کورونا ویکسین اور زندگی و موت کا فلسفہ۔
( Arshad Qureshi, Karachi)
افسوس کے ساتھ یہاں ایک بات کا ذکر کرنا چاہوں گا کہ ہمارے معاشرے کی یہ روایت بن گئی ہے کہ جہاں ہم کسی بھی حوالے سے تذبذ کا شکار ہوتے ہیں اسے مغرب کی سازش اور دین کے خلاف سازش کہہ کر اسے نیا ہی رخ دے دیتے ہیں ۔ |
|
|
گذشتہ برس سے دنیا کو کورونا نے اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔ کورونا کے ابتدائی ماہ پاکستان سمیت دنیا بھر کے لیے انتہائی کٹھن رہے اور کئی ممالک میں بہت زیادہ جانی نقصان ہوا۔ کویڈ انیس کی دوا آنے کے بعد کورونا کے خوف میں کچھ کمی آئی لیکن ساتھ ہی نئے خدشات بھی جنم لینے لگے ۔ کورونا بھی اپنی قسم تبدیل کرنے لگا اور اس کی شدت میں بھی اتار چڑھاؤ آتا رہا جسے دوسری تیسری اور چوتھی لہر کا نام دیا گیا ۔ اس وقت دنیا کو کورونا کی ڈیلٹا ویرینٹ قسم کا سامنا ہے جو انسانی جانوں کو نگل رہا ہے امریکا سمیت کئی ممالک اس نئی قسم کے آنے کے بعد ان لوگوں کو بوسٹر ڈوز لگانے پر کام کر رہے ہیں جن کو ویکسین لگ چکی ہے تاکہ ان میں کورونا کے خلاف زیادہ مزاحمت پیدا کی جاسکے۔
قارئین گرامی ۔ آپ نے گذشتہ سال سے رواں سال کے ابتدا تک کورونا کے حوالے سے سوشل میڈیا پر بہت کچھ دیکھا ، افسوس کہ سوشل میڈیا کو کورونا سے احتیاط اور ویکسین کرانے کی جانب راغب کرانے اور شعور دلانے کے لیے ایک بہترین اور موثر ذریعہ کے طور پر استعمال کرنے کے بجائے ویکسین کے خلاف منفی پروپیگنڈاہ پھیلانے کے لیے استعمال کیا گیا۔ کہیں ویکسین لگے بازو پر مقناطیس چپکا کر دکھایا گیا ، کہیں ویکسین لگے بازو سے ایل ای ڈی بلب روشن کیا گیا تو کہیں ویکسین لگے بازو سے موبائیل بھی چارج کرکے دیکھائے گئے۔ ابھی ان تماش بینوں کے تماشوں کا ایک طومار لگا ہوا تھا کہ ایک نئی افوا ہ بھی تواتر سے پھیلائی جانے لگی کہ ویکسین لگوانے والے افراد دوسال بعد ہلاک ہوجائیں گے ۔ ایسے ہی کچھ کند ذہن لوگوں نے آج تک پولیو کے قطروں کے خلاف بھی منفی پروپیگنڈہ جاری رکھا ہوا ہے جس کی وجہ سے ہم آج تک پولیو سے پاک ملک نہیں بن سکے جب کہ ہمارے بعد پولیو سے متاثر ہونے والے کئی ممالک پولیو سے پاک ہوگئے ۔ اس قسم کی افواہوں کو بطور ثواب آگے بڑھانے اور لوگوں سے ساجھنے والوں کی اس حوالے سے معلومات بھی صفر ہیں اور نہ ہی انہوں نے تحقیق کرنے کی زحمت محسوس کی ، اگر ایک لمحہ کو سوچ بھی لیں کہ واقعی دوسال بعد ویکسین لگوانے والے لوگ ہلاک ہوجائیں گے تو پھر امریکا، چین سمیت دنیا کے بہت سے ممالک جن کی افواج، سربراہان سمیت 90 سے 95 فیصد لوگوں کو ویکسین لگ چکی ہے وہ سب ہلاک ہوجائیں گے ! تو پھر بچے گا کون، وہ جنہوں نے ویکسین نہیں لگوائی پھر شاید ان لوگوں کو ان ممالک اور حکومتوں پر قبضہ حاصل ہوجائے گا۔
ہم نے اپنے کئی کالموں اور ٹاک شوز میں اس بات کو نمایاں کیا کہ کورونا ویکسین کے حوالے سے پھیلائی جانے والی ایسی من گھڑت افواہوں کو نہ روکا گیا تو ہمارے ملک میں کورونا کی شدت مزید بڑھ جائے گی اور لوگ ویکسین کی لگوانے کی جانب راغب نہیں ہوں گے۔ خدا کا شکر کہ حکومت نے ایسی افواہوں کے سدباب کے لیے سنجیدگی کا مظاہرہ کیا اور سوشل میڈیا پر ایسی افواہیں پھیلانے والوں کے خلاف کارروائی کا اعلان کیا۔ جس کے بعد ان افواہوں میں نہ صرف کمی آئی بلکہ ویکسین کرانے کی جانب لوگوں کی رغبت بھی دیکھنے میں آئی ہے ۔
افسوس کے ساتھ یہاں ایک بات کا ذکر کرنا چاہوں گا کہ ہمارے معاشرے کی یہ روایت بن گئی ہے کہ جہاں ہم کسی بھی حوالے سے تذبذ کا شکار ہوتے ہیں اسے مغرب کی سازش اور دین کے خلاف سازش کہہ کر اسے نیا ہی رخ دے دیتے ہیں ۔ جب کہ اس حوالے سے سعودی عرب اور ایران جسے ہمارے ملک میں دو اہم اسلامی ملکوں کی حیثیت سے دیکھا جاتا ہے ان کی کوورنا ویکسین کے حوالے سے نہ صرف سوچ مثبت ہے بلکہ وہ اپنی عوام کو مکمل ویکسین شدہ کرنے کے لیے نہایت سرگرم ہیں ۔ ہمارے معاشرے میں اکثر لوگ ویکسین نہ لگوانے کے حق میں دلائل دیتے ہوئے یہ بات کہتے ہیں کہ زندگی موت اللہ کے ہاتھ میں ہے ، موت آنی ہے تو آ کر رہے گی ، ارے بھئی اس بات پر تو ہر مسلمان کا ایمان ہے ۔ اگر آپ کا ایمان مظبوط ہے تو علاج کی غرض سے ویکسین لگوالیں کیوں کہ زندگی موت ہر حال میں اللہ کے ہاتھ میں ہے تو ویکسین لگنے کے بعد بھی اللہ ہی کے ہاتھ میں زندگی موت ہوگی۔
کچھ عرصہ پہلے ایک جاننے والے کو ویکسین لگوانے ساتھ لے کر گئے تو ایک بہت ضعیف بزرگ کو ویکسین لگواتے دیکھا ۔ انہیں دیکھ کر اچھا محسوس ہوا تو ان سے بھی اپنی خوشی کا اظہار کر ڈالا ، بزرگ نے کہا میں زندگی گذار چکا ہوں میں نہیں چاہتا کہ میری وجہ سے میرے بچوں، میرے پوتے ، پوتی کو کسی مشکل کا سامنا کرے پڑے۔ میں انہیں صحت مند رکھنے کے لیے خود کو ویکسین لگوارہا ہوں۔
قارئین گرامی ۔ ہم نے اس وبا میں اپنے بہت سے پیاروں کو ہمیشہ کے لیے کھودیا، بہت سے پیاروں کو اس اذیت میں تڑپتے دیکھا ہے ۔ اس کی اذیت کو سہتے ہوئے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے ۔ گھر کے ایک فرد کو اگر یہ متاثر کرتا ہے تو گھر میں رہنے والا ہر فرد متاثر ہوتا ہے۔ ہم سب کو چاہیے اس حوالے سے لوگوں کو احتیاط کرنے اور ویکسین کرانے کے بارے میں ترغیب دیں ۔ ہر محلے میں کمیٹیاں، یونین اور سماجی تنظیمیں ہوتی ہیں وہ اپنا اولین فرض سمجھتے ہوئے لوگوں کو ترغیب دیں کہ وہ ویکسین کرائیں کورونا ایس او پی پر عمل کریں ۔ کیوں کہ محلے میں ویکسین نہ کرانے والے افراد تمام محلے کے لیے خطرات پیدا کرسکتے ہیں ۔ محلے کا ہر فرد ہے روزگار کے سلسلے میں دور دراز علاقوں میں جاتا ہے روز ہی مختلف لوگوں سے ملتا ہے اور شام میں جب اپنے محلہ اور گھر میں آتا ہے تو وہ کسی بھی وقت کسی کے لیے خطرہ پیدا کرسکتا ہے کسی ایک شخص کی وجہ سے پورا محلہ متاثر ہوسکتا ہے۔
یہاں حکومتی اداروں کی توجہ بھی اس جانب مبذول کرانا ضروری سمجھتا ہوں کہ وہ الیکٹرانک اور ڈیجیٹل میڈیا کا استعمال کرتے ہوئے ویکسین کے حوالے سے ڈرامے ، شارٹ اسٹوری فلم، ٹاک شوز وغیرہ کا زیادہ انعقاد کرے تاکہ لوگوں میں ویکسین لگوانے کا رجحان بیدار ہو۔ یوسی کی سطح پر کمیٹی بنائی جائیں جو ایسے لوگوں کی شناخت کریں جو ویکسین نہیں لگوارہے تاکہ ان کو ویکسین لگا کر پورے علاقے کے رہائشیوں کو محفوظ کیا جاسکے ۔ جان ہے تو جہان ہے ، بیماریوں کا سامنا انسان کو رہتا ہی ہے لیکن علاج و احتیاط سنت رسول بھی ہے۔
|