#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَةُالشعراء ، اٰیت 10 تا 29
اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
و
اذ نادٰی
ربک موسٰٓی
ان ائت القوم
الظٰلمین 10 قوم
فرعون الا یتقون 11
قال رب انی اخاف ان
یکذبون 12 ویضیق صدری
ولا ینطلق لسانی فارسل الٰی ھٰرون
13 ولھم علّی ذنۘب فاخاف ان یقتلون
14 قال کلّا فاھبا باٰیٰتنا انا معکم مستمعون
15 فاتیا فرعون فقولا انا رسول رب العٰلمین 16
ان ارسل معنا بنی اسرائیل 17 قال الم نربک فینا و
لیدا ولبثت فینا من عمرک سنین 18 وفعلت فعلتک التی
فعلت وانت من الکٰفرین 19 قال فعلتھا وانا من الضآلین 20
ففررت منکم لما خفتکم فوھب لی ربی حکما و جعلنی من المرسلین
21 وتلک نعمة تمنھا علّی ان عبدت بنی اسرائیل 22 قال فرعون و ما رب
العٰلمین 23 قال رب السمٰوٰت والارض وما بینھما ان کنتم موقنین 24 قال ومن
حولهٗ الا تستمعون 25 قال ربکم و رب اٰبائکم الاولین 26 قال ان رسولکم الذی
ارسل
الیکم لمجنون 27 قال رب المشرق والمغرب وما بینھما ان کنتم تعقلون 29 قال
لئن اتخذت
الٰھا غیری لاجعلنک من المسجونین 29
اے ھمارے رسُول ! تاریخِ نبوت کے علمی و عملی اور تاریخی تسلسل کو سمجھنے
کے لیۓ آپ مُوسٰی و فرعون کے اُس تاریخی واقعے کو اپنے حافظہِ خیال میں
لائیں کہ جب آپ کے رَب نے مُوسٰی کو ایک صداۓ فکر دیتے ہوۓ کہا تھا کہ تم
فرعون اور اُس کی ظالم قوم کے پاس جاکر اور میری طرف سے اُس کو اپنی قوم کی
آزادی کا پیغام سُنا کر دیکھو کہ وہ سرکش قوم اپنے بُرے اعمال کے بُرے مآل
سے بھی کُچھ ڈرتی ھے یا اپنی ہَٹ دھرمی پر قائم رہتی ھے اور مُوسٰی نے اللہ
کا یہ حُکم سُن کر اپنے اِس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ مَیں جب اُس قوم کے
بارے میں سوچتا ہوں تو گمان ہوتا ھے کہ وہ قوم مُجھے جُھٹلا دے گی اور
مُجھے اپنے اِس گمان سے اپنے سینے میں ایک ایسی گُھٹن سی محسوس ہوتی ھے کہ
گویا وہاں جا کر میری زبان ہی میرا ساتھ نہیں دے سکے گی اِس لیۓ میری
درخواست ھے کہ اِس دعوتِ حق کے پیغامِ حق کا پیغام کار مُجھے نہ بنایا جاۓ
بلکہ میرے بھائی ھارون کو بنا دیا جاۓ جو اِس لیۓ بھی مُناسب ھے کہ اُس قوم
کا ایک جوان ماضی میں میرے ہاتھوں سے مارا گیا ھے اور مُجھے یہ خوف ھے کہ
وہ قوم مُجھے اپنے اُس جوان کے قتل کے بدلے میں قتل کردے گی ، مُوسٰی کی
اِس بات پر اللہ تعالٰی نے فرمایا کہ اگر تُم تَنِ تَنہا وہاں جانے سے ڈر
رھے ہو تو اِس صورت میں تُم دونوں ہی ھمارے یہ سفارتی نشانات لے کر اُس قوم
کے پاس چلے جاؤ اور کوئی خوف دل میں نہ لاؤ کہ ھم تُمہارے ساتھ رہ کر
تُمہارے مکالمات کو سُنتے رہیں گے اور تُم فرعون کے پاس جا کر اُس سے یہ
کہو کہ ہمیں اُس جان و جہان کے رَب نے اپنا نمائندہ بنا کر اپنے اِس حُکم
کے ساتھ تُمہارے پاس بہیجا ھے کہ تُم بنی اسرائیل کو آزادی کا پروانہ دے کر
ھمارے ساتھ مصر سے جانے کی اجازت دے دو ، مُوسٰی نے فرعون کو اللہ کا یہ
حُکم سُنایا تو وہ بولا کیا تُم وہی نہیں ہو جس کو بچپن میں ھم نے سَنبھالا
اور پالا تھا ، پھر تُم نے زندگی کے کئی برس ھمارے درمیان گزار کر ھمارے
ایک آدمی کو ماردیا تھا اور پھر تُم یہاں سے چلے گۓ تھے اِس لیۓ ھماری نظر
میں تو تُم ایک احسان فراموش انسان ہو ، تُم خود ہی سوچو کہ ھم تُمہاری
کوئی بات کیوں سنیں ، مُوسٰی نے فرعون کی اُس بات کا جواب دیتے ہوۓ کہا یہ
ٹھیک ھے کہ اُس وقت میرے ہاتھ سے ایک اتفاقی حادثے کے تحت تُمہارا ایک جوان
مر گیا تھا اور مَیں تُم سے خوف زدہ ہو کر یہاں سے دُور چلا گیا تھا لیکن
تُم میری پرورش کا جو احسان مُجھے یاد دلا رھے ہو اُس کی حقیقت تو صرف یہ
ھے کہ تُم نے اپنے محل میں مُجھے تو واقعی آزاد رہنے دیا تھا لیکن اپنے
سارے مُلک میں میری ساری قوم کو اپنا غلام بنالیا تھا ، فرعون مُوسٰی کی
اِس بات کا جواب نہ دے سکا تو اُس نے اُلٹا مُوسٰی سے ہی یہ سوال کر دیا کہ
یہ ہر جان و جہان کا رَب کون ھے جس کا تُم میرے پاس اپنی قوم کے لیۓ پیغامِ
آزادی لے کر آۓ ہو ، مُوسٰی نے کہا کہ اگر تُم یقین کرو تو میں تُم کو
بتاؤں کہ یہ ہر جان و جہان کا رَب وہ ھے جس نے زمین و آسمان کو بنایا ھے
اور زمین و آسمان کے درمیان ہر نظر آنے والی ہر صورت و ہر جان کو بھی بنایا
ھے ، فرعون نے یہ سُن کر اپنے درباریوں سے کہا کہ تُم سب نے اپنے کانوں سے
سُن لیا ھے کہ مُوسٰی تُمہارے ہر جدید و قدیم رَب کا انکار کر رہا ھے جس پر
مُوسٰی نے یہ برجستہ جواب دیا کہ تُمہارے اور تُمہارے آبا و اَجداد کے سب
خود ساختہ رَب اَب مرکھپ چکے ہیں اور مُوسٰی کی اِس تقریر کے بعد فرعون نے
مُوسٰی کے خلاف اپنے درباریوں کو مُشتعل کرنے کے لیۓ اَزرَہِ استہزا یہ کہا
کہ دیکھ لو تُمہارے رَب نے تُمہارے پاس جو انسان اپنا رسُول بنا کر بہیجھا
ھے وہ ایک جنونی انسان ھے لیکن مُوسٰی نے اپنی بات جاری رکھتے ہوۓ کہا ھے
کہ میں جس رَب کا نمائندہ ہوں وہ میرا ہی رب نہیں ھے بلکہ مشرق و مغرب اور
جنوب و شمال کی سمتوں میں پھیلے ہوۓ اِس سارے عالَم کا اور اِس سارے عالَم
میں نظر آنے والی ہر اُس شئی کارب ھے جو تمہیں نظر آرہی ھے اور فرعون
مُوسٰی کی اِس تقریر پر برافروختہ ہو کر بولا کہ اگر تُم نے میرے سوا کسی
اور کو اپنا رَب بنایا تو میں تمہیں جیل میں ڈال دو گا !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
قُرآنِ کریم نے اپنی اٰیات میں مُوسٰی علیہ السلام کی نبوت و رسالت اور
مُوسٰی علیہ السلا کی تحریکِ آزادی کا جن 136 مقامات پر ذکر کیا ھے اُن
136مقامات میں سے یہ 87 واں مقام ھے جس میں اُن کے اَحوالِ نبوت اور اُن کی
تحریکِ حُریت کا ذکر کیا ھے اور بظاہر اِن اٰیات میں بھی وہی ایک واقعہ
بیان ہوا ھے جو اِس سے پہلے بھی 86 مقامات پر بیان ہوا ھے لیکن ھم یہ بات
اِس سے پہلے بھی کئی بار عرض کر چکے ہیں اور اِس موقعے پر دوبارہ عرض کیۓ
دیتے ہیں کہ قُرآنِ کریم کوئی ایک واقعہ تو کُجا کوئی ایک لفظ بھی غیر
ضروری طور پر نہیں لاتا بلکہ جو واقعات اِس میں پہلے مُجمل طور پر بیان ہو
چکے ہوتے ہیں اُن واقعات کو مُفصل بنا کر بار بار لانے سے اِس کا مقصد صرف
یہ ہوتا ھے کہ اُن واقعات کی جو واقعاتی کڑیاں جن مواقعات کے جن واقعات کے
ساتھ جُڑی ہوئی ہوتی ہیں اُن کڑیوں کو اُن مواقعات کے اُن واقعات کے ساتھ
ایک حُسنِ ترتیب کے ساتھ مُرتب کر کے سامنے لایا جاۓ تاکہ قُرآن کا پڑھنے
والا جب قُرآن کے اِن فکری و نظری مواقعات و مقامات سے گزرے تو اُس کو کو
قُرآنی تاریخ کا وہ عرصہِ تاریخ بھی نظر آجاۓ جس کو قُرآن اُس کی نظر میں
لانا چاہتا ھے اور انسان کے حافظے میں قُرآن کے اَحکامِ نازلہ بھی اسی
تاریخی ترتیب کے محفوظ ہوتے جائییں جس تاریخی ترتیب کے ساتھ قُرآن اپنے اِن
اَحکامِ نازلہ کو انسان کے حافظے میں محفوظ کرنا چاہتا ھے اور قُرآن اِن
تاریخی و تحقیقی واقعات کو جس حُسنِ ترتیب کے ساتھ انسان کے حافظے میں
محفوظ کرنا چاہتا ھے اُس حُسنِ ترتیب کے مطابق قُرآن کے بیان کیۓ ہوۓ اِن
واقعات کو قُرآن میں تلاش کرنا بھی سَہل ہوجاتا ھے اور انسان فکری و نظری
اعتبار سے قُرآن اور قُرآنی اَحکام سے بھی قریب تر ہوتا چلا جاتا ھے تاہَم
اِس بڑی سُورت کی اِن ابتدائی اٰیات کی توضیحات کے موقعے پر ھم مُوسٰی علیہ
السلام کی اُس بڑی تحریکِ آزادی کے حوالے سے قُرآنِ کریم کے بین السطُور
بیان کیۓ ہوۓ دیگر اَسرار و رمُوز سے قطع نظر کرتے ہوۓ اِس کے اُس ایک ہی
واقعے کے اُن تین قابلِ ذکر واقعات پر ہی ایک سر سری سی نظر ڈالیں گے جن
واقعات پر عُلماۓ روایت نے اپنی گرد آلُود روایات کی گرد ڈال کر اُن کا
استیصال کیا ھے اور اُن گرد آلُود واقعات میں سے پہلے واقعے کا تعلق قُرآنِ
کریم کے اُس مُجمل واقعے کے ساتھ ھے جو واقعہ سُورَہِ طٰهٰ کی اٰیات 25 تا
30 میں مُوسٰی علیہ السلام کی زبان و بیان کے حوالے سے مُجمل طور پر بیان
ہوا ھے اور عُلماۓ روایت نے اُس واقعے سے مُوسٰی علیہ السلام کو ایک ایسا
لُکنت زدہ اور بے زبان انسان ظاہر کیا ھے جس انسان کی بے زبانی کا اللہ
تعالٰی کو بھی اُس وقت علم ہوا ھے جب مُوسٰی علیہ السلام نے بذاتِ خود اللہ
تعالٰی سے اپنی اُس بے زبانی کی شکایت کی ھے لیکن قُرآنِ کریم نے اِس سُورت
کی اِن اٰیات میں مُوسٰی علیہ السلام کی اُس درخواست کی یہ وجہ بھی کھول کر
بیان کردی ھے کہ ماضی میں چونکہ فرعون کی قوم کا ایک جوان میرے ہاتھوں سے
ہلاک ہو چکا ھے اِس لیۓ جب میں اُس قوم کے حاکم فرعون کے پاس جانے کا خیال
کرتا ہوں تو مُجھے اپنے سینے میں ایک گُھٹن کا گمان ہوتا ھے اور اِس گمان
سے یہ مزید گمان ہوتا ھے کہ وہاں جا کر میری زبان میرا ساتھ نہیں دے سکے گی
اور وہ قوم میرے ہاتھوں سے قتل ہونے والے جوان کے قتل کے بدلے میں مُجھے
بھی قتل کر دے گی اور قُرآنِ کریم کی اِس سُورت کی اِن اٰیات میں مُوسٰی
علیہ السلام کے آنے والے اِس بیان نے یہ بات پُوری طرح واضح کردی ھے کہ
مُوسٰی علیہ السلام کے فرعون کے پاس جانے سے اُن کے خوف کی وجہ اُن کی زبان
کی لُکنت نہیں تھی بلکہ اُس قوم کے اُس جوان کا وہ قتل تھا جو ماضی میں اُن
کے ہاتھ سے ایک حادثے کے طور پر ہو چکا تھا اور اِس کا مزید ثبوت یہ ھے کہ
مُوسٰی و فرعون کے مذاکرات کے ہر موقعے مُوسٰی علیہ السلام نے خود ہی فرعون
کے ساتھ گفتگو کی ھے اور کسی ایک موقعے پر ایک بار بھی فرعون کے ساتھ ھارون
علیہ السلان نے گفتگو نہیں کی ھے اور اِس دُوسرے ثبوت پر تیسرا اضافی ثبوت
یہ ھے کہ فرعون کے ساتھ ہونے والے مذاکرات میں بھی مصری قوم کے اُسی نوجوان
کے قتل کا معاملہ ہی زیرِ بحث آیا ھے جس جوان کے قتل کے معاملے سے مُوسٰی
علیہ السلام یہاں آنے سے پہلے پریشان ہوۓ تھے لیکن اللہ تعالٰی کی حفاظت کے
وعدے کے بعد یہاں آۓ تھے اور اللہ تعالٰی کی حفاظت میں رھے تھے ، اِس واقعے
سے مُتعلق دُوسرا واقعہ جس پر ھم پر ھم گفتگو کرنا چاہتے ہیں کہ وہ یہ ھے
کہ عُلماۓ روایت نے مُوسٰی علیہ السلام کو بے زبان ثابت کرنے کے لیۓ جو
دُوسری لایعنی حرکت کی ھے وہ یہ ھے کہ اٰیاتِ بالا میں { ارسل الٰی ھٰرون }
کے جو الفاظ آۓ ہیں اُن الفاظ کی اُنہوں نے یہ ترجمانی فرمائی ھے کہ مُوسٰی
علیہ السلام کو جو نبوت دی گئی ھے اُس نبوت کے ساتھ اُن کی سفارش پر ہی
ھارُون علیہ السلام کو بھی نبوت دی گئی ھے تاکہ وہ بھی مُوسٰی علیہ السلام
کے ساتھ فرعون کے ساتھ مذاکرات کرنے کے لیۓ مصر جا سکیں ، اِس سلسلے میں
پہلی گزارش یہ ھے کہ نبوت وہ منصب نہیں ھے جو کسی نبی کی سفارش پر کسی غیر
نبی کو دے کر اُس کو نبی کا شریکِ نبوت بنایا جاسکے اور جہاں تک ھارون علیہ
السلام کی نبوت کا تعلق ھے تو وہ ایک مُستقل بالذات نبی تھے اور مُوسٰی
علیہ السلام نے اُن کو اپنے ساتھ لے جانے کی جو درخواست کی تھی وہ اسی بنا
پر کی تھی کہ اگر ھارون علیہ السلام بھی اُن کے ساتھ ہوں گے تو وہ بھی
فرعون کے ساتھ گفتگو کرنے کے اسی طرح اہل ہوں گے جس طرح خود مُوسٰی علیہ
السلام فرعون کے ساتھ گفتگو کرنے کے اہل ہوں گے اور تیسری گزارش یہ ھے کہ
نبی کے ساتھ نبی کا جو ساتھی کسی مجلس میں جاتا ھے اُس کا نبی ہونا ضروری
نہیں ہوتا بلکہ نبی کا حمایت یافتہ ساتھی ہونا ہی کافی ہوتا ھے اِس لیۓ اگر
ھارون علیہ السلام نبی نہ بھی ہوتے تو تب بھی مُوسٰی علیہ السلام اُن کو
فرعون کے پاس تَنہا جانے کی یا اپنے ساتھ لے جانے کی اللہ تعالٰی سے
درخواست کرنے کے حق دار تھے یہ اَلگ بات ھے کہ وہ نبی بھی تھے اور مُوسٰی
علیہ السلام کے بھائی بھی تھے اور مُُوسٰی علیہ السلام کے دستِ راست بھی
تھے اور اِس سلسلہِ کلام کی آخری بات یہ ھے کہ کلامِ عرب میں حرفِ { اِلٰی
} کا استعمال صرف "تک" اور "طرف" کے لیۓ ہی نہیں ہوتا بلکہ اور بھی بہت سے
معانی و مقاصد کے لیۓ ہوتا ھے اور جن معانی میں اِس کا استعمال ہوتا ھے اُن
میں ایک معنٰی { کلامه اشھٰی الیّ من الرحیق } بھی ھے جس کا مفہوم یہ ھے کہ
اِس کے تکلّم کو میرے تکلّم سے زیادہ محبوب سمجھا جاۓ اور اِس موقعے پر
مُوسٰی علیہ السلام کی درخواست سے یہی معنٰی مُراد ھے اور اِس سلسلہِ کلام
میں جو آخری بات ھم کرنا ہتے ہیں وہ یہ ھے کہ اٰیاتِ بالا کی اٰیت 22 میں
مُوسٰی علیہ السلام نے { عبدت } کا جو لفظ استعمال کیا ھے وہ مصدر { ع ب د
} سے صادر ہوا ھے جس کا معنٰی "غلام" ہوتا ھے "عبادت" نہیں ہوتا اور یہ لفظ
پُورے قُرآن میں اپنے ہر مقامِ استعمال پر اسی ایک معنی میں ہی اٰیا ھے کسی
اور معنی میں نہیں ہرگز نہیں آیا ھے !!
|