محرم الحرام کی فضیلت کے چند نقطے

اسلامی دنیا کا نیا سال یکم ماہ محرم الحرام کو ہوتا ہے ۔محرم الحرام ان چار مہینوں میں سے ہے جس کا ذکر اﷲ تعالی نے قرآن کریم میں کیا ہے ۔(سورۃ توبہ: ۶۳) بے شک مہینوں کی تعداد اﷲ کے نزدیک بارہ مہینے ہیں جب سے اس نے زمین و آسمان کو پیدا کیا، ان میں سے چار حرمت والے ہیں،یہی درست دین ہے، پس تم ان میں ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو، چار مہینے محرم رجب ذوالقعدہ ذوالحجہ ہے،تفسیر جامع البیان میں ہے(یعنی ان مہینوں میں ظلم و زیادتی بہت بڑا گناہ ہے اور ان میں عبادت کا بہت اجر و ثواب ہے)
اسلام کی آمد کے بعد بھی اس ماہ ( محرم الحرام )کی حرمت و عظمت کو سابقہ حالت میں برقرار رکھا گیا کہ یہ حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام اور حضرت اسماعیل علیہ الصلوۃ والسلام کے باقیات میں سے تھے جس کو لوگ اپناتے آ رہے تھے،چنانچہ حدیث میں اس ماہ کو(اﷲ کا مہینہ) قرار دیا گیا ہے، امام نوویؒ فرماتے ہیں کہ: اس روایت میں نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ماہ محرم کو اﷲ عزوجل کا مہینہ قرار دیا ہے ۔جو اس کی عظمت اور تقدس کو بتلانے کے لئے کافی ہے؛چونکہ اﷲ عزوجل اپنی نسبت صرف اپنے خصوصی مخلوقات کے ساتھ ہی فرماتے ہیں (شرح النووی علی مسلم:۸?۵۵)

آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے حج الوداع کے موقع پرفرمانِ عالی شان ہے کہ اﷲ عزوجل نے جب سے آسمان و زمین کو پیدا فرمایا ہے اسی دن سے اس نے مہینوں کی ترتیب و تنظیم قائم کر دی، چنانچہ آیت ہے:’’بے شک مہینوں کی تعداد اﷲ کے نزدیک بارہ مہینے ہیں جب سے اس نے زمین و آسمان کو پیدا کیا‘‘ (التوبہ: ۶۳) اسلامی تاریخ جس کو ہجری تاریخ کہا جاتا ہے، روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ سب سے پہلے حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کے دور خلافت میں اس کی بنیاد رکھی گئی اور یہ تاریخ حضرات صحابہ کرام کے مشورے سے طے پائی تھی، چنانچہ علامہ ابن اثیر فرماتے ہیں کہ صحیح اور مشہور یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے ہجری تاریخ کی بنیاد رکھی، اس کی وجہ یہ بنی کہ حضرت ابو موسی اشعری رضی اﷲ عنہ نے حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کو خط لکھا کہ آپ کی طرف سے موصول ہوتے ہیں؛ مگر اس پر تاریخ لکھی نہیں ہوتی ہے، یہ پتا نہیں چلتا کہ یہ خط کب کا لکھا ہوا ہے، اس پر حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے صحابہ کرام سے مشورہ فرمایا، بعض حضرات نے مشورہ دیا کہ نبوت کے سال سے تاریخ لکھی جائے، بعض نے سال ہجرت کا اور بعض نے وفات کے سال کا مشورہ دیا؛مگر اکثر کی رائے یہ تھی ہجرت سے ہی اسلامی تاریخ کی ابتداء ہو، چنانچہ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ اسی پر فیصلہ دیا

ایک حدیث مبارک میں ارشاد نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم ہے کہ: سب سے زیادہ فضیلت والے روزے رمضان کے روزوں کے بعد اﷲ کے مہینہ محرم الحرام کے روزے ہیں(مسلم شریف، باب فضل صوم المحرم، حدیث۳۱۸۲) حضرت

یوم عاشورہ کی فضیلت احادیث کی روشنی میں
عاشورہ کے دن حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق ہوئی،اسی دن وہ جنت میں داخل کئے گئے۔اور اسی دن ان کی توبہ قبول ہوئی،اسی دن حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی بھی جبل جودی پر آٹھہری، اسی دن حضرت ابراہیم علیہ السلام پیدا ہوئے، اسی دن نمرود کی دہکتی ہوئی آگ میں ڈالے گئے،اسی دن حضرت موسی علیہ السلام اور ان کی قوم بنی اسرائیل کو فرعون کے مظالم سے نجات ملی اور فرعون اپنے لشکر کے ساتھ دریائے نیل میں غرق ہوگیا۔حضرت ایوب علیہ السلام کو ان کی بیماری سے شفاء نصیب ہوئی، حضرت ادریس علیہ السلام کو اسی دن آسمانوں کی جانب اٹھالیا گیا۔حضرت سلیمان علیہ السلام کو ملک کی عظیم بادشاہت نصیب ہوئی۔حضرت یعقوب علیہ السلام کی بینائی لوٹ آئی، اسی دن حضرت یوسف علیہ السلام کنویں سے نکالے گئے، حضرت یونس علیہ السلام کو مچھلی کے پیٹ نکالاگیا، حضرت عیسی علیہ السلام کی ولادت اسی دن ہوئی اور اسی دن آسمانوں کے جانب اٹھا لئے گئے۔(عمدۃ القاری شرح البخاری، باب صیام یوم عاشوراء)حضرت عمر بن خطاب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اور سردار الشہدا حضرت امام حسین علیہ السلام اور ان کے رفقاء نے جام شہادت بھی اسی ماہ محرم الحرام میں پیا تاریخ اسلام میں بے حد اہمیت و فضلیت محرم الحرام کو حاصل ہے۔

عاشورہ کے روزے بے انتہا فضیلت کے حامل ہیں،چنانچہ ابو قتادہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: یوم عاشورہ کے روزے کے تعلق سے امید کرتا ہوں کہ وہ پچھلے سال کے گناہوں کا کفارہ ہوجائیں گے (ترمذی)عاشورہ کے روزہ احادیث کی روشنی میں بنو اسرائیل فرعون اور اس کے ظلم وستم سے نجات کی خوشی میں یوم عاشورہ کا روزہ رکھا کرتے تھے، حضرت موسی علیہ السلام کے دور سے ان کا یہ معمول تھا، جب نبی کریم ﷺ مدینہ تشریف لائے تویہودیوں کو اس دن روزہ رکھتے ہوئے دیکھا تو اس روزہ کی وجہ دریافت کی تو انہوں نے بتلایا کہ ہم موسی علیہ السلام اور بنی اسرائیل کے فرعون سے نجات کے شکرانے میں یہ روزہ رکھتے ہیں،تو نبی کریم ﷺنے فرمایا: ہم موسی علیہ السلام کی موافقت کرنے کے زیادہ حق دار ہیں (مسلم: باب صوم یوم عاشوراء، حدیث: ۲۱۷۲)لیکن آپ ﷺ نے یہودیوں کے ساتھ مشابہت نہ رہے؛ اس کے لئے فرمایا کہ دسویں محرم الحرام کے روزہ کے ساتھ نویں یا گیارہویں کا روزہ بھی ملالیا جائے،حضرت ابن عباس رضی اﷲ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ جس وقت رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے عاشورا کے دن روزہ رکھا اور صحابہ کو بھی اس دن روزہ رکھنے کا حکم دیا تو صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ!یہ تو وہ دن ہے جو یہود و نصاری کے ہاں بڑا باعظمت ہے اور چونکہ یہود و نصاری کی مخالفت ہمارا شیوہ ہے؛ لہٰذا ہم روزہ رکھ کر اس دن کی عظمت کرنے میں یہود و نصاری کی موافقت کیسے کریں؟آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اگر میں آئندہ سال زندہ رہا تو نویں تاریخ کو ضرور روزہ رکھوں گا۔(مسلم)

محقق علامہ ابن ہمام فرماتے ہیں کہ عاشورے کے دن روزہ رکھنا مستحب ہے؛مگر اس کے ساتھ ہی عاشورہ سے ایک دن پہلے یا ایک دن بعد میں بھی روزہ رکھنا مستحب ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ صرف عاشورا کے دن روزہ رکھنا مکروہ ہے؛کیونکہ اس سے یہود کے ساتھ مشابہت لازم آتی ہے

دوسروں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا۔ جب رمضان کے روزے فرض ہوئے، تو عاشورہ کے دن روزہ رکھنا چھوڑ دیا۔ جس کی خواہش ہوتی اس دن روزہ رکھتا اور جس کی خواہش نہ ہوتی اس دن روزہ نہ رکھتا۔(بخاری: سورۃ البقرۃ: حدیث:۴۳۲۴)۔بہرحال ان احادیث کی روشنی میں عاشورہ کے روزہ کی فضیلت اور اس کا مستحب ہونا اور رمضان کے روزوں کے بعد اس کی فرضیت کا منسوخ ہونامعلوم ہوا؛ لہٰذا اب دسویں محرم کا روزہ نویں یا گیارہوں کو ملاکر رکھنا مستحب ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ماہ محرم الحرام کے تقدس کے لئے حق و سچ کا ساتھ دیا جائے اور عظمت والے ماہ کے تقدس کے لئے صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں

 

Dr Tasawar Hussain Mirza
About the Author: Dr Tasawar Hussain Mirza Read More Articles by Dr Tasawar Hussain Mirza: 301 Articles with 347068 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.