قُرآن اور برُوجِ آسمان و عجائباتِ آسمان !!

#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَةُالفرقان ، اٰیات 61 تا 71 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
تبٰرک
الذی جعل فی
السماء بروجا و جعل
فیھا سرٰجا و قمرا منیرا 61
وھو الذی جعل الیل والنھار خلفة لمن
اراد ان یذکر او اراد شکورا 62 و عباد الرحمٰن
الذین یمشون علی الارض ھونا و اذا خاطبہم الجٰھلون
قالوا سلٰما 63 والذین یبیتون لربھم سجدا و قیاما 64 والذین
یقولون ربنا اصرف عنا عذاب جھنم ان عذابھا کان غراما 65 انھا ساءت
مستقرا ومقاما 62 والذین اذا انفقوا لم یسرفوا ولم یقتروا وکان بین ذٰلک قواما
67 والذین لا یدعون مع اللہ الٰھا اٰخر و لا یقتلون النفس التی حرم اللہ الّا بالحق ولا یزنون
و من یفعل ذٰلک یلق اثاما 68 یضٰعف له العذاب یوم القیٰمة ویخلد فیهٖ مھانا 69 الّا من تاب واٰمن
و عمل عملا صالحا فاولٰئک یبدل اللہ سیاٰتہم حسنٰت و کان اللہ غفورارحیما 70 ومن تاب وعمل صالحا
فانهٗ یتوب الی اللہ متابا 71
اِس عالَمِ کشاد کے جس عالِمِ کشادنے سینہِ سمندر میں آبِ شور اور آبِ شیریں کے اَلگ اَلگ راستے بناۓ ہیں اُس عالِمِ کشاد نے جَوفِ آسمان میں ثوابت و سیار اور آفتاب و ماہتاب کے بھی اَلگ اَلگ راستے بناۓ ہیں ، اُسی عالَم کشاد نے عالَم میں شب و روز کی آمد و رفت کے اَوقاتِ کار بھی اَلگ اَلگ بناۓ ہیں ، جو انسان اِن مظاہرِ زمین و آسمان کی طرح رحمان کی غلامی میں آجاتے ہیں تو وہ زمین پر اسی طرح سے ایک اعتدال و توازن کے ساتھ چلتے رہتے ہیں جس طرح سے یہ سارے مظاہرِ عالَم سینہِ سمندر اور جوفِ آسمان میں ایک اعتدال و توازن کے ساتھ چلتے رہتے ہیں اور جب کبھی کوئی نادان انسان اِن دانش مند انسانوں کے ساتھ اُلجھ کر اور پھر اِن کو اپنے اُلجھاؤ میں اُلجھا کر اِن کو اِن کے راستے سے ہٹانا چاہتا ھے تو یہ بَھلے لوگ اُس انسان کو سلامتی کا پیغام دے کر اور اُس سے سلامتی کا پیغام لے کر آگے بڑھ جاتے ہیں کیونکہ یہ وہ بَھلے لوگ ہیں جو سفر و حضر دونوں میں اللہ کے اَحکامِ نازلہ کے سامنے اپنے سر جُھکاۓ رہتے ہیں اور یہ بَھلے لوگ اپنی ساری جُھدِ حیات کے دوران جُرم اور سزاۓ جُرم سے بچے رہنے کے لیۓ رحمان سے دُعا و استدعا کرتے رہتے ہیں کیونکہ یہ لوگ جانتے ہیں کہ سزا کی مُدت کم ہو یازیادہ ہو وہ بہر حال سزا ہی ہوتی ھے اور اُس سزا کی جو تاریخ رَقم ہوتی ھے وہ بذاتِ خود بھی ایک سزا ہی ہوتی ھے اِس لیۓ یہ بَھلے لوگ متوازن بالعمل ہوجاتے ہیں اور متوان بالعمل ہونے کے بعد حیات و اہلِ حیات پر اپنے جو وسائلِ حیات صرف کرتے ہیں تو وہ وسائل بھی متوازن طریقے سے صرف کرتے ہیں غیر متوازن طریقے سے صرف نہیں کرتے ہیں ، انسانی معاشرے کے یہ متوازن بالعمل لوگ صرف اللہ کی غلامی کرتے ہیں اللہ تعالٰی کے سوا یا اللہ تعالٰی کے علاوہ کسی اور ہستی کی غلامی نہیں کرتے ہیں ، یہ متوازن بالعمل لوگ بدلہِ قانُونِ جان کے بغیر کسی کی جان بھی نہیں لیتے ہیں کیونکہ یہ لوگ اللہ تعالٰی کے اَحکامِ نازلہ سے انحراف و سرکشی نہیں کرتے ہیں ، اگر یہ لوگ مُثبت اعمال ترک اور مَنفی اعمال ختیار کرلیں گے تو اِن کے اِس عمل کے باعث حسابِ عمل کے دن اِن کی سزاۓ عمل دوگنا ہو جاۓ گی سواۓ اُن لوگوں کے کہ جو کسی بے ختیار ہنگامی جذبے کے تحت راہ سے بہٹکے اور جلد ہی اپنے راستے پر واپس بھی آگے اور انہوں نے اپنے جذبہِ شر کو جذبہِ خیر میں بھی بدل دیا ، جو لوگ ایسا کریں گے تو اُن کے اِس عزمِ عمل سے اُن کے اعمال خیر بڑھتے بڑھتے اور اعمالِ شر گھٹتے گھٹتے اُن کی میزانِ عمل کو بھی متوازن بنا دیں گے کیونکہ اللہ تعالٰی اپنے بندوں کے لیۓ مہربان و پردہ پوش ھے اور جو لوگ بگڑ جانے کے بعد سُدھر جاتے ہیں تو اللہ تعالٰی اُن کی واپسی کو قبول کرلیتا ھے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اِس سے پہلے اِس سُورت کی پہلی اٰیت کا اور پھر اِس سُورت کی دسویں اٰیت کا آغاز بھی"تبٰرک" کے اسی مُتبرک لفظ سے ہوا تھا اور اَب اِس سُورت کی اکسٹھویں اٰیت کا آغاز بھی اسی مُتبرک لفظ سے ہوا ھے ، اِس لفظ کے عربی اُسلوب و استعمال کا ھم نے پہلی اٰیت میں ذکر کیا تھا اور اِس کی مقامی زبان میں ہونے والی اُس ترجمانی کا اٰیت دس میں ذکر کیا تھا جس ترجمانی کے مطابق انسان اپنے مال کے راس المال میں اضافے کے احساس کو برکت کہتا ھے اور اِس احساس کو محسوس کرکے خوش ہوتا رہتا ھے لیکن قُرآنِ کریم نے اِس سُورت کی پہلی اٰیت میں انسانی خوشی کے اِس قلبی احساس کو اللہ تعالٰی کی توحید کے ساتھ اور دسویں اٰیت میں اِس انسانی خوشی کے اِس احساس کو سیدنا محمد علیہ السلام کی رسالت کے ساتھ جبکہ اِس سُورت کی اِس تیسری اٰیت میں اِس انسانی خوشی کے اِس احساس کو اللہ تعالٰی کے اُس عالَمِ خلق کے ساتھ مُنسلک کیا ھے جس عالَمِ خلق میں سیدنا محمد علیہ السلام انسانی ھدایت کے لیۓ مبعوث ہوۓ ہیں اور جس عالَمِ خلق میں مخلوق کی ھدایت کے لیۓ قُرآنِ کریم نازل ہوا ھے ، اٰیاتِ بالا سے پہلی اٰیات میں جہاں زمین و آسمان اور اَشیاۓ زمین و آسمان کا ذکر ہوا تھا وہاں یہ بھی ذکر ہوا تھا کہ اِس عالَم کے اِن زمین و آسمان کی تخلیق و تکمیل کے بعد اللہ تعالٰی اِس عالَم کے اُس عرش کی طرف مُتوجہ ہوا تھا جس عرش کے اُوپر اِس تخلیق کے بعد اُس کا تخلیقِ مزید کرنے کا ارادہ تھا اور کوئی نہیں جانتا کہ تَب سے اَب تک اُس نے عرش کی اُن بلندیوں کے بعد عالَم کی کن کن بلندیوں پر کیا کیا تخلیق کیا ھے اور کیا کیا تخلیق کر رہا ھے ، قُرآنِ کریم نے اٰیاتِ بالا کے پہلے حصے میں ھمارے عالَمِ نظر میں نظر آنے والے جن برُوج کا ذکر کیا ھے قدیم ماہرینِ فلکیات کے نزدیک اُن سے مُراد فلک کا وہ اُن بارہ منطقة البروج کا ایک مجموعہ ھے جو خطِ زمین سے 8 درجے تک دونوں طرف پھیلا ہوا ھے اور جس میں بُرج آبی و بادی ، بُرجِ خاکی و آتشی ، بُرجِ اَسد و حمل ، بُرجِ جدی و حوت ، بُرجِ ثور و سرطان اور برجِ سُنبلہ وغیرہ واقع ہیں لیکن جدید ماہرینِ فلکیات جدید مشینوں کی آنکھ سے فلک کے اِس بیکراں اُفق میں لاکھوں نُورانی برسوں کے وہ دُوردراز کے مقامات بھی دیکھنے لگے ہیں جن مقامات کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ھے کہ ھمارے اِس بیکراں عالَمِ نظر کے بعد بھی ایسا ہی ایک اور بیکراں عالَم ما وراۓ نظر ھے جس کے مقابلے میں ھمارا یہ عالَمِ نظر محض ایک ریت کا ذَرہ ھے اور ہمیں یقین ھے کہ آنے والے اُس بعید البعید وقت میں انسان کی مشینی نظر کو اِس عالَم کا جتنا عالَم نظر آۓ گا وہ بھی مُستقبل میں ایک اللہ تعالٰی کے اُس سارے عالَم کے مقابلے میں ریت کے ایک ذَرے سے زیادہ کُچھ بھی نہیں ہو گا کیونکہ جس طرح اللہ تعالٰی کا علمِ خلق لامحدُود ھے اسی طرح اُس کا عالمِ خلق بھی لا محدُود ھے ، اٰیاتِ بالا میں اللہ تعالٰی کو خالقِ عالَم ماننے یا نہ ماننے والوں کا جو ذکر آیا ھے اُس ذکر میں اُن کی جزا و سزا کا ذکر بھی آیا ھے اور اُن کی جزا و سزا کے اُس ذکر میں اُن لوگوں کا ذکر بھی آیا ھے جو مُثبت عملی حیات سے نکل کر مَنفی عملی حیات میں چلے جاتے ہیں اور پھر اپنی غلطی کا احساس ہونے کے بعد مَنفی حیات کے مَنفی دائرہِ حیات سے نکل کر مُثبت حیات کے مُثبت دائرہِ حیات میں واپس آجاتے ہیں ، اٰیاتِ بالا میں اِہلِ ایمان کو یہ خوش خبری دی گئی ھے کہ جو لوگ اِن تائب ہونے والے تائب لوگوں کی طرح توبہ کرتے ہیں اور اپنے مَنفی طرزِ حیات کو تَج کر مُثبت دائرہِ حیات میں واپس آجاتے ہیں تو اُن کے اعمالِ شَر اُن کے اعمالِ خیر میں بدل دیۓ جاتے ہیں ، عُلماۓ روایت نے قُرآن کے اِس بیان سے یہ گُم راہ کُن نتیجہ اَخذکیا ھے کہ اِس سے پہلے اُن لوگوں نے جو اعمالِ شر کیۓ ہوتے ہیں وہ اُن کی شر سے خیر کی طرف ہونے والی واپسی کے بعد اُن کے اعمالِ خیر میں بدل دیۓ جاتے ہیں اور عُلماۓ روایت کے اِس روایتی نتیجے سے عُلماۓ روایت کے روایتی پیرو کاروں نے بھی یہی سمجھا ہوا ھے کہ جُرم کرو اور اُس کے بعد اَنگوٹھے اور اَنگشتِ شہادت کی دو پوروں سے کانوں کے دو لٹکے ہوۓ کونوں کو پکڑ کر زبان سے ایک دو بار { اللہ میری توبہ ، اللہ میری توبہ } کہہ دینے سے انسان کا پہلا عملِ شَر اُس کے عملِ خیر میں بدل دیا جاتا ھے اور انسان ماں کے پیٹ سے پیدا ہونے والے بچے کی طرح معصوم عن الشر اور مُستحق بالخیر ہو جاتا ھے اور اِس خیال کے حامل انسان کا یہ خیال اتنا خطرناک ھے جو انسان کو جری علی الخطا بنا دیتا ھے اور اہلِ اسلام کی ایک بھاری اکثریت اسی خیال سے اعمالِ خیر کی اَنجام دہی کے بجاۓ ایک تسبیحِ توبہ پر ہی پُوری زندگی گزار دیتی ھے اور اِن کی پُوری زندگی میں خیر و شر دو مُختلف المزاج جُڑواں بچوں کی طرح ساتھ ساتھ ہی پَلتے چَلتے اور پَھلتے پُھولتے رہتے ہیں جب کہ قُرآن کی نظر میں توبہ شر کے اُس عمل کو ترک کرنے کا نام ھے جو عملِ شر کسی وقتی اور ہنگامی غلط خیال کے زیرِ اثر کسی انسان سے سر زد ہوا ھے اور انسان نے اپنے اُس عملِ شر کو ہمیشہ کے لیۓ ترک کرکے ہمیشہ کے لیۓ عملِ خیر کو اختیار کر لیا ھے اور ترک کیۓ گۓ شر کا دوبارہ اعادہ بھی نہیں کیا ھے تو اُس کی اِس عملی توبہ کا نتیجہ یہ ہوتا ھے کہ اُس کے اعمالِ شر کے مقابلے میں اُس کے اعمالِ خیر اتنے بڑھ جاتے ہیں کہ یومِ حساب کے موقعے پر جب اُس کے اعمالِ خیر و شر کا وزن ہوتا ھے تو اُس کے اعمالِ خیر کا پَلڑا بھاری ہو جاتا ھے اور میزانِ عمل کا وہ ہی بھاری ہونے والا پَلڑا اُس کے لیۓ جزاۓ خیر کا باعث ہوتا ھے ، توبہ کے اِس قُرآنی و بُرھانی مفہوم کے سوا اِس کا جو بھی رائج فی الجُہلا مفہوم ھے وہ شیطان کا بنایا ہوا ایک شیطانی مفہوم ھے !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 557993 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More