قُرآن کا عدل اور قُرآن کی عدالت !!

#العلمAlilm علم الکتاب سُورَةُالفرقان ، اٰیت 72 تا 77 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
والذین
لا یشھدون الزور
و اذا مروا باللغو مروا
کراما 72 و الذین اذا ذکروا
باٰیٰت ربہم لم یخروا علیھا صما و
عمیانا 73 والذین یقولون ربنا ھب لنا من
ازواجنا و ذریٰتنا قرة اعین و جعلنا للمتقین اماما
74 اولٰئک یجزون الغرفة بما صبرواو یلقون فیھا تحیة
وسلٰما 75 خٰلدین فیھا حسنت مستقرا و مقاما 76 قل ما
یعبؤابکم ربی لو لا دعاؤکم فقد کذبتم فسوف یکون لزاما 77
اے ھمارے رسُول ! ھم آپ کو اُن باکردار لوگوں کے خیال و اعمال کی باتیں بتا رھے ہیں جو جُھوٹے گواہ کی جُھوٹی گواہی پر کان دَھرنے کے بجاۓ اُس جُھوٹے ماحول و جُھوٹے اَحوال سے دامن بچا کر آگے بڑھ جاتے ہیں لیکن جب اُن لوگوں کو قُرآن کے اَحکامِ مُحکم سُناۓ جاتے ہیں تو وہ قُرآن کے اِن اَحکامِ مُحکم کو کامل توجہ اور کامل انہماک کے ساتھ سُنتے ہیں اور وہ قُرآن کے اِن اَحکامِ مُحکم کو اپنی اور اپنی آنے والی نسلوں کی زندگی پر سایہ فگن رکھنے کے لیۓ اپنے رَب سے یہ اِلتجا کرتے رہتے ہیں کہ ھمارے بچوں کو ایسی باکردار مائییں مُیسر آئیں کہ ھم اُس سَچے خان دان کے سَچے سرپرست بن جائیں جس کو دیکھ کر ھماری آنکھیں ٹھنڈی ہو جائیں ، اِن صادق و صابر لوگوں کو آنے والے ترقی یافتہ دور میں جو ترقی یافتی زندگی دی جاۓ گی اُس ترقی یافتہ زندگی میں اُن کو اُن کی دلی کی طلب کے مطابق وہ اَعلٰی گھر اور وہ اَعلٰی گھرانے دیۓ جائیں گے جو اِن کے مُستقل گھر اور اِن کے مُستقل گھرانے ہوں گے اور اے ھمارے رسُول ! آپ مُنکرینِ قُرآن کو بتا دیں کہ اگر تُم میں مُجھ سے یہ مُخلصانہ دُعا و اِلتجا کرنے والے میرے یہ صادق و صابر بندے موجُود نہ ہوتے تو میں دُنیا میں تُمہاری یہ خاطر داری نہ کرتا کیونکہ تُم تو میرے کلام و اَحکام کی پہلے ہی تکذیب کر چکے ہو لیکن مُجھ سے میرے یہ صادق و صابر بندے جو دُعا و التجا کرتے رہتے ہیں اُس دُعا و التجا کے مجموعی اَثرات چونکہ اُس سارے معاشرے پر اثرا انداز ہوتے جس معاشرے میں تُم بھی موجُود ہو اِس لیۓ اُن کی اُس دُعا و التجا کا فیضِ عام تُم تک بھی پُہنچتا رہتا ھے لیکن وہ وقت اَب کُچھ زیادہ دُور نہیں ھے کہ جب تُم آپ ہی اپنے اُن جُرائم کی پکڑ میں آؤ گے اور اُن جرائم کی سزا پاؤ گے جو جرائم تُم نے کیۓ ہیں !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
سُورَہِ فُرقان اپنی پہلی اٰیات کے پہلے مضمون سے اَب تک انسانی روایات اور قُرآنی اٰیات کا جو علمی و عملی فرق واضح کرتی چلی آرہی ھے وہی فرق اِس سُورت نے اپنی اِن آخری اٰیات میں بھی واضح کیا ھے جن اٰیات کے خطاب کے پہلے علمی مخاطب ہر انسانی ریاست کے وہ عام عوام ہیں جن کو ریاست کے ایک شہری کے طور پر وہ علمِ لازم دینا مطلوب ھے جو علمِ لازم ہر ایک انسانی ریاست کے ہر ایک انسان کے لیۓ علمِ لازم ہوتا ھے اور اِن اٰیات کے خطاب کے دُوسرے عملی مخاطب انسانی ریاست کے وہ عمال و حُکام ہیں جو عملی طور پر اِس ریاست کا نظام چلاتے ہیں اور جن کو ریاست کے عمال و حُکام کے طور اُس عملِ لازم سے رُو شناس کرانا مطلوب ھے جو عملِ لازم ہر ایک انسانی ریاست کے ہر ایک عامل و حاکم کے لیۓ عملِ لازم ہوتا ھے اور علم و عمل کی اِس توضیح و تلویح کے مطابق ہر انسانی ریاست و اہلِ ریاست کے لیۓ جو پہلا علم و عمل لازم ہوتا ھے وہ سَچ کہنا وہ سَچ سُننا اور وہ سَچ سُنانا ھے جس کا علمی و زبانی اظہار ریاست کے عام عوام میں ہوتا ھے اور جس کا عملی و انتظامی اظہار ریاست کے اداروں میں ہوتا ھے جو ریاست کا نظم و نسق چلانے کے لیۓ بناۓ گۓ ہوتے ہیں ، اگر انسانی ریاست کے اِن عوام اور حُکام کے اِن دو طبقات میں سَچ کا اظہار نہیں ہوتا تو پھر اِن دونوں طبقات میں صرف جُھوٹ کا اظہار ہوتا ھے اور جس انسانی ریاست کے عوام و حُکام میں صرف جُھوٹ کا اظہار ہوتا ھے وہ انسانی ریاست اُس خُدائی عذاب کی مُستحق ہوتی ھے جو عذاب اُس ریاست پر جلد یا بدیر آتا ھے اور اُس ریاست کو تباہ و برباد کرجاتا ھے ، سُوۓ اتفاق یہ ھے کہ دُنیا کے نقشے پر آج جتنی بھی نام نہاد مُسلم ریاستیں موجُود ہیں اُن سب مُسلم ریاستوں کا سیاسی و انتظامی اور عدالتی نظام اِن جُھوٹے غلاموں کے اُن جُھوٹے آقاؤں کے اُسی جُھوٹ پر کھڑا ھے جو جُھوٹ اِن کی غلامی کے دور سے اِن کی آزادی کے دور تک اُن پر خُدا کے ایک خُدائی عذاب کے طور پر مُسلّط ھے لیکن اُن تمام مُسلم ریاستوں میں سے کسی ایک مُسلم ریاست کو بھی اِس بات کا علم نہیں ھے کہ اُس کی وہ مُسلم ریاست خُدا کے ایک ایسے عذاب سے گزر رہی ھے جو عذاب آنے والے وقت کے کسی بھی لَمحے میں اُس کی اُس ریاست کو دُنیا کے نقشے سے مٹا سکتا ھے ، قُرآنِ کریم کا عمومی اَندازِ بیان یہ ھے کہ اُس کا ہر ایک خطاب ایک عام خطاب کے طور پر ہر ایک انسان کے لیۓ ہوتا ھے لیکن اُس کا ہر ایک خطاب ایک خاص خطاب کے طور انسانی ریاست کے اُن عمال و حُکام کے لیۓ ہوتا ھے جو اُس انسانی ریاست کے کرتا دَھرتا عمال و حُکام ہوتے ہیں ، قُرآنِ کریم کی اٰیاتِ بالا میں بھی قُرآنِ کریم کے اُسی عمومی اندازِ بیان کے مطابق سَچ کہنے اور سَچ سُننے کے پہلے مخاطب انسانی ریاست کے وہ عام شہری ہیں جن کو سَچ کہنے ، سَچ سُننے اور سَچ سُنانے کا علمِ لازم لازما حاصل ہونا چاہیۓ تاکہ وہ سَچ کہنے ، سَچ سُننے اور سَچ سُنانے کے عادی ہوں اور قُرآن کے دُوسرے مخاطب ریاست کے تمام سیاسی رہنما ، ریاست کے تمام انتظامی سربراہ اور ریاست کے تمام فیصلہ ساز ادارے ہیں تاکہ وہ سَچ کہنے جُھوٹ نہ کہنے کے قُرآنی اَحکام پر عمل کریں اور سَچ کہنے جُھوٹ نہ کہنے کے قُرآنی اَحکام پر عمل کرائیں اور چونکہ روزمرہ حیات میں سَچ کہنے اور سَچ سُننے کا زیادہ عمل زیادہ تر عدالتوں میں دُھرایا جاتا ھے اِس لیۓ اٰیاتِ بالا میں اہلِ ایمانی کی جو نمایاں صفت بیان کی گئی ھے وہ یہ ھے کہ اہلِ ایمان کسی عدالت میں جُھوٹی گوائی نہیں دیا کرتے اور قُرآن کی بیان کی ہوئی اس بات میں یہ بات مَنطقی طور پر خود سے خود شامل ھے کہ اگر یہ اہلِ ایمان جُھوٹی گواہی دیا نہیں کرتے تو جُھوٹی گواہی سُنا بھی نہیں کرتے ، یعنی انسانی عدالت کا علمی و عملی اور دینی و اَخلاقی تقاضا یہ ھے کہ اُس انسانی عدالت میں کوئی جُھوٹا گواہ جُھوٹی گواہی نہ دے اور اُس انسانی عدالت کا کوئی جج اُس انسانی عدالت میں اُس جُھوٹے گواہ کی جُھوٹی گواہی قبول بھی نہ کرے ، قُرآن کے اِس بیانیۓ کا مقصد یہ ھے کہ انسانی عدالت میں پیش ہونے والے ہر مقدمے کا ہر مؤکل و وکیل اور ہر شاھد و عادل اُس مقدمے کے آغاز سے پہلے عدالت کے ایک لازمی عدالتی عمل کے طور پر سَچ کہنے ، سَچے سُننے اور سُننے سَچ سُنانے کا حلف اُٹھاۓ اور ہر مُحلف کے اُس حلف کے بعد اُس مقدمے کا آغاز کیا جاۓ اور جو مؤکل و وکیل اور جو شاھد و عادل کسی مقدمے کے دوران جُھوٹ کہنے ، جُھوٹ سُننے اور جُھوٹ سُنانے کا مُرتکب پایا جاۓ تو اُس کو پہلے ایک قرار واقعی سزا دی جاۓ اور اُس کے بعد اُس کو تاحیات عملِ شھادت و عدالت کی اَدائگی سے نا اہل بھی قرار دیا جاۓ !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 473573 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More