھڑی ہے۔کمشنربرائے کرائسز مینجمنٹ نے مزید کہا ہے کہ میں ان تمام ممالک کا
شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے اس آفت میں مدد کی پیشکش کی ہے۔انہوں نے کہا
کہ ہم ترک عوام کے ساتھ ہیں جنہوں نے اپنے پیاروں کو کھو دیا ہے اور اس
مہلک آگ سے لڑنے کیلئے پوری کوشش کر رہے ہیں۔ ہم ان سب کیلئے مزید مدد
فراہم کرنے کے لئے تیار ہیں۔ یورپی یونین کا 24/7 ایمرجنسی رسپانس
کوآرڈینیشن سینٹر حالات پر نظر رکھنے اور مؤثر طریقے سے مدد اوررہنمائی کے
لیے ترک حکام کے ساتھ باقاعدہ رابطے میں ہے۔
ترکی میں لگنے والی اس آگ کے سلسلہ میں تفتیش جاری ہے کہ آیا یہ آگ کسی نے
جان بوجھ کر لگائی ہے یاپھر کسی وجہ سے لگی ہے۔ اطلاعات کے مطابق ایک شخص
کو مبینہ طور پر آگ لگانے کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے ۔ترکی میں لگنے
والی آگ سے عوام خوفزدہ ہوگئے ہیں کیونکہ آٹھ دن سے لگی ہوئی اس آگ پر بڑے
پیمانے پر قابو پانے کی کوشش کی جارہی ہے عینی شاہدین کے مطابق ’’یہ سب بہت
جلدی ہوا، تقریباً صرف دس منٹ میں ہم مکمل طور پر سرخ آگ میں گھرے ہوئے
تھے، 26سالہ ایمی ہچنسن ترکی کے شہر مرماریس کے قریبی علاقے ایچملر میں
ٹیچر ہیں وہ کہتی ہیں کہ اس سے پہلے انہوں نے کبھی بھی اتنی خوفزدہ نہیں
ہوئیں۔ انکا کہنا تھاکہ ایسا لگ رہا تھا جیسے یہ جنگ سے متاثرہ کوئی علاقہ
ہے، آسمان مکمل طور پر سرخ تھا اور راکھ برف کی طرح زمین پر گررہی تھی۔
ایمی ہچنسن نے بی بی سی اسکاٹ لینڈ کو بتایاکہ ’’ہم ایچملر اور مرماریس میں
مکمل طور پر سبزے میں گھرے ہوتے ہیں لیکن اب آگ لگی ہوئی ہے اور یہ بجھ
نہیں رہی ہے‘‘۔ جو ہمیشہ سبزہ زار میں رہتے ہیں انکے سامنے خطرناک حد تک
لگنے والی آگ کے شعلے کتنا خوفزدہ کردیئے ہونگے۰۰۰ خیر ترکی نے اپنے چند
ہمسایہ ممالک کی مدد سے آگ پر بڑی حد تک قابو پالیا ہے۔ صدر ترکی رجب طیب
اردغان جنہوں نے آگ لگنے سے متاثر ہونے والے علاقوں کے دورے کے موقع پر
کہاکہ ’’اشارے ملے ہیں کہ آگ لگنے کے واقعات کے پیچھے کوئی سازش ہے‘‘۔
انہوں نے آگ لگنے کے واقعات پر ممکنہ سازش پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ذمہ
داروں کے خلاف سخت کارروائی کا اعلان کیا ہے۔ صدر ترک اردغان نے دو ٹوک
الفاظ میں کہا ہیکہ اگر یہ ثابت ہوگیا کہ آگ جان بوجھ کر لگائی گئی ہے تو
سازشی عناصر کا سینہ چیر دینگے ، چاہے اس کی کچھ بھی قیمت دینا پڑے۔ اب
دیکھنا ہے کہ کیا واقعی ترکی میں لگی اتنی بھیانک اور بڑی آگ کے پیچھے کوئی
سازش ہے یا پھر نہیں اور اگر سازش کارفرماہے تو ترک حکومت اس کی کھوج کیسے
لگاپائے گی ؟ کیا اس میں اسے کامیابی حاصل ہوگی ؟ کیا آگ لگانے والے کسی
سازشی کا پتہ لگ جائے تو اس کے خلاف کس قسم کی کارروائی کی جائے گی ایسے
کئی سوالات ہے جو ترکی میں لگی آگ سے متعلق ہے۰۰۰۰
***
|