#العلمAlilmعلمُ الکتاب سُورَةُالفرقان ، اٰیت 53 تا 60
اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
و
ھوالذی مرج
البحرین ھٰذا عذب
فرات و ھٰذا ملح اجاج
و جعل بینھما برزخا و حجر
محجورا 53 وھوالذی خلق من الماء
بشرا فجعله نسبا و صھرا و کان ربک قدیرا
54 و یعبدون من دون اللہ مالا ینفعھم و لا یضرھم
و کان الکٰفر علٰی ربهٖ ظھیرا 55 وما ارسلنٰک الّا مبشرا و نذیرا
56 قل ما اسئلکم علیه من اجر الّا من یشاء ان یتخذ الٰی ربهٖ سبیلا
57 وتوکل علی الحی الذی لا یموت و سبح بحمدهٖ و کفٰی بهٖ بذنوب عبادهٖ
خبیرا 58 الذی خلق السمٰوٰت والارض وما بینھما فی ستة ایام ثم استوٰی علی
العرش الرحمٰن فسئل بهٖ خبیرا 59 واذا قیل لھم الرحمٰن قالوا و ما الرحمٰن
انسجد
لما تامرنا و زادھم نفورا 60
اے ھمارے رسُول ! انقلابِ عالَم کا جو کام ھم نے آپ کے سپرد کیا ھے آپ
عالَم میں اُس کام کی تعلیم و تربیت اِس اعتماد و یقین کے ساتھ شروع کریں
کہ آپ کو اِس کام کے آغاز سے لے کر اِس کام کے اَنجام تک عالَم کے اُس
عالِم کی علمی و عملی حمایت حاصل ھے جس نے اپنی علمی و عملی باریک بینی سے
سمندر کی سرکش لہروں کے بیچوں بیچ کھارے اور میٹھے پانی کے درمیان ایک
باریک سی لکیر کھینچ کر وہ مضبوط حَدِ فاصل قائم کی ہوئی ھے کہ سمندر کی
طوفانی لہروں کے باوجُود بھی کھارے پانی کا ایک قطرہ میٹھے پانی میں اور
میٹھے پانی کا ایک قطرہ کھارے پانی میں شامل نہیں ہو سکتا اور آپ کو عالَم
کے اُس عالِم کی علمی و عملی حمایت حاصل ھے جس نے انسان کو اپنی حد میں
رہنے والے اسی طوفانی پانی سے پیدا کیا ھے اور اِس کو نسل و نسب کا ایک
دائرہ بھی دیا ہوا ھے اور پھر اُس نے انسان کے اِس نسلی و نسبی دائرے کو
دَدھیال اور سُسرال کے دائروں میں لا کر اپنے کارِخلّاقی میں شامل کیا ہوا
ھے اور اُس نے اپنی اِس تخلیق اور اپنی اِس خلّاقی کا یہ کام تخلیق کے اُس
ابتدائی مرحلے میں ہی کیا ھے جب اللہ کی بندگی کے بجاۓ غیر اللہ کی بندگی
کرنے والے یہ لوگ اپنے نسب کی قید میں تھے اور وہ لوگ بھی اپنی نسل قید میں
تھے جن کی یہ لوگ بندگی کر رھے ہیں اور خالق کے جو مُنکر لوگ غیر اللہ کی
بندگی کررھے ہیں اُن کو شیطان کی حمایت حاصل ھے اور یہ لوگ شیطان کی معیت
میں رہ کر جن لوگوں کی بندگی کر رھے ہیں وہ لوگ اپنے اِن اَندھے پُجاریوں
کو کوئی نفع بھی نہیں دے سکتے اور کوئی نقصان بھی نہیں پُہنچا سکتے ، ھم نے
آپ کو اِن پُوجنے والے لوگوں اور اِن پُوجے جانے والے لوگوں کے لیۓ اپنی
اِس تعلیم کا مُعلم بنایا ھے کہ اِن میں سے جو اللہ کی ذات پر ایمان لاۓ آپ
اُس کو اُس کے اَعلٰی اَنجام کی اَعلٰی خبر سنائیں اور جو اللہ کی ذات پر
ایمان نہ لاۓ آپ اُس کو اُس کے بُرے اَنجام سے ڈرائیں اور آپ اِن میں اِس
بات کا اعلان بھی کر دیں کہ میں تُم کو جو تعلیم دے رہا ہوں اِس کا تُم سے
کوئی معاوضہ بھی نہیں چاہتا سواۓ اِس ایک بات کے کہ تُم جُرم کی زندگی کو
چھوڑ کر اَمن و سلامتی کے راستے پر آجاؤ ، آپ اپنے اِس کام کو اپنے اُس
اللہ کی ذات کے بھروسے پر شروع کریں جو ہمیشہ سے ہمیشہ کے لیۓ ایک زندہ و
مُتحرک بالعمل ذات ھے اور اُس کو انسان سے بھی انسان کا عملِ خیر پسند ھے
اور آپ کو اپنے اِس کام کے لیۓ عالَم کے اُسی عالِم کی حمایت حاصل ھے جس نے
یہ عالَمِ نظر اپنے حسابِ تخلیق کے چھ دنوں میں قائم کیا ھے اور اِس کے بعد
اُس نے اِس عالَم کے اُس بلند عرشے کی بلندی کی طرف توجہ کی ھے اور تَب سے
اَب تک عالَم کی پستیوں اور بلندیوں میں اُس خلّاق ذات کی تخلیق کا عمل
جاری ھے لیکن کتنی عجیب بات ھے کہ جب شیطان کے اِن چیلوں کو رحمان کے نظام
کے سامنے سرنگوں ہونے کا کہا جاتا ھے تو وہ پلٹ کر آپ سے ہی یہ سوال کر
دیتے ہیں کہ کون سا رحمان اور اُس کا کون سا نظام !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اِس کتاب کا مرکزِ استدلال عام طور وہی اَمثال ہوتی ہیں جو انسانی نگاہ و
خیال میں فطری طور پر پہلے سے موجُود ہوتی ہیں اِس لیۓ جب انسان کی نگاہ و
خیال میں آنے والی وہ فطری و مَنطقی اَمثال انسان کے سامنے لائی جاتی ہیں
تو وہ اُن مَنطقی اَمثال سے سمجھ میں آنے والی کسی بات کو مانے یا نہ مانے
لیکن یہ بات طے ھے کہ وہ اُس بات کو بہر حال سمجھ لیتا ھے اور مقصود بالذات
بھی انسان کو بات سمجھانا ہوتا ھے منوانا نہیں ہوتا ، پھر اگر ایک انسان
سمجھنے کی بات کو سمجھنے کے بعد اپنی آزادانہ مرضی سے اللہ تعالٰی کے قولِ
حق کے طور پر تسلیم کر لیتا ھے تو نتیجہِ لازمہ کے طور پر لَمحہِ حال کے
بعد ہر آنے والے وقت میں اُس کے لیۓ اَمن و سلامتی کی نوید ھے اور اگر وہ
سمجھنے والی بات کو سمجھ کر بھی اُس کا انکار کر دیتا ھے تو نتیجہِ لازمہ
کے طور پر لَمحہِ حال کے بعد ہر آنے والے وقت میں اُس کے لیۓ عدمِ سلامتی
کی وعید ھے ، انسان کو اسی سلامتی کی طرف لانے اور اسی خطرے سے بچانے کا
نام قُرآن وہ بے میل دین ھے جس دین کی طرف قُرآن انسان کو ہمیشہ سے ہمیشہ
کے لیۓ بلاتا ھے ، اٰیاتِ بالا سے پہلے پہلی اَقوام کے جزا و سزا کے عمل سے
گزرنے کی بہت سی اَمثال کے نتائجِ کلام کے بعد گزشتہ اٰیات میں سیدنا محمد
علیہ السلام کو اِس اَمر سے آگاہ کیا گیا تھا کہ جب زمین پر انسان کی تعداد
محدُود ہوتی تھی اور انسانی بستیاں بھی محدُود ہوتی تھیں تو اُس وقت زمین
کی ہر قابلِ ذکر بستی میں اُس بستی کی محدُود علمی و عملی ضرورت کے مطابق
ایک محدُود پیغام کے ساتھ ایک محدُود مُدت کے لیۓ کوئی نبی یا رسُول بہیج
دیا جاتا تھا لیکن آنے والے وقت میں انسان کے وسائلِ علم و سماعت محدُود
دور سے نکل کر ایک لامحدُود دور میں داخل ہونے والے ہیں اِس لیۓ اَب آپ کو
انقلابِ عالَم کے اِس غیر معمولی کام کے لیۓ ایک غیر معمولی کتاب و علمِ
کتاب کے ساتھ اِس کام کے لیۓ تَنِ تنہا مامُور کیا جا رہا ھے اور آپ کے اُس
اعلانِ تقرری کے بعد اَب موجُودہ اٰیات میں آپ کو یہ باور کرایا جا رہا ھے
کہ اِس عظیم کام میں آپ بظاہر تَنِ تنہا ہیں لیکن درحقیقت آپ تنہا نہیں ہیں
بلکہ اللہ تعالٰی کی ذات اور اُس ذات کی علمی و عملی قوت و قدرت بھی آپ کے
ساتھ ھے اور چونکہ انسان کو ایک قابلِ فہم انداز میں یہ بات سمجھانی مقصود
تھی کہ اللہ تعالٰی کے دین اور رسُولِ دین کو دین کے اِس کام کے لیۓ ہمشہ
ہی اللہ تعالٰی کی مدد حاصل ہوتی رھے گی اِس لیۓ انسان کو یہ بات سمجھانے
کے لیۓ اِس مقام پر بھی اُسی مَنطقی اَمثال و تمثیل کے ذریعے یہ بات
سمجھانے کی کوشش کی گئی ھے کہ اللہ تعالٰی کے رسُول کو جس ہستی کی امداد
حاصل ھے اُس کی قدرت و قوت چونکہ لا محدُود ھے اِس لیۓ اُس کو اِن لامحدُود
زمانوں میں اُس ہستی کی جو مدد حاصل ہوگی وہ مدد بھی لامحدود ہوگی اور
چونکہ اُس عملی مدد کو تو صرف میدانِ عمل میں ہی عملی طور پر دکھانا مُمکن
ہوتا ھے اِس لیۓ اُس مدد کی کمیت و کیفیت کو اِن اٰیات میں موضوعِ بحث نہیں
بنایا گیا صرف اللہ تعالٰی کی اُن قدرتوں اور قدرتوں کو سمندر و آبِ سمندر
کی اِس مثال سے اِس طرح واضح کیا ھے کہ محمد علیہ السلام کو انقلابِ عالَم
کے اِس کام کے لیۓ اُس ہستی کی حمایت حاصل ھے جس ہستی نے سمندر میں میٹھے
اور کھارے پانی کی درمیان ایک نادیدہ سی حد بندی کرکے ایک دُوسرے کے ساتھ
خلط ملط ہونے سے روکا ہوا ھے اور جو ہستی یہ کام کرسکتی ھے تو اُس کے لیۓ
یہ کام کرنا بھی کُچھ مُشکل کام نہیں ھے کہ وہ محمد علیہ السلام اور دینِ
محمد علیہ السلام کے دُشمنوں کے درمیان بھی ایسی ہی نادیدہ سی ایک سرحد
قائم کردے کہ محمد علیہ السلام اور دینِ محمد علیہ السلام کو قیامت تک اُن
کا کوئی دُشمن کبھی بھی اور کوئی بھی نقصان نہ پُہنچا سکے ، جہاں تک سمندر
کے خوش گوار اور سمندر کے ناخوش گوار پانی کے درمیان قائم کیۓ ہوۓ اِس
سرحدی عجُوبے کا تعلق ھے جس کا اِن اٰیات میں ذکر ہوا ھے تو یہ عالَم کے
بڑے عجُوبے کا ایک چھوٹا سا حصے ھے اور عالَم کا وہ بڑا عجُوبہ یہ ھے کہ
سُورَةُالمؤمنون کی اٰیت 18 کے مطابق اللہ تعالٰی نے سمندر میں موجُود پانی
ایک ہی بار آسمان سے زمین پر اُتارا ھے اور وہ پانی جب سے اَب تک ایک قطرہ
کم ہوا ھے اور نہ ہی قطرہ زیادہ ہوا ھے ، اِس پانی کے استعمال کی عملی صورت
یہ ھے کہ پہلے یہ پانی بخارات بن کر سمندر سے خلاء میں جاتاھے اور جب خلاء
سے بارش کی صورت میں زمین پر واپس آتا ھے تو فضا و زمین کے سارے نمکیات کو
بھی سمیٹ کر سمندر میں واپس لے آتا ھے اور یہ نمکین پانی ایک طرف تو سمندر
میں ہر روز مرنے والے کروڑوں آبی جانداروں کے جسم کو مُتعفن ہو نے سے بچانے
کا باعث ہوتا ھے تو دُوسری طرف یہی نمکین پانی سمندر کی سمندری اور زمین کی
زمینی مخلوق کو بھی اُس تعفن سے بچاتا ھے جو مرنے والے جان داروں کے مرنے
کے بعد سمندر میں پیدا ہوتا ھے ، قُدرت نے ایک طرف تو سمندر سے خلاء میں
جانے اور خلاء سے زمین پر آنے والے اِس پانی کا یہ انتظام کیا ھے جس کا ذکر
ہوا ھے اور دُوسری طرف اُس نے اِس کے لیۓ یہ اہتمام بھی کیا ھے کہ جو پانی
خلاء سے زمین پر آتا ھے اور زمین کی رگوں سے گزر کر سمندر تک جاتا ھے اُس
کا ایک حصہ نمک سے پاک کر کے چھوٹی چھوٹی نہروں اور بڑے بڑے دریاؤں کی صورت
میں شہروں اور بستیوں کے درمیان سے گزارا جاتا ھے جس کو زمین کے سارے جان
دار استعمال میں لاتے ہیں ، پانی کے اسمان سے زمین پر لانے ، پھر زمین سے
خلاء میں لے جانے اور پھر آسمان سے اُتار کر اور زمین کے معدے سے گزار کر
میٹھا پانی دریاؤں میں بہانے اور کھارا پانی سمندر میں پُہنچانے اور پھر
دریاؤں کے میٹھے پانی کو سمندر کے کھارے پانی سے اَلگ رکھنے کے لیۓ اِن
دونوں کے درمیان ایک حَدِ فاصل قائم کرنے کا یہ عمل عالَم کے اُس خالق کا
ایک معمولی سا عمل ھے جس کی اِس مثال سے اُس نے اپنے رسُول کو اپنی علمی
قُدرت اور عملی قوت کا ایک جلوہ دکھا کر یہ باور کرایا ھے کہ اگر عالَم و
اَشیاۓ عالَم اُس کی دسترس میں ہیں تو انسان بھی اُس کی دسترس سے باہر نہیں
ہیں اِس لیۓ اِس کا لازما یقین کیا جاۓ کہ جو لوگ زمین سے اللہ تعالٰی کے
دین اور اُس کی کتابِ دین کو مٹانے کی کوشش کریں گے وہ زمین سے اسی طرح مٹا
دیۓ جائیں گے جس طرح پہلے زمانے کے پہلے دین دُشمن لوگ زمین سے مٹا دیۓ گۓ
تھے ، اِس سلسلہِ کلام میں اللہ تعالٰی نے اپنے رسُول کے حوالے سے جو سب سے
اھم بات بتائی ھے وہ یہ ھے کہ رسُول زمین پر جو اپنا جو کارِ رسالت اَنجام
دیتا ھے اُس کام کا وہ اہلِ زمین سے کسی شکل میں کوئی عوض معاوضہ بھی نہیں
لیتا ھے !!
|