اقتدار کی مجبوریاں

جنرل بیگ کی حال ہی میں شائع ہونے والی کتاب پر تبصرہ

جنرل بیگ صاحب کی کتاب چند روز پہلے پڑھنے کا شرف حاصل ہوا اور اب تک اس کتاب کے مطالعے کے دوران وقت کے ضیاع کا احساس جان کھائے جا رہا ہے، اگرچہ اس کتاب کے منظر عام پر آنے کے بعد دو چار دن چند کالم نگاروں کی خوب چاندی رہی اور کالموں میں مختلف رنگوں میں ڈھلی ایک ہی کہانی پڑھنے کو ملی،

میں سمجھنے سے قاصر ہوں کہ جنرل صاحب کو یہ کتاب لکھنے یا لکھوانے کی کیا مجبوری تھی اور اگر لکھنے کا فیصلہ کر ہی لیا تھا تو اس کتاب کا نام ’’اقتدار کی مجبوریاں‘‘ رکھنے کی وجہ تسمیہ کیا رہی، مجھے تو ایک ہی وجہ سمجھ میں آتی ہے اور وہ ہے مارکیٹنگ، کتاب لگ بھگ 350 صفحات پر مشتمل ہے اور اقتدار کی محض 5 وہ بھی عام سی مجبوریاں صفحہ نمبر 18 پر درج ہیں اور ان مجبوریوں کی تفصیل صرف ایک ایک صفحے پر دی گئی ہے، جنرل صاحب نے پی ایم اے کاکول اور سٹاف کالج میں اپنے دورانئے کے علاوہ کوئی قابل ذکر واقعہ بیان نہیں کیا، آدھی سے زیادہ کتاب موصوف کی ریٹائرمنٹ کے بعد پیش آنے والے واقعات پر مشتمل ہے جس میں عراق اور افغانستان کی صورت حال پر ان کے تبصرے ہیں جن کا پاکستان میں اقتدار کی مجبوریوں سے دور کا بھی واسطہ نہیں، بطور آرمی چیف انہوں نے صرف محترمہ بینظیر کے ساتھ کام کیا لیکن اس دور میں پیش آنے والے کسی واقعے کا تفصیل سے ذکر نہیں کہ پتہ چل سکے کہ اس دور میں اقتدار کی کیا مجبوریاں رہیں ہونگی، محترمہ کے دور حکومت میں نام لئے بغیر آپریشن مڈنائٹ جیکال کی طرف اشارہ ہے ار میجر عامر اور برگیڈئر امتیاز کا سرسری انداز میں ذکر کیا ہے لیکن کوئی تفصیل پیش نہیں کی اور نہ ہی اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی کے بارے میں کچھ کہا کہ میجر عامر کے بقول وہ آپریشن جنرل شمس الرحمان قلو کے کہنے پر کیا گیا تھا اس کی مکمل تفصیل منیر احمد منیر نے اپنی کتاب’’ سیاست میں انٹیلجنس ایجنسیوں کا کردار ‘‘ میں بیان کی ہے، جنرل صاحب کی کتاب کا حاصل صرف جنرل ضیا کا ایک جملہ ہےکہ ’’ اقتدار کی کچھ مجبوریاں ہوتی ہیں‘‘

اپنی کتاب میں جنرل صاحب نے جتنے واقعات بیان فرمائے درحقیقت وہ پہیہ دوبارہ ایجاد کرنے کی کوشش کےسوا اور کچھ بھی نہیں، کہ تمام تفاصیل جو کتاب میں قلمبند کی گئی ہیں عامتہ الناس کو پہلے سے معلوم ہیں اور معلومات میں کوئی ایسا اضافہ نہیں جس سے قاری کو ایوان اقتدار میں ہونے والے واقعات کا علم ہو سکے، گویا تمام کتاب پاکئ داماں کی حکایت بڑھانے کی ایک کوشش ہے ۔

پاکستان کے مجموعی حالات کو بیان کرتے ہوئے صفحہ 264 پر فرماتے ہیں کہ چونکہ پاکستان نے معرض وجود میں آنے کے فوری بعد امریکی بلاک کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا اس لئے پاکستان کے سیاسی اور معاشی حالات پر امریکہ کا کنٹرول ہے ، اپنے اس دعوے کا انہوں نے تنقیدی جائزہ نہیں لیا اور نہ یہ سوال اٹھایا کہ اگر پاکستان اس وقت امریکی بلاک کا حصہ نہ بنتا تو اس وقت پاکستان کے پاس کیا دیگر راستے میسر تھے، قرین قیاس دوسرا راستہ روسی بلاک میں شامل ہونے کا تھا اور اگر پاکستان روسی بلاک میں شامل ہوتا تو اس کے فوائد و نقصانات کیا ہوتے یہ موضوع تشنہ ہے کہ جنرل صاحب نے اس طرف نہ کوئی توجہ دی اور نہ اس پر کوئی بحث کی،

بیگ صاحب نے جا بجا قائد اعظم کی تقاریر کا حوالہ دیا ہے اور جن حوالوں پر بحث کی ہے ان سے صاف نظر آتا ہے کہ وہ ڈاکٹر صفدر محمود سے ضرورت سے زیادہ متاثر ہیں بہتر ہوتا اگر فاضل مصنف ڈاکٹر مبارک علی کی کچھ کتب کا مطالعہ بھی کر لیتے تو قائد اعظم کے نکتہ نظر اور ان کی شخصیت اور سیاسی امور کو سمجھنے میں زیادہ معاونت ملتی، 65 اور 71 جنگ موصوف لڑ چکے ہیں لیکن اس ضمن میں انہوں نے کوئی ایسی تفصیل بیان نہیں کی جس سے اس دور میں خاص طور 65 کی جنگ کے سیاق و سباق کا پتہ چل سکتا، جنرل ایوب سے جنرل یحییٰ کو انتقال اقتدار کا ذکر ہے لیکن ان وجوہات کا ذکر نہیں کہ یہ فیصلہ کیونکر کیا گیا، اسی طرح جنرل ضیا کے مارشل لا اور بھٹو کی پھانسی کا ذکر بھی سرسری سا کیا گیا ہے تفصیل بیان نہیں کی کہ وہ کیا محرکات تھے جن کی وجہ سے یہ واقع پیش آیا جس نے پاکستان کی سیاسی تاریخ پر انمٹ نقوش چھوڑے، غالب گمان ہے جنرل موصوف اس دور میں کسی ایسی قابل ذکر پوزیشن پر نہیں تھے کہ انہیں ان واقعات کے درون خانہ رازوں تک رسائی ہوتی، جنرل مشرف کے خوب لتے لئے ہیں اور ان پر اسی تنقید کے تیر برسائے جو ایک عام آدمی بھی جانتا ہے، جنرل مشرف کے فیصلوں کو غلط قرار دیتے ہوئے بحث برائے بحث کی گئی ہے اور دلائل سے کچھ بھی ثابت نہیں کیا، جنرل مشرف کے افغان جنگ میں شمولیت اور لال مسجد واقعے پر خوب سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے لیکن تمام تر گفتگو یکطرفہ اور اپنے طرز تخیل پر مبنی ہے جس میں یہ عیاں کرنے کی شعوری کوشش کی گئی ہے کہ فاضل مصنف خود کو ہی درسست گردانتے ہیں اور دیگر کی رائے کوئی معنی نہیں رکھتی، جنرل مشرف کے کسی بھی فیصلے کا تنقیدی جائزہ پوری گفتگو میں موجود نہیں اور مشرف کا ذکر کرتے ہوئے لاشعوری طور پر جنرل صاحب اپنے جونئیر کو صدر اور آرمی چیف ہونے کے باوجود اپنا جونئیر ہی تصور کئے بیٹھے ہیں۔

جیسا کہ پہلے عرض کیا کہ آدھی سے زیادہ کتاب ریٹائرمنٹ کے بعد کے واقعا ت پر طویل گفتگو ہے اور یہ وہ دور ہے جب موصوف کے پاس ایسا کوئی ذریعہ نہیں تھا جس سے وہ ا یوان اقتدار کی غلام گردشوں میں ہونے والی سرگوشیاں براہ راست سن سکتے تو کوئی ایسی بات کتاب میں موجود نہیں جو قاری کی ذہن سازی کرسے یا کم از کم دلچسپی کا عنصر ہی قائم رکھے، لہذا کتاب کا نام تو بہت دلچسپ ہے لیکن کتاب میں موجود متن کوئی ایسا دلچسپ یا معلومات افزا نہیں ، میری اس بات پر تبصرہ کرتے ہوئے میرے عزیز دوست شاہد خیالوی نے خوبصورت بات کی کہ جو باتیں جنر ل صاحب نے کتاب میں آشکار نہیں کیں ، وہی تو اصل میں اقتدار کی مجبوریاں ہیں اور جنرل صاحب کی بھی شاید کوئی مجبوری ہو کہ وہ تمام ان کہے حقائق کو عوام کے سامنے نہ لانا چاہتے ہوں۔

البتہ، اس کتاب کا صفحہ نمبر 301 کچھ دلچسپ ہے جس میں سول ملٹری تعلقات پر سرسری ہی سہی لیکن بہرحال گفتگو کی گئی ہے ، اس کے علاوہ بھی ایک آدھ جگہ پر الیکشن میں فوج اور آئی ایس آئی کے کردار پر مختصر گفتگو ہے اور وہ پڑھنا چاہئے خاص طور پر سیاسی کارکنان کے ذوق مطالعہ کے لئے مفید ہے ۔

مجموعی طور پر مجھے اس کتاب سے مایوسی ہوئی، باقی ہر پڑھنے والے کی اپنی دلچسپی کا پہلو ہوتا ہے اور اس تناظر میں قاری رائے قائم کرتا ہے، لہذا میری رائے اور تبصرہ اگر مناسب نہ لگے تو اسے ردی کی ٹوکری میں پھینکا جا سکتا ہے، مجھے قطعی اعتراض نہیں۔

 

Rashid Mehmood
About the Author: Rashid Mehmood Read More Articles by Rashid Mehmood: 20 Articles with 26594 views I am a qualified CPA and professional Financial and Audit Manager with over 12 years of experience in a variety of industries in key roles at national.. View More