امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانی فریقین کے درمیان طے
پانے والے تاریخی معاہدے سے قبل کہا تھا کہ امن معاہدہ افغان عوام کے لیے
قیام امن کا بہترین موقع ہے۔انہوں نے اعتراف کیا کہ 19 سال قبل نائن الیون
واقعے کے بعد ذمہ داروں کو سزا دینے کے لیے یہ جنگ شروع کی گئی۔ اس دوران
ہم نے افغانستان میں مثبت پیش رفت کی۔ لیکن اس کی ہمارے فوجیوں، ٹیکس
دہندگان اور افغانستان کے عوام کو بھاری قیمت چکانا پڑی۔ٹرمپ نے اس حقیقت
بیانی کے بعدکریڈٹ لیتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ "جب میں صدر بنا تو اپنے
عوام سے وعدہ کیا تھا کہ افغان جنگ ختم کر کے فوجیوں کو واپس بلائیں گے۔ اس
وعدے پر عمل درآمد کر رہے ہیں۔"اُنہوں نے کہا کہ افغانستان سے القاعدہ،
دولت اسلامیہ (داعش) دہشت گردوں گروہوں کا قلع قمع اس امن معاہدے کا بنیادی
نکتہ ہے۔ البتہ، اپنے مستقبل کا تعین کرنا افغان عوام پر ہی منحصر ہے۔ یہ
امن معاہدہ اُن کیلئے بہترین موقع ہے۔
امریکی صدر نے افغانستان میں فرائض سرانجام دینے والے امریکی فوجیوں کی
خدمات کو سراہتے ہوئے کہا تھا کہ "ہم ملک کی خاطر جانوں کا نذرانہ پیش کرنے
والوں کو کبھی نہیں بھولیں گے۔"یہ گویا امریکہ کی جانب سے اپنی شکست کا
کھلا اعتراف تھا ۔ اس دوران طالبان اپنے سارے قیدیوں کو رہا کرانے میں
کامیاب ہوگئے اور امریکہ کومکمل انخلاء کی ساری شرائط پر بھی مجبور کردیا ۔
اب اگلا مرحلہ بین الافغان اختلافات کو ختم کرکے ایک مستحکم اور پائیدار
امن کا قیام ہے۔ اس مرحلے میں امریکہ کی موجودگی محض علامتی ہوگی۔ اسی لیے
2 ستمبر 2020 کو مذاکرات کے آغاز کے موقع پر امریکی وزیر خارجہ مائیک
پومپیو نے کہا کہ ’امریکہ ایک خودمختار، متحد، جمہوری اور پُرامن افغانستان
کا حمایت کرتا ہے۔‘ اور کر بھی کیا سکتا ہے؟ یہ اس کی پسند یا اختیار نہیں
بلکہ مجبوری ہے ۔
یہ حسن اتفاق ہے اس گفت و شنید کے افغان حکومت کا ایک وفد 11 ستمبر2020 کو
کابل سے دوحہ روانہ ہوا۔ یہ وہی تاریخ ہے جب 19 برس قبل امریکہ پر وہ حملے
ہوئے تھے جن کے نتیجے میں طالبان کی حکومت کا خاتمہ ہوا تھا۔ افغان حکومت
اور طالبان کے مابین قطر میں جاری مذاکرات میں کی آن لائن افتتاحی تقریب
میں ہندوستان کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے بھی حصہ لیا اور ان کے جوائنٹ
سکریٹری جے پی سنگھ بھی اس وقت قطر کے دارالحکومت میں ہندوستان کی نمائندگی
کر رہے تھے۔ پچھلے چالیس سالوں میں افغانستان سے متعلق گوناگوں وجوہات کی
بناء ہم لوگوں نے ہمیشہ غلط فریق کا ساتھ دیا ہے۔ سوویت یونین کا حملہ اور
اس کے بعد قائم ہونے والی کٹھ پتلی سرکار کو حکومت ہند کی حمایت حاصل رہی ۔
مجاہدین نے انہیں ماربھگایا اس کے بعد جب ناٹو نے حملہ کیا اور اپنی کٹھ
پتلی سرکار بنائی تو حکومت ہند نے اس کی بھی حمایت کردی ۔ ایسے میں غالب
آنے والے اسلامی حریت پسند ہندوستانی سرکار کو اپنا ہمدرد و بہی خواہ کیسے
سمجھ سکتے ہیں ؟ اس دوران تو ہر سردو گرم میں پاکستان ان کے شانہ بشانہ
کھڑا رہا ۔
مذاکرات کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے
ہندوستان اور افغانستان کے مابین تاریخی تعلقات اور تعاون پراپنے خیالات کا
اظہار کیا۔ انھوں نے زور دیا کہ امن مذاکرات میں افغان خواتین اور اقلیتوں
کے مفادات کو ملحوظ خاطر رکھا جائے۔ ہندوستان میں فی الحال خواتین پر جس
طرح کے مظالم ہو رہے ہیں۔ آئے دن ان کی اجتماعی عصمت دری اور پھر ویڈیو
بناکر وائرل کرنے واقعات عام سی بات ہوگئے ہیں ایسے میں شیوشنکر کی بات پر
کون کان دھرے گا ؟ اقلیتوں کا جہاں تک تعلق ہے بابری مسجد سے لے کر کشمیر
تک کے واقعات اقلیت دشمنی کی منہ بولتی تصویر ہیں ۔ کورونا کے معاملےمیں
تبلیغی جماعت کے بچاو میں عدالت کو آنا پڑا ۔سدرشن چینل کو مسلم دشمنی سے
روکنے کے لیے عدالت عظمیٰ کو مداخلت کرنی پڑی اور ہجومی تشدد کے جیسے
واقعات ہندوستان میں رونما ہوتے ہیں۔ یوگی راج میں جو اندھیر نگری چل رہی
ہے اس کے بعد جئے شیوشنکر کس منہ افغانیوں کو متاثر کرسکتے ہیں۔ مودی سرکار
نے عالمی سطح پر ملک کے وقارکو بہت متاثر کیا ہے اور چین نے حربی طاقت پر
بھی سوالیہ نشان لگا دیا ۔
ہمارے ملک میں یہ خیال ہوسکتا ہے کہ افغانستان میں سارے ناخواندہ لوگ بھرے
پڑے ہیں۔ ان کو ہمارے ملک کی حقیقت حال کا علم نہیں ہوگا اور وہ اب بھی ہم
سے مرعوب ہوں گے تو ایسا نہیں ہے ۔دونوں وفود میں شامل ارکان کی تعلیمی
قابلیت کا ہندوستانی ارکان پارلیمان یا وزراء تک سے موازنہ کیا جائے تو سر
شرم سے جھک جائے گا۔ سرکاری وفد کے سربراہ ڈاکٹر عبد اللہ عبد اللہ ہیں جو
پیشے سے معالج ہیں ۔ مذاکرات کے لیے نامزد کردہ 21 رکنی سرکاری کمیٹی کی
قیادت کرنے کے لیے افغان خفیہ ادارے کے سابق سربراہ معصوم ستانکزئی کو مقرر
کیا گیا ہے۔انھوں نے کابل ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹ سے بی اے کی ڈگری حاصل کی اور
اس کے بعد کابل کی فوجی یونیورسٹی سے ڈگری حاصل کی۔افغانستان میں تعلیم
مکمل کرنے کے بعد وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے برطانیہ چلے گئے جہاں انھوں نے
کیمبرج یونیورسٹی سے انجینئرنگ اور پائیدار ترقی اور اس کے بعد امریکہ کی
پرسٹن یونیورسٹی سے بزنس مینجمنٹ میں ماسٹر کی ڈگریاں حاصل کی ہیں ۔ اس طرح
اجیت ڈوول اور شیوشنکر ان کے آگے پانی بھرتے ہیں ۔
اس وفد سے مذاکرات کے لیے افغان طالبان نے بھی 21 رکنی ٹیم کا اعلان کیا ہے۔
طالبان کی جانب سے ان مذاکرات کی قیادت طالبان کے چیف جسٹس مولوی عبدالحکیم
کریں گے۔مولوی عبدالحکیم کو افغان طالبان قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں
اورطالبان تنظیم کے اندر جنگ کے بارے اکثر فتویٰ وہی جاری کرتے ہیں۔ مولوی
عبدالحکیم افغان طالبان میں سخت گیر موقف رکھنے والے رہنما ہیں لیکن ان کے
قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ وہ اصولی موقف اور مشکل مسائل کو حل کرنے کی
صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ انہوں نے متعدد مرتبہ مشکل مراحل کو حل کیا ہے۔
انھوں نے ابتدائی تعلیم افغانستان میں حاصل کی مگران کی اعلی تعلیم اور
دستار بندی پاکستان کے شہر اکوڑہ خٹک میں واقع جامعہ دارلعلوم حقانیہ میں
ہوئی ۔ طالبان کے ترجمانی کی ذمہ داری ڈاکٹر محمد نعیم کو دی گئی ہے انھوں
نے پاکستان میں انٹرنیشنل اسلام یونیورسٹی اسلام آباد سے پی ایچ ڈی کی ہے ۔
ڈاکٹر محمد نعیم نے بین الافغان مذاکرات کا افتتاحی اجلاس کی صبح یہ پیغام
دیا ہے کہ ان مذاکرات میں ان کی کوشش ہو گی کہ ملک میں مکمل امن اور اسلامی
نظام نافذ ہو سکے۔افغان حکومت کے مفاہمتی کونسل کے سربراہ ڈاکٹر عبداللہ
عبداللہ نے اپنے ٹویٹر پیغام میں کہا ہے کہ یہ تاریخی مذاکرات ہو رہے ہیں
جس میں ان کی کوشش ہو گی کہ ملک میں سالوں سے جنگ کے آثار اور لوگوں کی
مشکلات کم کرنے کے لیے فیصلے کیے جا سکیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ سب اعتماد
سازی کے کچھ فیصلوں کے بعد ممکن ہو سکا ہے۔ ان پیغامات کے اندر امن امید کی
ایک کرن پوشیدہ ہے۔ آج سے ۲۰ سال پہلے کون سوچ سکتا تھا جن افغانیوں کو
آپس میں لڑا کرفرنگیوں نے غلام بنانے کی سازش رچی تھی وہ بالآخر حاشیے پر
پہنچا دیئے جائیں گے اور ایمانی بھائی پھر سے اسلام کی سربلندی کے لیے آپس
میں شیر و شکر ہوجائیں گے ۔ فی الحال عالم اسلام اور افغانستان کے حالات پر
نظر رکھنے والے بڑے بڑے دانشوروں کی آنکھیں خیرہ ہیں ۔ علامہ اقبال کی یہ
پیشنگوئی دو سپر پاورس کی شکست کے بعد افغانستان پر پوری ہورہی ہے؎؎
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے، لب پہ آ سکتا نہیں
محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی
شب گریزاں ہو گی آخر جلوۂ خورشید سے
یہ چمن معمور ہوگا نغمۂ توحید سے
|