الحمداﷲ !مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ کی کی کتب تفہیم
الاحادیث کی آٹھ جلدوں ، جلد اوّل:۔ عقیدہ توحید، جلد دوم:۔ رسالت و
آخرت،جلد سوم:۔ کتاب الصلوٰۃ،جلدچہارم
:۔کتاب الصوم۔کتاب الحج،جلدپنجم ۔ معاشرت۔حدود و تعزیرات،جلد نمبر ششم:۔
غزوات و متعلقات ۔جہاد۔ نظم جماعت۔سیاسیات ،جلد نمبرہفتم:۔ کتاب
المعاش۔اراضی کے متعلق احکامات۔ سود۔ زکوٰۃ۔،جلدہشتم:۔فضال القرآن۔ متفرقات
پر مشتمل ہیں، میں سے پہلی جلد کا مطالعہ مکمل ہوا۔ تفہیم الا حادیث کی آٹھ
جلدیں سید مودودیؒ کے لڑیچر سے ماخوذ احادیث نبویؐ پر مشتمل ہے۔ سید مودودی
ؒ کالٹریچر قرآن و حدیث کے حوالوں اور تشریحات کا بے بہا خزانہ ہے۔ مولانا
عبدالوکیل علوی ایم اے عربی، اسلامیات تاریخ اسلام فاضل عربی نے اس خزانے
کو یکجا کیا ہے اور یہ باہتمام ادارہ معارف اسلامی منصورہ لاہور شایع ہوئی
ہے۔ اس جلد میں فصل اوّل میں عقیدہ توحید کے مضامین لیے گئے ہیں۔اس کتاب کے
صفحہ نمبر ۱۸، مقدمہ میں تحریر ہے کہ’’دنیا کے تمام ہادیوں میں یہ خصوصیت
صرف حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کو حاصل ہے کہ آپؐ کی تعلیم اور اپؐ کی
شخصیت ۱۳؍صدیوں (اب پندرویں صدی) سے بل لکل اپنے حقیقی رنگ میں محفوظ ہے
اور خدا کے فضل سے کچھ ایسا انتظام ہو گیا کہ اب اس کا بدلنا غیر ممکن ہو
گیا ہے۔ انسان کی اوہام پرستی اور اعجوبہ پسندی سے بعید نہ تھا کہ وہ اس
برگزیدہ ہستی کو بھی ،جو کمال کے سب سے اعلیٰ درجہ پر پہنچ چکی تھی، افسانہ
بنا کر الوہیت سے کسی نہ کسی طرح متصف کر ڈالتی اور پیروی کے بجائے محض ایک
تحیر و استعجاب اور عبادات و پرشتش کا موضوع بنا لیتی۔لیکن اﷲ تعالیٰ کی
بعثتِ انبیاء کے آخری مرحلہ میں ایک ایسا ہادی و رہنما بھیجنامنظور تھا جس
کی ذات انسان کے لیے دائمی نمونہ عمل اور عالمگیر چشمہ ہدایت ہو۔ اس لیے اس
نے محمد ابن عبداﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم کی ذات کو اس ظلم سے محفوظ رکھا جو
جاہل معتقدوں کے ہاتھوں دوسرے انبیاء اورہادیانِ اقوام کے ساتھ ہوتا
رہا۔آپؐ کے صحابہؓوتابعینؒ اور بعد کے محدثین ؒنے پچھلی اُمتوں کے بر عکس
اپنی نبیؐ کی سیرت کو محفوظ رکھنے کا خود ہی غیر معمولی اہتمام کیا ہے جس
کی وجہ سے ہم آپؐ کی شخصیت کو ساڑھے تیرہ سو برس گزر جانے پر بھی(اب
پندرویں صدی) آج اتنے قریب سے دیکھ سکتے ہیں جتنے قریب سے خود آپؐ کے عہد
کے لوگ دیکھ سکتے تھے‘‘
اس کتاب میں حدیث اور ’’قرآن کے باہمی متعلق ‘‘کے متعلق تفصیل سے بعث کی
گئی اور منکرین حدیث کو مدلل جواب دیے گئے۔ منکرین حدیث کہتے ہیں کہ رسول
ؐاﷲ کے چند سو برس بعد حدیث کو جمع کرنے کا کام کیا گیا۔ اس کے جواب میں
صفحہ نمبر۲۹ پر ان صحابیوں ؓ کی فہرست دی گئی ہے جو رسولؐاﷲ کے ساتھ رہتے
تھے۔مثلاً، نمبر۱۔عبداﷲ بن عمرو بن عاص ؓ کہتے ہیں کہ رسولؐ اﷲ سے جو کچھ
سنتا تھا لکھ لیتا تھا۔ لوگوں نے مجھے اس سے منع کیا۔ میں نے اس کا ذکر اﷲ
کے رسولؐ سے کیا۔ تو آپؐ نے فرمایا لکھ لیا کروں ۔ اس خدا کی قسم جس کے
ہاتھ میں میری جان ہے اس منہ سے حق کے سوا کچھ نہیں نکلتا۔ (ابوداؤد۔ مسند
احمد۔ حاکم۔ بیہقی فی المدخل)نمبر ۲۔اوہریرہؓ کہتے ہیں: ۔ انصار میں سے ایک
شخص نے عرض کیا’’ میں آپؐ سے باتین سنتا ہوں مگر یاد نہیں رکھ سکتا۔ حضورؐ
نے فرمایا اپنے ہاتھ سے مدد لو‘‘ اور پھر ہاتھ کے اشارے سے بتایا کہ لکھ
لیا کرو (ترمذی)نمبر ۳۔ابوہریرہؓ کی روایات کا ہے کہ یمن کے ابوشاہ نے
رسولؐ اﷲ کا خطبہ سنا اور کہا کہ مجھے لکھ دیا جائے۔ رسولؐ اﷲ کے حکم سے
اسے لکھ دیا گیا۔ نمبر۴۔ ابو ہریرہؓ کا بیان ہے کہ کوئی مجھ سے زیادہ
حدیثیں نہ رکھتا تھا۔مگر عبداﷲ بن عمرو بن عاصؓ اس سے مستثنیٰ ہیں۔ وہ لکھ
لیتے تھے اور میں لکھتا نہ تھا(بخاری۔ مسلم۔ ترمذی۔ ابوداؤد ۔ نسائی۔ مسند
احمد)نمبر ۵۔حضرت علی ؓ کے پاس زکوٰۃ، قانون تعزیرات حر م مدینہ، اور ایسے
ہی بعض معاملات کے متعلق کے متعلق چند احکام تھے۔(بخاری۔مسلم۔احمد
نسائی)کیا ان احادیثوں سے لگتا ہے کہ احادیث ڈھائی سو برس تک گوشہ خمول میں
پڑی رہیں؟صفحہ ۴۵ پرلکھتے ہیں آج حدیث کاجوعلم دنیا میں موجود ہے وہ
تقریباً دس ہزار صحابہؓ سے حاصل کیا گیا ہے۔ تابعین نے صرف ان کی حدیث ہی
نہیں لی بلکہ اب سب صحابیوں ؓ کے حالات بھی بیان کر دیے۔اس کتاب کے صفحہ
نمبر ۴۵ پر سب سے زیادہ روایات بیان کرنے والوں اصحابؓ کے نام لکھے گئے ہیں
جو یہ ہیں ـ:۔
۱۔ابوہریرہ ؓ احادیث کی متوفی ۵۷ ھ تعداد ۵۳۷۴
۲۔ابو سعید خدری ؓ متوفی ۴۶ھ ً ۱۱۷۰
۳۔جابر بن عبداﷲ ؓ متوفی ۷۴ ھ ً ۱۵۴۰
۴۔انس بن مالک ؓ متوفی ۹۳ ھ ً ۱۲۸۶
۵۔امم ا لمومنین عائشہ صدیقہ ؓ متوفی ۵۹ھ ً ۲۲۱۰
۶۔عبداﷲ بن عباسؓ متوفی ۶۸ ھ تعداد ۱۶۶۰
۷۔عبداﷲ بن عمر ؓ متوفی ۷۰ ھ ً ۱۶۳۰
۸۔عبداﷲ بن عمرو بن عاص متوفی ۶۳ ھ ۷۰۰
۹۔عبداﷲ بن مسعود متوفی ۲ ۳ ھ ۸۴۸
کیا یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ صحابہ ؓ نبیؐ کے حالات کو اپنے سینوں میں دفن
کر کے یونہی اپنے ساتھ دنیا سے لے گئے؟
دور صحابہؓ ؓ سے امام بخاریؒ کے دور تک علمِ حدیث کی مسلسل تاریخ:۔
دور صحابہ ؓ میں احادیث بیان کرنے والوں کی تعدادمدینہ میں ۴۸۴،مکہ میں
۱۳۱،کوفہ میں۴۱۳، بصرہ میں۱۶۴ تھے۔ ان میں سے جن اکابر تابعینؒ نے حدیث کے
علم کو حاصل کرنے ، محفوظ کرنے اور آگے پہنچانے کاسب سے بڑھ کام کیا وہ یہ
ہیں:۔
سعید بن المسیب پیدائش ۱۴ھ وفات۹۳ھ
حسب بصری پیدایش۲۱ھ وفار۱۱۰ھ
ابن سیرین پیدائش۳۳ھ وفات۱۱۰ھ
عروہ بن زبیر پیدائش۲۲ھ وفات۹۴ھ(انہوں نے سیرت رسولؐ پرپہلی کتاب لکھی)
علی بن حسین( زین لعابدین) پیدائش۳۸ھ وفات ۹۴ھ
مجاہد پیدائش۲۱ھ وفات۱۰۴ھ
قاسم بن محمد بن ابی بکر پیدائش ۳۷ھ وفات ۱۰۴ھ
شریح وفات ر۷۸ھ
(حضرت عمرؓ کے دور میں قاضی مقرر ہوئے)۔
مسروق( وفات ۶۳ھ
حضرت ابوبکرؓ کے زمانہ میں مدینہ آئے)۔
اسود بن یزید وفات۷۵ھ
مکحول وفات۱۱۲ھ
رَجاہ بن حیوہ وفات۱۰۳ھ
ہمام بن منبہ پیدائش۴۰ھ وفات۱۳۱ھ
(انہوں نے حدیث کا مجموعہ مرتب کیا جو صحیفہ ہمام بن منبہ کے نام سے آج بھی
موجود ہے اور شائع ہو چکا ہے)
نافع مولیٰ عبداﷲ بن عمر وفات۱۱۷ھ
سعید جبیر پیدائش۴۵ھ وفات۹۵ھ
سلیمان السخنیانی پیدائش ۶۶ھ وفات۶۶ھ
محمد بن المنکدر پیدائش ۵۴ھ وفات۱۳۰ھ
ابن شہاب زہری پیدائش۵۸ھ وفات۱۶۴ھ
(انہوں نے حدیث کا بہت برا تحریری ذخیرہ چھوڑا)
سلیمان بن یسار پیدائش۳۴ھ وفات۱۹۷ھ
عکرمہ مولیٰ ابن عباس پیدائش۲۲ھ وفات۱۰۵ھ
عطا بن ابی رَباح پیدائش ۲۷ھ وفات۱۱۵ھ
قتادہ بن دعامہ پیدائش۶۱ھ وفات۱۱۷ھ
عامر الشعی پیدائش ۱۷ھ وفات ۱۰۴ھ
( یہ رسولؐ کے زمانے میں جوان جوان تھے مگر حضورؐ ملے نہیں)
ابراھیم التحمعی پیدائش ۴۶ھ وفات ۹۶ھ
یزید ابی حبیب پیدائش ۳۵ھ وفات۱۲۸ھ
اس کتاب کے صفحہ ۴۸ پر لکھتے ہیں :۔اس کے بعد اعاغر تابعین اور تبع تابعین
کا وہ گروہ ہمارے سامنے آتا ہے جو ہزار ہا کی تعداد میں تمام دنیائے اسلام
میں پھیلا ہوا تھا۔ان کی تعد اد دس(۱۰) بیان کی ہے۔( توالت کی وجہ سے نام
درج نہیں کر رہے) ان کا زمانہ۸۰ھ تا۱۷۹ھ تک کا ہے۔
دوسری صدی بعد کے جامعین حدیث:۔
ان کی تداد بیس(۲۰) ہے جو( سوالت کی وجہ سے درج نہیں کر رہے) ان کا زمانہ
۸۰ ھ سے ۲۳۵ تک کا ہے۔ اس کتاب کے صفحہ نمبر پچاس(۵۰) پر منکرین حدیث کو
مدلل جواب دیا گیا ہے۔جس طرح سید مودودیؒ نے تفہیم القرآن میں آسان فہم
زبان میں تفسیر لکھ کر عام لوگوں کو قرآن سمجھنے میں آسانی پیدا کی۔ اسی
طرح حدیث کی بھی عام فہم زبان میں تشریع کر عوام کے لیے آسانی پیدا
کی۔تفہیم الاحادیث جلد اوّل توحیداور اس کے تقاضے،چند مخصو ص صفات باری
تعالیٰ اور الاسماء الحسنیٰ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ:۔ حدیث میں ذات پاک
کے ننانوے نام گنوائے ہیں ،جنہیں ترمذی اور ابن ماجہ نے حضرت ابو ہریرہ ؓ
کی روایات سے بل تفصیل نقل کیے ہیں۔ان تمام ناموں ،صفات حمیدہ کو صفحہ
۲۰۲سے لے کر۳۷۱ تک ، قرآن کی آیات کے حوالے دے کر تفصیل سے بیان کیا ہے۔اس
کتاب کے صفحہ ۳۷۲ تا۳۹۵ تک تفصیل سے حدیثوں کو بھی قرآنی حوالوں سے تفصیل
سے بیان کیا گیا ہے۔ قضا و قدر کے مسائل کو ۳۹۶ تا ۴۳۰ تک کی حدیثوں کو
قرآن کی آیات سے بیان کیا گیا۔’’ ذات باری تعالیٰ احدیث کی روشنی میں‘‘
صفحہ سے ۴۵۴ تک بیان کیا۔’’ آخرت میں رویت باری تعالیٰ‘‘ صفحہ ۴۵۵ تا آخر
صفحہ۴۶۴ تک کی حدیث کو قرآن سے آیات کی روشنی میں سمجھانے کی کوشش کی ہے۔
حضرت عبداﷲ بن عمرو بن عاصؓ ، حضرت زبیرؓاور حضرت انسؓ کہتے ہیں رسولؐاﷲ نے
فرمایا جو شخص میرا نام لے کر قصداً چھوٹی بات میری طرف منسوب کرے وہ
اپناٹھکانہ جہنم میں بنا لے (بخاری) ترمذی)
صاحبو! سید مودودیؒ نے تفہیم الاحادیث کتاب میں احادیث کو قرآن سے سمجھا کر
بہت بڑا عظیم کام کیا ہے۔قرآن اﷲ کا کلام ہے اور حدیث رسولؐ اﷲ کی تشریع
ہے۔ حدیث کو قرآن سے اور قرآن کو حدیث سے علیحدہ کر کے سمجھا نہیں جا سکتا
۔ یہ ان منکرین حدیث کو جواب دیا گیا ہے جو کہتے ہیں کہ دین کو سمجھنے کے
لیے قرآن ہی کافی ہے۔ اﷲ سید مودودیؒ کے درجات بلند کرے آمین۔
|