قارئن! قانون ساز اسمبلی کے انتخابات کی تکمیل کیساتھ ہی
ایک نئی بحث چل پڑی ۔کون وزیراعظم ہوگا ؟کون کون کیا کیا ذمہ داریاں لے
پائیں گے ۔یہ کہ اگر وزیراعظم فلاں بنا تو صدر فلاں بنے گا ۔اور اُسکا
بیٹاممبراسمبلی منتخب کرواکر وزارت پیش کی جائیگی ۔وغیرہ وغیرہ ۔۔۔۔۔جونہی
سوشل میڈیا پر یہ بحث و تکرار چلی ۔کمنٹس میں مختلف شخصیات سے متعلق
نامناسب الفاظ بھی دیکھنے کو ملے ۔ہمارے ہاں بڑا عجیب معمہ ہے ۔آنیوالے کو
خوش آمدید کہتے ہوئے زمین و آسمان کے قلابے ملائے جاتے ہیں ۔وہ خوبیاں بھی
بیان ہونے لگتی ہیں جو شاید مذکورہ شخصیت میں دُور تک نہیں موجود نہ ہوں
۔اسی طرح رخصت ہونیوالوں میں ہر طرح کی خامیاں تلاش کرکے پیش کی جاتی ہیں
۔بہرحال راجہ فاروق حیدرخان وزارت عظمیٰ کے منصب پر مقررہ مدت پوری ہونے پر
جاچکے ۔جبکہ خوش قسمتی کہئیے یا آزمائش ،سردار عبدالقیوم نیازی غیرمتوقع
طور پر وزیراعظم منتخب ہوچکے ۔اس کیساتھ ہی کابینہ کی ایک فہرست بھی سوشل
میڈیا پر وائرل دیکھی گئی ہے ۔تاہم تک حتمی طور پر معلوم نہیں کیا کابینہ
کی تشکیل کیسے ہوگی ؟اور کون کریگا ؟؟چیئرمین تحریک انصاف کا رول کیا ہوگا
۔اور وزیراعظم سردار عبدالقیوم نیازی کا رول کیا ہوگا؟بہرحال یہ بھی جلد
واضع ہوجائیگا۔البتہ ’’خواہشات کو خبروں کے لبادے میں ‘‘پیش کرنے کا سلسلہ
پورے زور سے جاری ہے ۔کون کون شامل ہوگا ؟کابینہ میں ،اب یہی موضوع نہیں
۔بلکہ صدر پی ٹی آئی جناب بیرسٹرسلطان محمود چوہدری مسلسل موضوع بحث بنے
ہوئے ہیں ۔کئی ماہر’’کاریگر‘‘اپنے تجزئیوں اور خبروں کے لبادے میں پیش کردہ
اپنی خواہشات کیمطابق سوشل میڈیا پراُنھیں پی ٹی آئی میں کسی دھڑے بندی کے
خالق و محرک کے طور پر ظاہر کرتے ہیں ۔لیکن ساتھ ہی ایک اور دماغ بھی کام
کررہا ہے جس نے ابتدائی طور پر بیرسٹرسلطان محمود چوہدری کو وزارت عظمیٰ نہ
ملنے کی قیاس آرائیاں ،پیشن گوئیاں کرتے ہوئے متبادل کے طور پرصدر ریاست کے
آئینی منصب پر لائے جانے کی چند خبریں چھوڑیں ۔۔۔۔لیکن بیرسٹرسلطان محمود
چوہدری کی یقینی وزارت عظمیٰ کی راہ میں حائل ’’کاریگر‘‘تو اپنے مقصد میں
کامیاب رہے ۔۔۔۔جس دوران خواہشات ،خبروں کے لبادے میں آرہی تھیں ۔تب وزارت
عظمیٰ کے لئے اور بھی کئی نام گردش میں آئے ۔بعض تو نیوز چینلزپر بھی
زیربحث آئے ۔معاملات پر گہری نظر رکھنے والے اس سلسل کو دیکھ کر کہنے لگے
تھے ۔کہ بیرسٹرسلطان محمود چوہدری بین الاقوامی سطع پر کئی ممالک میں آتے
جاتے رہے ہیں ۔مارچ بھی منظم کروائے ۔اسی طرح دیگر اُمیدواربھی الگ الگ بحث
میں رہے اور نتیجہ یہ اخذ ہوا کہ عمران خان ان میں سے کسی کو وزیراعظم نہیں
لائیں گے ۔کیونکہ ساری خبروں ،تجزئیے منظم منصوبہ بندی کاحصہ ہیں جسکے تحت
کسی بھی فیصلہ پر اثرانداز ہونا ہے ۔۔۔۔۔دیکھیں یہ اُونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے
۔یہاں یہ اور معاملہ بھی مدنظر ہے ’’تمام سیاسی قوتوں ‘‘نے انتخابی مُہم کے
دوران ایک ودسرے کیلئے جس طرح کے الفاظ ادا کئے ،جس انداز میں توہین و
تقصیص کی گئی ۔اس سے کم ازکم یہ حقیقت عیاں ہوئی ۔کہ ’’اخلاقیات ‘‘سے ہمارا
تعلق برائے نام ہے ۔ہم چاہے جتنے بڑے نام والے ہیں ،حرکتیں چھوٹی ہی ہیں
۔یا پھرشاید الفاظ کی اہمیت کو سمجھنے سے قاصر ہیں ،اور ساری دانائی ’’زبان
‘‘پر رکھی ہوئی ہوتی ہے ۔باہمی احترام ،رواداری کی صفات موجود ہوں تو اگر
کوئی ایک جانب سے کچھ بھی کہے ۔اُسے جواب نہ ملتا۔چہ جائیکہ اپنے اہداف کی
خاطر ’’ریاست کے نظام ‘‘پر ہی سوال اُٹھادئیے جائیں ۔یہ تو جمہوری سیاست
/پارلیمانی نظام میں ہورہا ہے ۔
قارئن! اب آتے ہیں ریاست کے آئینی منصب کی جانب ۔۔۔۔جس وقت وزارت خارجہ میں
طویل خدمات انجام دینے والے مسعود خان کو بطور صدر ریاست لائے جانے کی
خبریں ۔آئیں ۔تب مرحوم سردار خالد ابراہیم بھی زیربحث تھے ۔اور کوئی شک
نہیں وہ اگر صدر آتے تو منصب کے وقار پر چار چاند لگاتے ۔اس دوران راقم نے
بھی ایک کالم بعنوان’’ صدر ریاست کے منصب پر سفارتکارکی تعیناتی ‘‘لکھا اور
بہت سی توقعات کیساتھ ایک مناسب اقدام قرار دیا ۔ابھی صدر ریاست کیلئے
متوقع شخصیات ،بلخصوص مسعودخان کا تذکرہ جاری تھا کہ میرے سینئرصحافی دوست
سردار ذوالفقارعلی نے کہا ہے ’’مسعود خان منجھے ہوئے سفارتکار ہیں وہ
کشمیرایشو پر بہت مفید ہونگے ،اُنکا احسان ہے کہ وہ منصب قبول
کرلیں‘‘چنانچہ مسعود خان صدر ریاست کے منصب پر فائرکردئیے گئے ۔ابتداء میں
بیرونی دورہ جات بھی تیزتر تھے ۔اسی دوران بیرون دورے سے واپسی پر جناب صدر
ریاست مسعود خان نے نٹرول گیسٹ ہاؤس والے قدیمی مقام پر عارضی طور پر قائم
ایوان صدر میں ایک پریس کانفرنس بُلائی ۔تاکہ وہ اپنے دورہ سے متعلق
صحافیوں کو تفصیلات سے آگاہ کرسکیں ۔چونکہ ترجمان دفترخارجہ کے طور پر
مسعودخان بہت سرگرم رہے ۔اور جانتے ہیں کہ صحافیوں کے سوالات کو کیسے
دیکھنا ہے ۔اس لئے وہ اپنی بات سے پہلے سب کا تعارف چاہتے تھے ۔سردار
ذوالفقار علی نے فرداََفرداََسب کا تعارف کروایا ۔کافی دیر دورہ سے متعلق
بات چیت ہوئی ۔جب سوالات لینے کی بات آئی تو راقم نے ایک سوال کیا’’جناب
صڈر آزادکشمیرپر مشتمل چھوٹے سے خطہ کو آزادکروانے کے بعد اسکی انقلابی
حکومت تشکیل ہوئی ۔جس نے کشمیرکاز پر کام کرنا تھا ،تاکہ ریاست جموں و
کشمیرکے باشندوں کاحق خودارادیت ملے ۔آپ کیاسمجھتے ہیں جن مقاصد کیلئے
انقلابی حکومت قائم ہوئی ۔وہ پورے ہوئے ؟؟اور نہیں تو پھر کیا اس حکومت کے
قیام کا کوئی جواز باقی رہتا ہے؟؟اس سوال کا جواب کیا ملنا تھا ۔بس ادھر
اُدھرکی باتیں کرکے ۔بات ختم کردی گئی ۔البتہ وہ دن اور پھر یہ دن
آیا،ایوان صدر میں کسی بھی موقع پر راقم کو دعوت نہیں دی گئی ۔کیونکہ راقم
تو مسئلہ کشمیر،کشمیریوں کے نام پر جاری کھیل تماشے کے تناظرمیں سخت سوال
کربیٹھا ۔جوکہ اُنکے نزدیک غلطی تھی ۔۔۔۔بات ہورہی تھی ۔خواہشات کو خبروں
کے لبادہ میں پیش کرنے کی ۔یہاں ایک واقعہ بیان کرنے کے بعد آگے بڑھتے ہیں
’’یہ 2011کی بات ہے جب ایک اخبارکے نیوز روم میں ایک شخص موجود تھا جوکہ
چاہتا تھا کہ ایک شخصیت کے بارے میں خبرچلائی جائے ’’۔۔۔۔کانام صدر ریاست
کیلئے زیرغور‘‘اگلے دن وہ خبرنہایت نمایاں سرخی کیساتھ شائع بھی ہوئی ۔اب
بھی یہی کچھ ہورہا ہے ۔البتہ سوشل میڈیا نے اسے کچھ زیادہ ہی سنسنی خیز
بناکر چھوڑ دیا ہے ۔بیرسٹرسلطان محمود چوہدری کو وزارت عظمیٰ نہ ملنے پرصدر
ریاست کے آئینی منصب پر لائے جانے کی چند خبریں آنا شروع ہوئیں کہ اچانک
جنرل (ر)شیرافگن کو صدر ریاست کے طور پر لائے جانے کی خبریں بھی اخبارات کی
زینت بنیں جس کے بعد وقتی طور پر دیگرسارے تجزئیے تھم گئے ۔لیکن اب میڈیا
میں دیگرکئی سابق جرنیلوں کے نام بھی آئے ہیں ۔چلیں اچھی بات ہے ۔یہ لوگ
بھرپورعملی /پیشہ وارانہ زندگی گزارچکے۔ اگراس منصب پر کوئی آتا ہے تو اس
سے اچھی بات کیا ہوگی ۔لیکن ان ناموں میں دو اور شخصیات بھی ہیں جن میں سے
ایک تو کچھ زیادہ ہی متازعہ ہے ۔چونکہ صدر ریاست کے منصب پر براجمان مسعود
خان صاحب 25اگست کو رخصت ہونگے اس لئے ایک ہفتہ پہلے یقینی طور پر آئندہ
صدر ریاست کیلئے نام سامنے آہی جائیگا ۔لیکن سوال یہ ہے کہ اتنے اہم منصب
کو لیکر مذاق کا تاثر کیوں ؟مسئلہ کشمیرکی بات کریں تو مسعود خان بیرونی
دُنیا میں جہاں جانا جاتا وہاں جانے جاتے تھے ۔کیا کارنامہ کرسکے ۔ماسوائے
کچھ الزامات و بدگمانیوں کیساتھ رخصت ہورہے ہیں ۔ہمیں تو آئینی منصب پر
ایسی شخصیت کی ضرورت ہوگی جو منصب کی بتدریج کم ہوتی ساکھ کو بحال کرے
۔باوقار بنائے ۔یہ کوئی بلدیہ کا صوابدیدی عہدہ نہیں کہ کسی کو بانٹ دیا
جائے ۔یہ آئینی سربراہ کا منصب ہے ۔باقی کام وزارت خارجہ پر ہی چھوڑ دیا
جائے ۔اب مذید خوش فہمیاں پالنے کی ضرورت بھی نہیں ہے ۔یوں بھی چھوٹے سے
خطہ آزادکشمیرمیں’’فکری و نظریاتی بنیادوں پر‘‘ اتنی خرابیاں ہوچکیں جن کے
اثرات ابھی باقی رہینگے ۔
قارئن! دُنیا بھرمیں ریاستیں ،اپنے آئینی اداروں اور منصب سے متعلق نہایت
حساس انداز فکر وعمل رکھتی ہیں ۔ترقی یافتہ ممالک میں سارا دارومدار آئینی
اداروں کی اہمیت و افادیت کے احساس و ادراک پر ہے ۔بعض ممالک میں آئینی
عہدوں پر انتخاب سے پہلے خود کو بطور اُمیدوار پیش کرنے والوں کو عوام و
خواص کے تند وتیز سوالات کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے ۔ایسی پروگرام منظم کئے
جاتے ہیں ۔جن میں ایک اور ایک سے زیادہ اُمیدوار شریک ہوں اور اُن کی فکری
و نظریاتی سوچ کوجانچا جاتا ہے ۔دُوراندیشی ،معامعلہ فہمی،صیحح وقت میں
درست فیصلوں کی صلاحیت کا اندازہ کیا جاتا ہے ۔دیکھا جاتا ہے کہ آیا مذکورہ
شخصیت ،آئینی منصب پر منتخب ہونے کی صورت میں ریاست کے وقار ،آئین و قانون
کی بالادستی کے تحفظ کیساتھ ساتھ درپیش چیلنجزسے عہدہ برآہ ہونے کی اہلیت
رکھتی ہے؟؟یہاں تو اُن کے نام بھی گردش میں آجاتے ہیں جنہوں نے قبل ازیں
اپنے منصب کیساتھ انصاف نہیں کیا ہوتا ۔اﷲ فیصلے کرنیوالوں کو اپنے خوف سے
اچھاکرنے کی توفیق دے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
|