تحریر: ڈاکٹر شمشاد اختر
تحریک پاکستان کے پس منظر کے حقائق و واقعات کا مطالعہ کیا جائے تو خونچکاں
روایات اور حقائق سننے ،پڑھنے کو ملتے ہیں ۔برصغیر میں ہندو اور انگریز نے
مل کرمسلمانوں سے انسان ہونے کا حق بھی چھین لیا تھا۔مذہبی ، سیاسی ،شخصی
،سماجی، معاشی ،معاشرتی آزادیوں کو سلب کر لیاتھا ۔مسلمانوں کو تیسرے درجے
کا شہری بھی نہیں سمجھا جا رہا تھا ۔مسلمانوں کے مذہبی ، سماجی حقوق کا قتل
عام اور اسلامی شعائر کی تضحیک کومعمول بنا لیا گیا تھا ۔اس ساری توہین اور
تضحیک کے خاتمے کے لئے بانی پاکستان قائد اعظم ؒ نے اسلامیان برصغیر کی
قیادت سنبھالی اور آزاد وطن کے لئے برصغیر کے طول و عرض میں ایک ایسی مہم
چلی جس نے خوابیدہ امت کو حق آزادی کے حصول کے لئے بیدار ،پر عزم اور یکجا
کر دیا اور قوموں کے عرصہ جدوجہد آزادی کے مختصر ترین عرصہ میں الگ وطن کے
حصول کے خواب کو شرمندہ تعبیر کر دیا ۔ قائد اعظم کی ولولہ انگیز قیادت میں
برصغیر پاکستان کا مطلب کیا ’’ لا الہ الا اﷲ‘‘ کے نعروں سے گونج
اٹھا۔تحریک آزادی کے قافلہ حق میں بچے ، بوڑھے ،خواتین ،نوجوان، مشائخ و
علما ء کرام سبھی شامل تھے۔
اس امر میں کوئی شبہ نہیں ہے اسلامی تاریخ کے اندر علماء مشائخ نے تاریخ کے
ہر دور میں تعمیر ملت کے ضمن میں بہت مخلصانہ خدمات انجام دیں اور ملت
اسلامیہ کو صراط مستقیم سے آگاہ رکھا ۔معتبر اور جید محدثین اور ائمہ کرام
نے بھی اپنے اپنے وقت میں کلمہ حق بلند کرنے کی پاداش میں صعوبتیں برداشت
کیں کیونکہ قرآن کی تعلیمات اورحکمرانوں کی خواہشات کبھی یکجا نہیں ہوتیں
۔حکومت حاصل کرنے ،اسے چلانے اور مستحکم کرنے کے لئے بسا اوقات وہ وہ
ہتھکنڈے بروئے کار لانا پڑتے ہیں کہ قرآن جن کی اجازت نہیں دیتا ۔یہی وجہ
ہے کہ ائمہ حق نے جب کلمہ حق بلند کیا تو وہ اہل دربار ، ارباب سیاست کی
سماعتوں پر ہمیشہ ناگوار گزرا اور پاداش میں علماء کرام کو ناقابل بیان
تکالیف، مصائب اور صعوبتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ائمہ حق نے مسلم حکمرانوں کے
عہد ِ اقتدار میں جن مسائل کا سامنا کیا وہ بہت ہو شربا ہیں ۔ یہ ایک الگ
مضمون ہے ۔
برصغیر پاک و ہند میں برصغیر پاک و ہند میں امام ربانی مجدد الف ثانی ؒ نے
دور اکبری و جہانگیری میں ان کے خود ساختہ دین الہی کے تارو پود بکھیرنے کے
لئے جس جرات و مردانگی کا مظاہرہ کیا ،تاریخ اس کی نظیر پیش کرنے سے قاصر
ہے ،حضرت مجدد الف ثانی ؒ نے دو قومی نظریے کا دفاع کیا اور اس کلمہ حق پر
انہوں نے اور ان کے ساتھیوں نے تکالیف کا سامنا کیا ۔ برصغیر کی آزادی کی
جدوجہد کا باقاعدہ آغاز ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی سے ہوتا ہے ۔اس جنگ میں بھی
جانی و مالی قربانیاں دینے والوں میں علماء ،مشائخ سر فہرست رہے ۔ برصغیر
پاک و ہند کے اندر سب سے پہلا سفر نامہ مولانا جعفر تھانیسری نے لکھا ۔اس
سفر نامہ کا نام ’’ جزائرانڈیمان‘‘ یعنی سزائے کالا پانی تھا ۔ اس سفر نامے
کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ علمائے کرام نے غاصب انگریز کا مقابلہ کرتے
ہوئے بہت تکالیف کا سامنا کیا اور علماء کی بہت بڑی تعداد کو گرفتار کر کے
کالا پانی بھجوایا گیا۔ ’’ جزائر انڈیمان ‘‘کلکتہ سے مغرب کی طرف لگ بھگ
پانچ سو کلو میٹرکی مسافت پر تھے۔ خشکی کے اس ٹکڑے کو انگریزوں نے جیل کا
درجہ دیا اور انگریز سرکار کے خلاف مزاحمت کرنے والوں کو گرفتار کر کے
کشتیوں پر سوار کر کے ان جزائر تک پہنچا دیا جاتا تھا جہاں سے واپسی ناممکن
تھی کیونکہ یہ طویل ترین سفر اس وقت کشتیوں کے ذریعے ہی ممکن تھا اور یہاں
جانے والوں کی لاشیں ہی ہمیشہ واپس آتی تھیں ۔ ۔اس دور میں ’’ جزائر
انڈیمان ‘‘کو کالا پانی سے اس لئے تعبیر کیا جاتا تھاکیونکہ یہ اصطلاح موت
کی وادی کے طور پر استعمال کی جاتی تھی ۔الغرض جہاں علماء کرام نے حق کے
لئے لازوال قربانی کی داستانیں رقم کیں وہاں کچھ علماء ایسے بھی تھے جنہوں
نے دنیوی فوائد کے لئے انگریزوں کا ساتھ دیا اور بانی پاکستان پرکفر اور
فسق و فجور کے فتوے صادر کئے۔
سوال یہ ہے کہ علمائے کرام قائد اعظم ؒ محمد علی جناح کی سیاسی فکر پر جمع
کیسے ہوئے اور تحریک آزادی ء پاکستان کے اندر ان کی بے مثال جدو جہد تاریخ
کا حصہ کیسے بنی ؟ یاد رہے کہ بلا شبہ بانی پاکستان مغربی بودو باش کے حامل
تھے مگر ان کے سینے میں عشق مصطفی ﷺ سے لبریز دل دھڑکتا تھا ۔وہ بلا جھجک
پاکستان کو اسلام کی ایک تجربہ گاہ بنانے کی فکر میں لگے رہتے تھے،بانی
پاکستان اگرچہ پاکستان کوملاّ سٹیٹ نہیں بنانا چاہتے تھے ان کے سینکڑوں
ارشادات تاریخ کی کتب میں محفوظ ہیں ،تاہم اس کے برعکس وہ ایسا پاکستان
نہیں چاہتے تھے جو نظریہ اور فکر کے اعتبار سے ماد ر پدر آزاد ہو ۔ قائد
اعظم ؒ پاکستان میں شریعت محمدی ﷺ کا اجالا چاہتے تھے ۔وہ ریاست مدینہ ماڈل
کے داعی تھے ۔ انکی اس فکر نے علمائے کرام کی توجہ حاصل کی اور علمائے
ربانی ان کی قیادت میں پاکستان کی جدوجہد کے ہراول دستے بن گئے ۔
آئیے ہم بانی پاکستان کے ان افکار کا تذکرہ کرتے ہیں جو علمائے حق کی توجہ
کا باعث بنے : (۱) کراچی میں ایک موقع پر ۱۹۴۳ ء کو بانی پاکستان نے فرمایا
: وہ کونسا رشتہ ہے جس میں منسلک ہونے سے تمام مسلمان جسد واحد کی طرح ہیں
،وہ کونسی چٹان جس پر ان کی ملت کی عمارت استوار ہے ،وہ کون سا لنگر ہے جس
سے امت کی کشتی محفوظ کر دی گئی ہے؟ وہ رشتہ ،وہ چٹان ،وہ لنگر خدا کی کتاب
قرآن کریم ہے ۔مجھے یقین ہے کہ جوں جوں ہم آگے بڑھتے جائیں گے ،ہم میں
زیادہ سے زیادہ اتحادپیدا ہوتا جائے گا ۔ایک خدا ،ایک رسول ،ایک کتاب ،ایک
امت ۔‘‘ (۲) ۱۹۴۳ء میں آل انڈیا مسلم سٹوڈنٹ فیڈریشن کے اجلاس میں خطاب
کرتے ہوئے بانی پاکستان نے فرمایا : ’’ مجھ سے اکثر پوچھا جاتا ہے کہ
پاکستان کا طرز حکومت کیا ہو گا ؟ پاکستان کے طرز حکومت کا تعین کرنے والا
میں کون ہوں ؟ یہ کام پاکستان کے رہنے والوں کا ہے اور میرے خیال میں
مسلمانوں کے طرز حکومت کا آج سے ۱۳ سو سال قبل فیصلہ کر دیا گیا تھا ۔‘‘
(۴) ۱۹۴۴ء میں بانی پاکستان نے گاندھی کو خط لکھتے ہوئے کہا: ’’ قرآن
مسلمانوں کا ضابطہ حیات ہے ۔اس میں مذہبی اور مجلسی ،دیوانی اور فوجداری
،عسکری اور تعزیتی ، معاشی اور معاشرتی غرض سب شعبوں کے احکام موجود ہیں
۔یہ مذہبی رسوم سے لے کرتمام امور حیات تک،روح کی نجات سے لے کر جسم کی صحت
تک،زندگی میں جزا و سزا سے لے کر عقبی کی جزا و سزا تک ،ہر ایک قول ، فعل
اور حرکت پر مکمل احکام کا مجموعہ ہے ۔ لہذا جب میں کہتا ہوں کہ کہ مسلمان
ایک قوم ہیں تو حیات و مابعد کے ہر معیار اور مقدار کے مطابق کہتا ہوں ۔‘‘
اس طرح اپنے اسلامیہ کالج پشاور میں ۱۹۴۸ء میں فرمایا : ’’ ہم نے پاکستان
کا مطالبہ ایک زمین کا ٹکڑا حاصل کرنے کیلئے نہیں کیا تھا بلکہ ہم ایک ایسی
تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھے جہاں ہم اسلام کے اصولوں کو آزما سکیں ۔‘‘
یہ تھی وہ فکر اور سوچ جس سے برصغیر کے علماء کرام اور مشائخ نے قائد اعظم
ؒ کا ساتھ دیا اور آج بلکہ ہر دور میں ہمارے سیاسی لیڈروں نے اسلام کے نعرے
تو لگائے لیکن کھوکھلے بس لوگوں کے جذبات سے کھیلنے کے لئے اور اپنے مفادات
کے حصول کے لئے جبکہ قائداعظم ؒ نے جو کہا وہ کر کے بھی دکھایا آج کی قیادت
میں یہ فقدان ہے ۔
|