بسم اﷲ الرحمن الرحیم
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن، وَالصَّلاۃُ وَالسَّلامُ عَلَی
النَّبِیِّ الْکَرِیْم ِوَعَلٰی آلِہِ وَاَصْحَابِہِ اَجْمَعِیْن۔
شریعت اسلامیہ نے ہر شخص کو مکلف بنایا ہے کہ وہ حقوق اﷲ کے ساتھ حقوق
العباد یعنی بندوں کے حقوق کی مکمل طور پر ادائیگی کرے۔ دوسروں کے حقوق کی
ادائیگی کے لیے قرآن وحدیث میں بہت زیادہ اہمیت، تاکید اور خاص تعلیمات
وارد ہوئی ہیں۔ نیز نبی اکرم ﷺ، صحابۂ کرام ، تابعین اور تبع تابعین نے
اپنے قول وعمل سے لوگوں کے حقوق ادا کرنے کی جو بے شمار مثالیں پیش کی ہیں،
وہ رہتی دنیا تک پوری انسانیت کے لیے مشعل راہ ہیں۔ مگر آج ہم دوسروں کے
حقوق تو ادا نہیں کرتے البتہ اپنے حقوق کا جھنڈا اٹھائے رہتے ہیں۔ دوسروں
کے حقوق کی ادائیگی کی کوئی فکر نہیں کرتے، اپنے حقوق کو حاصل کرنے کے لئے
مطالبات کرتے رہتے ہیں۔ چنانچہ حقوق کے نام سے انجمنیں اور تنظیمیں بنائی
جارہی ہیں، لیکن دنیا میں ایسی انجمنیں یا تحریکیں یا کوششیں موجود نہیں
ہیں ،جن میں یہ تعلیم دی جائے کہ دوسروں کے حقوق جو ہمارے ذمہ ہیں وہ ہم
کیسے ادا کریں؟ شریعت اسلامیہ کا اصل مطالبہ یہی ہے کہ ہم میں سے ہر ایک
اپنی ذمہ داریوں یعنی دوسروں کے حقوق ادا کرنے کی زیادہ سے زیادہ کوشش کرے۔
عام لوگوں کے حقوق: اﷲ اور اس کے رسول پر ایمان لانے والے ہر شخص پر ضروری
ہے کہ وہ تمام لوگوں کے حقوق کی ادائیگی کرے۔ کسی کے مال یا جائداد پر
ناجائز قبضہ نہ کرے۔ کسی کو دھوکہ نہ دے۔ کھانے کی اشیاء میں ملاوٹ نہ کرے۔
شریعت اسلامیہ میں کسی کو ناحق قتل کرنا تو درکنار کسی شخص کو مارنا یا
گالی دینا یا برا بھلا کہنا بھی جائز نہیں ہے۔ راستہ کا حق ادا کیا جائے۔
غریبوں، مسکینوں ، یتیموں اور کمزوروں کا خیال رکھا جائے۔ عام لوگوں کے
ساتھ ساتھ والدین، میاں بیوی، اولاد، رشتہ داروں اور پڑوسیوں کے حقوق ادا
کیے جائیں۔ چنانچہ حضور اکرم ﷺنے دوسروں کے حقوق میں کوتاہی کرنے پر آخرت
میں سخت عذاب کی خبر اس طرح دی: کیا تم جانتے ہو کہ مفلس کون ہے؟ صحابہ نے
عرض کیا : ہمارے نزدیک مفلس وہ شخص ہے جس کے پاس کوئی پیسہ اور دنیا کا
سامان نہ ہو۔ آپﷺنے ارشاد فرمایا: میری امت کا مفلس وہ شخص ہے جو قیامت کے
دن بہت سی نماز، روزہ، زکاۃ (اور دوسری مقبول عبادتیں) لے کر آئے گا مگر
حال یہ ہوگا کہ اس نے کسی کو گالی دی ہوگی، کسی پر تہمت لگائی ہوگی، کسی کا
مال کھایا ہوگا، کسی کا خون بہایا ہوگا یا کسی کو مارا پیٹا ہوگا تو اس کی
نیکیوں میں سے‘ ایک حق والے کو (اس کے حق کے بقدر) نیکیاں دی جائیں گی،
ایسے ہی دوسرے حق والے کو اس کی نیکیوں میں سے (اس کے حق کے بقدر) نیکیاں
دی جائیں گی۔ پھر اگر دوسروں کے حقوق چکائے جانے سے پہلے اس کی ساری نیکیاں
ختم ہوجائیں گی تو (ان حقوق کے بقدر) حقداروں اور مظلوموں کے گناہ (جو
انہوں نے دنیا میں کئے ہوں گے) ان سے لے کر اس شخص پر ڈال دئے جائیں گے ،
اور پھر اس شخص کو دوزخ میں پھینک دیا جائے گا۔ (مسلم ۔ باب تحریم الظلم)
والدین کے حقوق: قرآن وحدیث میں والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی خصوصی
تاکید کی گئی ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے متعدد مقامات پر اپنی عبادت کا حکم دینے کے
ساتھ ساتھ والدین سے اچھا برتاؤ کرنے کا حکم دیا ہے، جس سے والدین کی
اطاعت، ان کی خدمت اور ان کے ادب واحترام کی اہمیت واضح ہوجا تی ہے۔ احادیث
میں بھی والدین کی فرمانبرداری کی خاص اہمیت وتاکید اور اس کی فضیلت بیان
کی گئی ہے۔ ماں باپ کی نافرمانی تو کجا ، ناراضگی وناپسندید گی کے اظہار
اور جھڑکنے سے بھی روکا گیا ہے اور ادب کے ساتھ نرم گفتگو کا حکم دیا گیا
ہے۔ پوری زندگی والدین کے لئے دعا کرنے کا حکم ان کی اہمیت کو دوبالا کرتا
ہے۔ قرآن وحدیث کی روشنی میں علماء کرام نے والدین کے حقوق کچھ اس طرح
تحریر فرمائے ہیں۔ دوران حیات حقوق: ان کا ادب واحترام کرنا۔ ان سے محبت
کرنا۔ ان کی فرمانبرداری کرنا۔ ان کی خدمت کرنا۔ ان کو حتی الامکان آرام
پہنچانا۔ ان کی ضروریات پوری کرنا۔ وقتاً فوقتاً ان سے ملاقات کرنا۔ بعد از
وفات حقوق: ان کے لئے اﷲ تعالیٰ سے معافی اور رحمت کی دعائیں کرنا۔ ان کی
امانت وقرض ادا کرنا۔ ان کی جائز وصیت پر عمل کرنا۔ ان کی جانب سے ایسے
اعمال کرناجن کا ثواب ان تک پہنچے۔ ان کے رشتے دار ، دوست ومتعلقین کی عزت
کرنا۔ کبھی کبھی ان کی قبر پر جانا ۔
اولاد کے حقوق: نیک اولاد والدین کے لیے عظیم نعمت ہے، اور اولادنیک اس وقت
ہوگی جب ان کی پرورش اﷲ اوراس کے رسول ﷺکے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق کی
جائے۔ اﷲ کے رسول ﷺنے فرمایا: ہربچہ اپنی فطرت (اسلام) پر پیدا ہوتا ہے،اس
کے والدین اسے یہودی،نصرانی یامجوسی بنادیتے ہیں۔ (بخاری ومسلم) اس حدیث سے
صاف ظاہر ہوتاہے کہ بچہ کا ذہن ودماغ کورے کاغذکی مانند ہوتا ہے، اس کے
والدین بچپن میں اس کے ذہن ودماغ پر جونقش کردیتے ہیں اس کااثر آخر عمر تک
رہتا ہے۔ والدین کی چند ذمہ داریاں یعنی اولاد کے حقوق حسب ذیل ہیں۔ بچہ کی
ولادت کے وقت دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں تکبیر کہنا۔ تحنیک،
یعنی کھجور کو اچھی طرح چباکربچہ کے منہ میں ڈالنا او رمسوڑھوں پر رگڑنا۔
ساتویں دن عقیقہ کرنا ، لڑکے کی ختنہ کرانا، سر کے بال کاٹ کر بالوں کے وزن
کے بقدر چاندی یا اس کی قیمت صدقہ کرنا اور اچھا نام رکھنا۔ اگر کسی وجہ سے
ساتویں دن عقیقہ نہ کرسکے تو بعد میں بھی کیا جاسکتا ہے۔ اپنی حیثیت کے
مطابق اولاد کے تمام ضروری اخراجات برداشت کرنا۔ بچوں کی بہتر تعلیم وتربیت
کرنا۔ والدین کے ذمہ یہ ایک ایساحق ہے جسے اگروالدین نے صحیح طریقہ سے
اداکیاتواس کے ذریعہ ایک اچھی نسل کی بنیادپڑے گی اوراگراس حق میں ذرا بھی
کوتاہی اورغفلت برتی گئی توپھرنہ جانے اس کاخمیازہ آنے والی کتنی نسلوں
کوبھگتنا پڑے گا۔ اولاد کی تعلیم وتربیت یقیناایک بڑاہی اہم اورنازک مسئلہ
ہے،جسے بڑی ہی دانشمندی اورہوشیاری سے انجام دینا چاہیے۔ اولاد کی تعلیم
وتربیت میں ابتدائی دنوں میں تو ماں کا کردار سب سے اہم ہوتا ہے، لیکن بچہ
کی بڑھتی عمرکے ساتھ ساتھ وہ ذمہ داری باپ کی جانب منتقل ہوتی جاتی ہے۔
تعلیم وتربیت کے بعدوالدین کے ذمہ اولادکاآخری اوراہم حق ان کی شادی
کارہتاہے۔ شادی کے تعلق سے نبی اکرم ﷺ کی تعلیمات کی روشنی میں ہمیں لڑکے
اور لڑکی کے انتخاب میں دینداری اورشرافت کوترجیح دینی چاہئے۔
میاں بیوی کے حقوق: دو اجنبی مرد وعورت کے درمیان شوہر بیوی کا رشتہ اسی
وقت قائم ہوسکتا ہے جب دونوں کے درمیان شرعی نکاح عمل میں آئے۔ نکاحِ شرعی
کے بعد دو اجنبی مرد وعورت رفیق حیات بن جاتے ہیں، ایک دوسرے کے رنج وخوشی،
تکلیف وراحت اور صحت وبیماری غرضیکہ زندگی کے ہر گوشہ میں شریک ہوجاتے ہیں۔
نکاح کی وجہ سے بے شمار حرام امور ایک دوسرے کے لئے حلال ہوجاتے ہیں حتی کہ
اﷲ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ایک دوسرے کو لباس سے تعبیر کیا ہے یعنی شوہر
اپنی بیوی کے لئے اور بیوی اپنے شوہر کے لئے لباس کے مانند ہے۔ شرعی احکام
کی پابندی کرتے ہوئے میاں بیوی کا جسمانی اور روحانی طور پر لطف اندوز ہونا
نیز ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی کرنا یہ سب شریعت اسلامیہ کا جزء ہیں اور
ان پر بھی اجر ملے گا، ان شاء اﷲ۔ بیوی کے حقوق: مکمل مہر کی ادائیگی کرنا۔
بیوی کے تمام اخراجات برداشت کرنا۔ بیوی کے لئے رہائش کا انتظام کرنا۔ اور
بیوی کے ساتھ حسن معاشرت کرنا ۔ شوہر کے حقوق: شوہر کی اطاعت کرنا۔ شوہر کے
مال وآبرو کی حفاظت کرنا۔ گھر کے اندرونی نظام کو چلانا اور بچوں کی تربیت
کرنا۔
پڑوسیوں کے حقوق: اﷲ تعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے: اﷲ کی عبادت
کرو، اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، اور والدین کے ساتھ اچھا سلوک
کرو، نیز رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں، قریب والے پڑوسی، دُور والے پڑوسی،
ساتھ بیٹھے (یاساتھ کھڑے ہوئے) شخص اور راہ گیر کے ساتھ اور اپنے غلام
باندیوں (یعنی ماتحتوں) کے ساتھ بھی (اچھا برتاؤ کرو)۔ بیشک اﷲ کسی اِترانے
والے شیخی باز کو پسند نہیں کرتا۔ (سورۃ النساء ۳۶) اس آیت میں اﷲ تعالیٰ
نے پڑوسیوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کی تعلیم دی ہے خواہ وہ رشتہ دار ہوں
یا نہ ہوں اور مسلمان ہوں یا نہ ہوں۔ غرضیکہ پڑوسی ہونے کی بنیاد پر ہر شخص
کا خیال رکھنا ہماری دینی واخلاقی ذمہ داری ہے۔ حضور اکرم ﷺ ارشاد فرماتے
ہیں کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام اس کثرت سے پڑوسیوں کے بارے میں احکام لے
کر آتے تھے کہ مجھے خیال ہونے لگا کہ کہیں پڑوسی کو وراثت میں حصہ دار نہ
بنادیا جائے۔ (ترمذی، البر والصلۃ) اسی طرح حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
جو کوئی اﷲ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہووہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ
پہنچائے۔ (بخاری) نیز نبی اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا: جو کوئی اﷲ اور آخرت کے
دن پر ایمان رکھتا ہووہ اپنے پڑوسی کا خیال رکھے۔ (مسلم۔ باب الحث علی
اکرام الجار)
رشتہ داروں کے حقوق: اسلام نے جہاں عام لوگوں کے حقوق کی ادائیگی کی بار
بار تاکید کی ہے، وہیں پڑوسیوں اور قریبی ودور کے رشتہ داروں کے حقوق کی
ادائیگی یہاں تک کہ میاں بیوی کو بھی ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کی تعلیم
دی ہے۔ شریعت اسلامیہ میں انفرادی زندگی کے ساتھ سماجی زندگی کے احکام بھی
بیان کیے گئے ہیں تاکہ سب کی مشترکہ کوششوں سے ایک اچھا معاشرہ بنے۔ لوگ
ایک دوسرے کا احترام کریں، ایک دوسرے کے خوشی وغم میں شریک ہوں اور جس کا
جو حق ہے وہ ادا کیا جائے۔ والدین سے بھی کہا گیا کہ وہ اپنی اولاد کے حقوق
ادا کریں۔ اسی طرح اولاد کو بھی تعلیم دی گئی کہ اپنے والدین کے ساتھ حسن
سلوک کریں ، میاں بیوی کے اوپر یہ ذمہ داری عائد کی گئی ہے کہ وہ اپنی اپنی
ذمہ داریاں بحسن خوبی انجام دیں تاکہ زندگی کا پہےّہ صحیح سمت چلے۔ پڑوسیوں
کا بھی مکمل خیال رکھنے کی تعلیم دی گئی ہے حتی کہ کہا گیا ہے کہ پڑوسیوں
کو تکلیف پہنچانے والا شخص کامل مؤمن نہیں ہوسکتا ہے۔ اسی طرح ہر شخص کی یہ
ذمہ داری ہے کہ اپنی استطاعت کے مطابق تمام رشتہ داروں کو ساتھ لے کر چلے۔
آج ہمارے معاشرہ میں یہ بیماری بہت عام ہوگئی ہے کہ معمولی معمولی بات پر
رشتہ داروں سے قطع تعلق کرلیا جاتا ہے۔ حالانکہ ضرورت ہے کہ ہم رشتہ داروں
کے ساتھ صلہ رحمی کریں، ان کی خوشی وغمی میں شریک ہوں اور ان کے ساتھ احسان
اور اچھا برتاؤ کریں۔ چنانچہ سورۃ النحل آیت ۹۰ میں اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا
ہے: بیشک اﷲ انصاف کا، احسان کا، اور رشتہ داروں کو (اُن کے حقوق) دینے کا
حکم دیتا ہے۔ اور بے حیائی، بدی اور ظلم سے روکتا ہے، وہ تمہیں نصیحت کرتا
ہے تاکہ تم نصیحت قبول کرو۔ نیز نبی اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا: قطع رحمی کرنے
والا کوئی شخص جنت میں داخل نہیں ہوگا۔ (بخاری ومسلم) دیگر احادیث کی روشنی
میں علماء کرام نے فرمایا ہے کہ وہ اپنی سزا کاٹنے کے بعد ہی جنت میں داخل
ہوسکتا ہے۔ اسی طرح قرآن وحدیث میں رشتہ داروں کے معاشی حقوق پر بھی زور
دیا گیا ہے۔ اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: آپ سے پوچھتے ہیں کہ (اﷲ کی راہ
میں)کیا خرچ کریں، فرما دیں جس قدر بھی مال خرچ کرو (درست ہے) مگر اس کے
حقدار تمہارے ماں باپ ہیں اور قریبی رشتہ دار ہیں اور یتیم ہیں اور محتاج
ہیں اور مسافر ہیں، اور جو نیکی بھی تم کرتے ہو بیشک اﷲ اسے خوب جاننے والا
ہے۔ (سورۃ البقرۃ ۲۱۵) نیز نبی اکرمﷺنے غریب رشتہ داروں کی معاشی بحالی پر
زور دینے کے ساتھ ساتھ کمزور اقربا ء کے حقوق کی ادائیگی کی بھی تلقین
فرمائی ہے۔ چنانچہ آپﷺ نے عام افراد پر صدقہ کرنے کے بجائے رشتہ داروں پر
خرچ کو بھی ثواب کا ذریعہ ووسیلہ قرار دیا ہے۔ اس سے آگے بڑھ کر آپ ﷺنے
ارشاد فرمایا: عام مسکین پر صدقہ سے تو ایک گناہی ثواب پائے گا لیکن اگر
کوئی شخص غریب رشتہ دار کو صدقہ دیتا ہے تو اس کو دوگنا ثواب واجر ملے گا،
ایک اجر تو صدقے کا، دوسرا صلہ رحمی کا۔ (نسائی)
|