تحریر : محمد اسلم لودھی
مہذب ملکوں میں کرپشن ٬ بددیانتی ٬ اور ٹیکس نہ دینے والے سب سے بڑے مجرم
تصور کئے جاتے ہیں لیکن پاکستان شاید دنیا کا وہ ملک ہے جہاں لوٹ مار ٬
کرپشن اور کرپٹ لوگوں کو نہ صرف حکومت خود تحفظ فراہم کرتی ہے بلکہ عدالتوں
سے ٹکرانے سے بھی گریز نہیں کرتی ۔ یوں تو حکمرانوں کی جانب سے سپریم کورٹ
آف پاکستان کے فیصلوں کی توہین٬ مذاق اڑانے اور ان پر عمل نہ کرنے کا سلسلہ
دراز سے دراز ہوتا جارہا ہے لیکن حال ہی میں نیشنل انشورنس کمپنی لمیٹڈ میں
ہونے والی اربوں روپے کرپشن کیس کی دیانت دارانہ تفتیش کرنے والے ایک صاحب
کردار اور ایمان دار سرکاری افسر ظفر قریشی کو پہلے صرف مونس الہی کو بچانے
کے لیے جس طرح ٹرانسفر کیاگیا پھر سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود تبادلہ
منسوخ نہ کرکے توہین عدالت کا ارتکاب کیا گیا ۔ پھر ظفر قریشی کی دوبارہ
ایف آئی اے میں تعیناتی کے حکم نامے پر دستخط نہ کرکے وزیر اعظم نے یہ ثابت
کرنے کی کوشش کی کہ وہ عدالت عظمی کے کسی حکم کے پابند نہیں ہیں۔ لیکن صورت
حال نے اس لمحے عجیب رخ اختیار کیاجب سپریم کورٹ نے ظفر قریشی کو ایف آئی
اے کے عہدے پر بحال کرتے ہوئے حکم دیا کہ وہ نیشنل انشورنس کمپنی لمیٹڈ کے
کیس کی تفتیش کو پایہ تکمیل تک پہنچا کر خرد برد کئے گئے ار بوں روپے
مجرموں سے واپس لیں ۔ عدالت عظمی کے حکم پر جو نہی ظفر قریشی نے اپنے عہدے
کا چارج سنبھالا تو تفتیش میں معاونت کرنے والے چار افسروں کو دانستہ صوبہ
بدر کردیاگیا جب ظفر قریشی نے ان تبادلوں کے حوالے سے ڈائریکٹر جنرل ایف
آئی اے کو خط لکھا تو خط لکھنے کی پاداش میں مس کنڈیکٹ کا بہانہ بنا کر
انہیں معطل کردیا۔یہ معطلی کیونکر عمل میں آئی اور کون کونسے کردار اس کے
پس پردہ دکھائی دیتے ہیں اخبارات میں شائع ہونے والی رپورٹیں اس کی واضح
نشاندھی کررہی ہیں۔ایک رپورٹ کے مطابق وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک نے
چودھری برادران کے ایما پر ظفر قریشی کو اپنے دفتر میں طلب کیا اور ان کے
سامنے چار آپشن رکھے ۔-1فوری طور پر ملک چھوڑ دیں ۔ -2طویل رخصت پر چلے
جائیں ۔-3سپریم کورٹ کو تحریر ی طور پر لکھ کر دیں کہ وہ ذاتی وجوہ کی بنا
پر این آئی سی ایل سیکنڈل کی تحقیقات جاری نہیں رکھ سکتے -4ایف آئی اے میں
تعیناتی کے دوران مونس الہی کو بے قصور ثابت کرکے ان کی رہائی کا اہتمام
کریں۔ لیکن اس جرات مند٬ ایماندار اور باضمیرانسان نے وفاقی وزیر داخلہ کی
چاروں پیشکشوں کو یہ کہتے ہوئے مسترد کردیا کہ سپریم کورٹ کے حکم پر وہ اس
کیس کی غیر جانبدارانہ اور منصفانہ تحقیقات ہی کریں گے ۔کہا یہ جاتا ہے کہ
پیپلز پارٹی اور اس کی قیادت کو ناپسند کرنے کے باوجود چودھری برادران نے
حکومت وقت کو صرف اس لیے سہارا دیا تھا کہ وہ ہرصورت مونس الہی کی رہائی
چاہتے ہیں۔ غیر تحریری معاہدے کے مطابق موجود ہ حکومت ظفر قریشی کو اس کیس
کی تفتیش سے الگ رکھے گی ۔لیکن جب سپریم کورٹ کے حکم پر ایک بار پھر ظفر
قریشی نے کیس کی تفتیش کا چار ج سنبھالا تو چودھری برادران نے وزیراعظم سے
ملاقات کرکے دھمکی دی کہ اگر ظفر قریشی کو کیس سے الگ نہ کیاگیا تو وہ
پیپلز پارٹی کی حمایت واپس لے سکتے ہیں۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ وزیر
اعظم نے ظفر قریشی کی معطلی کا فیصلہ کرتے ہوئے قومی مفادات کی پاسدار ی
نہیں کی اور نہ انہوں نے یہ سوچا کہ ان کا یہ اقدام ایک جانب کرپشن اور لوٹ
مار کو تحفظ فراہم کرے گا تو دوسری طرف اثر و رسوخ کی بنیاد پر قومی وسائل
کو لوٹنے کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوجائے گا اور ملک جو پہلے ہی
کرپشن اور لوٹ مار کی وجہ سے دیوالیہ پن تک پہنچ چکا ہے معیشت کی تباہی اور
سالمیت کو مزید خطرات لاحق ہوجائیں گے۔اس سے قطع نظر کہ اس غلط حکومتی
اقدام کے نتیجے میں عدالت عظمی کیانوٹس لیتی ہے٬ مونس الہی کی رہائی کیسے
ممکن ہوتی ہے اور ظفر قریشی کی ایمان داری کس قدر ان کی تذلیل کا اہتمام
کرتی ہے ۔یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ اس کے بعدکوئی سرکاری افسر دیانت
داری سے کام نہیں کرسکے گا ۔ یہ بات صحیح ہے کہ پاکستان میں قانون صرف غریب
اور بے آسرا لوگوں کو پکڑکر سزا دینے کے لیے ہے بڑے باپ کے بڑے بیٹے جو
چاہیں ٬ جب چاہیں اور جس طرح چاہیں قانون اور قانون نافذ کرنے والے ادارے
ان کی دہلیز پر سجدہ ریز نظر آتے ہیں۔وزیر اعظم ظفر قریشی کو این آئی سی
ایل سیکنڈل کی تفتیش سے روک کر تو شاید اپنی لڑکھڑاتی حکومت کو وقتی سہارا
دے لیں لیکن تاریخ میں ان کا نام ہمیشہ کرپشن کی سرپرستی کرنے والوں میں
لکھاجائے گا جبکہ ظفر قریشی کا نام دوسروں کے لیے ہمیشہ ایک مثال اور اعزاز
کی صورت اختیار کرجائے گا۔ بے شک ایسے ایماندار اور باکردار لوگ کسی عہدے
کے محتاج نہیں ہوتے بلکہ عہدے ایسے لوگوں کے محتاج ہوتے ہیں۔ |